حوزہ نیوز ایجنسی | حالیہ فوجداری قانون ترمیمی ایکٹ 2021 کو مدنظر رکھتے ہوئے اس بل کے متعلق چند وضاحت طلب نکات سے حوزہ نیوز ایجنسی کے قارئین کو آگاہ کیا جا رہا ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
معزز اراکین پارلیمنٹ اور اہلِ قلم حضرات !
نام نہاد بنیاد اسلام بل کی پاکستان میں ہر ذمہ دار مکتبِ فکر کے علماء کرام، سیاسی رہنماؤں اور سب سے بڑھ کر دانشور اور صحافی برادری نے کھل کر مذمت کی جس کی وجہ سے یہ تکفیری منصوبہ ناکامی سے دوچار ہوا، الحمدللہ؛ اب اسی بل کو یہی تکفیری دہشتگرد ٹولہ مزید خطرناک شکل میں لے کر آیا ہے اور اس مقصد کے لیے سپاہ صحابہ کی بجائے جماعتِ اسلامی کو استعمال کیا گیا ہے۔
بظاہر اس ناصبی بل کا مقصد پاکستان میں بسنے والے کروڑوں اہل تشیع اور محبان اہلبیت اہلسنت کو نشانہ بنانا ہے لیکن حقیقت میں یہ بل وطن عزیز کو ایک معتدل اسلامی جمہوریہ سے موجودہ افغانستان کی طرز پر ایک ملائیت اور فسطائیت زدہ ریاست بنانے کے لیے لایا گیا ہے؛ یعنی کوئی بھی عالم، عام مسلمان، سرکاری یا غیر سرکاری ملازم جو ان طالبان کے حامی تکفیری دہشت گردوں کی من گھڑت تشریح "اسلام" سے اختلاف کرے، اسے عمر بھر کے لیے جیل میں ڈال دیا جائے۔
اس بل کے بارے میں چند حقائق ہم بساط بھر گوش گزار کرنا چاہتے ہیں:
1 : قرآن و سنت کی خلاف ورزی
صحابہ کرام رضی اللہ عنہ اور ازواج رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی توہین کسی بھی مکتب فکر کے نزدیک قبیح ترین فعل ہے؛ شیعہ مراجع نے اسے فعل حرام قرار دیا ہے؛ البتہ تمام مکاتب فکر کے نزدیک صحابہ کرام رضی اللہ عنہ معصوم عن الخطا نہیں ہیں؛ ان کے کسی قول و فعل سے اختلاف کرنا ہرگز "توہین" نہیں ہے؛ قرآن مجید نے جہاں بعض صحابہ کی توصیف کی، وہاں بعض کی تنقیص بھی بیان کی؛ پیغمبر اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بعض صحابہ پر حد بھی جاری فرمائی۔
خلفائے راشدین کی بہت بڑی خوبی یہ تھی کہ عام مسلمان ان سے اختلاف بھی کرتے تھے اور تنقید بھی۔ خزرج کے سردار اور پیغمبر اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خاص صحابی حضرت سعد بن عبادہ نے تمام عمر حضرت شیخین کی بیعت نہیں کی؛ اسی طرح حضرت سعد بن ابی وقاص نے امام علی علیہ السلام کی بیعت نہیں کی؛ صحابہ کا آپس میں اختلاف بھی ہوتا تھا حتی کہ جنگیں بھی ہوئیں۔
صحابہ کرام سے اختلاف پر عمر قید یا کسی بھی قسم کی سزا کے بارے میں کوئی ایک آیت یا حدیث بھی موجود نہیں۔ اگر ہوتی تو خلفائے راشدین اس سے استدلال ضرور فرماتے۔ اسی لیے اس بل پر تمام مکاتب فکر کے علماء کا استدلال لینے کی بجائے اسے محض 25 دینی ناخواندہ ممبرانِ اسمبلی سے چوروں کی طرح منظور کروایا گیا ہے اور اس کا مقصد اسلام کو اپنے ذاتی مفادات اور عوام الناس پر جبر و استبداد کے لیے استعمال کرنا ہے۔
2: آئینِ پاکستان سے بغاوت
پاکستان شیعہ سنی تمام مکاتب فکر نے مل کر بنایا؛ پاکستان کا آئین ہر مکتب فکر کو اپنے عقائد بیان کرنے اور ان کی ترویج کی اجازت دیتا ہے۔
3: سلاطین بنو امیہ شیعہ اور سُنی کے مقدسات میں شامل نہیں ہیں
جن افراد نے اہل بیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر مظالم ڈھائے، امیر المومنین علی علیہ السلام کے خلاف جنگیں کیں، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو قتل کیا اور منبروں سے اہل بیت علیہ السلام پر تبرا کیا اور کروایا؛ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں "باغی" اور "جہنم کی طرف بلانے والا" قرار دیا اور قرآن نے انہیں "شجرہ ملعونہ" کہا ۔انکے بارے میں احادیث رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم بیان کرنے پر ملک بھر میں پہلے ہی ایف آئی آرز کاٹی جا رہی ہیں۔ انہیں افراد کو "واجب الاحترام" قرار دلوانے کے لیے یہ نیا فتنہ لایا گیا ہے۔
حکومت سے دو ٹوک مطالبات
1: ناصبیوں کو گستاخی رسول اللہ (ص) سے روکا جائے
یہ بل لانے والے ناصبی سرعام توہین رسالت مآب ص کرتے ہیں اور نعوذ بااللہ رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کو "کافروں کی اولاد" کہتے ہیں؛ آپ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے والدین کریمین دین ابراہیم علیہ السلام پر تھے؛ آپ کے والدین اور محسن اسلام چچا حضرت ابو طالب علیہ السلام کو نعوذ باللہ "کافر" کہنے والے کو توہین رسالت ایکٹ 295سی کے تحت سزائے موت دی جائے اور ایسی تمام غلیظ کتب فوری ضبط کی جائیں۔
2 تکفیر پر سزا نافذ کی جائے
ناصبی دہشتگرد مسلمانوں کی تکفیر کرتے ہیں؛ یہی لوگ ٹارگٹ کلنگ، پولیس اور پاک فوج پر حملے کرتے ہیں؛ شیعہ، سنی، اہلحدیث، دیوبندی، بریلوی، کسی بھی مکتب فکر کو کافر، مشرک، گمراہ، بدعتی قرار دینے پر عمر قید کی سزا دی جائے۔
3: مساجد اور عبادت گاہوں کا تحفظ
کسی بھی مکتب فکر یا مذہب کی عبادت گاہ، جلسہ، جلوس پر حملہ کرنے یا اکسانے پر عمر قید کی سزا دی جائے۔
4:پیغام پاکستان دستاویز کو قانون بنایا جائے
اس دستاویز پر تمام مکاتب فکر کا اتفاق ہوا ہے اور 5000 علماء کرام کے دستخط موجود ہیں۔
5: توہین کے جھوٹے الزام پر مدعی کو اسلامی قانون کے مطابق وہی سزا دی جائے
حال ہی میں کراچی ایئرپورٹ پر ایک مسیحی خاتون پر توہین مذہب کا جھوٹا الزام لگایا گیا جو وائرل ہوا؛ رحیم یار خان میں شیعہ مکتب کے کچھ افراد پر نعوذبااللہ صحابہ کرام کے پتلے جلانے کا شرمناک الزام لگایا گیا؛ ایف آئی آر درج ہوئی؛ یہ واقعہ بالکل بے بنیاد اور جائیداد پر قبضہ کا منصوبہ نکلا، لیکن کسی بھی کیس میں جھوٹا مقدمہ درج کروانے والے کو سزا نہیں ہوئی۔ اب توہین مذہب کے نام پر درج ہونے والی شرمناک ایف آئی آرز کے چند نمونے ملاحظہ فرمائیے:
۔ ایف آئی آر نمبر 388 تھانہ کلر کہار ضلع چکوال، تاریخ 25 اگست 2021، وجہ جرم "توہین یزید"(پلید)
۔ ایف آئی آر نمبر 207 /21، تھانہ ڈھڈیال ضلع چکوال، تاریخ 07 اگست 2021، وجہ "جرم"؛ "ملزم" نے فیس بک پر کہا کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک ہی بیٹی حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا تھیں۔
۔ ایف آئی آر نمبر 192/21 تھانہ ڈھڈیال ضلع چکوال، تاریخ 27 جولائی 2021، جرم: "ملزم" نے فیس بک پر لکھا کہ" شاہ مرداں امام علی علیہ السلام کے پیروکاوں کو 18 ذی الحجہ عید غدیر مبارک ہو"۔
چند مزید ایف آئی آرز ملاحظہ فرمائیں جو صوبہ پنجاب کے مختلف علاقوں میں درج کی گئی ہیں:
۔ اپنے گھر میں کونڈوں کی نیاز امام جعفر صادق علیہ السلام کھلانے پر ایف آئی آر
۔ گھر کی دیوار پر "دم دم یا علی علیہ السلام " لکھنے پر ایف آئی آر
۔ امام حسین علیہ السلام کے قاتل عمر بن سعد پر لعنت کرنے پر ایف آئی آر
یہ پاکستان ہی نہیں، دنیا بھر میں عقائد پر ہونے والا بدترین اور انوکھا ترین ریاستی سلوک ہے۔ جس کی کوئی مثال دنیا کے کسی ملک اور پاکستان کی 74 سالہ تاریخ میں نہیں ملتی؛ مٹھی بھر ناصبیوں کی خوشنودی کیلئے آئین پاکستان کو روندا جا رہا ہے اور مذہبی آزادی کے بین الاقوامی قانون کو پامال کیا جا رہا ہے۔ ضرورت فرقہ وارانہ ہم آہنگی پیدا کرنے اور ناصبیت، تکفیریت اور دہشت گردی کو روکنے اور اس کے خلاف قانون سازی کی ہے۔
25 اراکین اسمبلی کو چوروں کی طرح بل "پاس" کر کے پاکستان کے 25 کروڑ افراد کو یرغمال بنانے کا کوئی حق نہیں ہے۔ ہم اس نام نہاد غیر اسلامی، غیر آئینی، غیر انسانی اور طالبانی بل کو کسی بھی صورت میں قبول نہیں کریں گے؛ یہ ہماری مذہبی آزادی اور پاکستان کی سلامتی کا معاملہ ہے جس پر کوئی بھی سمجھوتہ نہیں ہوسکتا۔
حکومت جان لے کہ اس بل کے کرتا دھرتا وہ کانگریسی ملاں ہیں جنہوں نے قیام پاکستان کی مخالفت کی اور قائداعظم کو نعوذ باللہ "کافر اعظم" کہا۔ اس دہشت گرد ٹولے نے داتا دربار سے لے کر بری امام اور شہباز قلندر تک کے مزار پر خودکش حملہ کیے اور اسے "جہاد" قرار دیا؛ 70,000 سویلین اور 25,000 غیور فوجیوں کا پاکیزہ خون ان کے نجس ہاتھوں سے ٹپک رہا ہے اور آج پھر عوام کو دھوکہ دینے کے لیے یہ دہشت گرد نیا روپ دھار کر سامنے آئے ہیں۔
ہم ایسے ملک دشمن عناصر کے آگے سر جھکانے والے نہیں ہیں لہذا ان سماج دشمن عناصر کی چالوں میں نہ آئے اور ایسے فرقہ وارانہ بل لانے والوں کو نکیل ڈالی جائے۔
پاکستان "اسلامی جمہوریہ" ہے، "ناصبی ملک" نہیں۔