تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی
حوزہ نیوز ایجنسی | سورہ ہل اتیٰ کو سورہ انسان، سورہ دہر اور سورہ ابرار بھی کہتے ہیں۔ اس سورہ کی تلاوت کی فضیلت کے سلسلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
مَنْ قَرَأَ هَذِهِ اَلسُّورَةَ كَانَ جَزَاؤُهُ عَلَى اَللَّهِ جَنَّةً وَ حَرِيراً، وَ مَنْ أَدْمَنَ قِرَاءَتَهَا قَوِيتَ نَفْسُهُ اَلضَّعِيفَةُ، وَ مَنْ كَتَبَهَا وَ شَرِبَ مَاءَهَا نَفَعَتْ وَجَعَ اَلْفُؤَادِ، وَ صَحَّ جِسْمُهُ، وَ بَرَأَ مِنْ مَرَضِهِ
سورہ ہل اتی کی تلاوت کرنے والے کو جنت اور بہشتی لباس سے نوازا جائے گا اور جو اس کی تلاوت کرتا رہے گا اس کی کمزور روح کو تقویت ملے گی۔
(البرهان، سید هاشم بحرانی، بیناد بـعثت، تـهران، چـاپ اول، 1416ق، ج5، ص543، ح 2؛ نور الثقلین، عروسی حویزی، ج5، ص467، ح 3؛ مجمع البیان، طبرسی، ج10، ص 608.)
امام محمد باقرعلیہ السلام نے فرمایا: جو شخص ہر جمعرات کی صبح سورہ "ہل اتی" کی تلاوت کرے گا، اس کے علاوہ کہ خدا اس کو کئی حوریں عطا کرے گا اسے قیامت کے دن رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا جوار بھی نصیب کرے گا۔
(البرهان، سید هاشم بحرانی، ج5، ص543، ح 1؛ نور الثقلین، عروسی حویزی، ج5، ص467، ح 1 و 2؛ مجمع البیان، طبرسی، ج10، ص608.)
علی بن عمر عطار سے روایت ہے کہ میں منگل کے دن امام علی نقی علیہ السلام کی خدمت میں پہنچا تو آپؑ نے پوچھا: کل میں نے تمہیں نہیں دیکھا ۔ عرض کیا کہ پیر کے دن سفر کرنا بہتر نہیں سمجھا ۔ امام علی نقی علیہ السلام نے فرمایا: ائے علی! جو چاہتا ہے کہ اس کو خدا پیر کے دن کے شر سے محفوظ رکھے اسے چاہئیے کہ پیر کے دن نماز صبح کی پہلی رکعت میں سورہ حمد کے بعد سورہ ہل اتیٰ کی تلاوت کرے۔ اس کے بعد امام ؑ نے اس آیت کی تلاوت فرمائی۔
(نور الثقلین، عروسی حویزی، ج5، ص467، ح 4، و ص480، ح 42.)
مشہور شیعہ مفسر اور فقیہ شیخ طوسی رحمۃ اللہ علیہ اس سورہ کے ابتدا میں "ابرار" سے متعلق آیات کی تفسیر میں بیان کرتے ہیں : شیعہ اور اہل سنت علماء نے نقل کیا ہے کہ یہ آیتیں امیرالمومنین امام علی علیہ السلام ، حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا ، امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہیں جب آپ حضرات نے تین رات اپنی افطاری دوسروں کو دے دی تھی۔
(التـبیان، شـیخ طوسی، ج10، ص211.)
مرحوم علامہ شیخ طبرسی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی مذکورہ مطلب و مفہوم بیان کیا فرمایا ہے ۔
(مجمع البیان، مرحوم طبرسی، ج10، ص611)
جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ آیتیں مدینہ منورہ میں نازل ہوئی ہیں کیوں کہ امام حسن اور امام حسین علیہماالسلام مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے تھے۔
اس سورہ کے شان نزول کے سلسلہ میں جناب ابن عباس نے بیان فرمایا: امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام بیمار ہوئے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنے کچھ اصحاب کے ہمراہ انکی عیادت کے لئے تشریف لائے تو امیرالمومنین علیہ السلام سے فرمایا: ائے ابوالحسن! کیا بہتر ہوتا کہ تم اپنے بیٹوں کی شفایابی کے لئے نذر کرتے۔ امیرالمومنین علی علیہ السلام ، حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اور انکی کنیز جناب فضہ نے نذر مانی کہ اگر وہ صحتیاب ہو جائیں گے تو تین دن روزہ رکھیں گے۔ (بعض روایات کے مطابق امام حسنؑ اور امام حسینؑ نے بھی فرمایا کہ ہم بھی روزہ رکھنے کی نذر مانتے ہیں۔)
جب وہ دونوں صحت یاب ہوئے تو اس وقت ان کے گھر میں کھانے کو کچھ نہیں تھا ۔ امیرالمومنین علیہ السلام نے تین من جَو قرض لیا ۔ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے اس میں سے ایک من پیسا اور اس کی روٹی پکائی۔ جب آپ حضرات افطار کے لئے دسترخوان پر بیٹھے اسی وقت دروازے پر سائل آیا اور اس نے کہا ‘‘السَّلَامُ عَلَیْکُمْ یَا اَهْلَ بَیْتِ مُحَمَّد’’ ہم مسلمان مسکین ہیں ، ہمیں کھانا کھلائیں اللہ آپ کو جنت کی غذا عطا فرمائے گا۔ سب نے مسکین کو خود پر فوقیت دیتے ہوئے اپنی اپنی غذا اسے دے دی اور خود پانی پینے پر اکتفا کی۔
دوسرے دن بھی آپ حضرات نے روزہ رکھا اور جیسے ہی افطار کے لئے دستر خوان پر تشریف فرما ہوئے، ایک یتیم نے دق الباب کیا اور غذا کا مطالبہ کیا ، گذشتہ روز کی طرح آپ حضرات نے اپنی اپنی غذا یتیم کو دے دی اور خود پانی سے افطار کیا۔
تیسرے دن بھی روزہ رکھا جیسے ہی افطار کے لئے دسترخوان پر تشریف فرما ہوئے ایک اسیر نے غذا کا مطالبہ کیا اور آپ حضرات نے تیسرے دن بھی گذشتہ دو دنوں کی طرح اپنی اپنی غذا اسیر کو دے دی اورخود پانی سے افطار کیا ۔ صبح ہوئی تو امیرالمومنین علیہ السلام امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام کو لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دیکھا کہ بھوک سے ان کے نواسے کانپ رہے ہیں تو فرمایا: تمہیں اس حالت میں دیکھنا ہمارے لئے سخت ہے اور ان کو لے کر حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے بیت الشرف پر تشریف لائے۔ وہاں دیکھا کہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا محراب عبادت میں کھڑی مصروف عبادت ہیں اور بھوک کے سبب آپ کی حالت غیر ہے۔ یہ دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم غمگین ہوئے ۔ اسی وقت حضرت جبرئیل امین نازل ہوئے اور (بعد درود و سلام) عرض کیا کہ یہ سورہ لیں ، اللہ آپ کو ایسے اہل بیت پر مبارکباد دیتا ہے اور سورہ ہل اتیٰ کی تلاوت کی۔ (بعض مفسرین کا بیان ہے کہ ان الابرار سے سعیکم مشکورا تک 18 آیتیں اس موقع پر نازل ہوئی ہیں۔ )
(الغدیر، علامه امینی، مکتبة امیر المؤمنین العـامه، (فـرع تـهران)، چاپ چهارم، 1396ق، ج3، ص111؛ تفسیر نمونه، ناصر مکارم و جمعی از نویسندگان، ج25، ص344 و 345.)
شیعہ اور بعض اہل سنت مفسرین نے تواتر سے اس شان نزول کا ذکر کیا ، مرحوم علامہ فیروز آبادیؒ نے چند اہل سنت مفسرین سے (فضائل الخمسة من الصحاح السـتة، سـید مـرتضی فـیروزآبادی، انـتشارات اسـلامیه، تهران، چاپ دوم، 1392ق، ج1، ص254 ـ 259.)، صاحب کتاب الغدیر علامہ عبد الحسین امینی ؒ نے ۳۴ اہل سنت علماء سے (الغدیر، علامه امینی، ج3، ص107 ـ 111) اور شہید ثالث قاضی نور اللہ شوشتری رحمۃ اللہ علیہ نے ۳۶ اہل سنت علماء سے مذکورہ شان نزول بیان فرمایا ہے۔
(شرح احقاق الحق، حسین مرعشی شوشتری، با تحقیق شهاب الدین مرعشی نجفی، منشورات کتابخانه مرعشی نجفی، قم، بـیتا، ج3، ص157 ـ 171.)
مفسر قرآن ملا فتح اللہ کاشانی نے ‘‘ابرار’’ کی تفسیر میں بیان فرمایا: معلوم ہونا چاہیے کہ یہ آیت اور اس کے بعد کی آیتیں امیر المومنین، حضرت فاطمہ زہرا، امام حسن اور امام حسین علیہم السلام اور انکی کنیز جناب فضہ کی شان میں نازل ہوئی ہے۔ جیسا کہ شاعر نے کہا ہے
اَنَا عَبْدٌ لِفَتَی، اُنْزِلَ فِیهِ هَلْ اَتَی
إِلَی متَی أکتُمُهُ أکْتُمُهُ إِلَی مَتَی؟
میں اس جواں مرد کا غلام ہوں جس کی شان میں سورۃ ہل اتی نازل ہوئی۔ میں کب تک اس فضیلت کو چھپاوں گا اور کب تک چھپاتا رہوں گا؟
(تفسیر منهج الصادقین، ملا فتح الله کاشانی، ج10، ص97.)
امام محمد بن ادریس شافعی نے فرمایا
إلام ألام وَ حَتَّی مَتَی
أعَاتَبُ فِی حَبِّ هَذَا الْفتَی
وَهلْ زُوِّجَتْ فَاطِمُ غَیْرَهُ
وَ فِی غَیْرِهِ هلْ اَتی «هَلْ اَتی
کب تک اس نوجوان کی محبت پر میری سرزنش ہو گی اور تم کب تک مجھے قصوروار ٹھہراؤ گے۔ کیا فاطمہؑ کی شادی کسی اور سے ہوئی تھی؟ اور کیا سورہ "ہل اتی" ان کے علاوہ کسی اور کے بارے میں نازل ہوئی؟
(تفسیر منهج الصادقین، ملا فتح الله کاشانی، ج10، ص98)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت کے بعد جب امیرالمومنین امام علی علیہ السلام کا حق غصب ہوا تو آپ نے اسی سورہ کے ذریعہ احتجاج فرمایا، نیز جب حکومت شوریٰ کے حوالے ہوئی تو اس موقع پر بھی آپ نے اسی سورہ کے ذریعہ اپنی حقانیت کی دلیل پیش کی۔
خدایا: ہمیں اپنی، اپنے رسول اور اپنے اولیاء کی معرفت عطا فرما۔