۹ فروردین ۱۴۰۳ |۱۸ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 28, 2024
کل یوم عاشورا

حوزہ / کمیل عباس زاہدی صاحب نے "عاشورا کے اخلاقی اور عملی دروس" کے عنوان پر تحریر لکھی ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، کمیل عباس زاہدی صاحب نے محرم الحرام کی مناسبت سے "عاشورا کے اخلاقی اور عملی دروس" کے عنوان پر تحریر لکھی ہے۔

عزیز دوستو! ماہ محرم ، ماہ غم وماتم اہل بیت ؑکی آمد پر امام زمان عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کی خدمت میں تعزیت پیش کرتے ہیں۔

آ پ جانتے ہیں کہ محرم ایسا مہینہ ہے جس میں ایک چھوٹے سے گروہ نے امام حسین ؑ کی رہبری میں اسلام ناب محمدی کی آبیاری کے لئے قیام کیا۔محرم حق وباطل کے درمیان جنگ کا مہینہ ہے اسی لئے امام خمینی ؒ فرماتے ہیں:’’ ماہ محرم تلوار پر خون کی فتح کا مہینہ ہے، یہ محرم وصفر ہے جس نے اسلام کی حفاظت کی ہے۔ ‘‘

اسلام کی راہ میں امام حسین ؑکی مظلو میت کو دنیا جانتی ہے لیکن اہم یہ بات ہے کہ ہمیں احیا ئے عاشورا اور امام کی مظلومیت کو بیان کرنے کے علاوہ مراسم عزاداری کو اجرا کرنے کے لحاظ سے امام کی حقیقی پیروکاری کا ثبوت دینا چاہئے اور یہی اطاعت اور پیروی ہی ہے جس کے ذریعے امام حسین ؑکا ہدف حاصل کیا جا سکتا ہے۔

امام حسین ؑ کااخلاق اور انصاف

امام حسین ؑ اپنے دوستوں بلکہ اپنے دشمنوں کے ساتھ بھی اخلاق اور انصاف کے ساتھ برتاؤ کرتے تھے اس کا ایک نمونہ یہ ہے کہ جب حر بن یزید ریاحی ایک ہزار سواروں کے ساتھ آپ ؑ کے مقابلے میں آکھڑاہواتو امام نے دیکھا کہ اس کی فوج اور سواریاں بہت ہی پیاسی ہیں۔آپ ؑنے اپنے اصحاب سے فرمایا: حر، اس کی فوج اور سواریوں کو پانی پلادیں! پس ان کو سیراب کیا گیا،امام علیہ السلام کے انصار، برتنوں میں پانی ڈال کر ان کے چوپایوں کے پاس لے جاتے اوربرتن اس وقت تک نہیں اٹھاتے تھے جب تک وہ مکمل سیراب نہ ہوتے تھے۔ علی ابن طعان محاربی کہتا ہے:میں سب سے آخر ی فرد تھا،جو بہت ہی پیاسا تھا خود امام حسین ؑ نے مجھے سیراب کیا۔(منتہی الامال)

دیکھئے!امام حسین ؑ نے اپنے دشمنوں کے ساتھ کیسا برتاؤ کیا ہمیں بھی کم از کم اپنوں کے ساتھ اسی طرح کے اخلاق کا حامل ہونے چاہئیں۔

حر کی توبہ اور پشیمانی کاسبب امام ؑکا اخلاق تھا۔ جب تک ہم خودبااخلاق اور باانصاف نہ ہو جائیں دوسروں تک عاشورا والوں کے اخلاق اور انصاف کے درس کو نہیں پہنچاسکتے۔

امام کا اپنے دوستوں کے ساتھ برتاؤ

امام ؑ نے شب عاشوراپنے تاریخی خطاب میں اپنی اور اپنے اہل بیت ؑکی جان بچانے کی طرف دعوت دینے کی بجائے ساتھ آنے والوں کی گردن سے اپنی بیعت اٹھالی اور ان کو آزاد چھوڑ دیا اور فرمایا: ابھی رات کی تاریکی نے تمہیں ڈھانپ لیا ہے ،رات کو اپنے لئے غنیمت جان لو اور جہاں چاہے چلے جاؤ۔

ہمیں بھی چاہئے کہ اپنی شخصیت ،اقتصادی اور سیاسی مقام کو بچانے کی خاطر دوسروں کی زندگی سے نہ کھیلیں؛ بلکہ لوگوں کو فردی،اجتماعی ،اقتصادی اور سیاسی امور میں آزاد چھوڑدیں تاکہ وہ خود اپنی قسمت کا فیصلہ کرسکیں اور اچھے انداز میں زندگی گزار سکیں۔

احکام الٰہی پر عمل

امام ؑ اور آپ کے اصحاب بہت ہی سخت حالات میں بھی احکام الٰہی کو اہمیت دیتے تھے۔اس کا ایک نمونہ ظہر عاشور میں نماز جماعت کا قیام ہے۔واقعے کا خلاصہ یہ ہے کہ ابو ثمامہ صیداوی، ظہر کے وقت امام کی خدمت میں آئے اور عرض کیا: میری جان آپ پر فدا ہو !ہم دیکھ رہے ہیں یہ لشکر( عمر سعد) آپ کے قتل کے مرحلے میں ہے لیکن خدا کی قسم! آپ ؑ اس وقت تک شہید نہ ہوں گے جب تک آپ کے سامنے مجھے قتل نہ کیا جائے اورمیں اپنے ہی خون میں غلطاں نہ ہوجاؤں۔ میں چاہتا ہوں ظہرکی نماز آپ کی امامت میں انجام دوں اور اسی حالت میں خدا سے ملاقات کروں ۔امام ؑنے فرمایا:اے ابو ثمامہ! تم نے نماز کی یاد دلائی ہے خدا تجھے نماز گزاروں میں سے قرار دے! امام نے اس خطرناک حالت میں نماز قائم کی۔ ہمیں بھی چاہئے کہ نماز ترک نہ کریں اور جتنا ہو سکے نماز اور دوسرے واجبات کو اہمیت دیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .