۵ آذر ۱۴۰۳ |۲۳ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 25, 2024
مولانا سید حیدر عباس رضوی 

حوزہ/ مولانا نے دو ٹوک کہا کہ اس دور کے مسلمان حکمران ابوذر کو اس لئے پسند نہیں کرتے تھے کیونکہ ابوذر رسول کا فرمان پیش کرتے تھے اور حکمرانوں کو ان کی کمیوں کی جانب توجہ دلاتے رہتے تھے۔اسی جرم میں انہیں جلا وطن کیا گیا۔یہ ابوذر کی جلا وطنی تھی کہ اس عالم میں بھی آزادی کا نعرہ بلند کیا۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،بھوپال/ ماہ مبارک رمضان کی انیسویں تاریخ صبح کے وقت مسجد کوفہ میں امام عدل وصی رسول حضرت علی ابن ابیطالب کے سر پر ضربت لگی جس کی یاد میں پوری دنیا میں غم منایا جا رہا ہے۔اسی سلسلہ میں ہر سال کی طرح امسال بھی عزاخانہ ابوطالب نزد بھوپال ریلوے اسٹیشن عظیم الشان مجالس عزا کا اہتمام کیا گیا۔جس سے خطاب کرنے شہر لکھنؤ سے جوانسال مبلغ مولانا سید حیدر عباس رضوی تشریف لائے۔

خطیب مجلس نے سورہ بلد کو سرنامہ سخن قرار دیتے ہوئے اصحاب یمین اور اصحاب شمال کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ مفسرین نے یمین سے مراد امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کو لیا ہے۔

عظیم صحابی ابوذر غفاری آزادی کی علامت قرار پائے: مولانا سید حیدر عباس رضوی 

حضرت علی علیہ السلام کے اصحاب میں اکثر وہ اصحاب ہیں جنہیں رسول اکرم کی صحابیت کا شرف بھی ملا جن میں جناب سلمان،جناب ابوذر،جناب مقداد اور جناب عمار خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔

مولانا سید حیدر عباس نے عالم اسلام سے شکوہ کیا کہ جب آپ اصحاب کا تذکرہ کرتے ہیں تو کیوں چند افراد تک ہی اس تذکرہ کو محدود کر دیتے ہیں جبکہ انہیں اصحاب میں جناب ابوذر غفاری بھی ہیں جن کا پورا نام جندب ابن جنادہ ہے۔دعوت اسلام سے قبل بھی ابوذر موحد تھے۔شراب کو برا سمجھتے تھے۔ابوذر کی اہم ترین صفت آپ کی عقلمندی ہے جس کے سبب آپ نے خود کو رسول تک پہنچانے کے لئے مکہ کا رخ کیا جہاں حضرت علی سے ملاقات ہوئی اور انہیں کے ساتھ رسول تک گئے۔لہذا عالم اسلام سمجھ کے کہ بزرگ صحابی کا یہ عمل بیان کر رہا ہے کہ رسول تک براہ راست جانے کا ارادہ نہ کرے بلکہ حضرت علی کے ذریعہ رسول تک جائیں۔

مولانا سید حیدر عباس رضوی نے اہلسنت عالم ابن ابی الحدید معتزلی کے حوالہ سے بیان کیا کہ انہوں نے صراحت فرمائی اصحاب کے ذریعہ علی مرتضی کو نہیں پہچانا جا سکتا کیونکہ اگر مدینہ کے تمام مسلمان ایک طرف ہو جائیں اور حضرت علی تنہا رہ جائیں تب بھی حق علی کے ساتھ ہی رہے گا۔

مولانا نے بیان کیا کہ رسول اکرم اپنے صحابی جناب ابوذر سے اس حد تک محبت فرماتے تھے کہ انہیں جو وصیت فرمائی اس میں ۱۵۰ مرتبہ یا ابا ذر کہہ کر خطاب کیا۔طویل وصیت کے ضمن میں مولانا موصوف نے اس وصیت کا تذکرہ کیا جسے شیخ صدوق نے اپنی کتاب الخصال میں نقل کیا ہے کہ ابوذر فرماتے ہیں مجھے رسول نے ان چیزوں کی وصیت کی:

1: دنیاوی چیزوں میں اپنے سے کمتر کو دیکھنا

2: فقیروں اور مالی تنگدستی کے شکار لوگوں سے محبت کرنا

3: ہمیشہ حق بولنا چاہے کتنا ہی کڑوا کیوں نہ ہو

4: رشتہ داروں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا

5: خدا کی راہ میں کسی کی پروا نہ کرنا

6: ہمیشہ لا حول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم کہتے رہنا

مولانا نے دو ٹوک کہا کہ اس دور کے مسلمان حکمران ابوذر کو اس لئے پسند نہیں کرتے تھے کیونکہ ابوذر رسول کا فرمان پیش کرتے تھے اور حکمرانوں کو ان کی کمیوں کی جانب توجہ دلاتے رہتے تھے۔اسی جرم میں انہیں جلا وطن کیا گیا۔یہ ابوذر کی جلا وطنی تھی کہ اس عالم میں بھی آزادی کا نعرہ بلند کیا۔

عظیم صحابی ابوذر غفاری آزادی کی علامت قرار پائے: مولانا سید حیدر عباس رضوی 

مولانا نے آنے والی 14 اپریل کو عالمی یوم قدس کے موقع پر تمام انسانیت سے بالعموم اور عالم اسلام و ایمان سے بالخصوص بیت المقدس کی بازیابی کے لئے قدس ریلی میں شریک ہونے کی اپیل کی تا کہ امام علی کی وصیت پر عمل ہو سکے جس میں ضربت لگنے کے بعد مولا نے فرمایا تھا کہ ظالم طاقتوں سے اظہار برائت کرو اور مظلومین عالم۔سے اظہار ہمدردی کرو۔

مولانا سید حیدر عباس رضوی نے مجلس کا اختتام مصائب پر کیا جسے سن کر سینکڑوں کی تعداد میں موجود عزاداروں میں شور گریہ بلند ہوا ۔

قابل ذکر ہے عزاخانہ ابوطالب میں چار دنوں تک مسلسل شیعوں کے پہلے امام اور مسلمانوں کے چوتھے خلیفہ کی شہادت پر مجالس ہوتی رہیں گی۔اس درمیان تابوت اور جلوس بھی برآمد ہوگا۔ساتھ ہی فتحگڑھ کے امام باڑے میں بھی 19 اور 20 ماہ رمضان کو مجالس ہوں گی جسے مولانا سید حیدر عباس رضوی ہی خطاب کریں گے۔21 ماہ رمضان کو رات میں بھوپال کی کربلا میں بعد از نماز و افطار مجلس غم ہوگی جسے مولانا موصوف ہی خطاب کریں گے۔

پروگرام کے کنوینر مسکین ایرانی نے بتایا کہ ان مجالس کا آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوتا ہے۔

آخر میں پوری دنیا میں امن و امان کی دعائیں طلب کی جاتی ہیں۔تا کہ مالک اس مقدس مہینہ کے صدقہ میں دنیا سے ظلم کا خاتمہ کرے اور عدل و عدالت کا راج ہو سکے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .