۵ آذر ۱۴۰۳ |۲۳ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 25, 2024
حضور فعال حوزه علمیه در نمایشگاه قرآنی کرمانشاه

حوزہ/ ذالک الکتاب لاریب فیه هدی للمتقین (بقرہ۔۲) اس کتاب میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے اور پرہیز گاروں کے لئے باعث ہدایت ہے۔

تحریر: مولانا محمد علی انصاری

حوزه نیوز ایجنسی| قرآن کو سمجھنے کی ضرورت، قرآن فہمی کا مقصد اور انسان کو اس کا فائدہ کیا ہے ؟

ان سوالوں کے جوابات مندرجہ ذیل مطالب کے ضمن میں روشن ہوجائیں گے۔

۱۔ہدایت:

چونکہ ہر کتا ب کامصنف اپنی کتاب کے مقصد تالیف کو بہتر جانتا ہےاس لئے فہم قرآن کا مقصد اور ہدف، خود قرآن بیان کرتا ہے:

ذالک الکتاب لاریب فیه هدی للمتقین (بقرہ۔۲) اس کتاب میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے اور پرہیز گاروں کے لئے باعث ہدایت ہے ۔

معلوم ہوتا ہے کہ قرآن مجید خود رشد وہدایت کی کتاب ہے اس میں عبرت وبصیرت کے لئے جگہ جگہ پرانے اقوام کے واقعات کا بیان ہے لہٰذا فہم قرآن کے اہداف ومقاصد میں سے ایک یہ ہے کہ انسان خود پہلے متقی اور صاحب ہدایت بن جائے پھر دوسروں کو بھی ہدایت کرے۔

۲۔تواضع:

قرآن فہمی کے مقاصد میں سے ایک تواضع ہے تواضع تکبر کی ضد ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ آدمی دوسروں سے اپنے کوکمتر سمجھے،اس کی روش اللہ تعالیٰ کے عاجز بندوں کی سی ہو اوروہ دوسروں کے ساتھ اچھا سلوک کرے۔تواضع کا اظہار رفتارسے بھی ہوتا ہےاورگفتار و کردار سے بھی حتیٰ کہ نشست وبرخاست سےبھی۔جیسا کہ ارشاد ہے اور رحمن کے بندے وہ ہیں جو زمین میں (فروتنی سے) دبے پاؤں چلتے ہیں۔ (فرقان۔۶۳)ایک اور جگہ ارشادہوتا ہے :

ولا تمش فی الارض مرحا۔(بنی اسرائیل۔۴) تم زمین پر اتراتے ہوئے نہ چلو،پس جس نے قرآن کو درک کیا وہ ضرور متواضع ہوگا ۔

۳۔ انسانی قلوب کو زندہ کرنا:

فہم قرآن کے اہداف ومقاصد میں سے ایک یہ ہے کہ وہ مردہ دلوں کو زندہ کرتا ہے۔جب مادیت کی تاریکیوں کی وجہ سے انسان کا دل مردہ ہوجاتا ہے تواس کا علاج صرف یہ ہے کہ وہ قرآن اور قرآن فہمی کی طرف توجہ دے؛ اس لئے کہ قرآن ایک زندہ کتاب ہے اور مردہ دلوں کو زندہ کرتا ہے۔

۴۔ تہذیب نفس:

فہم قرآن کے اہداف میں سے ایک تہذیب نفس ہے۔ طبیعت ومادے کی نجاست سے باطن کی تطہیر وپاکیزگی و سعادت کا حصول اور خدا کی جانب سیر وسلوک کی کیفیت کو بیان کرتا ہے ۔

۵۔ اصلاح:

قرآن فہمی کے مقاصد میں سے ایک یہ ہے کہ انسان مصلح بن جاتا ہے قرآن فہمی کے نتیجہ میں انسان فرد اور معاشرہ کی اصلاح کرتا ہے اگر معاشرے میں ایک شخص کی اصلاح ہوجائے یا ایک گروہ کی اصلاح ہوجائے تو پورے معاشرے کی اصلاح ہوجائے گی۔

۶۔ تربیت:

قرآن فہمی کے اہداف میں سے ایک یہ ہے کہ انسان کے تمام ابعاد زندگی میں تعمیر وتربیت کرنا ہے اسی مقصد کے لئے اللہ نے انبیاء کو بھیجا اور کتاب نازل کی۔ویعلمهم الکتاب والحکمه.اور انبیاء ورسل کو تعلیم دینے کی طرف توجہ دلائی قرآن اسی بات کا خواہاں ہے کہ لوگ مہذب بن جائیں اور اس کے علاوہ اس کتاب کا کوئی اور مقصد نہیں ۔

۷۔ نفسانیت سے نجات:

قرآن ایسی کتاب ہے جو انسان کی تربیت کرنا چاہتی ہے اور ایک ایسی مخلوق کی تربیت کی خواہاں ہے جسے اس نے خود اسم اعظم کے ذریعے حیات دی ہے ،قرآن چاہتا ہے کہ انسان کواس پست اور ناقص درجے سے اس بلند وبالا مقام تک پہنچائے جو اس کے لئے لائق ہو،انسانی نفسانیت کی پستی گویا بہت ہی گہرے کنویں کی مانند ہے۔ قرآن فہمی کا ہدف یہ ہے کہ انسان اس گہرے کنویں میں نہ گر جائے۔

۸۔طہارت وپاکیزگی:

قرآن فہمی کے مقاصد میں سے ایک یہ ہے کہ انسان کو ہر قسم کی نجاست اور گندگی سے پاک رکھا جائے۔ جیسا کہ ارشاد خداوندی ہے: وثیابک فطهر اور اپنے کپڑے کو پاک و صاف رکھو اور ہر طرح کی گندگی سے دو رہو۔(مدثر۔۱) اور سورہ توبہ میں ارشاد ہے: والله یحب المطهرین۔(توبہ ۔۱۳) اللہ ان لوگوں کو محبوب رکھتا ہے جو خوب پاک وصاف رہتے ہیں اور اس کا اہتمام کرتے ہیں۔

۹۔ حیا وعفت:

حیا وعفت قرآن فہمی کے اہداف میں سے ایک ہے جس پر قرآن نے زور دیا ہے۔ اس کی ضد بے حیائی اور اخلاقی آلودگی ہے جس سے بچنے کی سخت تاکید فرمائی ہے ۔ ارشاد رب العزت ہے:وَ يَنْهَى‏ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَ الْمُنكَرِ وَ الْبَغْىِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُون۔(نحل:۹۰) اللہ تعالیٰ تم کو بے حیائی سے منع کرتاہے۔ اس آیت کے علاوہ جن آیتوں میں بے حیائی کی باتوں سے منع کیا گیا ہے تو یہ ممانعت اصل نہی کی شکل میں حیا و عفت کا حکم ہے۔

۱۰۔جرأت وشجاعت:

جس طرح تو اضع وانکساری قرآن فہمی کے اہداف میں سے ایک ہے اسی طرح شجاعت وبہادری بھی قرآن کے اہداف میں شامل ہے۔ اس لئے قرآن ایک موقع پر بہادری، جانبازی اور قوت کے اظہار کی تلقین کرتا ہے ۔ مثلاً اگر حق و باطل کا معرکہ ہو تو قرآن مجید اپنے ماننے والوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ فولادی انسانوں کی طرح پوری بہادری اور ثابت قدمی کے ساتھ جنگ کریں ارشاد ہے:يا أَيُّهَا الَّذينَ آمَنُوا إِذا لَقيتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُو( انفال:۴۵) اے ایمان والو! جب کسی جماعت سے تمہارا مقابلہ ہو جائے تو ثابت قدم رہو۔

قرآن کریم سیکھنے،سکھانے،تلاوت،تفسیر اور اس مربوط تمام امور میں ہماری نظر ان اہداف ومقاصد ہر ہونی چاہیے۔اور ان مقاصد کاحصول ہی پیش نظر رہے۔باقی تمام امور مقدمہ اور وسیلہ ہے اہداف تک پہنچنے کے لیے۔فلسفہ نزول قرآن اور اس کے اہداف ہی قرآن کریم کی روح ہے۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .