۴ آذر ۱۴۰۳ |۲۲ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 24, 2024
مولانا مصطفیٰ علی خان ادیب الہندی 

حوزہ/ آج بھی اگر ظلم و ستم سے تڑپتی  انسانیت خصوصاً عالم اسلام امن و سکون چاہتا ہے تو اسے بھی آپؐ کی تاسی کرنی پڑے گی، کیوں کہ آپؐ کی تأسی کئے بغیر کائنات میں امن و سکون ممکن نہیں ہے۔

تحریر: مولانا مصطفیٰ علی خان ادیب الہندی

حوزہ نیوز ایجنسی | اللہ تبارک و تعالیٰ کائنات کا خالق ہے، اسی نے ہر مخلوق کو عدم سے وجود بخشا، وہی خالق ہے جس نے ہر ممکن الوجود کو لباس امکان عطا کیا۔ لیکن یہ بھی اسی کا کرم ہے کہ اس نے جہاں خلق کیا وہیں انسان کی ہدایت کی بھی ذمہ داری لی اب یہ اور ہے کہ کوئی ہدایت حاصل کر کے فہرست شاکرین میں شامل ہو اور کوئی راہ کفر کا راہی بن کر ناکام و نامراد بن جائے۔

روز مرہ کی زندگی میں ہم دیکھتے ہیں کہ جب ہم کسی کمپنی سے کوئی نئی مشین خریدتے ہیں تو مشین بنانے والی کمپنی بیچتے وقت ایک کتابچہ دیتی ہے کہ جس میں استعمال کا طریقہ لکھا ہوتا ہے اور بعض اوقات کمپنی ایک آدمی بھیجتی ہے کہ تاکہ وہ گھر جا کر مشین کو نصب کرے تا کہ اس کا صحیح استعمال کیا جائے۔ اگر کوئی مشین خرید لے ، کتابچہ نہ پڑھے اور کمپنی کے مامور شخص یا کسی اور جان کار کی مدد کے بغیر استعمال کرنا چاہے تو یہ تو ممکن ہے مشین خراب ہوجائے لیکن اس کا صحیح استعمال ممکن نہیں رہ پاتا۔ بالکل اسی طرح اللہ نے اس کائنات کو خلق کرنے کے بعد کتب و صحف نازل کئے آخر میں قرآن کریم جیسی عظیم کتاب نازل کی جس میں ہر خشک و تر موجود ہے اور ہدایت خلق کے لئے انبیاء و مرسلین بھیجے آخر میں ختم الرسل حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو بھیجا اور انکے بعد بارہ اماموں کو بھیجا اور حجت تمام کر دیا تا کہ کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ ہمیں بندگی کا سلیقہ پتہ نہیں تھا، ہمیں زندگی بسر کرنے کا طریقہ نہیں معلوم تھا ۔

سید الانبیاء و المرسلین حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اللہ نےسب سے آخر میں مبعوث کیا لیکن آپ کو سب سے پہلے خلق کیا بلکہ آپ کے صدقہ میں کائنات خلق کی۔ جیسا کہ روایت میں ہے۔

عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ اَلصَّادِقِ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ عَلَيْهِ السَّلاَمُ قَالَ: إِنَّ اَللَّهَ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى خَلَقَ نُورَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اَللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ قَبْلَ أَنْ خَلَقَ اَلسَّمَاوَاتِ وَ اَلْأَرْضَ وَ اَلْعَرْشَ وَ اَلْكُرْسِيَّ وَ اَللَّوْحَ وَ اَلْقَلَمَ وَ اَلْجَنَّةَ وَ اَلنَّارَ وَ قَبْلَ أَنْ خَلَقَ آدَمَ وَ نُوحاً وَ إِبْرَاهِيمَ وَ إِسْمَاعِيلَ وَ إِسْحَاقَ وَ يَعْقُوبَ وَ مُوسَى وَ عِيسَى وَ دَاوُدَ وَ سُلَيْمَانَ وَ كُلَّ مَنْ قَالَ اَللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ فِي قَوْلِهِ وَ وَهَبْنٰا لَهُ إِسْحٰاقَ وَ يَعْقُوبَ إِلَى قَوْلِهِ وَ هَدَيْنٰاهُمْ إِلىٰ صِرٰاطٍ مُسْتَقِيمٍ وَ قَبْلَ أَنْ خَلَقَ اَلْأَنْبِيَاءَ كُلَّهُمْ بِأَرْبَعِمِائَةِ أَلْفٍ وَ أَرْبَعٍ وَ عِشْرِينَ أَلْفَ سَنَةٍ وَ خَلَقَ اَللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ مَعَهُ اِثْنَيْ عَشَرَ حِجَاباً حِجَابَ اَلْقُدْرَةِ وَ حِجَابَ اَلْعَظَمَةِ وَ حِجَابَ اَلْمِنَّةِ وَ حِجَابَ اَلرَّحْمَةِ وَ حِجَابَ اَلسَّعَادَةِ وَ حِجَابَ اَلْكَرَامَةِ وَ حِجَابَ اَلْمَنْزِلَةِ وَ حِجَابَ اَلْهِدَايَةِ وَ حِجَابَ اَلنُّبُوَّةِ وَ حِجَابَ اَلرِّفْعَةِ وَ حِجَابَ اَلْهَيْبَةِ وَ حِجَابَ اَلشَّفَاعَةِ ثُمَّ حَبَسَ نُورَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اَللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ فِي حِجَابِ اَلْقُدْرَةِ اِثْنَيْ عَشَرَ أَلْفَ سَنَةٍ وَ هُوَ يَقُولُ سُبْحَانَ رَبِّيَ اَلْأَعْلَى وَ فِي حِجَابِ اَلْعَظَمَةِ أَحَدَ عَشَرَ أَلْفَ سَنَةٍ وَ هُوَ يَقُولُ سُبْحَانَ عَالِمِ اَلسِّرِّ وَ فِي حِجَابِ اَلْمِنَّةِ عَشْرَةَ آلاَفِ سَنَةٍ وَ هُوَ يَقُولُ سُبْحَانَ مَنْ هُوَ قَائِمٌ لاَ يَلْهُو وَ فِي حِجَابِ اَلرَّحْمَةِ تِسْعَةَ آلاَفِ سَنَةٍ وَ هُوَ يَقُولُ سُبْحَانَ اَلرَّفِيعِ اَلْأَعْلَى وَ فِي حِجَابِ اَلسَّعَادَةِ ثَمَانِيَةَ آلاَفِ سَنَةٍ وَ هُوَ يَقُولُ سُبْحَانَ مَنْ هُوَ قَائِمٌ لاَ يَسْهُو وَ فِي حِجَابِ اَلْكَرَامَةِ سَبْعَةَ آلاَفِ سَنَةٍ وَ هُوَ يَقُولُ سُبْحَانَ مَنْ هُوَ غَنِيٌّ لاَ يَفْتَقِرُ وَ فِي حِجَابِ اَلْمَنْزِلَةِ سِتَّةَ آلاَفِ سَنَةٍ وَ هُوَ يَقُولُ سُبْحَانَ رَبِّيَ اَلْعَلِيِّ اَلْكَرِيمِ وَ فِي حِجَابِ اَلْهِدَايَةِ خَمْسَةَ آلاَفِ سَنَةٍ وَ هُوَ يَقُولُ سُبْحَانَ رَبِّ اَلْعَرْشِ اَلْعَظِيمِ وَ فِي حِجَابِ اَلنُّبُوَّةِ أَرْبَعَةَ آلاَفِ سَنَةٍ وَ هُوَ يَقُولُ سُبْحَانَ رَبِّ اَلْعِزَّةِ عَمّٰا يَصِفُونَ وَ فِي حِجَابِ اَلرِّفْعَةِ ثَلاَثَةَ آلاَفِ سَنَةٍ وَ هُوَ يَقُولُ سُبْحَانَ ذِي اَلْمُلْكِ وَ اَلْمَلَكُوتِ وَ فِي حِجَابِ اَلْهَيْبَةِ أَلْفَيْ سَنَةٍ وَ هُوَ يَقُولُ سُبْحَانَ اَللَّهِ وَ بِحَمْدِهِ وَ فِي حِجَابِ اَلشَّفَاعَةِ أَلْفَ سَنَةٍ وَ هُوَ يَقُولُ سُبْحَانَ رَبِّيَ اَلْعَظِيمِ وَ بِحَمْدِهِ ثُمَّ أَظْهَرَ عَزَّ وَ جَلَّ اِسْمَهُ عَلَى اَللَّوْحِ وَ كَانَ عَلَى اَللَّوْحِ مُنَوَّراً أَرْبَعَةَ آلاَفِ سَنَةٍ ثُمَّ أَظْهَرَهُ عَلَى اَلْعَرْشِ فَكَانَ عَلَى سَاقِ اَلْعَرْشِ مُثْبَتاً سَبْعَةَ آلاَفِ سَنَةٍ إِلَى أَنْ وَضَعَهُ اَللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ فِي صُلْبِ آدَمَ ثُمَّ نَقَلَهُ مِنْ صُلْبِ آدَمَ إِلَى صُلْبِ نُوحٍ ثُمَّ جَعَلَ يُخْرِجُهُ مِنْ صُلْبٍ إِلَى صُلْبٍ حَتَّى أَخْرَجَهُ مِنْ صُلْبِ عَبْدِ اَللَّهِ بْنِ عَبْدِ اَلْمُطَّلِبِ فَأَكْرَمَهُ بِسِتِّ كَرَامَاتٍ أَلْبَسَهُ قَمِيصَ اَلرِّضَا وَ رَدَّاهُ رِدَاءَ اَلْهَيْبَةِ وَ تَوَّجَهُ تَاجَ اَلْهِدَايَةِ وَ أَلْبَسَهُ سَرَاوِيلَ اَلْمَعْرِفَةِ وَ جَعَلَ تِكَّتَهُ تِكَّةَ اَلْمَحَبَّةِ يَشُدُّ بِهَا سَرَاوِيلَهُ وَ جَعَلَ نَعْلَهُ اَلْخَوْفَ وَ نَاوَلَهُ عَصَا اَلْمَنْزِلَةِ ثُمَّ قَالَ عَزَّ وَ جَلَّ لَهُ يَا مُحَمَّدُ اِذْهَبْ إِلَى اَلنَّاسِ فَقُلْ لَهُمْ قُولُوا لاَ إِلَهَ إِلاَّ اَللَّهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اَللَّهِ وَ كَانَ أَصْلُ ذَلِكَ اَلْقَمِيصِ فِي سِتَّةِ أَشْيَاءَ قَامَتُهُ مِنَ اَلْيَاقُوتِ وَ كُمَّاهُ مِنَ اَللُّؤْلُؤِ وَ دِخْرِيصُهُ مِنَ اَلْبِلَّوْرِ اَلْأَصْفَرِ وَ إِبْطَاهُ مِنَ اَلزَّبَرْجَدِ وَ جُرُبَّانُهُ مِنَ اَلْمَرْجَانِ اَلْأَحْمَرِ وَ جَيْبُهُ مِنْ نُورِ اَلرَّبِّ جَلَّ جَلاَلُهُ فَقَبِلَ اَللَّهُ تَوْبَةَ آدَمَ عَلَيْهِ السَّلاَمُ بِذَلِكَ اَلْقَمِيصِ وَ رَدَّ خَاتَمَ سُلَيْمَانَ بِهِ وَ رَدَّ يُوسُفَ إِلَى يَعْقُوبَ بِهِ وَ نَجَّى يُونُسَ مِنْ بَطْنِ اَلْحُوتِ بِهِ وَ كَذَلِكَ سَائِرُ اَلْأَنْبِيَاءِ عَلَيْهِمُ السَّلاَمُ نَجَّاهُمْ مِنَ اَلْمِحَنِ بِهِ وَ لَمْ يَكُنْ ذَلِكَ اَلْقَمِيصُ إِلاَّ قَمِيصَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اَللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ . (الخصال، جلد۲، صفحہ ۴۸۱)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنے آباءطاہرین سے روایت کی کہ امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا: اللہ تبارک و تعالیٰ نے آسمانوں، زمین، عرش، کرسی، لوح وقلم اور جنت و جہنم کو خلق کرنے سے پہلے نور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو خلق کیا، اللہ نے آپؐ کے نور کو آدم، نوح، ابراہیم، اسماعیل، اسحاق، یعقوب، موسیٰ، عیسیٰ، داوود، سلیمان (علیہم السلام) اور تمام رسولوں کو کہ جن کے بارے میں کہا کہ ‘‘وَ هَدَيْنٰاهُمْ إِلىٰ صِرٰاطٍ مُسْتَقِيمٍ’’ (ہم نے ان کو صراط مستقیم کی ہدایت کی) کو خلق کرنےسے پہلے خلق کیا اور تمام انبیاء (علیہم السلام) کو پیدا کرنےسے پہلے آپؐ کے نور کو خلق کیا اور اسی کے ساتھ بارہ حجاب پیداکئے، حجاب قدرة،حجاب عظمت،حجاب منت.حجاب رحمت،حجاب سعادت،حجاب كرامت؛حجاب منزلت،حجاب ہدايت؛حجاب نبوت،حجاب رفعت،حجاب ہيبت،حجاب شفاعت۔ پھر اس نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نور کو بارہ ہزار سال تک حجاب قدرت میں رکھا اور آپؐ اس حجاب میں مسلسل فرما رہے تھے سُبْحَانَ رَبِّيَ اَلْأَعْلَى ، پھر گیارہ ہزار سال تک حجاب عظمت میں رکھا جہاں آپ نے فرمایا ‘‘سُبْحَانَ عَالِمِ اَلسِّرِّ’’ اس کے بعد دس ہزار سال تک حجاب منت میں رکھا جہاں آپؐ نے فرمایا ‘‘سُبْحَانَ مَنْ هُوَ قَائِمٌ لاَ يَلْهُو’’، اس کے بعد نو ہزار سال تک حجاب رحمت ت میں رکھا جہاں آپؐ نے فرمایا‘‘سُبْحَانَ اَلرَّفِيعِ اَلْأَعْلَى’’ اس کے بعد آٹھ ہزار سال تک حجاب سعادت میں رکھا جہاں آپؐ نے فرمایا ‘‘سُبْحَانَ مَنْ هُوَ قَائِمٌ لاَ يَسْهُو’’ اس کے بعد سات ہزار سال تک حجاب کرامت میں رکھا جہاں آپؐ نے فرمایا ‘‘سُبْحَانَ مَنْ هُوَ غَنِيٌّ لاَ يَفْتَقِرُ’’ اس کے بعد چھ ہزار سال تک حجاب منزلت میں رکھا جہاں آپؐ نے فرمایا ‘‘سُبْحَانَ رَبِّيَ اَلْعَلِيِّ اَلْكَرِيمِ’’ اس کے بعد پانچ ہزار سال تک حجاب ہدایت میں رکھا جہاں آپؐ نے فرمایا ‘‘سُبْحَانَ رَبِّ اَلْعَرْشِ اَلْعَظِيمِ’’ اس کے بعد چار ہزار سال تک حجاب نبوت میں رکھا جہاں آپؐ نے فرمایا ‘‘سُبْحَانَ رَبِّ اَلْعِزَّةِ عَمّٰا يَصِفُونَ’’ اس کے بعد تین ہزار سال تک حجاب رفعت میں رکھا جہاں آپؐ نے فرمایا ‘‘سُبْحَانَ ذِي اَلْمُلْكِ وَ اَلْمَلَكُوتِ’’ اس کے بعد دو ہزار سال تک حجاب ہیبت میں رکھا جہاں آپؐ نے فرمایا ‘‘سُبْحَانَ اَللَّهِ وَ بِحَمْدِهِ’’ اس کے بعد ایک ہزار سال تک حجاب شفاعت میں رکھا جہاں آپؐ نے فرمایا ‘‘سُبْحَانَ رَبِّيَ اَلْعَظِيمِ وَ بِحَمْدِهِ’’ اس کے بعد اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپؐ کے اسم گرامی کو لوح پر ظاہر کیا جہاں چار ہزار سال تک منور رہا، اس کے بعد آپ کے نام کو عرش پر ظاہر کیا جہاں ساق عرش پر سات ہزار سال تک ثابت رہا یہاں تک اللہ نے آپؐ کے نور کو صلب آدمؑ میں منتقل کیا ۔ اس کے بعد حضرت آدم علیہ السلام کے صلب سے حضرت نوح علیہ السلام کے صلب میں منتقل کیا، اس کے بعد ایک صلب سے دوسرے صلب میں منتقل کیا یہاں تک آپ جناب عبداللہ بن عبدالمطلب علیہماالسلام کے صلب سے ظاہر ہوئے اور آپؐ کا چھ کرامتوں سے اکرام کیا ، قمیص رضا آپؐ کے زیب تن کیا ، ہیبت کی ردا آپؐ کے دوش مبارک پر ڈالی اور ہدایت کا تاج آپؐ کے سر پر رکھا اور سراویل معرفت پہنائی اور اس میں بند محبت قرار دیا ، نعلین خوف آپؐ کےپیروں میں پہنائی اور عصاء منزلت آپؐ کے دست مبارک میں عطا کیا۔ پھر اللہ نے آپؐ سے فرمایا: ائے محمد ! لوگوں کے پاس جائیں اور ان سے کہیں ‘‘لاٰ إِلٰهَ‌ إِلاَّ اَللّٰهُ‌ مُحَمَّدٌ رَسُولُ‌ اَللّٰهِ‌’’ یہ قمیص چھ چیزوں سے بنی ، اس کی اونچائی یاقوت کی تھی، آستین لولو کی تھی، جس کا دامن پیلے رنگ کے کرسٹل سے بنا تھا، اس کی بغلیں زبرجد کی تھیں، اس کا گریبان سرخ مرجان کا تھا۔ جس کی جیب رب کے نور سے تھی۔ اسی قمیص کی برکت سے جناب آدمؑ کی توبہ قبول ہوئی، جناب سلیمانؑ کی انگوٹھی واپس ہوئی، جناب یوسفؑ جناب یعقوب ؑ کو واپس ملے، جناب یونسؑ کو شکم ماہی سے رہائی ملی، دیگر تمام انبیاء علیہم السلام کو اسی قمیص کی برکت سے مشکلات سے ، نجات ملی، یہ کسی اور کی قمیص نہیں تھی بلکہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قمیص تھی۔

مذکورہ روایت سے خلق عظیم کی عظیم شان و منزلت واضح ہے، یہ بھی حقیقت ہے کہ عالم علم لدنی خطیب منبر سلونی امیرالمومنین مولانا علی بن ابی طالب علیہ السلام کے علاوہ کوئی اور یہ حقائق اور اسرار بیان بھی نہیں کر سکتا کیوں کہ آپؑ نص قرآنی کے مطابق نفس پیغمبرؐ ہیں ، آپؐ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے علم اسی طرح عطا کیا جس طرح ایک پرندہ اپنے بچے کو دانہ چگاتا ہے۔ بھلا کوئی کیسے آپؐ کے فضائل کا ادراک کر سکتا کیوں کہ وہ بعد میں آیا اور آپؐ پہلے تھے ، یہ صرف آل محمد ؑ ہی بتا سکتے ہیں کیوں کہ ان کے انوار نور محمدی سے ہیں ۔
اللہ نے پہلے دیگر انبیاء و مرسلین علیہم السلام کو بھیجا ، ان کو مبعوث کرنے سے پہلے جہاں اپنی توحید کا اقرار لیا وہیں ہمارے حضورؐ کی رسالت کا اور انکے وصی کی ولایت کا کلمہ پڑھوایا۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ نہ صرف دور حاضر کے فرزندان توحید آپؑ کے امتی ہیں بلکہ سارے انبیاء و مرسلین علیہم السلام آپؐ کے امتی ہیں ۔ سب نے آپؐ کی آمد کی خوشخبری دی۔

آخر ۱۷؍ ربیع الاول یکم عام الفیل کو مکہ مکرمہ میں آپؐ کی ولادت ہوئی، چالیس برس تک سب سے اپنی صداقت اور امانت داری کلمہ پڑھوایا ، لیکن جب آپؐ نے اعلان رسالت کیا تو آپؐ کی صداقت اور امانتداری کا کلمہ پڑھنے والوں میں سے اکثریت آپؐ کی مخالف ہو گئی کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ اگر ان کے زیر پرچم آئے تو ہمیں بھی صداقت و امانتداری کو اپنا شعار بنانا پڑے گا۔ ۱۳ سال مکہ کی آزمائش والی سخت آزمائش والی زندگی کے بعد حکم خدا سے آپؐ نے مدینہ منورہ کی جانب ہجرت کی ، جہاں آپؑ ایک رہنما تھے وہیں بحیثیت ایک حاکم کے حکمراں بھی تھے۔

آپؐ کی تقریباً دس سالہ حکومت میں عدالت کو محوریت حاصل تھی کہ آپؐ کی شہادت کے ۲۵ برس بعد جب آپؐ کے حقیقی جانشین یعنی نفس رسول مولا علی علیہ السلام کو حکومت ملی تو انھوں نے آپؐ کی سیرت پر چلتے ہوئے عدالت کا وہ نمونہ پیش کیا کہ آخر اسی شدت عدالت کے سبب محراب عبادت میں شہید ہو گئے۔

آج بھی اگر ظلم و ستم سے تڑپتی انسانیت خصوصاً عالم اسلام امن و سکون چاہتا ہے تو اسے بھی آپؐ کی تاسی کرنی پڑے گی، کیوں کہ آپؐ کی تأسی کئے بغیر کائنات میں امن و سکون ممکن نہیں ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے جس طرح کل کے دنیا طلب ظالموں اور ستمگروں نے آپؐ کی شہادت کے بعد آپؐ کی حکومتی روش کی مخالفت کی اور آپؐ کے حقیقی جانشین امیرالمومنین علیہ السلام کو خانہ نشینی پر مجبور کر دیا اسی طرح آج کے بھی ظالم و ستمگر آپؐ کے امن و امان والے نظام کو قائم نہیں ہونے دیں گے۔ لیکن ہم مطمئن ہیں کیوں کہ الہی وعدہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بارہویں جانشین جب ظہور کریں گے تو وہ عدل و انصاف والی حکومت قائم کریں گے اور دنیا کو عدل و انصاف سے ایسے بھر دیں گے جیسے وہ ظلم و جور سے بھری ہو گی۔
اللھم عجل لولیک الفرج

تبصرہ ارسال

You are replying to: .