۷ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۷ شوال ۱۴۴۵ | Apr 26, 2024
گریه

حوزہ / شیخ غلام حسن جعفری نے محرم الحرام کی مناسبت سے " نواسہ رسول اور آپؐ کے اہل بیت کے غم میں رونے کا فلسفہ" کے عنوان سے ایک تحریر لکھی ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، شیخ غلام حسن جعفری نے محرم الحرام کی مناسبت سے " نواسہ رسول اور آپؐ کے اہل بیت کے غم میں رونے کا فلسفہ" کے عنوان سے ایک تحریر لکھی ہے۔ جسے ہم قارئین کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں:

کتب ِتواریخ ،سیرت ،رجال اور حدیث سے قطعی طور پر ثابت ہے کہ آنحضرت ؐاپنے نواسہ حسین ؑ ابن علی پر اس وقت بھی روئے ہیں کہ ابھی حسین ؑ کی شہادت نہیں ہوئی تھی ۔کئی بار آپؐ کو اللہ تعالی نے جبرئیل کے ذریعے سے حسین ؑ کی شہادت کی خبر دی ۔جب جبرئیل علیہ السلام حسین ابن علی ؑکی شہادت کے متعلق کوئی خبر لاتے تو آنحضرت روتے اور آنسو بہاتے تھے۔ بعض روایات کے مطابق جبرئیل ؑنے کئی با ر حسینؑ کی شہادت کی جگہ کی مٹی کربلا سے لاکے پیغمبر ؐ کو پیش کی اور آنحضرت ؐنے اس مٹی کو اپنے بعض ازواج کے پاس بطور امانت رکھاتاکہ وہ اسے محفوظ رکھیں۔

مذکورہ مطلب کے بارے میں مختلف طرق سے روایات آئی ہیں۔ ہم یہاں چند ایک ذکر کرتے ہیں:

۱۔ علی بن الحسین ؑسے مروی ہے: اسماء بنت عمیس نے مجھ سے کہا: حسنؑ اور حسینؑ کی ولادت کے وقت میں نے آپ کی دادی فاطمہ ؑکی تیمارداری کی تھی۔جب حسینؑ کی ولادت ہوئی تو نبی ؐمیرے پاس تشریف لائے اور فرمانے لگے: اے اسماء! میرا بیٹا مجھے دےدو۔ پس میں نے ایک سفید کپڑے میں مولود کو آپ کے حوالے کیا۔ آنحضرتؐ نے حسینؑ کے داہنےکان میں اذان کہی اور بائیں کان میں اقامت۔ پھر آنحضرت نے آپ کو اپنی گود میں بٹھایا اور گریہ کیا۔ اسماء کہتی ہیں: میں نے عرض کیا: میرے ماں باپ آپؐ پر فدا ہوں، آپؐ کیوں روتے ہیں؟ فرمایا: میں اپنے اس فرزند پر رو رہا ہوں۔ میں نے عرض کیا :اس بچہ کی تو ابھی پیدائش ہوئی ہے ؟!۔ فرمایا: اے اسماء! اسے باغی گروہ شہید کرے گا۔ خدا ان کو میری شفاعت نصیب نہ کرے۔ پھر فرمایا: اے اسماء!فاطمہؑ کو اس کی خبر نہ دینا ،کیونکہ اس نے حال ہی میں اسے جنم دیا ہے۔‘‘

۲۔مقبرہ نے عائشہ سے روایت کی ہے کہ حضرت عائشہ نے کہا: جب رسول اللہ ؐآرام فرما رہے تھے تب حسینؑ آپ کے پاس تشریف لائے۔ پس میں نے اسے آنحضرت ؐکے پاس سے دور کیا۔ پھر میں اپنے کسی کام میں مشغول ہو گئی تو وہ حضور کے قریب گئے۔ تب حضور روتے ہوئے جاگے۔ میں نے عرض کی: آپ کیوں روتے ہیں؟ فرمایا: جبرئیل نے مجھے وہ مٹی دکھائی ہے جس پر حسینؑ قتل ہوگا۔ جو اس کا خون بہائے اس پر اللہ کا شدید غضب نازل ہو۔ پس آپؐ نے اپنا ہاتھ پھیلایا جس میں ایک مٹھی مٹی تھی۔ پھر آپ ؐنے فرمایا: اے عائشہ!قسم ہے اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ یہ امر مجھے محزون کر دیتا ہے۔ جو میرے بعد حسین ؑکو قتل کرے گا کیا وہ میرا امتی ہو سکتا ہے ؟

۳۔ام الفضل کی روایت ہےکہ وہ رسول اللہ ؐکی خدمت میں آئیں اور بولیں : اے اللہ کے رسول!میں نے آج رات ایک برا خواب دیکھا ہے۔ فرمایا وہ کیا ؟ام الفضل نے کہا : وہ بہت سخت ہے۔ فرمایا :اسے بیان کرو۔ بولیں: میں نے دیکھا گویا آپ کے جسم کا ایک ٹکڑا کاٹ کر میری گود میں رکھ دیا گیا ہے۔

رسول اللہؐ نے فر مایا: تو نے اچھا خواب دیکھا ہے۔ اللہ نے چاہا تو فاطمہؑ ایک بچہ جنے گی اور وہ تیری گود میں آ جائے گا۔ پس فاطمہ ؐنے حسینؑ کو جنم دیا اور وہ( فرمان رسول کے مطابق ) میری گود میں آگیا۔ پھر ایک دن میں رسول اللہ ؐکی خدمت میں گئی اور اسے آپ کی گود میں رکھ دیا۔ اور تھوڑی سی توجہ میری ہٹ گئی پھرمیں نے دیکھا کہ رسول اللہؐ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہیں۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسولؐ! میرے والدین آپ پر قربان ہوں ! آپ کو کیا ہو گیا ے؟ فرمایا : جبرئیل علیہ السلام نے میرے پاس آ کر مجھے خبر دی کہ میری امت میرے اس بیٹے کو قتل کرے گی۔ میں نے عرض کیا: اسے؟فرمایا : ہاں، اور مجھے اس کی تربت سے کچھ سرخ مٹی لا کر دی۔

اس بارے میں سینکڑوں احادیث پائی جاتی ہیں کہ پیغمبر ؐ نے حسین علیہ السلام پر ان کی شہادت سے پہلے ہی بہت گریہ کیا۔

تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی کی بچے کی پیدائش کے دن اس پر ماتم کیا گیا ہو سوائے حسین ابن علی کے ،کہ ان کی شہادت اور جائے شہادت کی خبر اسی دن ان کے جد امجد کو دیا گیا۔ معمولاً بچے کی ولادت کے وقت رشتہ داروں کو ،گھر والوں کو خوشی کے تحفے و تحائف پیش کیے جاتے ہیں لیکن حسین نواسہ رسول کی پیدائش پر شہادت کی مٹی بطور تحفہ دی گئی۔

مجلس عزا پر ائمہ علیہم السلام کی تاکید

حسین ابن علی ؑ کی مصیبت پر رونا ،مجلس عزا برپا کرنا نہ صرف پیغمبر ؐ کی سنت ہے بلکہ آپ ؐ کے آل واصحاب وتابعین اور تبع تابعین، علماء، صلحاء اور مومنین کی بھی سیرت و سنت ہے۔ چنانچہ امام زین العابدین سید الساجدین ذی الثفنات علی ابن الحسین نے شام وکوفہ میں یزید اور ابن زیاد علیہما لعائن اللہ کے درباروں میں اپنے بابا حسین ابن علی اور ان کے ساتھ شہید ہونے والوں کی شہادت پر مجلس عزاقائم کی اور ظالم حکام کے درباروں کو ہلاکے رکھ دیا۔

صحابی جلیل القدر حضرت جابر ابن عبد اللہ انصاری نے اربعین حسینی کےمراسم کو انجام دیا چنانچہ وہ کربلا آیا، قبر حسین ؑ پر حاضری دی، زیارت کی، مجلس عزا برپا کی۔ اربعین کے دن امام زین العابدین ؑ نے بھی کربلا میں مجلس عزاقا ئم کی۔بشیر بن جزلم سے نوحہ پڑھوایا۔رویا اور دوسروں کو بھی رلایا۔

جب اہل بیت کے اسرا مدینہ واپس لوٹے تو پورے مدینہ میں کہرام مچ گئی اور ہر طرف سے رونے کی آواز بلند تھی، امام زین العابدین علیہ السلام نے مدینہ میں بھی ماتم قائم کیا۔ آپ حسین ابن علی ؑ کی شہادت سے لیکر تادم حیات اپنے بابا کی یاد میں روتے ہی رہے۔

اس کے بعد امام صادق و باقر علیہماالسلام نے امام حسین ؑ کی مصیبت پر رونے اور مجلس عزا قائم رکھنے کی بھر پور تاکید کی، اس کے امام رضا ؑ کا دور آتا ہے جس میں انہوں نے بھی امام حسین ؑپر گریہ کرنے اور ان کی مصیبت کو یاد کرنے، رکھنے، اور یاد دلانے کے بارے میں بہت تالید فرمائی چنانچہ امام رضا علیہ السلام خود اپنے دولت سرا میں حسین ؑ کی یاد میں مجلس عزا برپا کرتے تھے، اس میں شاعروں، نوحہ خوانوں اور مرثیہ پڑھنے والوں کو مدعو کرکے لاتے تھے۔ جب وہ مرثیہ پڑھتے تو آپ روتے جاتے تھے کبھی کھبار ایسا ہوتا تھا کہ پردے کے اندر سے مخدرات کے رونے کی آوازیں بھی بلند ہوتیں۔

امام حسین کےغم میں رونے کافلسفہ

ماتمِ حسین اور عزا ئےحسین ؑ کی احیا میں در حقیقت اسلام کی احیا و بقا پوشیدہ ہے۔ اسی لیے ائمہ علیہم السلام اس کی برپائی پر بہت زور دیتے تھے۔ کیونکہ حسین اوراصحاب ِ حسین ؑ کی شہادت اسلام کی بقاو احیا کے لیے ہوئی تھی۔ چنانچہ معین الدین چشتی نے کیا خوب کہا ہے:

شاہ است حسین بادشاہ است حسین

دین است حسین دین پناہ است حسین

سر داد، نداد دست در دستِ یزید

حقا کہ بنائے لا الہ است حسین

ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم عزاداری کے ذریعےامام حسین علیہ السلام کی اس تحریک کو زندہ رکھیں کیونکہ اسی تحریک کی وجہ سے غفلت میں پڑے ہوئے لوگوں میں اسلامی بیداری، احساسِ ذمہ داری، اللہ کی راہ میں جان و مال کے ذریعے جہاد کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔

امام عالی مقام کی اس عظیم تحریک کے نتیجے میں اسلام کا حقیقی پیغام لوگوں تک پہنچتا رہتا ہے۔اس تحریک کی وجہ سے لوگوں کی مردہ ضمیریں جاگ جاتی ہیں۔

تحریک کربلا کے اہم نتائج میں سے ایک یہ ہے کہ اس کی وجہ سے امویوں (بنی امیہ) کے دھوکہ باز چہروں سے دھوکہ بازی اور نفاق کا پردہ اُتر گیا۔ معاویہ اور اس کے پیروکار اسلامی لبادے میں رہ کر اسلام منافی اعمال انجام دیتے تھے اور اپنے آپ کو رسول کا خلیفہ کہتے تھے لہذا امام حسین ؑ نے بنی امیہ کی اصل حقیقت سے پردہ اُٹھایا۔

کربلا کی تحریک سے الہام لیتے ہوئے تاریخ میں ظلم و جور کے خلاف بہت سی تحریکیں وجود میں آئیں گرچہ ان میں سے بعض شکست سے دچار ہوئے تا ہم ظلم و ظالم کے مقابلے میں ڈٹ جانے،راہ خدا میں قربانی دینے کا جذبہ جاری رہا اور رہے گا۔ اسلام کا چہرہ بنی امیہ کے عہد میں بالکل بگڑ کر مسخ ہونے والا تھا اتنے میں سید الشہداء نے اپنی عظیم قربانیوں کے ذریعے اسے پھر سے زندہ کیا اسی لئے شاعر نے کیا خوب کہا ہے:اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد ۔ نیز عرب شاعر نے بھی خوب کہا ہے: ان لم یکن دین محمد بقتلی فیا سیوف خذینی۔ اگر محمد ؐ کا دین میری شہادت کے بغیر زندہ نہیں رہتا تو اے تلوارو! آؤ مجھے گھیر لو۔

کربلا کی تحریک کے مقاصد میں امر بالمعروف، نہی عن المنکر، رسول اللہ کی سنت کو زندہ کرنا اور بدعتوں کو محو کرنا شامل ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ عزاداری کے ذریعے ان موضوعات کو زندہ رکھیں۔ اس تحریک کا ایک مقصد اصلاح ہے۔ اصلاح اپنے تمام تر پہلوؤں کے ساتھ مقصود ہے۔سیاسی اصلاح، تربیتی و اخلاقی اصلاح، معیشتی اصلاح، فکری اصلاح،عوام و خواص کی اصلاح سب مراد ہےکیونکہ بنی امیہ کے دورِ خلافت اور حکمرانی میں ان تمام جوانب میں بگاڑ اور فساد پیدا ہوچکے تھے اور اسلامی قوانین واقدار کو طاقِ نسیان رکھا گیا تھا اور کوئی امر و نہی کرنے والا نہیں تھا چنانچہ امام حسین ؑ نے اس حالت کو یوں بیان فرمایا ہے:

اَلا ترون انّ الحق لایعمل بہ وانّ الباطل لایتناھی عنہ۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ حق پر عمل نہیں ہوتا اور باطل سے منع نہیں کیا جاتا۔

خلاصہ یہ کہ عزاداری امام حسین ؑ آپ کے اہل بیت و انصار کی شہادت پر رونا، پیٹنا، مرثیے پڑھنا، نوحے کرنا، سینہ زنی کرنا اورمجالس عزا پڑھنا ان سب چیزوں کا مقصد اور فلسفۂ تحریک کربلا کے مقاصد و اہداف کو زندہ رکھنا ہے یعنی اسلام کے حقیقی تعلیمات اور احکام کی پاسداری کرنا ہے۔

والسلام علی من اتبع الھدی

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .