۹ فروردین ۱۴۰۳ |۱۸ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 28, 2024
مولانا سید صفی حیدر زیدی 

حوزہ/ سربراہ تنظیم المکاتب نے کہا: نہ صرف دور حاضر بلکہ ہر دور میں عالم انسانیت بالعموم اور بالخصوص عالم اسلام کی مشکلات کا واحد حل مستضعفین مسلمین اور مومنین کی وحدت و اخوت میں رہا ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،لکھنو/ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور امام جعفر صادق علیہ السلام کی ولادت با سعادت کی عالم اسلام کی خدمت میں  مبارکباد پیش کرتے ہوئے امام خمینی ؒ کے عرفانی فیصلہ ’’ہفتۂ وحدت‘‘ کی مناسبت سے تنظیم المکاتب کے سکریٹری حجۃ الاسلام و المسلمین عالیجناب مولانا سید صفی حیدر زیدی صاحب قبلہ نے فرمایا: نہ صرف دور حاضر بلکہ ہر دور میں عالم انسانیت بالعموم اور بالخصوص عالم اسلام کی مشکلات کا واحد حل مستضعفین مسلمین اور مومنین کی وحدت و اخوت میں رہا ہے۔ جب  اور جہاں بھی مستضعفین یا مسلمین کے اتحاد کو عملی شکل ملی دشمن کی ساری سازشیں ناکام ہو گئیں اور عالم انسانیت، عالم اسلام سرخرو ہوا۔ دور حاضر میں اسلامی انقلاب کی کامیابی اورعالمی ظلم و استبداد کے سامنے مٹھی بھر لوگوں کا ڈٹ کر کھڑے ہو جاناہمارے مدعا کی دلیل ہے کہ عالمی استعمار نے اسلام دشمنی میں کوئی کسرنہ چھوڑی اورنہ ہی چھوڑ رہا ہے لیکن بیداری اور وحدت اسے ہر محاذ پر ناکام کر رہی ہے۔ یہ بیداری اور اتحاد سب کے لئے درس ہے کہ اگر دشمن کی چالوں کو ناکام کرنا ہے تو اپنی انا کو قربان کرنا ہوگا اور فرعی مسائل کو نظر انداز کرتے ہوئے مشترک نکات کو مضبوط کرنا ہو گا۔ کتنے تعجب کی بات ہےکہ ذاتی مفاد کے پیش نظر انسانیت کے معیار پر تمام اختلافات کو فراموش کر دیا جاتا ہے لیکن دینی مفاد کے لئے توحید کے معیار کو نظر انداز کر کے فرعی مسائل کو ہوا دی جاتی ہے۔

مولانا سید صفی حیدر زیدی صاحب نے فرمایا:  ائمہ اہلبیت علیہم السلام نے اسی اتحاد و اخوت کی خاطر اپنے حق سے محرومی برداشت کی، مصائب پر تحمل کیا لیکن عالم اسلام کے شیرازہ کو بکھرنے سے بچا لیا اور اسی کی تاکید کی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعد جب اسلام دشمن طاقتوں نےدوست بن کر امیرالمومنین علیہ السلام کا حق دلانے کے لئے کے لئے مکمل حمایت کی پیشکش کی تو آپ نے اسے ٹھکرا دیا اور جب دشمن عالم اسلام کا درپے ہوا تو آپ نے اپنے مخالفین کو بھی مفید مشورے دے کر اسلامی وحدت کی نئی تاریخ رقم کی۔ یہی سیرت ہمارے دیگر ائمہ علیہم السلام کی بھی رہی کہ جب جب اسلام پر وقت پڑا تو اپنے مخالف دشمن اور قاتل حاکموںکی مدد کی تا کہ عالم اسلام محفوظ رہے۔ عصر غیبت میں علمائے ابرار کی بھی یہی روش رہی۔ شہید آیۃ اللہ العظمیٰ شیخ فضل الله نوری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی جان قربان کر دی، شہید ہو گئے لیکن اسلام دشمن طاقت کی ذرہ برابر حمایت تو دور انکی روش کو ایک لمحہ کی رضامندی بھی نہیں دی۔

سربراہ ادارہ تنظیم المکاتب نے فرمایا: جس طرح انسانیت کی خاطر مستضعفین کے درمیان اتحاد اور دین اور امت کے مفادکی خاطر اتحاد بین المسلمین ضروری ہے اسی طرح مذہب و مکتب اہلبیتؑ کے مفاد میں مومنین کے درمیان اخوت و برادری نہایت درجہ لازم ہے ۔ مومنین کے درمیان اختلاف کے نقصانات مسلمانوں کے درمیان اختلاف کے نقصانات سے کم نہیں ہیں بلکہ بعض اوقات زیادہ نقصان کا احساس ہوتا ہے۔ معصومین علیہم السلام نے ہمیں جہاں اتحاد بین المسلمین کا حکم دیا وہیں مومنین کے آپسی اتحاد کی بھی تاکید کی ہے۔ کثرت سے روایتیں موجود ہیں جنمیں مومنین کے آپسی اتحاد، میل جول، ایک دوسرے کے یہاں آنا جانا، ملاقات کرنا، ایک دوسرے کی غلطیوں کو معاف کردینا اور ایک دوسرے کے ساتھ نیکی کرنے کا حکم ہے۔ اکثر زیارتوں میں موجود ہے خصوصاً زیارت عاشورا میں ’’اِنّي سِلْمٌ لِمَنْ سالَمَكُمْ وَحَرْبٌ لِمَنْ حارَبَكُمْ وَوَلِىٌّ لِمَنْ والاكُمْ وَعَدُوٌّ لِمَنْ عاداكُمْ‘‘ یعنی مولا حسینؑ ! ہم اس کے لئے امن و سلامتی ہیں جو آپ سے مل کر رہے اور اسکے لئے جنگ ہی جنگ ہیں جو آپ سے لڑے اور ہم اسکے دوست ہیں جس نےآپ سے محبت کی اور اسکے دشمن ہیں جسنے آپ سے دشمنی کی۔  لہذا ہمیں اس اہم فریضہ سے کبھی غافل نہیں ہونا چاہئیے ۔ یہی ائمہ اہلبیت علیہم السلام کا حکم اور علمائے ابرار کی روش رہی ہے۔ 

سکریٹری تنظیم المکاتب نے فرمایا: ہمیں ہر لمحہ ہوشیار رہنا چاہئیے کیوں کہ دشمن کبھی بھی ہم سے غافل نہیں رہتا، ضروری نہیں کہ ہمیشہ لشکر کشی کرے بلکہ اکثر سازشیں رچتا ہے اور اپنے- قدیم فریبی اصول ـ’’ تقسیم کرو اور حکومت کرو‘‘ کے مطابق آپس میں ہی لڑا کر خود خاموش تماشائی بن جاتا ہے ۔ ہم اپنی طاقت،دولت ،جان سب آپس میں ٹکرا کر ضائع کر دیتے ہیں جسے دشمن کے مقابلہ میں کام آنا چاہئیے تھا کہیں جاہل اور احمق دین کا لباس اوڑھے اور دینی نعرے لگاتے ہوئے دہشت گردانہ حملہ کرتے ہیں۔ کہیں ولایت ومحبت ومولائیت کا لبادہ اوڑھ کر جوانوں کو راہ حق و توحید سے ہٹانے والے سرگرم دکھائی دیتے ہیں۔یہ مجرم سب کو نظر آتے ہیں لیکن اس جرم کے پس پردہ دشمن کسی کو نہیں دکھائی دیتے، سوال یہ ہے کہ آخر ان جاہلوں کو اسلحے کون فراہم کرتا ہے، کس نے انکو دہشت گردی کی ٹریننگ دی، کس کے اشارے پر یہ خونی کھیل کھیلا گیا۔ مسلسل دو جمعوں سے افغانستان میں بے گناہوں کے خون سے ہولی کھیلی جا رہی ہے لیکن تمام عالمی اداروں کی خاموشی بلکہ عالم اسلام کی افسوس ناک خاموشی انکی بے حسی اور عالمی استعمار کی سازشوں کو بے نقاب کر رہی ہے۔ دوسری طرف کون ہے کہ بقلم خود مولائی،غدیری بنے راتوںرات گھروں گاڑیوں کے مالک ہو جاتے ہیں اور بڑے بڑے پروگرام کرنے لگتے ہیں جن میں لاکھوں کے اخراجات ہوتے ہیں جو انکی حیثیت کےخانےمیں نہیں سماتے۔

 ہماری تمام امت مسلمہ سے بالخصوص اور تمام مومنین و مومنات سے بالخصوص گذارش ہے کہ دشمن کی سازشوں سے ہوشیار رہیں اور اپنی صفوں میں اتحاد و اتفاق کی فضا کو قائم رکھیں۔

 آخر میں دعا گو ہیں کہ مالک راہ حق میں شہید ہونے والوں کو جوار شہداء کربلا عنایت فرما ۔ہمارے جوانوں کو توفیق دے کہ دشمن اور دوست کو پہچان سکیںاور چند سکوں کے لئے ایمان بیچنے والوں سے خود کو بچا سکیں جو اپنی دنیا کے لئے دوسروں کی آخرت کو برباد کر رہے ہیں۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .