تحریر: اشرف علی تابانی
حوزہ نیوز ایجنسی। اولاً مسلمانانِ برصغیر درخشاں ماضی صنعت علم اور ہنر کے مالک تھے۔سات سو سال تک حکومت کی مگر یہ حکومت مسلمانوں سے چھین لی گئی اور مسلمانوں کو ہر طبقے میں محکوم رکھا گیا اس کی اصل ترین وجہ عیاش حکمران جن کی حکمرانی پر عورتوں کے افکار حاکم تھے۔بقول علامہ اقبال
آہ بیچاروں کے اعصاب پر عورت ہے سوار
اور عالمی دشمنوں اور سازشوں سے آگاہی نہ ہونا اور بزدلانہ و لاتعلقی کے افکار باعث بنے کے مسلمان اپنا اقتدار محفوظ نہ رکھ سکے۔یوں مسلمان روز بروز زوال کی طرف گئے۔۔اور 1857 کی جنگ میں مسلمانوں کو بری طرح شکست ہوئی اور سرسید احمد خان کی فکر و افکار کو بہت زیادہ تائید، پزیرائی ملی۔ یوں اس نامطلوب فضا کے خلاف علامہ اقبال نے علمِ بغاوت بلند کیا اور انیس سو انتیس خطبہ الہ آباد میں صورت و سیرتِ پاکستان بیان کیا۔
صورت یعنی جہاں جہاں پر مسلمان اکثریت میں ہیں۔اور جغرافیائی طور پر بھی وہ ایک سرزمین پر آتے ہیں انہیں ایک ایک الگ مملکت کے طور پر شمار کیا جائے ہندو اور مسلمان دو الگ قومیں رہی ہیں جو کبھی بھی اکٹھے نہیں ہو سکتے اور اس فکر کے مطابق 1940 23 مارچ کو لاہور میں قرارداد پاکستان منظور ہوئی قائد اعظم کی رہبری میں اور پاکستان کے مسلمانوں کی علیحدہ ملک کا مطالبہ کیا گیا جو بعد میں قرار داد پاکستان سے جانی جاتی ہے۔
23 مارچ 1940 کے دو رکن ہیں
ایک آزادی
جو الحمدللہ چودہ اگست انیس سو سینتالیس کو ملی
اور دوسرا استقلال
قلہ Summit سے ہے یعنی ایک قوم اتنی سربلند اور مستقل ہو کے کوئی دوسری قوم خصوصی دشمن آپ پر مسلط نہ ہو سکے اپنی فکر آپ پر حاکم نہ کر سکے اور اس حد تک سر بلند ہو کے بڑے بڑوں میں آپ سربلند نظر آئے اقتصاد آپ کی تعلیم آپ کی سیاست مستقل ہو اور سربلند ہو ابھی آزادی تو ملی ہے مگر استقلال کی تقدیر چننا باقی ہے یہ تکمیل پاکستان کے لئے لازم ہے اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ 23 مارچ کے بعد ہندوؤں اور انگریزوں سے تو ہم آزاد ہوئے ہیں مگر سرمایہ دار معافیائی طرز کا طبقہ ہم پر حاکم رہا اور اس نے ملک و قوم کا خون چوسا اور ملک و قوم کو پستی غلامی کرپشن کمزوری فرقہ واریت دہشت گردی کے تحفے دیے ہیں تکمیل پاکستان کےلیے ضروری ہے ان حکمرانوں جو پاکستان کے لیے تمام تر بد بختیوں کا باعث ہیں ان کے خلاف علم بغاوت بلند کیا جائے اور ان سے راستے جدا کیا جائے۔
دوم
جن علاقوں کو محروم رکھا گیا ہے ان کی محرومیت کو بھی دور کرنا تکمیل پاکستان کا تقاضا ہے 23 مارچ 1940 کی قرارداد مسلمانوں کی محرومیت سے دوری کی تحریک تھی اور وہ آج بھی زندہ ہیں وہ خطے جو ملک و قوم کے ساتھ مخلص ہیں خصوصا گلگت بلتستانان کو ہم آئینی حقوق دے کر ملک کے مستقبل قانونی شہری بنا کر ان خطوں میں تعمیر و ترقی دے کر ہم ایک ماڈل علاقہ بنا کر مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کو بھی بہت اچھے انداز میں دعوت دے سکتے ہیں کہ اگر آپ ہمارا حصہ بنے تو تعمیر و ترقی آپ کے بھی قدم چوم سکتی ہے ایک مقتدر اور خود مختار صوبائی حقوق کا حامل گلگت بلتستان کشمیر کے لئے بہترین انداز میں لڑ سکتا ہے یا لڑا جا سکتا ہے اور پاکستان کے تمام تر مسائل کا شرعی حل استقلال ہے یعنی وہ دشمن ممالک جو دوستوں کے روپ میں آپ پر ایک اپنی ظالمانہ پالیسی حاکم کرنا چاہتے ہیں ان کی پالیسی کی نسبت انکار اور قوم و ملک کے آئین اور مفاد کے مطابق تعلیمی سیاسی اور اقتصادی پالیسی مرتب کرنا شجاعت کے ساتھ بصیرت کے ساتھ تھا کہ ملک ترقی کے اعلی مناظر پر فائز ہو سکے اگر یہ کرنے اور یہ فکر ہے تو یہ تکمیل پاکستان ہے اس خمیر کو علامہ اقبال نے پاکستان کے قالب میں ڈھالنے کی کوشش کی تھی نہیں ہے ۔
نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی (علامہ محمد اقبال رح)
نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔