۲ آذر ۱۴۰۳ |۲۰ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 22, 2024
سیپارۂ رحمان

حوزہ/قرآن مجید کے تیس پاروں کا اجمالی جائزہ؛بائسویں پارے کا مختصر جائزه۔

حوزہ نیوزایجنسیl

ترتیب و تحقیق: سیدلیاقت علی کاظمی الموسوی

بائسویں پارے کا مختصر جائزه

بائسویں پارے کےچیدہ نکات

إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّـهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا ﴿٣٣﴾ سورة الأحزاب

صحیح مسلم ج ۲ ق ۱۱۶۲طبع ۳۴۸ اھ میں حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ یہ آیت اس وقت نازل ہوئی ہے جب رسول اکرمؐ نے زیر کساء علیB اور فاطمہ (س)اور حسنینؑ کو جمع کر لیا تھا یہی بات ترمذی اور مسند احمد میں بھی پائی جاتی ہے بلکہ تفسیر طبری میں تو ابوسعید خدری سے روایت ہے کہ جناب ام سلمہ نے زبر کساءآنے کی درخواست کی تو رسول اکرمؐ نے فرمایا کہ تمہارا انجام بخیر ہے لیکن چادر میں تمہاری گنجائش نہیں ہے ۔

اس مقام پر بعض مفسرین نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ جب آیت ازواج کے تذکرہ کے ذیل میں وارد ہوئی ہے تو ان کے خارج کرنے اور دیگر حضرت کے مراد لینے کا جواز کیا ہے؟ لیکن اس کا واضح سا جواب یہ ہے کہ اول تو سیاق آیات سند نہیں ہوا کرتا ہے اس لئے کہ قرآن کوئی تصنیف یا تالیف نہیں ہے کہ اس میں ان باتوں کا لحاظ رکھا جائے ؛ اس میں ایسے بے شمار مقامات ہیں جہاں ایک تذکرہ کے بعد دوسرا تذکرہ شروع ہو جاتا ہے اور پھر بات پلٹ کر وہیں پہنچ جاتی ہے، اور دوسری بات یہ ہے کہ آیت تطہیر کا عنوان اہل البیتؑ ہیں جو از واج اور نساء سے مختلف عنوان ہے، اور تیسری بات یہ ہے کہ روایات صریحہ اور صحیحہ کے ہوتے ہوئے سیاق سے استدلال کرناعقل ومنطق کے خلاف ہے ۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتَ النَّبِيِّ إِلَّا أَن يُؤْذَنَ لَكُمْ إِلَىٰ طَعَامٍ ﴿٥٣﴾ سورة الأحزاب

اصحاب کی عادت تھی کہ پرانے طریقہ کے مطابق گھروں میں گھس جاتے تھے اور انتظار کرتے تھے کہ کھانا پک جائے تو کھائیں اور پھر بیٹھ کر میٹنگ کریں، پروردگار نے منع کر دیا کہ یہ بات خلاف ادب ہے اور اس طرح پیغمبرؐ کو تکلیف پہنچتی ہے اور وہ از راہِ حیا تمہیں نکال بھی نہیں سکتا ہے۔

إِنَّ اللَّـهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ ۚ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا ﴿٥٦﴾ سورة الأحزاب

صلوات خدا کی طرف سے رحمت ملائکہ کی طرف سے تو صیف و تزکیہ اور مؤمنین کی طرف سے دعائے رحمت کے معنی میں ہے،مالک کائنات نے رسول ؐ پر صلوات بھیجنے کا حکم دیا ہے ، اب یہ رسول کی ذمہ داری ہے کہ وہ طریقہ کی تعلیم دیں جیسا کہ صحیح بخاری میں وارد ہوا ہے کہ آپ نے صلوات کا طریقہ تعلیم دیتے ہوئے آل کو بھی شامل فرمایا ہے اور مفسرین نے بھی اس حدیث کا اقرار کیا ہے، جس کا کھلا ہوا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں میں صرف صلی اللہ علیہ وسلم کہنا اور آل کو خارج کر دینا ایک بدترین بدعت ہے جس کا ارشاد پیمبرؐ سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔

قَالَ الَّذِينَ اسْتَكْبَرُوا لِلَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا أَنَحْنُ صَدَدْنَاكُمْ عَنِ الْهُدَىٰ بَعْدَ إِذْ جَاءَكُم ۖ بَلْ كُنتُم مُّجْرِمِينَ ﴿٣٢﴾ سورة سبإ

یہ ہر دور میں بڑے لوگوں کا طرز عمل رہا ہے کہ پہلے جاہل افراد کو دھوکہ دے کر اپنے ساتھ کر لیتے ہیں اور جب کام بگڑ جاتا ہے تو اپنے کو بالکل بری الذمہ ثابت کر کے الگ ہو جانتے ہیں اور یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ہم پر کوئی ذمہ داری نہیں ہے اور یہ جاہلوں کی جہالت ہوتی ہے کہ اس کے باوجود ان کے پیچھے لگے رہتے ہیں لیکن یہ سب اس دار دنیا تک ہے، آخرت کا عذاب سامنے آنے کے بعد یہ سارے فلسفے ختم ہو جائیں گے اور کسی کی ہوشیاری یا بیوقوفی کام نہ آئے گی اور عذاب کی شدت دیکھ کر سب ایک دوسرے کو ذمہ دار ٹھہرائیں گے اور جاہلوں کا دعوی یہ ہوگا کہ یہ بڑے لوگ نہ ہوتے تو ہم راہ راست پر آ جاتے ہمیں تو ان بڑے لوگوں نے گمراہ کیا ہے، دارِ دنیا میں اس صورت حال کا ایک نقشہ شہادت امام حسین ؑکے بعد دیکھا گیا ہے کہ قتل تک سب عید منا رہے تھے اور قتل کے بعد یزید، ابن زیاد، شمر، سب نے ایک دوسرے کو ذمہ دار ٹھہرانا شروع کر دیا اور کوئی اس واقعہ کی ذمہ داری لینے کیلئے تیار نہ تھا جب کہ قیامت میں سب کو اس کی سزا برداشت کرنا پڑے گی۔

أَفَمَن زُيِّنَ لَهُ سُوءُ عَمَلِهِ فَرَآهُ حَسَنًا ۖ فَإِنَّ اللَّـهَ يُضِلُّ مَن يَشَاءُ وَيَهْدِي مَن يَشَاءُ ۖ فَلَا تَذْهَبْ نَفْسُكَ عَلَيْهِمْ حَسَرَاتٍ ۚ إِنَّ اللَّـهَ عَلِيمٌ بِمَا يَصْنَعُونَ ﴿٨﴾ سورة فاطر

شیطان کے گمراہ کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ وہ برے اعمال کی دعوت نہیں دیتا ہے کہ انسان کسی وقت بھی متوجہ ہو گیا تو اس کے راستے سے برگشتہ ہو جائے گا اور اسے دوبارہ محنت کرنا پڑے گی بلکہ وہ پہلے برے عمل کو کسی نہ کسی شکل میں عمل خیر بنا کر پیش کرتا ہے اس کے بعد انسان کو دعوت عمل دیتا ہے کہ اس طرح انسان کو جس قدر بھی عمل خیر کا شوق ہوگا اسی راستہ پر چلتا رہے گا بلکہ تیز تر چلتا رہے گا اور شیطان کو مزید محنت کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی ۔

اسی بنا پر کہا گیا ہے کہ عمل سے بڑا ہنر علم ہے اور علم کے بغیر کسی عمل کی کوئی قیمت نہیں ہے، انسان کسی وقت بھی عمل قبیح کوعمل حسن تصور کر سکتا ہے اور اسی بنا پر اسے اختیار کر سکتا ہے اور اس طرح ساری زندگی گمراہی اور تباہی میں گزر جائے گی اور وہ اپنی دانست میں خوش اور خوشحال ہی رہے گا ۔

سورة يس۔ یہ وہ مبارک سوره ہے جسے روایات میں قلب قرآن سے تعبیر کیا گیا ہے اور اس کے تلاوت کرنے والے سے خیر دنیاوآخرت کا وعدہ کیا گیا ہے بشرطیکہ تلاوت صرف برائے تلاوت نہ ہو اور انسان اس کے معنی و مفاہیم پر بھی نظر رکھے بلکہ اس عہد الہی کو بھی یاد رکھے جو اس کی فطرت سے لیا گیا ہے کہ شیطان کی عبادت نہ کرے گا اور رب العالمین کی عبادت سے انحراف نہ کرے گا ۔

وَكُلَّ شَيْءٍ أَحْصَيْنَاهُ فِي إِمَامٍ مُّبِينٍ ﴿١٢﴾ سورة يس

روایات میں امام مبین سے مراد ائمہ طاہرینF کی ذوات مقدسہ کو لیا گیا ہے جنہیں پروردگار عالم نے اپنے علوم کا مخزن اور اپنی مشیت کامحل و مرکز قرار دیا ہے۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .