تحریر: حافظ سید ذہین علی نجفی
حوزه نیوز ایجنسی| عدالت پر کائنات کا نظام قائم ہے۔ بڑے بڑے سیاروں سے لےکر چھوٹے چھوٹے ذرات تک، سب میں عدالت کار فرما ہے اور اگر ان میں عدالت کا توازن ذرا سا بگڑ جائے تو نظام ہستی درہم برہم ہو جائے گا.خود انسان کا وجود اور اس کے بدن کا سسٹم، خدا کے نظام توازن اور تعادل کا بہترین مظہر ہے۔
بدن کے اسی متوازن نظام میں خلل پیدا ہو جانے کی صورت میں انواع و اقسام کی مہلک امراض وجود میں آتی ہیں۔ جب کائنات کا نظام شمسی، نظام قمر ی اور انسان کا جسمانی نظام بغیر توازن اور عدالت کے نہیں چل سکتا تو پھر اتنا بڑا انسانی سماج اور پورا نظام حیات، عدالت و توازن کے بغیر کیسے منزل مقصود تک پہنچ سکتا ہے؟
لہٰذا پر سکون اور بے خوف و خطر زندگی گزارنے اور کمال کی منزلوں کو طے کرنے کے لئے ضروری ہے کہ انسانی سماج اور نظام حیات بھی عدالت اور توازن کے مستحکم ستونوں پر استوار ہو،تاکہ تباہی وبربادی سے محفوظ رہ سکے۔
انسانی معاشرے کی اسی ضرورت کے پیش نظر، اللہ تعالی نے انبیاء و مرسلین کو بھی دنیا میں عدل قائم کرنے کیلئے بھیجا ہے۔
عدل کےلغوی معنی:
اہل لغت جیسے راغب اصفہانی کے نزدیک عدل، مساوات کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔....عدل برابری کی بنیاد پر تقسیم کرنا۔ فیومی کے نزدیک عدل لفظ جَوْر کا مخالف ہے۔ جور ظلم ہے اور ظلم کسی چیز کو اس کے اپنے مقام کی بجائے دوسرے مقام پر رکھنا ہے گویا ہر چیز کو اسکے مقام پر رکھنا عین عدل ہے لغت میں برابری، سچائی، استقامت اور حد وسط کے معنی میں آیا ہے۔ عدل بمعنی فدیہ جیسے سورہ انعام 70 اِن تَعدِل کلَّ عدلا۔ گر وہ فدیہ(معاوضہ بدلہ) دینا چاہے عدل بمعنی تعادل و تساوی۔ عدل کسی چیز کا وزن اور مقدار میں مثل اور عدل غیر جنس سے کسی چیز کا مثل جیسے قول اللہ أَوْ كَفَّارَةٌ طَعَامُ مَسَاكِينَ اَوْ عَدْلُ ذلک قیاما۔ وہ (ساٹھ) مسکینوں کو کھانا کھلائیں یا وہ اس کے برابر روزے رکھیں۔
اصطلاحی اعتبار سے علم فقہ، علم کلام اورعلم نحو میں عدل کا لفظ مختلف معانی کے لیے استعمال ہوتا ہے، چنانچہ خدا نے قرآن مجید میں انبیاء و مرسلین کی بعثت کا فلسفہ ان الفاظ میں بیان کیا ہے۔ ’’ولقد ارسلنا رسلنابالبینات لیقوم الناس با لقسط.‘‘یعنی: ہم نے واضح دلائل کے ساتھ اپنے رسولوں کو بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب و میزان نازل کیا تاکہ انسانی سماج میں عدالت کا قیام ہو۔
اسلام کی نظر میں عدالت کا تعلق بین الاقوامی حقوق سے ہے، یعنی اسلام عدالت کا برتاؤ برتنے میں مسلمانوں اور غیر مسلمانوں کے درمیان تفریق کا قائل نہیں ہے، چنانچہ خدا وند متعال فرماتا ہے: ’’یا ايّهاالذین آمنوا کونوا قوامین للّه شهدئ بالقسط ... اے صاحبان ایمان! ہمیشہ اللہ کے لئے قیام کرو اور بر بنائے عدالت گواہی دو اور کہیں ایسا نہ ہو کہ کسی قوم کی دشمنی تم کو عدالت کے راستہ سے ہٹادے تم ہمیشہ عدل و انصاف کا برتاؤ کرو کہ عدالت پرہیزگاری کے زیادہ نزدیک ہے۔
عدالت کیوں ضروری ہے؟
تاکہ معاشرے کا نظم و نسق بہترین انداز سے چل سکے۔
قرآن کریم کے ایک عظیم الشان مفسر، علامہ طباطبائی نے عدالت کے بارے میں بہت ہی عمدہ اور مفید وضاحت کی ہے۔
عدالت زندگی کے کسی ایک پہلو تک محدود نہیں ہے بلکہ انسانی زندگی کے تمام انفرادی اور اجتماعی پہلوؤں پر محیط ہے عدالت کا مطلب یہ ہے کہ ان تمام اشیاء اور اشخاص کے درمیان برابر ی اور مساوات کا برتاؤ کیا جائے جو ایک مرتبہ اور منزلت رکھتے ہوں۔
اسلامی تعلیمات میں لفظ عدالت کا تین مقامات پراستعمال ہوتا ہے۔
(۱) عدالت الہی
(۲) عدالت ذاتی، جو کہ قضاوت، نماز جمعہ و جماعت کی امامت وغیرہ کی شرط ہے۔
(۳) عدالت اجتماعی، جو کہ سماج اور معاشرہ کے تمام شعبوں کو اپنے اندر شامل کرلیتی ہے۔
ہم اس تحریر میں عدالت کی ابتدائی دو صورتوں سے صرف نظر کرتے ہوئے فقط تیسری صورت یعنی عدالت اجتماعی کے بارے میں حضرت علی کے اقوال و ارشادات اور آپ کی سیرت طیبہ کا جائزہ لے رہے ہیں۔
حضرت علی کی نظر میں عدل کی اہمیت: جیسا کہ اوپر کی سطروں سے واضح ہو چکا ہے کہ عدالت وہ عظیم حقیقت ہے جسے نافذ کرنے کے لئے اللہ تعالی نے انبیاء اور مرسلین بھیجے.حضرت علی عدالت کو ہر شئی پر ترجیح دیتے تھے، چنانچہ ایک شخص نے آپ سے پوچھا: عدالت افضل ہے یا جود و سخاوت تو آپ نے فرمایا: عدالت افضل ہے۔
جب کہ ایک سادہ لوح انسان کی نظر میں جود و سخاوت عدالت سے بالا تر ہے.اور پھر حضرت علی نے دلیل یہ دی کہ عدل اس لئے افضل ہے کہ زندگی کے امور اور مسائل کو اپنی جگہوں پر قرار دیتا ہے، جب کہ سخاوت انہیں اپنی جگہوں سے ہٹا دیتی ہے۔
چونکہ عدالت کا مطلب یہ ہے کہ معاشرہ اپنے طبیعی مزاج پر چل رہا ہے اور ہر چیز اپنی صحیح جگہ پر ہے لیکن جودو سخاوت کا مطلب یہ ہے کہ معاشرہ اپنے طبیعی مزاج سے ہٹ گیا ہے ، جس کی وجہ سے یہ ضرورت پیش آئی کہ معاشرہ کے کسی ایک فرد کو اس کے حق سے زیادہ دے کر اس کی ضرورت پوری کی جائے۔
آپ نے عدل کی برتری پر دوسر ی دلیل یہ دی :
عدالت ایک عام قانون اور عمومی مدیر ہے جو پورے معاشرہ پر محیط ہوتا ہے؛ جبکہ سخاوت ایک استثنائی صورت حال ہے‘‘نتیجۃً عدل بر تر اور افضل ہے۔
آپ عدالت کو ہمیشہ اور ہر حال میں فوقیت دیتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’فان فی العدل سعۃ...‘‘یعنی:عدل میں وسعت اور لا محدود گنجائش ہے اور جو کوئی عدالت کی وسیع فضا میں بھی تنگی محسوس کرے تو وہ ظلم و نا انصافی کی تنگ فضا میں بدرجہ اولی تنگی گھٹن اور محسوس کرے گا۔
حضرت علی علیہ السلام عدالت کو ایک فریضہ الہی بلکہ ناموس الہی سمجھتے ہیں اور اس بات کی ہرگز اجازت نہیں دیتے کہ انسان کے سامنے ظلم و ستم ہو اور وہ خاموش تماشائی بنا کھڑا دیکھتا رہے؛ بلکہ اس کا فرض ہے کہ حتی الامکان ظلم و ستم کو ختم کرنے اور عدل و انصاف کو عام کرنے کی سعی و کوشش کرے۔ چنانچہ آپ خطبہ شقشقیہ میں فرماتے ہیں: اما والذی فلق. یعنی: آگاہ ہو جاؤ، قسم ہے اس خدا کی جس نے دانہ کو شگافتہ کیا اور ذی روح کو پیدا کیا، اگر حاضرین کی موجودگی اور مدد کرنے والوں کی وجہ سے مجھ پر حجت قائم نہ ہو گئی ہوتی اور اللہ نے علماء سے یہ عہد و پیمان نہ لیا ہوتا کہ وہ ظالم کے ظلم اور مظلوم کی مظلومیت پر خاموش نہ رہیں تو میں خلافت کی رسی کو اس کی گردن پر ڈال کر آج بھی ہنکا دیتا۔ عام لوگوں کی نظر میں حکومت کا مقصد اقتدار، عیش و عشرت اور لذت طلبی ہے، لیکن نمائندگان پروردگار کی نظر میں حکومت کا مقصد ،معاشرہ میں عدل و انصاف کا قیام، ظلم و جور کا خاتمہ اور دنیا و آخرت میں نوع انسانی کی کامیابی اور کامرانی سے ہمکنار کرنا ہے۔
ایک مرتبہ ابن عباس ،حضرت علی علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے تو اس وقت آپ علیہ السلام اپنا پھٹا پرانا جوتا سی رہے تھے ۔آپ علیہ السلام نے ابن عباس سے پوچھا۔
اس جوتے کی کیا قیمت ہوگی‘‘؟ انہوں نے کہا: کچھ نہیں! تو آپ علیہ السلام نے فرمایا: میری نظر میں اس حکومت و ریاست کی قدر و قیمت اس جوتے سے بھی کمتر ہے مگر یہ کہ حکومت کے ذریعے میں عدالت کو نافذ کرسکوں ،حق کو قائم کر سکوں اور باطل کومٹا سکوں۔
حضرت علی علیہ السلام نے عدالت کو اتنی اہمیت دی اور اس طرح عدالت کو اپنی زندگی میں سمو لیا کہ عدالت آپ کی شخصیت کا ایسا حصہ بن گئی کہ جب بھی آپ علیہ السلام کا تذکرہ ہوتا ہے، بلا فاصلہ ذہن، عدالت کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے اور اسی طرح جب کبھی عدالت کا ذکر ہوتا ہے تو وہ عادل امام علیہ السلام بے ساختہ یاد آجاتا ہے، جس نے اعلان بھی کیا تھا اور اپنے عمل سے ثابت بھی کیا تھا کہ: واللہ! اگر مجھے سات اقلیم اس شرط پر دیئے جائیں کہ میں ایک چیونٹی کے منھ سے جو کا ایک چھلکا چھین لوں تو میں انہیں ٹھوکر مار سکتا ہوں، لیکن اس حد تک بھی بے عدالتی اور ظلم نہیں کر سکتا۔ اللہ اکبر۔
حضرت علی علیہ السلام نے اپنی ذاتی زندگی سے لے کر اجتماعی،سماجی اور حکومتی زندگی کے ہر پہلو میں مکمل طور پر عدالت کو نافذ کیا۔اور بدیہی ہے کہ ان سارے موارد کی جمع آوری، اس تحریر میں ہر گز نہیں ہو سکتی ، لہذا ذیل کی سطروں میں ہم حکومتی اور اجتماعی مسائل میں بعض عناوین کے تحت آپ کی عدالت کے کچھ نمونے نھج البلاغہ کے تناظر میں پیش کر رہے ہیں:
قانون سازی اور قانون کی عملداری میں عدل:
حضرت علی علیہ السلام نے اپنی حکومت کے لئے جو قوانین مرتب کئے تھے وہ من و عن وہی قوانین تھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسلامی حکومت کے لئے معین فرمائے تھے ، چنانچہ حضرت علی علیہ السلام کی عدالت کے بارے میں پیغمبر اسلام(ص) کا ارشادہے: کفّی و کفّ علی فی العدل سواء. یعنی: عدالت میں میرا اور علی کا ہاتھ بالکل برابر ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اسلام مالی اور دیگر مادی حتی معنوی مسائل میں سارے انسانوں کو ایک ہی خانہ میں جگہ نہیں دیتا اور اس مسئلہ میں اسلام مارکسزم کا شدید مخالف ہے؛ لیکن جہاں قانون کا مسئلہ ہوتا ہے وہاں اسلام، عالم وجاہل غریب و امیر دوست و دشمن سب کو ایک نظر سے دیکھتا ہے۔ حضرت علی علیہ السلام اس سلسلہ میں فرماتے ہیں:’’علیک بالعدل فی الصدیق والعدو. یعنی دوست اور دشمن دونوں کے ساتھ عدالت سے پیش آؤ۔
آپ علیہ السلام قانون کے نفاذ میں کسی مروت خاندان پرستی اور تعلقات کے قائل نہیں تھے چنانچہ جناب عقیل علیہ السلام نے جو کہ آپ کے سگے بھائی تھے جب آپ سے اپنا قرض ادا کرنے کے لئے بیت المال سے کچھ اضافی رقم کا مطالبہ کیا تو آپ نے نہایت سختی سے انکار کر دیا۔
آج کی حکومتوں کو حضرت علی علیہ السلام کی سیرت کو اپنا کر ایسے قوانین بنانا چاہیں جن میں صرف حکمرانوں کا نہیں بلکہ پوری قوم کا فائدہ ہو اور دنیا کو چاہئے کہ ملکی اور عدالتی قوانین کے نفاذ میں تفریق کی قائل نہ ہو۔
ایک مقام پر فرماتے ہیں:
اتامرونی ان اطلب النصر بالجور...‘‘یعنی: کیا تم لوگ مجھے مشورہ دے رہے ہو کہ میں ظلم و جور کے سہارے فتح و کا میابی حاصل کروں اور اس جملہ کے ذریعے آپ نے اس نظریہ پر خط بطلان کھینچ دیا جو کہتا ہے کی بلند اور نیک مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے اچہے برے ہر قسم کے وسائل کا سہارا لیا جاسکتا ہے۔
مالی وسائل کی تقسیم میں عدل:
رسول اللہ (ص) عرب و عجم اور سیاہ و سفید کی تفریق کے بغیر سارے مسلمانوں کو بیت المال سے برابر کا حق دیا کرتے تھے۔ لیکن رسول اللہ (ص) کے بعد آپ کی سیرت کے بر خلاف بیت المال اور مال غنیمت کی تقسیم میں رنگ و نسل اور ذات پات کو معیار بنا لیا۔
لیکن حکومت ملتے ہی حضرت علی علیہ السلام نے اس غلط اور غیر اسلامی سیرت کی مخالفت کی اور دوبارہ سیرت رسول (ص) کا احیاء فرمایا اور عرب و عجم ، سیاہ و سفید اور مہاجر و انصار کی تفریق ختم کر دی ، جس کے نتیجے میں اہل باطل کی ایک بڑی تعداد آپ کی مخالف ہو گئی۔
ایک مقام پر امام علیہ السلام نے فرمایا:
والله لو وجد ته قد تزوج به النساء. یعنی: خدا کی قسم !اگر میں مسلمانوں کے عمومی اموال اس حالت میں پاتا کہ اسے عورت کا مہر بنا دیا گیا ہے یا کنیز کی قیمت کے طور پر دیا گیا ہے تو اسے بھی واپس کرا دیتا۔
آپ علیہ السلام بیت المال کو مال خدا اور مسلمانوں کا حق سمجھتے تھے۔ آپ نے کبھی بھی بیت المال کو اپنے ذاتی منافع کے لئے استعمال نہیں کیا اور نہ ہی اپنے کسی عامل کی طرف سے بیت المال میں خیانت اور اسراف کو برداشت کیا۔
نہج البلاغہ کے مختلف خطبات اور مکتوبات اس بات پر گواہ ہیں کہ امیر المومنین علیہ السلام نے بیت المال میں معمولی خیانت کرنے والوں کی شدید تنبیہ و سرزنش کی ہے اور بہت سے گورنروں کو اس خطا پر معزول بھی کیا ہے۔
فیصلوں میں عدل:
آپ کی عدالت اس سلسلے میں شہرہ آفاق ہے اور اس موضوع پر بہت سی مستقل کتابیں لکھی گئی ہیں. ہم ذیل کی سطروں میں فقط دو تین نمونوں کے ذکر کرنے پر اکتفاء کر رہے ہیں:
الف: ایک مرتبہ ایک شخص نے قاضی کے دربار میں حضرت علی علیہ السلام کے خلاف شکایت کی، حضرت علی علیہ السلام اس شخص کے ساتھ قاضی کے دربار میں پہنچے تو قاضی نے کہا: اے ابو الحسن! آپ اپنے مدّعی کے ساتھ بیٹھ گئے جب مقدمہ کا فیصلہ ہو چکا تو قاضی نے حضرت علی علیہ السلام کے چہرے پر ناراضگی کے آثار دیکھ کر اس کا سبب پوچھا، آپ علیہ السلام نے فرمایا:
’’ تم نے گفتگو کے دوران میرے مدّعی کو نام لے کر بلایا مگر مجھے کنیت کے ساتھ بلایا حالانکہ عدل و انصاف کا تقاضا یہ تھا کی تم مجھے بھی نام لے کر بلاتے۔
ب: حضرت علی علیہ السلام نے اپنے مشہور صحابی ابو الاسود دوئلی کو ایک جگہ قاضی بنایا اور پھر کچھ ہی عرصے کے بعد معزول کر دیا تو انہوں نے پوچھا : یا امیر المومنین میں نے نہ تو کوئی خیانت کی اور نہ ہی کسی طرح کی نا انصافی اور ظلم ، پھر آپ نے مجھے کیوں معزول کر دیا ؟ تو آپ علیہ السلام نے فرمایا:
’’ میں نے دیکھا کی تمہاری آواز مدعی کی آواز سے بلند ہو جاتی ہے. لہذا تمہیں معزول کر دیا۔
حضرت علی علیہ السلام نے فیصلہ، قضاوت اور حدودالہی کے نفاذ میں اپنے پرائے، دوست و دشمن، غلام و آقا، عرب و عجم سب کو ایک نگاہ سے دیکھا. چنانچہ تاریخ میں ایسے بہت سے شواہد ملتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے حکم الہی کی مخالفت اور جرم کے مرتکب ہونے کی صورت میں اپنے قریبی ترین چاہنے والوں پر بھی حدود الہی کو جاری کیا ۔
چنانچہ نجاشی نام کے آپ کے ایک قریبی چاہنے والے نے ،جو بہت بڑے شاعر تھے اور ہمیشہ آپ کی حمایت میں اشعار کہا کرتے تھے ، شراب پی لی. تو آپ نے اس پر بھی شراب پینے کی حد جاری کردی اور جب اس کے قبیلہ والوں نے اعتراض کیا تو فرمایا:
’’ اے بنی نہد کے بھائیو! نجاشی بھی امت مسلمہ کا ایک فرد ہے. لہذا ہم نے کفارہ کے طور پر اس پر بھی شریعت کی حد جاری کی ہے۔
قیدیوں اور مجرموں کے ساتھ عدل:
آج عدالت کے علمبردار اور حقوق انسانی کاڈھنڈورا پیٹنے والے کس طرح سے عدالت اور حقوق انسانی کی دھجیاں اڑا رہے ہیں، یہ کسی بھی صاحب عقل و شعور سے پوشیدہ نہیں ہے ۔آج امریکہ ،یورپ اور دیگر ممالک میں اسیروں اور مجرموں کے ساتھ جو برتاو کیا جاتا ہے اس کی معمولی مثالیں گوانتا نامو اور عراق میں ابو غریب اور دیگر امریکی جیلوں سے ملنے والی کچھ سنسنی خیز خبریں ہیں جنہیں سن کر ہر انسان کا بدن لرز جاتا ہے اور دل دہل جاتا ہے. ایک طرف قیدیوں کے ساتھ یہ سلوک ہو رہا ہے اور دوسری طرف حضرت علی علیہ السلام اپنے قاتل کے سامنے دودھ کا پیالہ پیش کر رہے ہیں۔سچ تو یہ ہے کہ عدالت کے تشنہ انسان کو صرف اسلام ہی کے چشمہ زلال اور سر چشمہ حیات سے سیرابی حاصل ہو سکتی ہے۔
حضرت علی علیہ السلام نے اپنے قاتل کے بارے میں جو وصیتیں کی ہیں وہ در حقیقت منشور انسانیت ہیں. آپ علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’دیکھو ہو اگر میں اس ضربت سے جانبر نہ ہو سکا تو میرے قاتل کو ایک ہی ضربت لگانا؛اس لئے کہ ایک ضربت کی سزا اور قصاص ایک ہی ضربت ہے اور دیک ہو میرے قاتل کے جسم کو ٹکڑے ٹکڑے نہ کرنا کیونکہ میں نے سرکار دوعالم سے سنا ہے کہ خبر دار! کاٹنے والے کتے کو بھی مثلہ نہ کرنا (اس کے بدن کے اعضاء نہ کاٹنا)
مذہبی اقلیتوں کے ساتھ عدل:
تاریخ شاہد ہے کہ مذہبی اقلیتوں، مثلا اسلامی مملکت میں رہنے والے عیسائیوں اور یہودیوں وغیرہ کے لئے حضرت علی علیہ السلام کی حکومت کا زمانہ ان کی پوری تاریخ کا سب سے سنہرا اور پر امن دور ہے. اور ان کے علماء اور مفکرین بھی اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں۔
حضرت علی علیہ السلام اپنے گورنروں کو غیر مسلموں کے حقوق اور ان کے احترام کے بارے میں خصوصی تاکید کیا کرتے تھے۔ جس کی ایک مثال مالک اشتر کا عہدنامہ ہے. بطور مثال ،صرف ایک جملہ ملاحظہ ہو:
سارے لوگ تمہار ے بھائی ہیں، کچھ دینی اور کچھ انسانی اعتبار سے، لہذا تمہیں سب کے حقوق کالحاظ رکھنا ہو گا۔
تاریخ میں یہ واقعہ بہت مشہور ہے کہ آپ نے ایک پریشان حال بوڑہے عیسائی کو دیکھ کر مسلمانوں کی سخت توبیخ کی اور پھر بیت المال سے اس کے لئے ماہانہ وظیفہ معین کر دیا۔
ایک لشکر نے جب ’’ انبار‘‘ پر حملہ کیا اور اس کے ایک سپاہی نے ایک کافر ذمی عورت کا پازیب اور گوشوارہ چھین لیا تو آپ علیہ السلام نے مسلمانوں کو جمع کر کے ایک خطبہ دیا اور فرمایا: اس دردناک اور شرمناک واقعہ پر اگر کوئی مسلمان افسوس کرتے ہوئے مر جائے تو وہ قابل ملامت نہیں ہے۔
آپ کی عدالت اتنی مشہور ہوئی کہ دین و مذہب کی حدوں سے گزر کر ھما گیر شکل اختیار کر گئی ۔اور آج دنیا کا ہر مفکر اور دانشور ، خواہ وہ کسی بھی ملت و مذہب سے تعلق رکھتا ہو ،آپ کی عدالت کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کو اپنا شرف سمجھتا ہے۔چنانچہ جارج جرداق نام کے ایک مسیحی دانشور نے آپ کی عدالت کے موضوع پر 5 جلدوں پر مشتمل’’ صوت العدالۃ الانسانیہ‘‘ نام کی کتاب بھی تالیف کردی جو دنیا کی مختلف مشہور زبانوں میں ترجمہ بھی ہوچکی ہے۔
مسیحی مصنف جارج جرداق کی امام علی علیہ السلام کے بارے میں لکھی ہوئی کتاب "ندائےعدالت انسانی"سے کچھ اقتباسات۔
امیر الموٴمنین حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی شخصیت ایک ایسی شخصیت ہے جس سے اپنے اور غیر سبھی مفکرین اور دانشمند متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے۔ جس کسی نے اس عظیم انسان کے کردار،گفتار اور اذکار میں غور کیا، وہ دریائے حیرت میں ڈوب گیا۔ غیر مسلم محققین اور دانشوروں نے جب امام المتقین علیہ السلام کے اوصاف کو دیکھا تو دنگ رہ گئے کیونکہ انہوں نے افکارِ علی کو دنیا میں بے نظیر اور لاثانی پایا۔
جارج جرداق کی تحقیق:
لبنان کے مشہور عیسائی محققق، دانشور اور لکھاری جارج جرداق نے حضرت علی علیہ السلام کی سیرت پر "ندائے عدالت انسانی" نامی مشہور کتاب لکھی ہے، جارج جرداق کے مطابق جب اس نے اس کتاب کو مکمل کیا تو کوئی بھی پبلشر اس کتاب کو شائع کرنے پر راضی نہیں تھا۔
وہ کہتا ہے کہ اسلئے میں بے چین ہو کر لبنان کے ایک چرچ میں چلا گیا جہاں ایک عیسائی بشپ نے میری بے چینی کی وجہ پوچھ کر مجھے ایک تھیلی میں رقم دے کر کتاب چھاپنے کا کہا۔ جب یہ کتاب چھپ گئی اور لبنان سمیت دنیا بھر میں اس سے منافع حاصل ہوا تو میں نے بشپ کو رقم تھیلی میں بند کر کے شکریہ کے ساتھ واپس کرنا چاہی لیکن بشپ نے جواب میں کہا کہ اس میں شکریہ اور احسان کی کوئی بات نہیں میں نے تم پر کوئی احسان نہیں کیا بلکہ امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کے ان احسانوں کا ایک معمولی سا شکریہ ادا کیا ہے۔
چونکہ جب حضرت علی امیر المومنین و خلیفتہ المسلمین بن گئے تو آپ نے تمام اقلیتوں بشمول عیسائیوں کے نمائندوں کو طلب کیا اور فرمایا کہ مجھ علی کے دور میں تم اقلیتوں کو تمام تر اقلیتی حقوق اور تحفظ حاصل رہے گا، اسلئے حضرت محمد رسول اللہ (ص) کے بعد اس کے وصی امیر المومینن حضرت علی (ع) کا دور خلافت اقلیتوں بالخصوص عیسائیوں کے ساتھ مثالی ترین دور تھا جس میں اقلیتوں بالخصوص عیسائیوں کے خلاف کہیں بھی ظلم و جبر نہ ہوا اسلئے میں (بشپ) نے علی (ع) کے احسان کا معمولی شکریہ ادا کیا ہے جارج جرداق جا کر یہ رقم غریبوں میں بانٹ دو۔
جارج جرداق اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ انسانی معاشرہ میں واحد لیڈر علی بن ابی طالب (ع) ہیں جنہوں نے انسانیت اور عدالت کی بنیاد پر بیت المال کی تقسیم کی ہے۔ جب آپ (ع) نے اہل کوفہ سے سوال کیا کہ کیا تم میں کوئی ایسا ہے جو بھوکا ہو تو سب نے کھایا علی ! آپ حاکم ہیں اب یہاں کوئی بھوکا نہیں ہے۔ سوال کیا کوئی ہے جس کے پاس لباس نہ ہو ؟ سب نے کھا یا علی ! اب سب کے پاس لباس ہے ۔ سوال کیا کوئی ہے جس کے پاس مکان نہ ہو ؟ سب نے کھا یا علی ! سب کے پاس مکان ہے ۔ امام علی (ع) نے عدالت کا جو نمونہ پیش کیا اسے دیکھ کر دنیا آج تک حیرت زدہ ہے۔
جارج جرداق اس واقعے کا بھی ذکر کرتا ہے جب امام علی (ع) نے ایک بوڑھے یہودی کو کوفے میں بھیک مانگتے ہوئے دیکھا تھا۔ امام نے سوال کیا کہ یہ میری حکومت میں بھیک کیوں مانگ رہا ہے۔ اس نے کہا یا علی ! کل تک مجھ میں قوت تھی میں کام کرتا تھا لیکن اب مجھ میں قوت نہیں رہی۔ امام نے فرمایا اس کی تمام ضرورتوں کو بیت المال کے ذریعہ پورا کیا جائے اور اسے ماہانہ وظیفہ دیا جائے۔ کسی نے کہا یا علی ! یہ یہودی ہے آپ نے فرمایا یہ ایک انسان ہے جب تک اس کے جسم میں قوت تھی اس نے معاشرے کی خدمت کی ہے۔ اب حکومت کی ذمہ داری ہے کہ اس کی ضرورتوں کو پورا کرے ۔ یہ علی بن ابی طالب(ع) ہیں جنہوں نے انسانی بنیادوں پر تقسیم اموال کی ہے۔ یہ عدالت انسانی کی آواز ہے اور عدالت کے حدود عالمی حدود ہیں۔ اس پر غور و فکر ہونا چاہیے، اس پر گفتگو اور کام ہونا چاہیئے۔
ایک اور جگہ ندائے عدالت انسانی میں لکھا ہے’’علی کی تمام تر توجہ مساوات وعدل کے قوانین کو موثر طریقے سے بروئے کار لانے پر مرکوز تھی۔ ان کے افکار اور انداز فکر حکومت اور ان تمام تر حکمت اسی مقصد کے حصول کے لئے وقف تھی ۔ جب کسی ظالم نے عوام کے حقوق کی پائمال کی یا کسی کمزور سے تحقیر آمیز رویہ اختیار کیا علی اس سے سختی سے نمٹے۔
حضرت علی نے معاشرتی زندگی میں عدل کو کتنا لازمی قرار دیا ہے اس کا اندازہ اس واقعہ سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔
ایک دن کچھ لوگ جنہوں نے آپ کی بیعت بھی کر رکھی تھی آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ ہم آپ کے خیر خواہ ہیں آپ کو یہ مشورہ دینے آئے ہیں کہ اگر آپ اشراف عرب کو دوسروں پر ترجیح دیں تو ان کی پیش رفت کے لئے مناسب ہوگا۔ آپ اس تجویز سے ناراض ہوئے اور فرمایا کیا تم مجھے یہ حکم دیتے ہوکہ میں رعایا پر ظلم کروں یا دوستوں کا ایک گروہ اپنے گرد جمع کرلوں ؟
خدا کی قسم جب تک دنیا موجود ہے اور ستاروں کی گردش باقی ہے میں یہ کام نہیں کرسکتا ۔ اگر یہ مال میرا اپنا بھی ہوتا تو بھی اسے برابر تقسیم کرتا جبکہ یہ مال تو ہے ہی خدا کا‘۔
ایک جگہ جارج جرداق اپنی کتاب میں لکھتا ہے: تاریخ اور حقیقت ِانسانی کیلئے یکساں ہے کہ کوئی علی علیہ السلام کو پہچانے یا نہ پہچانے تاریخ اور حقیقت ِ انسانی خود گواہی دے رہی ہے کہ علی علیہ السلام کا ضمیر زندہ و بیدار تھا۔ وہ شہید ِراہِ خدا تھے اور شہداء کے جد تھے عدالت ِ انسانی کی فریاد تھے ۔ مشرق کی ہمیشہ زندہ رہنے والی شخصیت تھے۔
ایک کُلِ جہان! کیا تیرے لئے ممکن ہے کہ باوجود اپنی تمام قوتوں کے اپنی ترقیِ علم و ہنر کے علیؑ جیسا ایک اور انسان جو علیؑ جیسی عقل رکھتا ہو اُسی جیسا دل ویسی ہی زبان اور ویسی ہی تلوار رکھتا ہو اس دنیا کو عطا کر دے؟
آپ کی شہادت اور جارج جرداق:
اکیس رمضان المبارک حضرت علی علیہ السّلام کی شہادت کا دن ہے.آپ کی شہادت سے متعلق جارج جرداق یوں لکھتا ہے۔
علی (علیہ السلام) مسجد میں آئے رب العزت کے حضور سر جھکایا ابن ملجم زہر آلود تلوار ہاتھ میں لئے آیا اور حضرت کے سرپر وار کیا کہ جس کے متعلق اس کا کہنا تھا کہ اگر یہ وار سارے شہر کے باشندوں پر پڑے تو ایک شخص بھی زنده نہ بچے۔
خدا کی لعنت ہو ابن ملجم پر اور تمام لعنت کرنے والوں کی لعنت ہو اس پر دنیا میں ہر آنے والے اور دنیا سے ہر جانے والے کی لعنت ہو ہر اس شخص کی لعنت ہو جو خدا کے حکم سے پیدا ہؤا.
خداوند عالم ابن ملجم پر ایسی لعنت کرے کہ وہ لعنت دریاؤں پر پڑے تو وہ خشک ہو جائیں، کھیتوں پر پڑے تو وه نیست و نابود ہو جائیں اور سرسبز پودوں کو زمین کے اندر ہی جلا کر راکھ کردے.
جہانوں کا خالق و مالک جہنم کے بهڑکتے شعلے اس پر مسلط فرمائے اور اسے منہ کے بل جہنم میں ڈال دے. اس جگہ جہاں آگ کے شعلے لپک رہے ہوں اور قہر الٰہی کا جوش و خروش ظاہر کررہے ہوں.
محبان علی (علیہ السلام)کو عظیم ترین صدمہ پهنچا زمانے نے علی (علیہ السلام) پر گریہ کیا اور آنے والے صدیان بھی علی (علیہ السلام)پر گریہ کریں گی.
دنیا کی ہر چیز شکستہ و اندوہگین ہوئی سوائے علی ابن ابی طالب (علیہما السلام) کے جن کا چہرہ ہشاش بشاش تها. آپ (علیہ السلام) نے نہ انتقام کی خواہش ظاہر کی نہ غیظ و غضب کا اظہار کیا بلکہ ” فزت برب الکعبة” کہہ کر اپنی کامیابی کا اعلان فرما دیا، لیکن آپ (علیہ السلام) کے چہرے کی بشاشت تمام مصائب و آفات سے بڑھ کر اندوہناک تھی۔
اس وقت آپ کا چہره سقراط کے چہرے سے مشابہ تها جس وقت جاہل اور نادان عوام نے اسے زہر پلایا تها عیسی ابن مریم (علی نبینا و آلہ و علیہ السلام) کے چہرے جیسا تها جب کہ قوم یہود آپ (علیہ السلام) کو کوڑوں سے اذیت پهنچا رہے تھے محمد مصطفی (صلی الله علیہ و آلہ و سلم) کے چہرے جیسا تها جب آپ (صلی الله علیہ و آلہ و سلم) پر طائف کے نادان پتھر برسا رہے تھے اور یہ نہ سمجھ رہے تھے کہ ہم کس بزرگترین ہستی کو یہ پتھر مار رہے ہیں. ضربت کے بعد جب کوفہ کا سب سے بڑا طبیب حاذق اثیر بن عمرو ہانی آیا اور زخم کے معائنے کے بعد اس نے مایوسی کا اظہار کیا آپ نے حسن اور حسین (علیہما السلام) کو اپنے پاس بلاکر وصیتیں فرمائیں جن میں سے چند جملے یہ ہیں:
میرے قتل کی وجہ سے ہنگامہ یا خونریزی نہ کرنا، اپنے پڑوسیوں کا لحاظ کرنا، فقراء اور مساکین کا خیال رکهنا اور انہیں بھی اپنی روزی اور معاش میں شریک رکهنا، اچهی بات کہنا، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو ترک نہ کرنا، آپس میں لطف اور مہربانی سے پیش آنا، بے تکلفی اور سادگی برتنا ایک دوسرے سے نہ کٹنا متفرق نہ ہونا۔
بروز جمعہ صبح کے وقت آپ (علیہ السلام) کے سر مبارک پر ضربت لگی تھی اس کے بعد دو روز تک انتہائی کرب و اذیت کے عالم میں زنده رہے مگر آپ (علیہ السلام) نے اف تک نہ کی لوگوں کو احسان و نیکی اور رحم و کرم وصیت فرماتے رہے۔
ماه رمضان کی اکیسویں شب کو آپ (علیہ السلام) نے اس دنیا سے رحلت فرمائی.
آپ دنیا سے رخصت ہوگئے اور اپنے بعد ایسا خاندان چھوڑ گئے جس کا ایک ایک فرد راه حق میں شہید ہوا اپنے بعد دکھیاری بیٹی زینب (سلام الله علیہا) کو دنیا بھر کے مصائب و آلام جھیلنے کے لئے چھوڑ گئے اور دنیا نے ان کے ساتھ وه بے رحمی و شقاوت کا سلوک کیا جیسا کسی کے ساتھ نہ کیا ہوگا. حسن اور حسین (علیہما السلام) کو ابوسفیان کی اولاد اور دیگر خون کے پیاسے دشمنوں میں چھوڑ گئے۔
علی (علیہ السلام) اور فرزندان علی (علیہم السلام) کے خلاف سازش کا پہلا دور تمام ہوا اس کے بعد بے شمار دور آئے اور ہر دور اپنی آغوش میں ہولناک تر اور سخت تر اور شدید تر مصائب لئے ہوئے تھا.
امام (علیہ السلام) اپنے دشمنوں کو دنیا میں زندہ چهوڑ گئے لیکن ان کی یہ زندگی عین ہلاکت تھی. علی علیہ السلام محراب کوفہ میں اپنی شدت عدل کی بنا پر مارے گئے تھے۔
کیا آج دنیا میں عدالت کا نعرہ بلند کرنے والی حکومتوں میں مسلم اقلیتیں بھی پر امن اور محفوظ ہیں؟!!
ایسے امام عادل یا ایسے خلیفہ عادل کی محبت و مودت کا دم بھرنے والوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ جن کا امام شدت عدل کی وجہ سے مسجد میں حالت سجدہ میں ایک شقی کی ضرب کھا کے ان کلمات فزت برب الکعبہ کے علی کامیاب ہوا کیساتھ شہید ہوا ہو۔ انہی کی پیروی کرنے والے خدانخواستہ عدل سے نہ صرف دور ہوں بلکہ عدل کو نا پسند کرتے ہوں تو پھر ایسی حالت میں اپنی محبت پر فاتحہ ہی پڑھی جا سکتی۔
آئیے مولائے کائنات علیہ السلام کی مظلومانہ شہادت کے موقع پر یہ عزم کریں کے بقیہ ماندہ زندگی امیر المومنین علیہ السلام کے بتائے ہوئے آئین یعنی عدل کیساتھ گزاریں گے اور کھبی عدل کو نظر انداز نہیں کریں گے چاہے اس میں ہمارا ذاتی نقصان ہی کیوں نہ ہو۔
خدا کا درود و سلام ہو اس جسم اطہر پر جس کے دفن ہونے کے ساتھ عدالت بھی دفن ہو گئی۔