۴ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۴ شوال ۱۴۴۵ | Apr 23, 2024
News ID: 366912
22 مارچ 2021 - 23:59
کیا آدم (ع) سے قبل انسان تھے؟

حوزہ/ بہت سے افراد کا گمان ہے کہ ہمارے جد آدم علیہ السلام سے قبل کوئی آدم یا کوئی انسان نہیں گذرے۔ لیکن اسلامی تراث میں نصوص اسکے برعکس بات کرتے ہیں۔ ہم ان نصوص کا ان شاء اللہ ذکر کریں گے جن میں اس طرف اشارہ ہے۔

تحریر: سید علی

حوزہ نیوز ایجنسی بہت سے افراد کا گمان ہے کہ ہمارے جد آدم علیہ السلام سے قبل کوئی آدم یا کوئی انسان نہیں گذرے۔ لیکن اسلامی تراث میں نصوص اسکے برعکس بات کرتے ہیں۔ ہم ان نصوص کا ان شاء اللہ ذکر کریں گے جن میں اس طرف اشارہ ہے۔ بعض قرآنی آیات میں "امت واحدہ" کا ذکر آیا ہے، جیسے ارشاد باری تعالیٰ ہے:

كَانَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً فَبَعَثَ اللَّـهُ النَّبِيِّينَ مُبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ وَأَنزَلَ مَعَهُمُ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِيَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ فِيمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ وَمَا اخْتَلَفَ فِيهِ إِلَّا الَّذِينَ أُوتُوهُ مِن بَعْدِ مَا جَاءَتْهُمُ الْبَيِّنَاتُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ فَهَدَى اللَّـهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ بِإِذْنِهِ وَاللَّـهُ يَهْدِي مَن يَشَاءُ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ ﴿البقرة: ٢١٣﴾

لوگ ایک ہی امت تھے، تو خدا نے نبیوں کو بشارت دینے والوں اور ڈرانے والوں کو بھیجا اور انکے ساتھ کتاب کو حق کے ساتھ نازل کیا تاکہ وہ لوگوں کے درمیان فیصلہ کریں اس میں جس میں انہوں نے اختلاف کیا، اور اس میں ان ہی نے اختلاف کیا جن کو کھلی نشانیاں آگئی تھیں، بس بغاوت کی وجہ سے۔ تو جو ایمان لائے خدا نے انکو اختلافی باتوں میں ہدایت دی اپنے اذن سے، اور اللہ جسکو چاہتا ہے سیدھی راہ کی ہدایت دیتا ہے۔

لہذا لوگ پہلے ایک ہی امت تھے، جب اختلاف واقع ہوا تو خدا نے انبیاء کو بھیجا لوگوں کے لیئے حق کو واضح کرنے کے لیئے، بظاہر یہاں pre-Adamites کی جانب اشارہ ہے۔ اس کی تائید میں بہت ساری احادیث ہیں جن میں یہی مفہوم ملتا ہے کہ آدم ع سے قبل بھی آدم تھے، ہم ان میں سے کچھ مثالیں ذکر کریں گے:

...إِنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى لَمَّا أَحَبَّ أَنْ يَخْلُقَ خَلْقاً بِيَدِهِ وَذَلِكَ بَعْدَ مَا مَضَى مِنَ الْجِنِّ وَالنَّسْنَاسِ فِي الْأَرْضِ سَبْعَةَ آلَافِ سَنَةٍ قَالَ وَلَمَّا كَانَ مِنْ شَأْنِ اللَّهِ أَنْ يَخْلُقَ آدَمَ (ع) لِلَّذِي أَرَادَ مِنَ التَّدْبِيرِ وَالتَّقْدِيرِ لِمَا هُوَ مُكَوِّنُهُ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَعِلْمِهِ لِمَا أَرَادَ مِنْ ذَلِكَ كُلِّهِ كَشَطَ عَنْ أَطْبَاقِ السَّمَاوَاتِ ثُمَّ قَالَ لِلْمَلَائِكَةِ انْظُرُوا إِلَى أَهْلِ الْأَرْضِ مِنْ خَلْقِي مِنَ الْجِنِّ وَالنَّسْنَاسِ...

امیر المؤمنین ع نے فرمایا: ۔۔۔ جب الله تبارک و تعالی نے جن اور نسناس کے سات ہزار سال روئے زمین پر زندگی بسر کرنے کے بعد چاھا کہ اپنے ہاتھ سے ایک مخلوق پیدا کرے، پھر فرمایا کہ الله نے جب چاہا کہ آدم ع کو خلق کرے جس کیلئے آسمان و زمین کی تقدیر و تدبیر کی گئی ھے تو آسمانوں کے طبقوں کا پردہ اٹھا کر فرشتوں سے فرمایا، اہل زمین کی طرف دیکھو میری خلقت میں سے، جن اور نسناس کو۔۔۔ پھر ایک طویل روایت ہے۔۔۔ (1) نسناس سے مراد انسان اور بندر کے درمیان کی مخلوق ہے، اس سے مراد ایک بندر نما مخلوق لی گئی ہے۔ نسناس کے حوالے سے ایک اور مفید حدیث ہم ذکر کرتے ہیں:

339- ابْنُ مَحْبُوبٍ عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ غَالِبٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ قَالَ سَمِعْتُ عَلِيَّ بْنَ الْحُسَيْنِ (عَلَيْهِما السَّلام) يَقُولُ إِنَّ رَجُلا جَاءَ إِلَى أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ (عَلَيْهِ السَّلام) فَقَالَ أَخْبِرْنِي إِنْ كُنْتَ عَالِماً عَنِ النَّاسِ وَعَنْ أَشْبَاهِ النَّاسِ وَعَنِ النَّسْنَاسِ فَقَالَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ (عَلَيْهِ السَّلام) يَا حُسَيْنُ أَجِبِ الرَّجُلَ فَقَالَ الْحُسَيْنُ (عَلَيْهِ السَّلام)... وَأَمَّا قَوْلُكَ النَّسْنَاسُ فَهُمُ السَّوَادُ الأعْظَمُ وَأَشَارَ بِيَدِهِ إِلَى جَمَاعَةِ النَّاسِ ثُمَّ قَالَ إِنْ هُمْ إِلا كَالأنْعامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ سَبِيلا.

امام علی بن حسین ع فرماتے ہیں: ایک شخص امیر المؤمنین ع کے پاس آیا اور کہنے لگا: اگر آپ عالم ہیں تو مجھے لوگوں کا بتائیں، اور لوگوں جیسوں کا بتائیں اور نسناس کا بتائیں۔ تو امیر المؤمنین ع نے فرمایا: اے حسین ع، اس شخص کو جواب دیجیئے۔ تو امام حسین ع نے فرمایا: ۔۔۔ رہی تمہاری بات نسناس کی، تو وہ سواد اعظم ہیں، اور انہوں نے اپنے ہاتھ سے لوگوں کی جماعت کی طرف اشارہ کیا، پھر فرمایا: وہ چوپائیوں جیسے ہیں بلکہ أس سے بھی رستے سے بھٹکے ہوئے ہیں۔ (2) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ امام ع نے نسناس کو جانوروں سے تشبیہ دی ہے جو ظاہر میں انسان نما ہوں۔ اور بعض صحابہ سے بھی نسناس کے متعلق مروی ہے کہ یہ انسان نما مخلوق ہے (3)۔

حَدَّثَنَا أَبِي رَضِيَ اَللَّهُ عَنْهُ قَالَ حَدَّثَنَا سَعْدُ بْنُ عَبْدِ اَللَّهِ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى عَنِ اَلْحَسَنِ بْنِ مَحْبُوبٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ شِمْرٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ يَزِيدَ قَالَ: سَأَلْتُ أَبَا جَعْفَرٍ عَلَيْهِ السَّلاَمُ عَنْ قَوْلِ اَللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ أَفَعَيِينٰا بِالْخَلْقِ اَلْأَوَّلِ بَلْ هُمْ فِي لَبْسٍ مِنْ خَلْقٍ جَدِيدٍ  فَقَالَ يَا جَابِرُ تَأْوِيلُ ذَلِكَ أَنَّ اَللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ إِذَا أَفْنَى هَذَا اَلْخَلْقَ وَهَذَا اَلْعَالَمَ وَ أَسْكَنَ أَهْلَ اَلْجَنَّةِ اَلْجَنَّةَ وَأَهْلَ اَلنَّارِ اَلنَّارَ جَدَّدَ اَللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ عَالَماً غَيْرَ هَذَا اَلْعَالَمِ وَجَدَّدَ عَالَماً مِنْ غَيْرِ فُحُولَةٍ وَلاَ إِنَاثٍ يَعْبُدُونَهُ وَيُوَحِّدُونَهُ وَخَلَقَ لَهُمْ أَرْضاً غَيْرَ هَذِهِ اَلْأَرْضِ تَحْمِلُهُمْ وَسَمَاءً غَيْرَ هَذِهِ اَلسَّمَاءِ تُظِلُّهُمْ لَعَلَّكَ تَرَى أَنَّ اَللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ إِنَّمَا خَلَقَ هَذَا اَلْعَالَمَ اَلْوَاحِدَ وَتَرَى أَنَّ اَللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لَمْ يَخْلُقْ بَشَراً غَيْرَكُمْ بَلْ وَاَللَّهِ لَقَدْ خَلَقَ اَللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى أَلْفَ أَلْفِ عَالَمٍ وَأَلْفَ أَلْفِ آدَمٍ أَنْتَ فِي آخِرِ تِلْكَ اَلْعَوَالِمِ وَأُولَئِكَ اَلْآدَمِيِّينَ .

جابر بن یزید کہتے ہیں میں نے امام باقر ع سے اللہ عز و جل کے فرمان أَفَعَيِينٰا بِالْخَلْقِ اَلْأَوَّلِ بَلْ هُمْ فِي لَبْسٍ مِنْ خَلْقٍ جَدِيدٍ، "تو کیا ہم پہلی مخلوق سے تھگ گئے ہیں؟ بلکہ یہ نئی مخلوق کے متعلق شک میں ہیں" کا پوچھا تو امام باقر ع نے فرمایا: اے جابر، اس کی تاویل یہ ہے کہ اللہ عز و جل اس مخلوق اور اس عالم کو فناء کردے گا اور جنتیوں کو جنت میں ٹھہرائے گا اور جہنمیوں کو جہنم میں، اللہ عز و جل ایک نیا عالم بنائے گا جو یہ عالم نہیں ہوگا اور عالم کو نیا ایسے بنائے گا کہ اس میں نر یا مادہ نہیں ہونگے، وہ اللہ کی عبادت کریں گے اور اسکی توحید کو مانیں گے اور ان کے لیئے وہ ایک زمین بنائے گا جو یہ والی زمین نہیں ہوگی، وہ انکو اٹھائے گی اور ایک آسمان بنائے گا جو یہ آسمان نہیں ہوگا جو انکو سایہ دے گا۔ شاید تمہیں لگتا ہے کہ اللہ عز و جل نے بس یہی ایک عالم بنایا ہے اور تمہیں لگتا ہے کہ اللہ عز و جل نے تمہارے علاوہ کوئی بشر خلق نہیں کیا؟ بلکہ خدا کی قسم الله نے دس لاکھ جہان بنائے اور دس لاکھ آدم بنائے اور تم ان جہانوں اور ان آدموں میں سے آخری ہو۔ (4) 

عَنْ هِشَامِ بْنِ سَالِمٍ قَالَ قَالَ أَبُو عَبْدِ اَللَّهِ عَلَيْهِ السَّلاَمُ: وَمَا عَلِمَ اَلْمَلاَئِكَةُ بِقَوْلِهِمْ أَتَجْعَلُ فِيهٰا مَنْ يُفْسِدُ فِيهٰا وَيَسْفِكُ اَلدِّمٰاءَ لَوْ لاَ أَنَّهُمْ قَدْ كَانُوا رَأَوْا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ اَلدِّمَاءَ.

ہشام بن سالم نے کہا کہ امام جعفر صادق ع نے فرمایا کہ فرشتے اپنی بات کو نہ جانتے أَتَجْعَلُ فِيهٰا مَنْ يُفْسِدُ فِيهٰا وَيَسْفِكُ اَلدِّمٰاءَ، "کیا تو زمین میں ان لوگوں کو خلیفہ بنائے گا جو فساد کریں گے اور خون بہائیں گے" اگر انہوں نے پہلے ہی ان لوگوں کو نہ دیکھا ہوتا جو زمین میں خون بہا رہے تھے۔ (5) اس مفہوم کی اور بھی احادیث ہیں (6)

حَدَّثَنَا أَبِي رَضِيَ اَللَّهُ عَنْهُ قَالَ حَدَّثَنَا سَعْدُ بْنُ عَبْدِ اَللَّهِ قَالَ حَدَّثَنِي اَلْحُسَيْنُ بْنُ عَبْدِ اَلصَّمَدِ عَنِ اَلْحَسَنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي عُثْمَانَ قَالَ حَدَّثَنَا اَلْعُبَّادُ بْنُ عَبْدِ اَلْخَالِقِ عَمَّنْ حَدَّثَهُ عَنْ أَبِي عَبْدِ اَللَّهِ عَلَيْهِ السَّلاَمُ قَالَ: إِنَّ لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ اِثْنَيْ عَشَرَ أَلْفَ عَالَمٍ كُلُّ عَالَمٍ مِنْهُمْ أَكْبَرُ مِنْ سَبْعِ سَمَاوَاتٍ وَسَبْعِ أَرَضِينَ مَا تَرَى عَالَمٌ مِنْهُمْ أَنَّ لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ عَالَماً غَيْرَهُمْ وَأَنَا اَلْحُجَّةُ عَلَيْهِمْ.

امام جعفر صادق ع نے فرمایا: الله نے بارہ ہزار جہاں بنائے ہیں اور ہر جہاں سات آسمانوں اور سات زمینوں سے بڑا ہے ان جہانوں کے رہنے والوں میں سے کوئی بھی یہ نہیں سمجھتا کہ الله نے کوئی اور بھی دنیاء بنائی ہے، اور میں اب سب پر الله کی حجت ہوں۔ (7) 

...قَالَ مَنْ سَكَنَ اَلْأَرْضَ قَبْلَ آدَمَ قَالَ اَلْجِنُّ قَالَ وَقَبْلَ اَلْجِنِّ قَالَ اَلْمَلاَئِكَةُ قَالَ وَقَبْلَ اَلْمَلاَئِكَةِ قَالَ آدَمُ قَالَ فَكَمْ كَانَ بَيْنَ اَلْجِنِّ وَبَيْنَ اَلْمَلاَئِكَةِ قَالَ سَبْعَةُ آلاَفِ سَنَةٍ قَالَ فَبَيْنَ اَلْمَلاَئِكَةِ وَبَيْنَ آدَمَ قَالَ أَلْفَيْ أَلْفِ سَنَةٍ...

ابن عباس نے کہا: آدم ع سے قبل زمین پر کون آباد تھا؟ نبی ص نے فرمایا: جن۔ ابن عباس نے کہا: اور جن سے قبل؟ آپ ص نے فرمایا: فرشتے۔ ابن عباس نے کہا: اور فرشتوں سے پہلے؟ نبی ص نے فرمایا: آدم۔ تو اس نے کہا: جن اور فرشتوں کے درمیان کتنا وقت تھا؟ آپ ص نے فرمایا: سات ہزار سال۔ ابن عباس نے کہا: تو فرشتوں اور آدم ع کے درمیان؟ آپ ص نے فرمایا: دو لاکھ سال۔ (8) اس حدیث میں واضح طور پر مذکور ہے کہ آدم ع سے پہلے جن آباد تھے، اس سے پہلے فرشتے، اور اس سے پہلے آدم، یعنی آدم ع کا سلسلہ اس سے پیچھے جاتا ہے۔

عَنْ يَعْقُوبَ بْنِ شُعَيْبٍ، قَالَ: سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ اَللَّهِ (عَلَيْهِ اَلسَّلاَمُ) عَنْ هَذِهِ اَلْآيَةِ: كٰانَ اَلنّٰاسُ أُمَّةً وٰاحِدَةً. قَالَ: «قَبْلَ آدَمَ وَبَعْدَ نُوحٍ (عَلَيْهِمَا اَلسَّلاَمُ) ضُلاَّلاً فَبَدَا لِلَّهِ، فَبَعَثَ اَللَّهُ اَلنَّبِيِّينَ مُبَشِّرِينَ وَمُنْذِرِينَ؛ أَمَا إِنَّكَ لَوْ لَقِيتَ هَؤُلاَءِ قَالُوا: إِنَّ ذَلِكَ لَمْ يَزَلْ، وَكَذَبُوا، إِنَّمَا هُوَ شَيْءٌ بَدَا لِلَّهِ فِيهِ».

یعقوب بن شعیب نے کہا میں نے امام صادق ع سے اس آیت کا پوچھا ٰانَ اَلنّٰاسُ أُمَّةً وٰاحِدَةً، "لوگ ایک ہی امت تھے۔" انہوں نے فرمایا: آدم ع سے قبل، اور نوح ع کے بعد، وہ سرگرداں تھے، تو اللہ کو بداء ہوا، پس اس نے نبیوں کو بھیجا بشارت دینے والے اور ڈرانے والے۔ جان لو، اگر تم ان لوگوں سے ملو گے تو یہ کہیں گے کہ یہ ابھی تک ہو رہا ہے، مگر انہوں نے جھوٹ بولا ہے، یہ تو ایک چیز تھی جس میں اللہ کو بداء ہوا ہے۔ (9) اس میں آدم ع سے قبل بھی لوگوں کی بات کی جا رہی ہے اس آیت کے مطابق۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ اَلْحَسَنِ بْنِ أَحْمَدَ بْنِ اَلْوَلِيدِ رَضِيَ اَللَّهُ عَنْهُ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ اَلْحَسَنِ اَلصَّفَّارُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ اَلْحُسَيْنِ بْنِ أَبِي اَلْخَطَّابِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اَللَّهِ بْنِ هِلاَلٍ عَنِ اَلْعَلاَءِ بْنِ رَزِينٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا جَعْفَرٍ عَلَيْهِ السَّلاَمُ يَقُولُ: لَقَدْ خَلَقَ اَللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ فِي اَلْأَرْضِ مُنْذُ خَلَقَهَا سَبْعَةَ عَالَمِينَ لَيْسَ هُمْ وُلْدَ آدَمَ خَلَقَهُمْ مِنْ أَدِيمِ اَلْأَرْضِ فَأَسْكَنَهُمْ فِيهَا وَاحِداً بَعْدَ وَاحِدٍ مَعَ عَالَمِهِ ثُمَّ خَلَقَ اَللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ آدَمَ أَبَا هَذَا اَلْبَشَرِ وَ خَلَقَ ذُرِّيَّتَهُ مِنْهُ وَلاَ وَ اَللَّهِ مَا خَلَتِ اَلْجَنَّةُ مِنْ أَرْوَاحِ اَلْمُؤْمِنِينَ مُنْذُ خَلَقَهَا وَ لاَ خَلَتِ اَلنَّارُ مِنْ أَرْوَاحِ اَلْكُفَّارِ وَ اَلْعُصَاةِ مُنْذُ خَلَقَهَا عَزَّ وَ جَلَّ لَعَلَّكُمْ تَرَوْنَ أَنَّهُ كَانَ يَوْمَ اَلْقِيَامَةِ وَصَيَّرَ اَللَّهُ أَبْدَانَ أَهْلِ اَلْجَنَّةِ مَعَ أَرْوَاحِهِمْ فِي اَلْجَنَّةِ وَ صَيَّرَ أَبْدَانَ أَهْلِ اَلنَّارِ مَعَ أَرْوَاحِهِمْ فِي اَلنَّارِ أَنَّ اَللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ لاَ يُعْبَدَ فِي بِلاَدِهِ وَلاَ يَخْلُقُ خَلْقاً يَعْبُدُونَهُ وَيُوَحِّدُونَهُ وَيُعَظِّمُونَهُ بَلَى وَ اَللَّهِ لَيَخْلُقَنَّ اَللَّهُ خَلْقاً مِنْ غَيْرِ فُحُولَةٍ وَ لاَ إِنَاثٍ يَعْبُدُونَهُ وَيُوَحِّدُونَهُ وَيُعَظِّمُونَهُ وَيَخْلُقُ لَهُمْ أَرْضاً تَحْمِلُهُمْ وَسَمَاءً تُظِلُّهُمْ أَلَيْسَ اَللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ يَقُولُ يَوْمَ تُبَدَّلُ اَلْأَرْضُ غَيْرَ اَلْأَرْضِ وَاَلسَّمٰاوٰاتُ وَقَالَ اَللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ أَفَعَيِينٰا بِالْخَلْقِ اَلْأَوَّلِ بَلْ هُمْ فِي لَبْسٍ مِنْ خَلْقٍ جَدِيدٍ  .

محمد بن مسلم کہتے ہیں میں نے امام باقر ع کو فرماتے سنا: اللہ عز و جل نے جب سے زمین کو خلق کیا ہے اس میں سات عالم خلق کیئے ہیں، وہ أولاد آدم میں سے نہیں ہیں، اس نے انکو زمین کی سطح سے بنایا ہے، اور انکو اس میں ایک ایک کرکے آباد کیا ہے اپنے عالم کے ساتھ۔ پھر اللہ عز و جل نے آدم، اس بشر کے باپ کو خلق کیا اور انکی ذریت کو ان میں سے خلق کیا۔ اور نہیں، خدا کی قسم، جنت کبھی مؤمنین کی أرواح سے خافی نہیں ہوئی جب سے خدا نے اسکو خلق کیا ہے اور نہ ہی جہنم کبھی کفار اور نافرمانوں کی أرواح سے خالی ہوئی ہے جب سے اللہ عز و جل نے اسکو خلق کیا ہے۔ تمہیں لگتا ہے کہ جب قیامت کا دن ہوگا تو اللہ جنتیوں کے ابدان کو انکی أرواح کے ساتھ جنت میں ڈالے گا اور جہنمیوں کے ابدان کو انکی أرواح کے ساتھ جہنم میں ڈالے گا، تو اللہ عز و جل کے شہروں میں اسکی عبادت نہیں کی جائے گی؟ اور نہ ہی وہ کوئی مخلوق بنائے گا جو اسکی عبادت کرے گی اور اسکی توحید مانے گی اور اسکی تعظیم کرے گی؟ ہاں، خدا کی قسم، وہ ضرور ایک مخلوق بنائے گا جو نہ مرد ہونگے نہ زن، وہ اسکی عبادت کریں گے، اسکی توحید مانیں گے اور اسکی تعظیم کریں گے، اور وہ ان کے لیئے ایک زمین بنائے گا جو انکو اٹھائے گی، اور ان کے لیئے ایک آسمان بنائے گا جو ان کو سایہ دے گا۔ کیا اللہ عز و جل نہیں کہتا يَوْمَ تُبَدَّلُ اَلْأَرْضُ غَيْرَ اَلْأَرْضِ وَاَلسَّمٰاوٰاتُ، "اس دن جب زمین ایک اور زمین میں تبدیل ہوگی اور آسمان بھی" اور اللہ عز و جل کہتا ہے أَفَعَيِينٰا بِالْخَلْقِ اَلْأَوَّلِ بَلْ هُمْ فِي لَبْسٍ مِنْ خَلْقٍ جَدِيدٍ، "تو کیا ہم پہلی مخلوق سے تھگ گئے ہیں؟ بلکہ یہ نئی مخلوق کے متعلق شک میں ہیں۔" (10) 

بعض روایات میں کعبہ کا پہلے سے موجود ہونا اور آدم ع سے ہزاروں سال قبل اس کے حج ہونے کا ذکر ملتا ہے (11) اور کچھ دیگر احادیث میں یہ ذکر ملتا ہے کہ ہماری زمین بہت پرانی ہے مگر آدم ع کی خلقت قریب کے زمانے میں ہی ہوئی ہے (12) اہل سنت منابع میں حن اور بن کے قبائل کا آدم ع سے پہلے زمین پر آباد ہونے کا ذکر ملتا ہے اگرچہ یہ واضح نہیں کہ اس سے مراد کون ہیں:

وَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ كَانَتِ الْحِنُّ وَالْبِنُّ قَبْلَ آدَمَ بِأَلْفَيْ عَامٍ

عبد اللہ بن عمر نی کہا: حن اور بن (کے لوگ) آدم ع سے دو ہزار سال قبل کے تھے۔ (13) 

بلکہ ابن عباس کے اثر میں یہ بھی ملتا ہے کہ سات اور زمینیں ہیں اور سب میں انکے اپنے آدم ہیں، یہاں سات کے عدد کو کثرت تعداد سمجھا جا سکتا ہے:

3822 - أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ يَعْقُوبَ الثَّقَفِيُّ، ثنا عُبَيْدُ بْنُ غَنَّامٍ النَّخَعِيُّ، أَنْبَأَ عَلِيُّ بْنُ حَكِيمٍ، ثنا شَرِيكٌ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ أَبِي الضُّحَى، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّهُ قَالَ: {اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ} [الطلاق: 12] قَالَ: سَبْعَ أَرَضِينَ فِي كُلِّ أَرْضٍ نَبِيٌّ كَنَبِيِّكُمْ وَآدَمُ كآدمَ، وَنُوحٌ كَنُوحٍ، وَإِبْرَاهِيمُ كَإِبْرَاهِيمَ، وَعِيسَى كَعِيسَى «هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ» 
[التعليق - من تلخيص الذهبي]
3822 - صحيح

ابو ضحی نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کی کہ انہوں نے کہا: اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ، الله ہے جس نے سات آسمان بنائے اور زمین سے ان کی مثل۔ کہا: سات زمینیں، ہر زمین میں تمہارے نبی (محمد ص) جیسا ایک نبی ہے، اور آدم ع جیسا ایک آدم ہے، نوح ع جیسا ایک نوح ہے، ابراہیم ع جیسا ایک ابراہیم ہے، اور عیسی ع جیسا ایک عیسی ہے۔ حاکم نے کہا: یہ حدیث صحیح الاسناد ہے، اور بخاری و مسلم نے روایت نہیں کی۔ ذہبی نے بھی صحیح کہا ہے۔ (14) 

شیعہ کتب میں دیگر جہانوں اور آدموں کی موجودگی اتنی معروف تھی کہ اہل سنت مفسرین نے بھی اسکو نقل کیا ہے، جیسے مفاتیح الغیب میں فخر الدین رازی کہتے ہیں:

وَنُقِلَ فِي «كُتُبِ الشِّيعَةِ» عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ الْبَاقِرِ عَلَيْهِ السَّلَامُ أَنَّهُ قَالَ: قَدِ انْقَضَى قَبْلَ آدَمَ الَّذِي هُوَ أَبُونَا أَلْفُ أَلْفِ آدَمَ أَوْ أَكْثَرُ

شیعہ کتب میں امام محمد بن علی باقر ع سے منقول ہے کہ انہوں نے فرمایا: وہ آدم جو ہمارے والد ہیں، ان سے پہلے ایک لاکھ یا اس سے زیادہ آدم گذر چکے ہیں۔ (15) 

اور علامہ آلوسی لکھتے ہیں:

وقال الميثم في " شرحه الكبير على النهج " - ونقل عن محمد بن علي الباقر - أنه قال: قد انقضى قبل آدم الذي هو أبونا ألف ألف آدم أو أكثر، وذكر الشيخ الأكبر قدس سره في " فتوحاته " ما يقتضي بظاهره أن قبل آدم بأربعين ألف سنة آدم غيره

میثم نے نہج البلاغہ پر اپنی بڑی شرح میں لکھا ہے، امام محمد بن علی باقر ع سے منقول ہے کہ انہوں نے فرمایا: وہ آدم جو ہمارے والد ہیں، ان سے پہلے ایک لاکھ یا اس سے زیادہ آدم گذر چکے ہیں۔ اور شیخ اکبر قدس سرہ نے اپنی فتوحات میں جو کہا ہے اسکا ظاہری مفہوم یہی بنتا ہے کہ آدم ع سے چالیس ہزار سال پہلے بھی آدم وغیرہ تھے۔ (16) 

ابن عربی کی جس عبارت کی طرف علامہ آلوسی کا اشارہ ہے وہ یہ ہے:

فإني رأيت في واقعتي شخصا بالطواف أخبرني أنه من أجدادي وسمي لي نفسه فسألته عن زمان موته فقال لي أربعون ألف سنة فسألته عن آدم لما تقرر عندنا في التأريخ لمدته فقال لي عن أي آدم تسأل عن آدم الأقرب...

میں نے اپنے خواب میں طواف میں ایک شخص کو دیکھا، اس نے مجھے بتایا کہ وہ میرے اجداد میں سے ہیں اور اس نے خود کا نام لیا، تو میں نے ان سے انکی موت کے وقت کا پوچھا، انہوں نے مجھ سے کہا: چالیس ہزار سال پہلے۔ تو میں نے ان سے آدم ع کا پوچھا، اس سبب جو تاریخ میں ہمارے پاس تعین ہو چکا تھا انکی مدت کے بارے میں۔ تو انہوں نے کہا: کونسے آدم کا پوچھ رہے ہو؟ سب سے قریب والے آدم کا؟۔۔۔ (17) 

سید مصطفیٰ خمینی نے اپنی تفسیر میں ان أمور پر بحث کی ہے اور بہت سی روایات نقل کی ہیں، ان میں سے بعض یہ ہیں:

أما في الآثار: ففي جملة من الأخبار سئل المعصوم (عليه السلام): " هل كان قبل آدم آدم؟ قال: نعم. وسئل: هل كان قبله آدم؟ قال: نعم. ثم قال: كلما سئلت عن ذلك فالجواب: أنه كان قبله آدم "

جہاں تک روایات کی بات ہے جو چند روایات میں معصوم ع سے پوچھا گیا ہے: کیا آدم ع سے قبل آدم تھا؟ تو امام ع نے فرمایا: ہاں۔ تو ان سے پوچھا گیا: کیا ان سے پہلے بھی آدم تھ؟ تو انہوں نے فرمایا: ہاں۔ پھر امام ع نے فرمایا: مجھ سے جتنی بھی بار تم پوچھو گے تو جواب یہی ہوگا کہ ان سے پہلے بھی آدم تھے۔ (18) 

وفي رواية عن النبي (صلى الله عليه وآله وسلم): إنه نهى عن السؤال عما بعد عدنان، ولعله للإيماء إلى أنه لا ينتهي إلى حد، وإلى شخص لا يكون وراءه شخص آخر.

اور ایک اور روایت میں نبی ص سے مروی ہے کہ انہوں نے عدنان کے بعد اپنے اجداد کا پوچھنے سے منع فرمایا تھا۔ اور شاید اس میں اشارہ ہے کہ یہ کبھی کسی حد پر منتہی نہیں ہوگا، نہ ہی کسی شخص پر ختم ہوگا جس کے پیچھے کوئی اور نہ ہو۔ (19)

آدم ع کی وجہ تسمیہ پر ایک صحیح السند حدیث ہے:

حَدَّثَنَا أَبِي رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ الْحِمْيَرِيُّ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي نَصْرٍ عَنْ أَبَانِ بْنِ عُثْمَانَ عَنْ مُحَمَّدٍ الْحَلَبِيِّ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ (ع) قَالَ إِنَّمَا سُمِّيَ آدَمُ آدَمَ لِأَنَّهُ خُلِقَ مِنْ أَدِيمِ الْأَرْضِ  

قال مصنف هذا الكتاب (رحمه الله) اسم الأرض الرابعة أديم وخلق آدم منها فلذلك قيل خلق من أديم الأرض

امام صادق ع نے فرمایا: آدم ع کا نام آدم اس لیئے ہی رکھا گیا کیونکہ وہ زمین کی ادیم (سطح) سے بنے تھے۔

اس کتاب کے مصنف (شیخ صدوق رحمہ اللہ) کا کہنا ہے: چوتھی زمین کا نام ادیب ہے اور آدم (ع) اس میں سے خلق ہوئے پس اس سبب کہا جاتا ہے کہ یہ زمین کی ادیم سے بنے (20) 

اس ہی طرح کی بات اہل سنت منابع میں بھی موجود ہے (21) لہذا تمام آدم زمین کی سطح سے خلق ہوئے ہیں۔ بلکہ حواء کے متعلق ایک حدیث بسند ضعیف ہے کہ وہ جاندار سے خلق ہوئی ہیں (22) اگرچہ انفرادی طور پر ان روایات کی اسانید پر اشکال ہو سکتا ہے، لیکن اجمالا انکو لیا جائے تو انکی کثرت ہمیں سندی بحث سے مستغنیٰ کر دیتی ہے۔ اسکی تائید میں آرکیولجی کے دلائل موجود ہیں۔  سائنسی اور تجریبی شواہد سے لاکھوں سال پرانی ہڈیاں سامنے آئی ہیں جس سے ہمیں پتا چلتا ہے کہ ہم سے قبل بھی انسان نما مخلوقات اس دھرتی پر موجود تھیں، جو کہ ہماری بات کو مزید تقویت دیتی ہے۔ اور یہ فقط اس زمین کی بات ہے، اس کائنات میں کھربوں سیارے ہیں اور بہت بعید ہے کہ صرف ایک ہی سیارے پر یہ حالات ظاہر ہوئے کہ ادھر زندگی وجود میں آئی۔ ہم اپنی ایک سابقہ تحریر میں اس پر بحث کر چکے ہیں کہ دیگر عوالم میں ذی شعور مخلوقات کا ہونا روایات میں وارد ہوا ہے، اس پر اور بھی بہت سے نصوص موجود (23) اور ابن عباس سے بھی مروی ہے تین سو سے زیادہ عوالم وجود رکھتے ہیں (24)، لہذا یہ آدم کی خلقت اور مختلف عوالم کا تسلسل ہمیشہ سے جاری ہے اور چلتا رہے گا اور ہم خدا کے اس کار میں پہلی مخلوق نہیں ہیں نہ ہمارے جد پہلے آدم ہیں، بلکہ قرآن کی بہت سی آیات سے یہ لگتا ہے کہ خدا ہمارے بعد بھی بہت سے جہان اور مخلوقات کو پیدا کرے گا (25)۔ 

مآخذ

(1) علل الشرائع، ج 1، ص 104 و 105
(2) الكافي، ج 8، ص 244 – 245، رقم 339
(3) تاج العروس، ج 16، ص 553: وَفِي حَدِيثِ أَبِي هُرَيْرَةَ رضِيَ الله تَعالَى عَنهُ: ذَهَبَ النّاسُ وبَقِيَ {النِّسْنَاسُ. قيل: فَمَا النِّسْنَاسُ قَالَ: الَّذين يَتَشبَّهون بالنّاسِ ولَيْسُوا مِن النّاسِ، وأَخْرَجَه أَبو نُعَيْمٍ فِي الحِلْيَةِ، عَن ابنِ عَبّاسٍ.
(4) الخصال، ص 652
(5) تفسیر العیاشي، ج 1، ص 29
(6) تفسير العياشي، ج 1، ص 30 – 31: عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ(عَلَيْهِ السَّلاَمُ) فِي قَوْلِهِ: وَ إِذْ قٰالَ رَبُّكَ لِلْمَلاٰئِكَةِ إِنِّي جٰاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً قٰالُوا أَ تَجْعَلُ فِيهٰا مَنْ يُفْسِدُ فِيهٰا وَ يَسْفِكُ الدِّمٰاءَ :«رَدُّوا عَلَى اللَّهِ فَقَالُوا: أَ تَجْعَلُ فِيهٰا مَنْ يُفْسِدُ فِيهٰا وَ يَسْفِكُ الدِّمٰاءَ .وَ إِنَّمَا قَالُوا ذَلِكَ بِخَلْقٍ مَضَى،يَعْنِي الْجَانَّ أَبَا الْجِنِّ. وَ نَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَ نُقَدِّسُ لَكَ فَمَنُّوا عَلَى اللَّهِ بِعِبَادَتِهِمْ إِيَّاهُ فَأَعْرَضَ عَنْهُمْ.

تفسير العياشي، ج 1، ص 32: قَالَ زُرَارَةُ: دَخَلْتُ عَلَى أَبِي جَعْفَرٍ(عَلَيْهِ السَّلاَمُ)فَقَالَ:«أَيُّ شَيْءٍ عِنْدَكَ مِنْ أَحَادِيثِ الشِّيعَةِ»؟ فَقُلْتُ:إِنَّ عِنْدِي مِنْهَا شَيْئاً كَثِيراً،قَدْ هَمَمْتُ أَنْ أُوقِدَ لَهَا نَاراً،ثُمَّ أُحْرِقَهَا.فَقَالَ:«وَارِهَا تَنْسَ مَا أَنْكَرْتَ مِنْهَا».
(7) الخصال، ص 639
(8) الإختصاص، ص 50
(9) تفسير العياشي، ج 1، ص 104
(10) الخصال، ص 358 – 359، تفسير العياشي، ج 2، ص 238
(11) من لا يحضره الفقيه، الرقم: 3111: 3111 رُوِيَ عَنْ بُكَيْرِ بْنِ أَعْيَنَ عَنْ أَخِيهِ زُرَارَةَ قَالَ: قُلْتُ لِأَبِي عَبْدِ اَللَّهِ عَلَيْهِ اَلسَّلاَمُ جَعَلَنِيَ اَللَّهُ فِدَاكَ أَسْأَلُكَ فِي اَلْحَجِّ مُنْذُ أَرْبَعِينَ عَاماً فَتُفْتِينِي فَقَالَ «يَا زُرَارَةُ بَيْتٌ يُحَجُّ قَبْلَ آدَمَ عَلَيْهِ اَلسَّلاَمُ بِأَلْفَيْ عَامٍ تُرِيدُ أَنْ تَفْنَى مَسَائِلُهُ فِي أَرْبَعِينَ عَاماً».
(12) تفسير العياشي، ج 1، ص 31: عَنْ عِيسَى بْنِ حَمْزَةَ قَالَ‏ قَالَ رَجُلٌ لِأَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع: جُعِلْتُ فِدَاكَ- إِنَّ النَّاسَ يَزْعُمُونَ أَنَّ الدُّنْيَا عُمُرُهَا سَبْعَةُ آلَافِ سَنَةٍ- فَقَالَ: لَيْسَ كَمَا يَقُولُونَ- إِنَّ اللَّهَ خَلَقَ لَهَا خَمْسِينَ أَلْفَ عَامٍ فَتَرَكَهَا قَاعاً- قَفْرَاءَ خَاوِيَةٌ عَشْرَةَ أَلْفَ عَامٍ، ثُمَّ بَدَا لِلَّهِ بَدْأُ الْخَلْقِ فِيهَا، خَلْقاً لَيْسَ مِنَ الْجِنِّ وَ لَا مِنَ الْمَلَائِكَةِ وَ لَا مِنَ الْإِنْسِ، وَ قَدَّرَ لَهُمْ عَشْرَةَ أَلْفَ عَامٍ، فَلَمَّا قَرُبَتْ آجَالُهُمْ أَفْسَدُوا فِيهَا فَدَمَّرَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ تَدْمِيراً- ثُمَّ تَرَكَهَا قَاعاً قَفْرَاءَ خَاوِيَةٌ عَشْرَةَ أَلْفَ عَامٍ، ثُمَّ خَلَقَ فِيهَا الْجِنَّ وَ قَدَّرَ لَهُمْ عَشْرَةَ أَلْفَ عَامٍ، فَلَمَّا قَرُبَتْ آجَالُهُمْ أَفْسَدُوا فِيهَا وَ سَفَكُوا الدِّمَاءَ- وَ هُوَ قَوْلُ الْمَلَائِكَةِ «أَتَجْعَلُ فِيها مَنْ يُفْسِدُ فِيها وَيَسْفِكُ الدِّماءَ» كَمَا سَفَكَتْ بَنُو الْجَانِّ، فَأَهْلَكَهُمْ اللَّهُ- ثُمَّ بَدَأَ اللَّهُ فَخَلَقَ آدَمَ وَ قَدَّرَ لَهُ عَشْرَةَ أَلْفَ عَامٍ، وَ قَدْ مَضَى مِنْ ذَلِكَ سَبْعَةُ آلَافِ عَامٍ وَمِائَتَانِ- وَأَنْتُمْ فِي آخِرِ الزَّمَانِ‏.
(13) البداية والنهاية، ج 1، ص 166
(14) المستدرك على الصحيحين، الرقم: 3822
(15) تفسير الرازي، ج 19، ص 179
(16) تفسير الآلوسي، ج 4، ص 180 - 181
(17) الفتوحات المكية، ج 3، ص 348
(18) تفسير القرآن الكريم، ج 5، ص 248، سفينة البحار، ج 2، ص 229
(19) تفسير القرآن الكريم، ج 5، ص 248، بحار الأنوار، ج 15، ص 105
(20) علل الشرائع، ج 1، ص 14
(21) المستدرك على الصحيحين، الرقم: 3037 و 3436 وغيره
(22) علل الشرائع، ج 1، ص 2: وَإِنَّمَا سُمِّيَتْ حَوَّاءُ حَوَّاءَ لِأَنَّهَا خُلِقَتْ مِنَ الْحَيَوَانِ
(23) بصائر الدرجات، ص 490: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُوسَى عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ مُوسَى الْخَشَّابِ عَنْ عَلِيِّ بْنِ حَسَّانَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ كَثِيرٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ(ع)قَالَ‌ إِنَّ مِنْ وَرَاءِ عَيْنِ شَمْسِكُمْ هَذِهِ أَرْبَعِينَ عَيْنَ شَمْسٍ فِيهَا خَلْقٌ كَثِيرٌ وَإِنَّ مِنْ وَرَاءِ قَمَرِكُمْ أَرْبَعِينَ قَمَراً فِيهَا خَلْقٌ كَثِيرٌ لَا يَدْرُونَ أَنَّ اللَّهَ خَلَقَ آدَمَ أَمْ لَمْ يَخْلُقْهُ أُلْهِمُوا إِلْهَاماً لَعْنَةَ فُلَانٍ وَفُلَانٍ.

بصائر الدرجات، ص 492 و مختصر بصائر الدرجات، ص 12: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْحُسَيْنِ عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيَّاتٍ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الدِّهْقَانِ عَنْ أَبِي الْحَسَنِ (ع) قَالَ سَمِعْتُهُ يَقُولُ‌ إِنَّ اللَّهَ خَلَقَ هَذَا النِّطَاقَ زَبَرْجَدَةً خَضْرَاءَ فَمِنْ خُضْرَتِهَا اخْضَرَّتِ السَّمَاءُ قَالَ قُلْتُ وَ مَا النِّطَاقُ قَالَ الْحِجَابُ وَلِلَّهِ وَرَاءَ ذَلِكَ سَبْعُونَ أَلْفَ عَالَمٍ أَكْثَرَ مِنْ عَدَدِ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ وَكُلُّهُمْ يَلْعَنُ‌ فُلَاناً وَفُلَاناً.

بصائر الدرجات، ص 493: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى عَنْ يُونُسَ عَنْ عَبْدِ الصَّمَدِ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ (ع) قَالَ سَمِعْتُهُ يَقُولُ‌ إِنَّ مِنْ وَرَاءِ هَذِهِ أَرْبَعِينَ عَيْنَ شَمْسٍ مَا بَيْنَ شَمْسٍ إِلَى شَمْسٍ أَرْبَعُونَ عَاماً فِيهَا خَلْقٌ كَثِيرٌ مَا يَعْلَمُونَ أَنَّ اللَّهَ خَلَقَ آدَمَ أَوْ لَمْ يَخْلُقْهُ وَ إِنَّ مِنْ وَرَاءِ قَمَرِكُمْ هَذَا أَرْبَعِينَ قَمَراً مَا بَيْنَ قَمَرٍ إِلَى قَمَرٍ مَسِيرَةَ أَرْبَعِينَ يَوْماً فِيهَا خَلْقٌ كَثِيرٌ مَا يَعْلَمُونَ أَنَّ اللَّهَ خَلَقَ آدَمَ أَوْ لَمْ يَخْلُقْهُ قَدْ أُلْهِمُوا كَمَا أُلْهِمَتِ النَّحْلُ لَعْنَةَ الْأَوَّلِ وَالثَّانِي فِي كُلِّ وَقْتٍ مِنَ الْأَوْقَاتِ وَقَدْ وُكِّلَ بِهِمْ مَلَائِكَةٌ مَتَى مَا لَمْ يَلْعَنُوهُمَا عُذِّبُوا.

مختصر بصائر الدرجات، ص 12: مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى بْنِ عُبَيْدٍ، عَنْ يُونُسَ بْنِ عَبْدِ اَلرَّحْمَنِ، عَنْ عَبْدِ اَلصَّمَدِ بْنِ بَشِيرٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ عَلَيْهِ اَلسَّلاَمُ قَالَ: «إِنَّ مِنْ وَرَاءِ شَمْسِكُمْ هَذِهِ أَرْبَعِينَ عَيْنَ شَمْسٍ، مَا بَيْنَ عَيْنِ شَمْسٍ إِلَى عَيْنِ شَمْسٍ أَرْبَعُونَ عَاماً، فِيهَا خَلْقٌ كَثِيرٌ مَا يَعْلَمُونَ أَنَّ اَللَّهَ خَلَقَ آدَمَ أَمْ لَمْ يَخْلُقْهُ. وَ إِنَّ مِنْ وَرَاءِ قَمَرِكُمْ هَذَا أَرْبَعِينَ قُرْصاً مِنَ اَلْقَمَرِ، مَا بَيْنَ اَلْقُرْصِ إِلَى اَلْقُرْصِ أَرْبَعُونَ عَاماً، فِيهَا خَلْقٌ كَثِيرٌ مَا يَعْلَمُونَ أَنَّ اَللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ خَلَقَ آدَمَ أَمْ لَمْ يَخْلُقْهُ، قَدْ أُلْهِمُوا كَمَا أُلْهِمَتِ اَلنَّحْلَةُ بِلَعْنِ اَلْأَوَّلِ وَ اَلثَّانِي فِي كُلِّ اَلْأَوْقَاتِ، وَ قَدْ وُكِّلَ بِهِمْ مَلاَئِكَةٌ مَتَى لَمْ يَلْعَنُوا عُذِّبُوا».
(24) تفسير القمي، ج 2، ص 409: حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ بَكْرِ بْنِ سَهْلٍ عَنْ عَبْدِ اَلْغَنِيِّ بْنِ سَعِيدٍ عَنْ مُوسَى بْنِ عَبْدِ اَلرَّحْمَنِ عَنِ اِبْنِ جَرِيجٍ عَنْ عَطَاءٍ عَنِ اِبْنِ عَبَّاسٍ: فِي قَوْلِهِ: رَبِّ اَلْعٰالَمِينَ  قَالَ إِنَّ اَللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ خَلَقَ ثَلاَثَمِائَةِ عَالَمٍ وَ بِضْعَةَ عَشَرَ عَالَماً خَلْفَ قَافٍ وَخَلْفَ اَلْبِحَارِ اَلسَّبْعَةِ لَمْ يَعْصُوا اَللَّهَ طَرْفَةَ عَيْنٍ قَطُّ وَلَمْ يَعْرِفُوا آدَمَ وَلاَ وُلْدَهُ كُلُّ عَالَمٍ مِنْهُمْ يَزِيدُ مِنْ ثَلاَثِمِائَةٍ وَثَلاَثَةَ عَشَرَ مِثْلَ آدَمَ وَمَا وَلَدَ فَذَلِكَ قَوْلُهُ: إِلاّٰ أَنْ يَشٰاءَ اَللّٰهُ رَبُّ اَلْعٰالَمِينَ.
(25) أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّ اللَّـهَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ قَادِرٌ عَلَىٰ أَن يَخْلُقَ مِثْلَهُمْ وَجَعَلَ لَهُمْ أَجَلًا لَّا رَيْبَ فِيهِ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُورًا ﴿الإسراء: ٩٩﴾
أَوَلَيْسَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِقَادِرٍ عَلَىٰ أَن يَخْلُقَ مِثْلَهُم بَلَىٰ وَهُوَ الْخَلَّاقُ الْعَلِيمُ ﴿يس: ٨١﴾
اللَّـهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ يَتَنَزَّلُ الْأَمْرُ بَيْنَهُنَّ لِتَعْلَمُوا أَنَّ اللَّـهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ وَأَنَّ اللَّـهَ قَدْ أَحَاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْمًا ﴿الطلاق: ١٢﴾
نَحْنُ قَدَّرْنَا بَيْنَكُمُ الْمَوْتَ وَمَا نَحْنُ بِمَسْبُوقِينَ ﴿الواقعة: ٦٠﴾ عَلَىٰ أَن نُّبَدِّلَ أَمْثَالَكُمْ وَنُنشِئَكُمْ فِي مَا لَا تَعْلَمُونَ ﴿الواقعة: ٦١﴾ وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ النَّشْأَةَ الْأُولَىٰ فَلَوْلَا تَذَكَّرُونَ ﴿الواقعة: ٦٢﴾
فَلَا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشَارِقِ وَالْمَغَارِبِ إِنَّا لَقَادِرُونَ ﴿المعارج: ٤٠﴾ عَلَىٰ أَن نُّبَدِّلَ خَيْرًا مِّنْهُمْ وَمَا نَحْنُ بِمَسْبُوقِينَ ﴿المعارج: ٤١﴾
أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّـهَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِالْحَقِّ إِن يَشَأْ يُذْهِبْكُمْ وَيَأْتِ بِخَلْقٍ جَدِيدٍ ﴿ابراهيم: ١٩﴾
نَّحْنُ خَلَقْنَاهُمْ وَشَدَدْنَا أَسْرَهُمْ وَإِذَا شِئْنَا بَدَّلْنَا أَمْثَالَهُمْ تَبْدِيلًا ﴿الانسان: ٢٨﴾
إِن يَشَأْ يُذْهِبْكُمْ وَيَأْتِ بِخَلْقٍ جَدِيدٍ ﴿فاطر: ١٦﴾
أَفَعَيِينَا بِالْخَلْقِ الْأَوَّلِ بَلْ هُمْ فِي لَبْسٍ مِّنْ خَلْقٍ جَدِيدٍ ﴿ق: ١٥﴾
وَرَبُّكَ الْغَنِيُّ ذُو الرَّحْمَةِ إِن يَشَأْ يُذْهِبْكُمْ وَيَسْتَخْلِفْ مِن بَعْدِكُم مَّا يَشَاءُ كَمَا أَنشَأَكُم مِّن ذُرِّيَّةِ قَوْمٍ آخَرِينَ ﴿الأنعام: ١٣٣﴾

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .