۱ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۱ شوال ۱۴۴۵ | Apr 20, 2024
مولانا تقی عباس رضوی

حوزہ/ آج ہمارے درمیان ہماری صفوں میں ایسے بھی لوگ ہیں جو ظاہری شکل وصورت میں مسلمان اور ارکانِ اسلام کے پابند توی دکھتے ہیں ، لیکن درپردہ کفریہ عقائد و افکار پر قائم کفار کی بزم میں جام سے جام ٹکراتے اسلامی احکام و تعلیمات اور مسلمانوں کا چہرہ مخدوش کرتے نظر آتے ہیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،ہندوستان کے معروف محقق و مؤلف اور اہلِ بیت فاؤنڈیشن کے نائب صدر نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ عالم اسلام سے نفاق کے گہرے بادل کا مہیب سایہ چھٹنے کے بعد ہی ارض فلسطین کو آزادی اور مسلمانوں کو ان کا کھویا ہوا وقار میسر ہوگا۔

انہوں نے اضافہ کرتے ہوئے کہا کہ آج اسی مہلک بیماری نفاق اور دوغلے پن کا نتیجہ ہے کہ مسلمانان عالم طرح طرح کی آزمائشوں میں مبتلا ہیں اور عالمی استکبار کے زیر تسلط زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔

 ارض فلسطین آج اسی نفاق کے مہیب سایہ تلے دبی ہے

آج فلسطینی عوام کو اسی منافقت 
کا خمیازہ بھگتنا پڑ رہا ہے!

مزید کہا کہ آج ہمارے درمیان ہماری صفوں میں ایسے بھی لوگ ہیں جو ظاہری شکل وصورت میں مسلمان اور ارکانِ اسلام کے پابند توی دکھتے ہیں ، لیکن درپردہ کفریہ عقائد و افکار پر قائم کفار کی بزم میں جام سے جام ٹکراتے اسلامی احکام و تعلیمات اور مسلمانوں کا چہرہ مخدوش کرتے نظر آتے ہیں۔

جیسے اسلامک ممالک کے بیشتر حکمراں اور ان میں بالاخص طیب اردوغان کہ جسے امت مسلمہ کے کچھ حواس باختہ مسلمان مجاہد اسلام کے نام سے پکارتے ہیں اس کی مثال کاغذی شیر جیسی ہے جو بظاہر اپنے دشمنوں کو طاقت ور اور دھمکانے کا موقف رکھتا ہے مگر وہ در حقیقت بے اثر اور کسی مقابلے میں کھرا اترنے کے قابل نہیں ہے.۔

انہوں نے اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ وہی طیب اردوغان ہے جو اسرائیل تل آویو میں چالیس سالہ افق التاس جو ترکی کی وزارت خارجہ کے تحت قائم سینٹر آف سٹریٹجک ریسرچ کا چیئرمین ہے اسے کوئی اور نہیں بلکہ رجب طیب اردوغان نے ہی ترکی کی سفارت کے لیے چنا ہے۔

یہ وہی ترکی ہے جو امریکہ میں بائیڈن کے اقتدار سنبھالنے کے بعد ترکی امریکہ سے اپنے تعلقات ٹھیک کرنا چاہتا ہے اور اسی لیے اسرائیل سے سفارتی تعلقات بحال کر کے اس نے راہ ہموار کی ہے۔

یہ وہی ترکی ہے جو دنیا میں سب سے پہلے  اسرائیل کے تعلقات کی ابتدا اسرائیل کے وجود میں آنے کے فوراً بعد ہی مانا۔

مولانا تقی عباس رضوی کا کہنا تھا کہ مسلمانوں کی اکثریت والے تمام ممالک میں ترکی نے 1949 میں سب سے پہلے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا تھا. اور آج بھی دونوں ملکوں کے تعلقات جغرافیائی قربت اور مشترکہ مفادات کے باعث معاشی، سیاحتی، تجارتی اور دفاعی شعبوں تک پھیلے شعبے ساری دنیا کے لئے عیاں مگر پھر بھی اسے لوگ مجاہد ہونے اور اسلام کا خالص ہمدرد کہتے نہیں تھکتے! اور اس کے مقابلے اسلامی جمہوریہ ایران کی حقیقی ہمدردی اور ہر طرح کی اعانت و مدد کا کتمان کرتے شرم و حیا تک نہیں کرتے۔
 
طیب اردوغان ایسا انسان ہے جس کا موقف و کردار آج تک نہیں کھل پایا!ایک طویل عرصے سے اسرائیل اور فلسطین کے متعلق بیانات دیتا ہے لکھتا ہے مگر مسئلہ وہی جوں کا توں ہے۔ 

روز بن برسے گزرتا ہے گرجتا بادل 

ایک طرف کفر، جو اس کے دل میں ہے۔ دوسرا ایمان جو اس کی زبان پر ہے۔ اگر کفر سے اسے کسی نقصان کا اندیشہ ہو تو وہ اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرنے لگتا ہے اور اگر اسلام کے باعث اسے کوئی تکلیف پہنچ رہی ہو تو وہ فوراَ اپنے کو سیکولر ہونے کا اعلان کر دیتا ہے۔
ارشاد باری تعالٰی کے مطابق ایسے ہی لوگ دائمی عذاب کے مستحق ہیں ’’ إِنَّ الْمُنَافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ ۔یقین جانو کہ منافقین جہنم کے سب سے نچلے طبقے میں ہوں گے،‘‘

یہ کہنا حق بجانب ہے کہ عالم اسلام کو سب سے زیادہ نقصان نفاق نے پہنچایا ہے،گزشتہ تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ یہ منافقین ہی تو تھے جنہوں نے اپنے دوغلے پن اور دوغلی سازشوں سے اسلام کے کتنے ہی مراکز تبا ہ و برباد کر دیے ہیں اور کتنے ہی قلعوں کی در و دیوار کو اکھاڑ پھینکا ہے۔ اسلامی نشانات کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا ہے اور کتنے اسلامی اصولوں میں شکوک و شبہات پیدا کر کے ان کو ختم کرنے کی کو ششیں کی ہیں۔اور آج بھی یہی وہ ناسور نفاق ہے جو اسلام اور عصر حاضر کے مسلمانوں کے لیے سب سے زیادہ نقصان دہ ثابت ہورہا ہے. 

ہندوستان کے برجستہ عالم دین نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ فلسطین پر اسرائیلیوں کا غاصبانہ تسلط اور آئے دن مظلوم فلسطینیوں پر ٹوٹنے والے کوہ ستم کے جو سارے عالم پر عیاں ہے اسے اسلام کے نام پر اقتدار میں آنے والے کم و بیش ستاون ممالک کے حکمرانوں کی اکثریت فلسطین کو اسرائیل کے چنگل سے آزاد کرانے اور غاصب صهیونیوں کو منھ توڑ جواب دینے کی باتیں محض زبانی دعویٰ ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ ان کا اصل سرمایہ دھوکا دہی اور مکر و فریب ہے، ان کی جمع پونجی دروغ گوئی اور خیانت ہے۔ وہ باطل طریقے سے کھانے پینے کی زبردست صلاحیت رکھتے ہیں اور دونوں فریقوں (مومنین و کافرین) کو خوش رکھنے کی کوشش میں لگے ہیں۔

فلسطین نہ جانے آج سے بہت پہلے ہی آزادی کی سانس لے رہا ہوتا اگر اسلامی حکمراں اور امت مسلمہ نفاق، بے حسی اور غفلت کے خول سے نکل کر اسلام مخالف عالمی طاقتوں کی کھلی مخالفت و مزاحمت کے سامنے متحد و مستحکم ہوجاتے مگر! افسوس ڈیرھ ارب سے زائد مسلمان پرتعیش زندگی گزارنے کے تمام وسائل پٹرول ، ڈیزل ، تیل وگیس وغیرہ کے وافر ذخائر رکھنے کے باوجود جانی و مالی نقصان اٹھانے پر محض مجبور نہیں ہیں بلکہ اب ان پر عرصہٴ حیات تنگ بھی تنگ ہوتا نظر آرہا ہے!

یہ دُرگت اسی نفاق کا نتیجہ ہے یہ حالات زار خواب غفلت، بے حسی، بے توجہی اور باہم متحد نہ ہونے کا ہے 

فلسطین کی موجودہ صورتحال اور اسرائیل جیسے ناسور کی پے در پے غزہ اور اس کے اطراف و اکناف میں جاری حملات ہمیں اس بات کی طرف متوجہ کر رہے ہیں کہ جب تک مسلمان اپنی صفوں میں اتحاد و یکجہتی قائم نہیں کریں گے ، رُسوائی اور پسماندگی کی بیڑیاں ان کے پیروں میں پڑی رہیں گی اور ہمیشہ کی طرح آنے والے کل میں بھی دشمنوں کے جبر کے حصار میں روتے بلکتے دنیا سے اپنی زندگی کی بھیک مانگتے رہیں گے

شاعر مشرق علامہ اقبال کے یہ اشعار ہمیں ہر زمانے میں جھنجھوڑتے رہیں گے کہ :
منفعت ایک ہے اس قوم کی نقصان بھی ایک

ایک ہی سب کا نبی ،دین بھی ایمان بھی ایک

حرمِ پاک بھی اللہ بھی قرآن بھی ایک

کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک

آخر میں کہا کہ صدیوں پرانے رونما ہونے والے تلخ حادثات، واقعات اور اختلافات کو چھوڑ موجودہ وقت میں فلسطین میں عالم اسلام سےمدد کی گوہار لگاتے بوڑھے بزرگ لوگ، آہ و فریاد کرتی مائیں، بہنیں روتے بلکتے بھوک سے نیم جاں بے گھر بچوں کو دیکھ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اب نفاق سے نکل کر خواب غفلت سے بیدار ہو کر اپنی غیرت دینی اور زندہ دلی کا ثبوت دیتے ہوئے اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں اور فلسطین پر اسرائیلیوں کا غاصبانہ تسلط اور آئے دن مظلوم فلسطینیوں پر ٹوٹنے والے کوہ ستم پر عملی اقدامات کرنے کی کوشش کریں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .