۳۱ فروردین ۱۴۰۳ |۱۰ شوال ۱۴۴۵ | Apr 19, 2024
صابر ابو مریم

حوزہ/ مسئلہ فلسطین کی تاریخ کی بنیاد ایک صدی پر محیط ہے  لیکن اس مسئلہ سے فلسطینی عربوں نے کبھی بھی ہمت نہیں ہاری ہے اور مسلسل لگن اور جستجو کے ساتھ فلسطین کی آزادی کے لئے اور اپنے حق کی خاطر انتھک جد وجہد میں مصروف عمل ہیں، شاید یہی جدوجہد ہی وجہ بنی ہے کہ دنیا کی دیگر اقوام بھی مسئلہ فلسطین کی جانب متوجہ ہوئی ہیں۔

تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم

حوزہ نیوز ایجنسیمسئلہ فلسطین کی تاریخ کی بنیاد ایک صدی پر محیط ہے  لیکن اس مسئلہ سے فلسطینی عربوں نے کبھی بھی ہمت نہیں ہاری ہے اور مسلسل لگن اور جستجو کے ساتھ فلسطین کی آزادی کے لئے اور اپنے حق کی خاطر انتھک جد وجہد میں مصروف عمل ہیں، شاید یہی جدوجہد ہی وجہ بنی ہے کہ دنیا کی دیگر اقوام بھی مسئلہ فلسطین کی جانب متوجہ ہوئی ہیں۔

یہ مقالہ چونکہ ایسے ایام میں لکھا جا رہاہے کہ فلسطین کی ایک عظیم شخصیت شہید شیخ احمد یاسین کی برسی کے ایام ہیں، شیخ احمد یاسین فلسطین کی ایک 68سالہ اس شخصیت کا نام ہے جو دونوں پیروں سے معذور ہونے کے باوجود بھی ہمت و جہاد کے بلند مرتبہ پر فائز تھے، آپ کو سنہ2004ء میں 22مارچ کو اسرائیلی حملہ آور جہازوں نے نشانہ بنا کر بہیمانہ انداز میں قتل  کر دیا تھا ۔

جیسا کہ مندرجہ بالا سطور میں فلسطینیوں کی جہد مسلسل کا ذکر کیا گیا ہے لہذا اس جد وجہد میں شیخ احمد یاسین کا نام ہمیشہ سنہرے حروف میں رقم کیا جا ئےگاکہ جنہوں نے مادر وطن کے دفاع اور اپنی ملت و قوم کے حقوق کے لئے جہاد کیا اور شہادت کی منزل پر جا پہنچے ۔

شیخ احمد یاسین فلسطینی مزاحمتی گروہ حماس کے بانی اراکین میں شمار ہوتے ہیں، آپ نے حماس کی قیادت کی ہے  یہ بات حقیقت ہے کہ جب تک مصیبت میں مبتلا فرد یا قوم خود سے اس مصیبت کا مقابلہ نہیں کرتی اس وقت تک دنیا میں کسی بھی قوم اوراداروں کی جانب سے ان کی حوصلہ جوئی نہیں کی جا سکتی۔

یہ اس زمانہ کی بات ہے کہ جب ایران میں امام خمینی جیسی عظیم شخصیت کی قیادت میں اسلامی انقلاب جنم لے رہا تھا تو دوسری طرف فلسطین میں موجود چھوٹے چھوٹے مزاحمتی گروہ بھی اس انقلاب سے متاثر ہو کر منظم ہو رہے تھے ، یہ وہ زمانہ تھا کہ جب عرب حکومتوں نے اسرائیل کے سامنے اپنے ہتھیار ڈال دئیے تھے،  ایک عام فلسطینی جو عرب حکومتوں کو اپنا پشتیبان سمجھتا تھا اب یہ تصور کرنے لگا تھا کہ کیمپ ڈیوڈ جیسے معاہدوں کے بعد اب فلسطین اور فلسطینی عرب کا مستقبل تاریک سے تاریک تر ہوتا چلا جائے گا  تمام امیدیں دم توڑ رہی تھیں ۔

 ایسے حالات میں فلسطینی قیادت ڈاکٹر فتحی شقاقی، یاسر عرفا ت اور شیخ احمد یاسین جیسے افراد ایران کے اسلامی انقلاب کے بانی امام خمینی سے رابطہ میں آچکے تھے  اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ جب وہ تمام عرب ممالک اور حکومتیں جن سے فلسطینیوں کو امیدیں وابستہ تھیں وہ سب کے سب امریکہ اور اسرائیل کے سامنے گھٹنے ٹیک چکے تھے اور سودے بازی کر چکے تھے   ایسے وقت میں ایران سے امام خمینی کی ایک ایسی آواز کہ جس میں فلسطینی تحریک آزادی کی حمایت اور ایران میں امریکہ و اسرائیل نواز حکمرانوں کے خلاف قیام کا اعلان تھا، فلسطینی عوام اور تحریکوں کے لئے خاصا اثر کر رہا تھا ۔

سنہ 1979ء میں ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے فوری بعد مقبوضہ فلسطین میں حماس اور لبنان میں حزب اللہ جیسی مزاحمتی تحریکوں نے باقاعدہ جنم لیا اور فلسطین کی آزادی کی جنگ اور جد وجہد جو سنہ1970ء کے بعد سے کمزور پڑچکی تھی اور عنقریب امریکہ اور اسرائیل عرب حکمرانوں کے ساتھ مل کر اسے ختم کر دینا چاہتے تھے ایک مرتبہ پھر نئے جوش اور ولولہ کے ساتھ ابھر کر سامنے آ گئی ۔

اس دور میں شیخ احمد یاسین نے فلسطین کے مقبوضہ علاقوں میں باقاعدہ طور پر حماس کی قیادت کو سنبھالا، اسی طرح کچھ اور مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں ڈاکٹر فتحی شقاقی کی قیادت میں جنم لینے والا مزاحمتی گروہ جہاد اسلامی اپنی پوزیشن سنبھال چکا تھا جبکہ لبنان میں اسرائیلی افواج کے غاصبانہ قبضہ کے خلاف حزب اللہ سید عباس موسوی کی قیادت میں سرگرم عمل ہو چکی تھی ۔

اس زمانہ نے تحریک آزادی فلسطین کے بے جان جسم میں ایک متحرک اور جاندار قسم کی روح پھونک ڈالی تھی، تاریخ شاہد ہے کہ اس زمانہ کے بعد سے تحریک آزادی فلسطین مسلسل ترقی کی طرف گامزن ہے ۔ آج فلسطین کی آزادی اور قبلہ اول بیت المقدس کی بازیابی کے لئے جد وجہد کرنے والی تحریکیں اور مزاحمتی گروہ کئی گنا طاقتور ہو چکے ہیں اور اسرائیل کا مقابلہ کر رہے ہیں   جبکہ اسرائیل جو خو دکو ایک ناقابل تسخیر اور طاقتور فورس سمجھتا تھا اس قابل بھی نہیں رہا ہے کہ فلسطین اور لبنان میں مزاحمتی تحریکوں کے سامنے چند گھنٹے بھی جنگ لڑے، اس بات کا مشاہدہ گذشتہ چند سالوں میں بہت قریب سے کیا گیا ہے کہ جب اسرائیل مسلسل جنگوں میں شکست خوردہو کر فرار کرنے پر مجبور ہو اہے ۔

موجودہ حالات کے تناظر میں اگر فلسطینی تحریکوں کی جدوجہد کا تقابلی جائزہ لیا جائے تویہ بات ثابت ہے کہ آج بھی ماضی کی طرح چند عرب ریاستیں اور حکمران امریکہ اور اسرائیل کے حق میں فلسطین کاز سے دستبردار ہو چکے ہیں لیکن آج کی صورتحال سنہ1979کے پہلے کی صورتحا ل سے ایک سو اسی فیصد مختلف ہے کیونکہ اس سے قبل فلسطینیوں کی امید صرف عرب حکمرانوں سے تھی لیکن 1979ء کے بعد فلسطینی تحریکوں اور قوم کو مخلص دوستوں میں غیر عرب ریاستوں کی حمایت بھی حاصل ہے ۔

آج عرب دنیا کے حکمران یہ سوچ رہے ہیں کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کر کے اور اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کر کے فلسطین اور اس کاز کو ختم کر نے میں کامیاب ہو جائیں گے تو ان کے لئے صرف یہی کہا جاسکتا ہے کہ یہ سب کے سب تاریخ کے غلط راستے پر کھڑے ہیں  جہاں ان کو صرف اور صرف پشیمانی اور نقصان کے کچھ حاصل ہونے والا نہیں ہے، البتہ دوسری طرف فلسطین کے عوام اور فلسطینی تحریکیں ماضی کی نسبت زیادہ پر عزم اور پر امید ہیں۔

آج فلسطین کی آزادی کی جد وجہد کرنے والی تحریکیں فلسطین کے اندرونی و بیرونی مسائل کو حل کرنے کے ساتھ ساتھ مزاحمت کے میدان میں ڈٹ کرکھڑی ہیں، آج آزادی فلسطین اور قبلہ اول بیت المقدس کی بازیابی کی تاکید پہلے سے کئی گنا زیادہ شدت کے ساتھ کی جا رہی ہے یہی وہ تاکید اور عمل ہے کہ جس نے ثابت کیا ہے کہ اگر دنیا کے تمام عرب اور دیگر ممالک بھی اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہو جائیں اور فلسطین کی آزادی کی خاطر ایک فلسطینی بھی باقی رہے تو اس کا مطلب فتح و کامیابی فلسطین اور فلسطینی تحریکوں کی ہے نہ کہ ان خائن عرب حکمرانوں کی کہ جو اسرائیل سے دوستی کر رہے ہیں۔

آج ان تمام تر حالات میں فلسطینیوں کا، حق واپسی کا بھرپور موقف فلسطین کی آزادی کی تاکید ہے یعنی فلسطین سے نکالے گئے تمام باشندوں کی فلسطین واپسی درحققیقت فلسطین کی آزادی کا ایک منصفانہ راستہ اور حل بھی ہے۔

آج فلسطین کے اندرونی و داخلی انتشار کو فلسطینیوں نے اپنے اتحاد و یکجہتی کے ساتھ نابود کر کے فلسطین کی آزادی کی تاکید کی ہے فلسطینیوں کا اعلان کرنا کہ وہ فلسطین کی ایک انچ زمین سے بھی دستبردار نہیں ہوں گے یہ اس موقف کا اعلان ہے کہ فلسطین فلسطینیوں کا وطن ہے ،یہ موقف بھی فلسطین کی آزادی کی تاکید پر مبنی ہے ۔

فلسطینیوں کا اعلان کہ القدس ہی فلسطین کا ابدی دارلحکومت تھا اور ہے اور رہے گا، یہ یقینی طور پر دنیا کے حریت پسندوں کے لئے اہمیت کا حامل ہے اور فلسطین و قبلہ اول کی بازیابی کی تاکید کرتا ہے فلسطینی تحریکوں کا یہ اعلان کہ ایک بھی قیدی کو صہیونی جیلوں میں باقی نہیں رہنے دیا جائے گا حقیقت میں فلسطین کی آزادی کی تاکید ہے ۔

خلاصہ یہ ہے کہ فلسطینی تحریکوں کے شہداء اور قائدین کی قربانیوں کے باعث آج نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ تمام تر سخت حالات اور مشکلات کے باوجود کہ جب عرب دنیا بھی فلسطین کا ساتھ چھوڑ رہی ہے فلسطینیوں کے عز م اور حوصلہ بلند ہیں اور وہ پر امید ہیں کہ فلسطین جلد صہیونی شکنجہ سے آزادی حاصل کر لے گا، یہی وہی تاکید ہے جسے آج فلسطین سے باہر کی دنیا میں موجود فلسطین کاز کی حمایت کرنے والوں اور حریت پسندوں نے سمجھ لیا ہے اور دن رات مظلوموں کی حمایت میں سرگرم عمل ہے ۔ یہ الہیٰ وعدہ ہے کہ مظلوموں کی حکومت قائم ہو کر رہے گی اور ظالم و غاصب نابود ہوں گے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .