۱۰ فروردین ۱۴۰۳ |۱۹ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 29, 2024
امام عصر(عج)

حوزہ/ خداوند متعال نے اپنے بارہویں نور کو لوگوں سے پوشیدہ و مخفی رکھا ہے ۔اب یہ سوال ابھرتا ہے کہ حق متعال نے اپنی آخری حجت کو کیوں پردۂ غیب میں مخفی کر رکھا ہے؟۔

مقدمہ
حوزہ نیوز ایجنسیخداوند متعال نے اپنے بارہویں نور کو لوگوں سے پوشیدہ و مخفی رکھا ہے ۔اب یہ سوال ابھرتا ہے کہ حق متعال نے اپنی آخری حجت کو کیوں پردۂ غیب میں مخفی کر رکھا ہے؟ حضرت صاحب العصر والزمان عجل اللہ فرجہ الشریف کی غیبت کے اسرار پر قلم فرسائی کرنا نہ صرف دشوار ہی نہیں بلکہ ناممکن بھی ہے چونکہ فلسفۂ غیبت کے تمام پہلو ہمارے لیے منکشف نہیں ہیں ہم فقط اسی مقدار میں جان سکتے اور بیان کرسکتے ہیں جتنا ہمیں حضرات معصومین علیہم السلام نے بتایا ہے ذیل میں فلسفہ غیبت کے باب میں چند اہم پہلوؤں کو مختصر طور پر بیان کیا گیا ہے۔

۱۔غیب کے ذریعہ آزمائش
’’اَحَسبَ النّاس اَن یُترکُوا اَن یقولواامنَّا وَ ھُم لا یُتَنُون۔۔۔۔‘‘
قرآن مجید میں حضرت حق متعال نے صراحت لہجہ سے بیان فرمادیا کہ ہم ہر زمانےکے لوگوں کا امتحان لیں گے تاکہ اس امتحان کےذریعہ حقیقی مؤمنین کواور ایمان کا ڈھونگ رچانے والوں کو جدا کیا جا سکے، غیبت کے زمانے میں لوگوں کا خود غیبت کے ذریعہ سے امتحان لیا جائے گا تاکہ دین حق پر ثابت قدم رہنے والوں کے ایمان کے مراتب مشخص ہوسکیں اور یہ معلوم ہو سکے کہ کن کے دل حجت الہٰی کے لیے بیتاب ہو کر تڑپتے ہیں۔ 
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت ہے :
مفضل بن صالح کہتا ہے کہ حضرت ارشاد فرماتے ہیں:لوگوں پر ایک وقت ایسا بھی آئے گا جب ان کا امام ان سے غائب ہوگا تو اس زمانے میں امر امامت پر ثابت قدم عقیدہ رکھنے والوں کو بشارت ہو۔

۲۔ آخری حجت الہٰی کی حفاظت
حکومت کرنے کے لیے علوم و معارف کا تکامل ضروری ہے،فکری و اخلاقی رشد ضروری ہے ،معاشرے میں احکام الہٰیہ کے تحقق کے لیے ان کی پوشیدہ مخفی صلاحتوں اور توانائیوں کا اظہار ضروری ہے اور جب تک ایسا معاشرہ مہیا نہیں ہوتا ہمیشہ حضرت کی زندگی کو خطرہ لاحق رہے گا ، 
زرارہ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں:
امام منتظرؑ اپنے قیام سے پہلے لوگوں کی نظروں سے مخفی ہوں گے!زرارہ کہتا ہے میں نے حضرت سے سوال کیا:وہ کیوں مخفی ہوں گے؟حضرت نے جواب میں ارشاد فرمایا:انکی جان کو خطرہ ہوگا انہی جملات کے ساتھ حضرت نے اپنے بیٹ کی طرف اشارہ کیا جس سے زوارہ نے یہی نتیجہ نکالا کہ اگر وہ ظاہر ہوں تو انکی جان کو شدیدخطرہ ہے۔

۳۔ طاغوت زمان کی بیعت سے آزاد ہونا
حضرت صاحب الامر کسی بھی ظاغوت کے دور حکومت میں کسی بھی عنوان سے ولو تقیۃً اس کی حکومت کے سامنے خاموش نظارہ گر کی حیثیت سے نہ ہوں!! چونکہ اُن کا وظیفہ ہر قسم کی مصلحت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے دین خدا کو نافذ کرنا ہے۔
حسن بن فضّال کہتا ہے میں نے حضرت امام علی ابن موسیٰ رضا علیہ السلام کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ آپ فرماتے ہیں:
گویا میں اپنے شیعوں کو دیکھ رہا ہوں جب وہ میرے تیسرے فرزند کی شہادت کے بعد اپنے امام کو سب جگہ تلاش کریں گے لیکن وہ انھیں کہیں بھی نہیں ملیں گے!حسن کہتا ہے میں نے امامؑ کی خدمت میں عرض کی:وہ کیوں غائب ہوں گے؟ حضرت نے ارشاد فرمایا:اس لیے چونکہ جب وہ تلوار سےقیام کریں تو کسی کی بیعت اُن کی گردن پر نہ ہو۔
۴۔کافروں کی صلب میں مؤمنین کی موجود گی
حضرت امام زمان عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کا وجود کافروں کے لیے تباہی و بربادی میں اضافے کا باعث ہے یعنی جب حضرت ظہورفرمائیں گے تو ایمان لانے والوں کے علاوہ تمام کافروں کا قلع قمع کردیں گے حضرت کے آباؤ اجداد کا وطیرہ رہا ہے کہ وہ کافروں کی اصلاب میں مؤمن کے نطفہ کو مشاہدہ فرمانے کے بعد اسے قتل نہیں فرماتے تھے لہٰذا حضرت امام زمان کے ظہور سے پہلے تمام مؤمنین ان صلبوں سے خارج ہو چکے ہوں گے۔
ابو بصیر حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں سوال کرتے ہوئےعرض کرتا ہے کہ:حضرت امیرالمؤمنین علیہ السلام نے ابتدائی مراحل میں اپنے مخالفین سے جنگ کرتے ہوئے اپنا حق کیوں نہیں لیا؟ حضرت نے جواب میں ارشاد فرمایا:قرآن مجید کی اس آیۃ’’لو تزیّلوا لعذَّبنا الّذین کفروا منھم عذاباً ألیماً‘‘کی خاطر۔(اگر وہ ایماندار کفار سےالگ ہو جاتے تو ان میں سے جو لوگ کافر تھے ہم انھیں دردناک عذاب کی ضرور سزا دیتے)ابو بصیر کہتا ہے میں نے عرض کی مولا’’تزایل‘‘کا کیا مطلب ہے؟حضرت نے ارشاد فرمایا:مؤمنین کے نطفے جنہیں کافروں کی صلب میں بطور امانت رکھا گیا ہے(یعنی کافرین کی اصلاب میں مؤمنوں کے نطفے ہیں جو ولادت کے بعد موالیان اہلبیت علیہم السلام میں سے ہوں کی ان مؤمنین کی ولادت سے پہلے ہی صلبوں میں تلفی کی وجہ سے حضرت امیرالمؤمنین علیہ السلام نے قیام نہیں فرمایا)حضرت قائم علیہ السلام بھی اسی طرح اس وقت تک ظہور نہیں فرمائیں گے جب تک تمام مؤمنین ان صلبوں سے متولد نہیں ہو جاتے اورجب وہ سب متولد ہو جائیں گے تو حضرت ظہور فرماکر کافروں کا خاتمہ کر دیں گے۔

۵۔مؤمنین کی عقلی،فکری بلندیوں کا انتظار
حضرت امام زمان عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کی غیبت کے فلسفہ میں سے ایک اور حکمت جسے روایات اسلامی میں بیان کیا گیا ہے وہ مسلمانوں کا عقیدتی، فکری،فقہی وغیرہ جیسے مسائل میں خود کفیل ہونا ہے یعنی جب تک مسلمین اس قدر علمی صلاحت حاصل نہیں کر لیتے کہ اُن میں انسان کامل بننے کی صلاحت ہو ،اس وقت تک حضرت ظہور نہیں فرمائیں گے۔

۶۔ شیعیان کا راز دان نہ ہونا
حضرت صاحب الامر عجل اللہ فرجہ الشریف کی غیبت کے اسرار میں سے ایک فلسفہ شیعوں کا راز دان نہ ہونا بھی بیان کیا جاتا ہے یعنی حضرات معصومین علیہم السلام جو اسراراپنے شیعوں کے لیے بیان فرماتے تھے وہ انھیں فاش کرکے حضرات معصومین علیہم السلام کے لیے زحمتوں اور تکلیوں کا باعث بنتے تھےاور بعض اوقات یہی افشاء گری حضرات کی شہادت کا بھی باعث بنتی تھی۔
ابو بصیر کہتا ہے میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے دریافت کیاکہ:کیاحضرت مہدی عجل اللہ فرجہ الشریف کے ظہور کا معین وقت ہے جس کے بارے میں جان کر ہمارے قلوب کو تسکین ملے؟حضرت نے جواب میں ارشاد فرمایا:معین وقت تھا لیکن تم لوگ راز دان نہیں بہت جلد راز فاش کردیتے ہو اسی بنا پر خداوندمتعال نے اس مدت کو مؤخر کردیا ہے۔

ہم حوزہ نیوز ایجنسی کی جانب سے اپنے تمام قارئین و عالم اسلام بالخصوص منتظرین امام کو امام زمانہ(عج) کی ولادت با سعادت پر تبریک و تہنیت پیش کرتے ہیں 

تبصرہ ارسال

You are replying to: .