۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
کیا مسلم ممالک میں یکجہتی ممکن ہے

حوزہ/ ہر کوئی دین کے نام پراپنا امپائرقائم کرناچاہتا ہے ۔سعودی برداشت نہیں کرے گا کہ وہ ایران کے ماتحت رہے اور ترکی تو قطعی راضی نہیں ہوگا کہ وہ ان میں کسی کے ماتحت رہے لیکن ہاں ! ہر کوئی یہ چاہے کہ فلاں اس کے ماتحت رہے ۔ یہی مشکل ہے امت واحدہ کی ۔ماضی کو فراموش کرنا، مذہبی اختلاف کو بالائے طاق رکھنا اور ایک مشترکہ سپریم پاور کا تصور ہی انہیں ترقی سے ہمکنار کرسکتا ہے۔

تحریر: عظمت علی

حوزہ نیوز ایجنسیاللہ کے رسول جب اس دنیا میں آئے تو قرآن نے انہیں عالمین کے لیے رحمت کہا اور مشرکین نے صادق و امین ۔ انہوں نے عرب میں طویل عرصہ سےقائم روایتی تعصب کو توڑ کر لوگوں کو’ امت واحدہ ‘میں پرویا ۔ اوس و خزرج کے مابین ایک دراز مدت سے دشمنی تھی ۔ دونوں ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے ۔ رسول اللہ نے ان دونوں کو متحد کیا اور ایک’ مسلم امہ‘ میں جوڑکر دونوں کے درمیان بھائی چارہ قائم کیا ۔ آپ کو عرب میں مبعوث کرنے کا اصل مقصد وہاں کی گری ہوئی ذہنیت اور بدوی فکر کی ہدایت کرناتھی۔ اُس وقت ان سے زیادہ بچھڑی قوم کا تصور نہیں تھا۔اللہ نے اپنے آخری پیغمبر کو وہاں بھیجا۔ آپ نے چالیس سال اخلاق کا عملی ثبوت فراہم کیا اور پست ترین قوم کو محبوب الٰہی مذہب سے روشناس کرایا۔ مختلف علاقوں میں منتشر قوم کو ایک راہ پر لاکر جمع کیا جسے ہم ’اسلام‘کہتے ہیں مگر جب آپ کی آنکھ بند ہوئی تو آپ کے تعلیمات کی راہیں بھی بند کی جانے لگیں ۔ لوگ راہ اسلام سے دور ہونے لگےاور اتنے دور ہوگئے کہ دشمن کے قریب پہونچ گئے ۔در حقیقت ہم رسول کی حیات سے جتنادور ہوتے جارہے ہیں ، بکھرتے جار ہے ہیں۔ پہلے ایک نظام تھا۔سب ایک تھے۔ پھر رسول کے بعد دو نظام ہوگیا ۔ وہیں سے سارے اختلافی پودے نشو نما پانے لگے اور اِس وقت ان پودوں نے تناور درخت کی شکل اختیار کرلی ہے۔ اب سب کا اپنا اپنا علاقہ ہے۔ اس لیے سب اپنے آپ کو خودمختار سمجھ بیٹھے ہیں۔ سب کی اپنی ریاست ہے ۔ اپنی پالیسی ہے اور اپنا نظام ۔

خیر …!اس میں مشکل کیا ہے …؟مشکل تو اس وقت ہے جب ہم اپنے نظام کو مسلم دشمنی پر بناتے ہیں۔ہمارے یہاں ابھی بھی چودہ صدی پرانا جھگڑا جاگ رہا ہے اور بعض اوقات غفلت میں چلا بھی جاتا ہے تو اسے پھر بیدار کردیا جاتا ہے۔ پاکستان میں جو کچھ ہورہاہے ، وہ سب کی نگاہوں کے سامنے ہے۔ محرم الحرام آتے ہی اختلافی بیان بازیاں تیز ہوجاتی ہیں اور ملکی پیمانہ پر افراتفری کا ماحول بن جاتا ہے۔ 

عظیم قوت والے اسلامی ممالک (ترکی، سعودی عرب اور ایران)میں روایتی دشمنی کو وجود ہی اسی لیے دیا گیا ہے کہ وقتا فوقتا اس سے کام لیا جاسکے۔ سلطنت عثمانیہ کے خاتمہ میں سعودی کا عرب کا بڑا ہاتھ تھاچوں کہ مکہ و مدینہ کی ریاست خلافت کا دایاں بازو تھا۔جب یہ دونوں اسلامی علاقے خلافت عثمانیہ کے ہاتھ سے نکل گئے تو اس کی کمر خمید ہ ہوگئی اور پھر اس خمیدہ کمر پر سعودی عرب کی حکومت کا چھراگھونپ دیا جس نے سلطنت کی کمر توڑدی۔ دوسری جانب آل سعودنے قدر ت پاتے ہی اہل تشیع کےمقامات مقدسہ مسمار کردیئے اور اب تک اس پر ستم جاری ہے۔ اس طرح سعودی عرب نے ترکی اور ایران دونوں ممالک سے دشمنی مول لی ۔اب جب بھی یہ دوستی کا ہاتھ بڑھائیں گے ماضی کے واقعات مستقبل کی ترقی کی راہ میں کانٹے بچھادیں گے۔

بہرکیف…!زخم کریدنے سے نہیں بھرتے الٹے غمگین یادیں تازہ ہوجاتی ہیں لیکن قابل غور بات یہ کہ کیا ابھی تک آپسی دشمنی میں کچھ کم کھویا ہے جو اسی معاندانہ مذہبی اور علاقائی دشمنی کے تسلسل پر گامزن ہیں …؟ان تینوں کی علیحدگی کا ایک سیاسی سبب تو یہ ہے کہ ہر کوئی دین کے نام پراپنا امپائرقائم کرناچاہتا ہے ۔سعودی برداشت نہیں کرے گا کہ وہ ایران کے ماتحت رہے اور ترکی تو قطعی راضی نہیں ہوگا کہ وہ ان میں کسی کے ماتحت رہے لیکن ہاں ! ہر کوئی یہ چاہے کہ فلاں اس کے ماتحت رہے ۔ یہی مشکل ہے امت واحدہ کی ۔ماضی کو فراموش کرنا، مذہبی اختلاف کو بالائے طاق رکھنا اور ایک مشترکہ سپریم پاور کا تصور ہی انہیں ترقی سے ہمکنار کرسکتا ہے۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .