حضرت زینب (س) اور قرآن کریم

حوزہ/ قرآن کریم کا حضرت زینب کی زبان پر جاری ہونا اور اس سے استدلال کرنا یہ ظاہر کررہا ہے کہ وہ قرآن سے کبھی دور نہیں ہوئی اور قرآن کو ہمیشہ مشعل راہ بنایا جب کہ مصیبت کے عالم میں انسان سب کچھ بھول جاتا ہے لیکن انھوں نے ہم کو سبق دیا کہ کسی بھی حالت میں قرآن کے دامن کو نہیں چھوڑنا اور جہاں تک ہوسکے اس پر عمل پیرا ہوا جائے کربلا والوں کا آخری پیغام  قرآن پر عمل  ہے ۔

تحریر: حجۃ الاسلام والمسلمین مولانا ڈاکٹر ذوالفقار حسین 

مقدمہ: 
حوزہ نیوز ایجنسی حضرت زینب علیہا السلام کے سلسلے میں قلم کو اس بات کی جرات  دینا کہ اس کے فضائل کو ثبت و ضبط کرے جس کو عالمہ غیر معلمہ ، محدثہ ، مفسرہ، کہا گیا ہے محال ہے ان کی پیدائش قرآن کریم کے سایہ میں ہوئی ان کا ہر ایک لمحہ قرآن کریم سے وابستہ تھایوں  کہا جائے کہ ان کی ہر ایک سانس قرآن کی مرہون منت ہے ان کی گفتار ان کا کردار ان کی رفتارکا آئینہ قرآن ہے وہ کبھی قرآن سے جدا نہیں ہوسکتے وہ بولے تو قرآن وہ چلے تو قرآن وہ اٹھے تو قرآن کیوں ایسا نہ ہو کیونکہ وہ بولتے ہوئے  قرآن ہیں اور اگر دربار ابن زیاد ،یزید میں قرآن سے استدلال کرے تو کوئی عجیب بات نہیں ہے وہ ایسی ذات ہیں جن کی زبان اطہر سے قرآن کے گران بہا الفاظ موتیوں کی طرح شفاف نظر آتے ہیں ۔

حضرت زینب (ع) کی مختصر سوائنح عمری
حضرت زینب کی ولادت میں اختلاف ہے بعض نے 5،جمادی الاولی ششم ہجری مدینہ میں لکھا ہے بعض نے دوسرے اقوال بھی نقل کئے ہیں لیکن جو مطلب اجماعی ہے وہ یہ ہے کہ وہ امام حسن اور امام حسین علیہما السلام کے بعد جناب زہرا علیہا السلام کی تیسری فرزند ہے ۔(اقتباس از سیرہ حضرت زینب ، سید مصطفی موسوی خرم آبادی ، صص27۔29)آپ کی وفات مشہور قول کی بنا پر 15 ،رجب 62 ہجری کو ہوئي (سیمای زینب در آئینہ تاریخ ،ص192)آپ کے مشہور القاب زینب کبری (الخصائص الزینبہ، السید نور الدین الجزائری ،ص35) صدیقہ صغری ،عقیلہ بنی ہاشم، محدثہ ،عالمہ۔۔۔(بحار الانوار ، باقر مجلسی ، ج45،ص64)

زینب (ع) اور قرآن کی تفسیر  
قرآن کریم جس گھر میں نازل ہوا اس گھر کی پروردہ کا نام زینب (ع) ہے قرآن کی تفسیر کے بارے میں جو چیز تاریخ میں آئي ہے وہ یہ ہے کہ حضرت امام علی علیہ السلام کے ظاہری خلافت کے زمانے میں کوفہ میں وہاں کی خواتین کے لئے قرآن کی تفسیر بیان کرتی تھی ایک دن (کہیعص)کی تفسیرکررہی تھی ان کے گھر میں امام علی (ع) تشریف لائے اور فرمایا : اے میری آنکھوں کا نور !میں نے سنا ہے کہ عورتوں کے لئے (کہیعص) کی تفسیر بیان کررہی ہو ؟زینب نے کہا جی ہاں امیر المومنین!فرمایا کہ یہ کلمات رموز ہیں جو تم پر اور اہل بیت علیہم السلام پر جو مصیبتیں کی جائے گی پھر اس کے بعد مصائب اور اندوہ کو بیان کیا یہ سنتے ہی زینب نے گریہ وزاری کیا ۔(الخصائص الزینبیہ،نور الدین جزائری ،ص97) 

زینب نے قرآن کے بیان کو کسی بھی حالت میں نہیں چھوڑا اور دربار ابن زیاد اور یزید میں ذوالفقار صفت خطبہ کو بیان کیا جس میں مختلف طریقہ سے قرآنی آیات سے استدلال کیا جس طرح زہرامرضیہ علیہا السلام نے دربار خلافت میں قرآن سے استدلال کیا تھا اور دشمنان اسلام کے دلوں کو پارہ پارہ کردیا ۔

خطبہء کوفہ میں قرآنی آيات سے استدلال 
دشمنان اسلام نے قرآن کو ایک کھیل بنا لیا تھا اور وحی الہی کو بنی ہاشم کا ایک مکر و فریب بیان کرنا شروع کردیا ایسی میں وارث قرآن امام حسین علیہ السلام نے یزید ملعون کے خلاف جہاد کرنے سے دریغ نہیں کیا اور اس راہ میں خدا کی بارگاہ سے جا ملے اور نفس مطمئنہ کو قرار مل گیا لیکن اس کے بعد بھی قرآنی پیغامات کو دنیا تک پہنچانا تھا اس لئے زینب کو یہ سنگین ذمہ داری دی جس کو انھوں نے بخوبی انجام دیا اور قرآنی آیات سے دربار باطل کو ہلا دیا ابن زیاد کے دربار میں خطبہ کو بیان کیا جس کو مختلف تواریخ نے نقل کیا ہے ہم یہاں اس کو ذکر کررہے ہیں اور اس کی کچھ قرآنی شعاعوں کو بیان کریں گے ۔
الْحَمْدُ لِلَّهِ وَ الصَّلَاةُ عَلَى أَبِي مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ الطَّيِّبِينَ الْأَخْيَارِ أَمَّا بَعْدُ يَا أَهْلَ الْكُوفَةِ يَا أَهْلَ الْخَتْلِ وَ الْغَدْرِ أَ تَبْكُونَ فَلَا رَقَأَتِ الدَّمْعَةُ وَ لَا هَدَأَتِ الرَّنَّةُ إِنَّمَا مَثَلُكُمْ كَمَثَلِ الَّتِي‏ نَقَضَتْ غَزْلَها مِنْ بَعْدِ قُوَّةٍ أَنْكاثاً تَتَّخِذُونَ‏
أَيْمانَكُمْ دَخَلًا بَيْنَكُمْ‏ أَلَا وَ هَلْ فِيكُمْ إِلَّا الصَّلَفُ وَ النَّطَفُ وَ الصَّدْرُ الشَّنَفُ وَ مَلَقُ الْإِمَاءِ وَ غَمْزُ الْأَعْدَاءِ أَوْ كَمَرْعًى عَلَى دِمْنَةٍ أَوْ كَفِضَّةٍ عَلَى مَلْحُودَةٍ أَلَا سَاءَ مَا قَدَّمَتْ لَكُمْ أَنْفُسُكُمْ أَنْ سَخِطَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ وَ فِي الْعَذَابِ أَنْتُمْ خَالِدُونَ أَ تَبْكُونَ وَ تَنْتَحِبُونَ إِي وَ اللَّهِ فَابْكُوا كَثِيراً وَ اضْحَكُوا قَلِيلًا فَلَقَدْ ذَهَبْتُمْ بِعَارِهَا وَ شَنَارِهَا وَ لَنْ تَرْحَضُوهَا بِغَسْلٍ بَعْدَهَا أَبَداً وَ أَنَّى تَرْحَضُونَ قَتْلَ سَلِيلِ خَاتَمِ النُّبُوَّةِ وَ مَعْدِنِ الرِّسَالَةِ وَ سَيِّدِ شَبَابِ أَهْلِ الْجَنَّةِ وَ مَلَاذِ خِيَرَتِكُمْ وَ مَفْزَعِ نَازِلَتِكُمْ وَ مَنَارِ حُجَّتِكُمْ وَ مَدَرَةِ سُنَّتِكُمْ أَلَا سَاءَ مَا تَزِرُونَ وَ بُعْداً لَكُمْ وَ سُحْقاً فَلَقَدْ خَابَ السَّعْيُ وَ تَبَّتِ الْأَيْدِي وَ خَسِرَتِ الصَّفْقَةُ وَ بُؤْتُمْ بِغَضَبٍ‏
مِنَ اللَّهِ وَ ضُرِبَتْ عَلَيْكُمُ الذِّلَّةُ وَ الْمَسْكَنَةُ وَيْلَكُمْ يَا أَهْلَ الْكُوفَةِ أَ تَدْرُونَ أَيَّ كَبِدٍ لِرَسُولِ اللَّهِ فَرَيْتُمْ وَ أَيَّ كَرِيمَةٍ لَهُ أَبْرَزْتُمْ وَ أَيَّ دَمٍ لَهُ سَفَكْتُمْ وَ أَيَّ حُرْمَةٍ لَهُ انْتَهَكْتُمْ وَ لَقَدْ جِئْتُمْ بِهَا صَلْعَاءَ عَنْقَاءَ سَوْآءَ فَقْمَاءَ وَ فِي بَعْضِهَا خَرْقَاءَ شَوْهَاءَ كَطِلَاعِ الْأَرْضِ أَوْ مِلْ‏ءِ السَّمَاءِ أَ فَعَجِبْتُمْ أَنْ مَطَرَتِ السَّمَاءُ دَماً وَ لَعَذابُ الْآخِرَةِ أَخْزى‏ وَ أَنْتُمْ لَا تُنْصَرُونَ فَلَا يَسْتَخِفَّنَّكُمُ الْمَهْلُ فَإِنَّهُ لَا يَحْفِزُهُ الْبِدَارُ وَ لَا يُخَافُ فَوْتُ الثَّارِ وَ إِنَّ رَبَّكُمْ‏ لَبِالْمِرْصادِ.
قَالَ الرَّاوِي:
فَوَ اللَّهِ لَقَدْ رَأَيْتُ النَّاسَ يَوْمَئِذٍ حَيَارَى يَبْكُونَ وَ قَدْ وَضَعُوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْوَاهِهِمْ وَ رَأَيْتُ شَيْخاً وَاقِفاً إِلَى جَنْبِي يَبْكِي حَتَّى اخْضَلَّتْ لِحْيَتُهُ وَ هُوَ يَقُولُ بِأَبِي أَنْتُمْ وَ أُمِّي كُهُولُكُمْ خَيْرُ الْكُهُولِ وَ شَبَابُكُمْ خَيْرُ
الشَّبَابِ وَ نِسَاؤُكُمْ خَيْرُ النِّسَاءِ وَ نَسْلُكُمْ خَيْرُ نَسْلٍ لَا يُخْزَى وَ لَا يُبْزَى.
                    (اللہوف ،سید ابن طاووس ،ص146)

(1) یہ خطبہ بغیر بسم اللہ ۔۔۔ سے شروع ہوا ہے جس طرح قرآن میں سورۂ توبہ شروع ہوئي ہے ۔
(2) اس خطبہ میں کامل قرآن کی آیت کا انعکاس ہوا ہے ۔سورہ مریم۔آیت 89۔90
(3) اس خطبہ میں بعض آیات کے حصے کو حضرت زینب نے بیان کیا ہے جیسے الحمد للہ۔۔۔
(4) اس خطبہ میں قرآن کی بعض آیات جو ایک دوسرے سے ترکیب پائی ہے ان کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے    لَبِئْسَ ما قَدَّمَتْ لَهُمْ أَنْفُسُهُمْ أَنْ سَخِطَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ وَ فِي الْعَذابِ هُمْ خالِدُونَ   سورہ مائدہ/80(الا ساء ما یزرون) سورہ انعام /31
(5) قوم یہود سے دربارئیوں کو حضرت زینب نے تشبیہ دی ہے ۔

نتیجہ :

قرآن کریم کا حضرت زینب کی زبان پر جاری ہونا اور اس سے استدلال کرنا یہ ظاہر کررہا ہے کہ وہ قرآن سے کبھی دور نہیں ہوئی اور قرآن کو ہمیشہ مشعل راہ بنایا جب کہ مصیبت کے عالم میں انسان سب کچھ بھول جاتا ہے لیکن انھوں نے ہم کو سبق دیا کہ کسی بھی حالت میں قرآن کے دامن کو نہیں چھوڑنا اور جہاں تک ہوسکے اس پر عمل پیرا ہوا جائے کربلا والوں کا آخری پیغام  قرآن پر عمل  ہے ۔

شاعر: اشفاق نجمی کامٹوی 
میثمی کلیجہ ہے حوصلہ بلالی ہے 
ہم حسین والوں کی بات ہی نرالی ہے 
دل ضریح سرورہے اور آنکھ جالی ہے 
ہم نے اپنے سینہ میں کربلا بنا لی ہے
حر کا کیا نصیبہ ہے حر کا کیا مقدر ہے 
راہ میں پڑی جنت دیکھ کر اٹھا لی ہے 
دشمن حسین آیا اس طرح سے محشر میں 
یہ بھی ہاتھ خالی ہے وہ بھی ہاتھ خالی ہے 
کربلا کے میداں میں رنگ ہے یہ اکبر کا 
صورۃ جمالی ہے سیرۃ جلالی ہے 
کربلا کے شیشے میں اور نجف کے ساغر میں 
خلد اور جنت تو اپنی دیکھی بھالی ہے 
آپ اشک سمجھے ہیں اشک کب ہیں دامن میں 
کہکشاں نگاہوں سے توڑ کرگرالی ہے 
عظمت شہادت کی بلندیاں دیکھو 
خوں پڑا ہے ریتی پر آسماں پہ لالی ہے 
فیض شاہ سے نجمی حق کی راہ میں اپنا 
دل حبیب والا ہے شکل جون والی ہے  
 

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .