۳۱ فروردین ۱۴۰۳ |۱۰ شوال ۱۴۴۵ | Apr 19, 2024
سیپارۂ رحمان

حوزہ/قرآن مجید کے تیس پاروں کا اجمالی جائزہ؛پچیسویں پارے کا مختصر جائزه۔

حوزہ نیوزایجنسیl

ترتیب و تحقیق: سیدلیاقت علی کاظمی الموسوی

پچیسویں پارے کا مختصر جائزه

پچیسویں پارے کےچیدہ نکات

سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الْآفَاقِ وَفِي أَنفُسِهِمْ حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ ۗ أَوَلَمْ يَكْفِ بِرَبِّكَ أَنَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ ﴿٥٣﴾ سورة فصلت

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ کائناتِ ارض وسما اور یہ وجود انسانی دونوں قدرت خدا کی دوکھلی ہوئی کتابیں ہیں جن کا لفظ لفظ اس کے وجود اور اس کی عظمت و جلالت کی گواہی دے رہا ہے، انسان کائنات کے ایک ذرّہ پر بھی نگاہ کرے تو اسے اندازہ ہو جائے گا کہ خالق حکیم کے بغیر اس کی تخلیق ممکن نہیں ہے اور اپنے وجود کی ایک سانس پربھی غور کرلے تو اس بات کا یقین کر لے گا کہ کوئی کارساز ذہن ہے جو اس وجود کو چلا رہا ہے اور اسے باقی رکھے ہوئے ہے ورنہ اس عمارت کا بھروسہ ہی کیا ہے جو ہوا پر قائم ہو اور جو ایک ایک سانس سے ہل جائے، یہ رب کائنات کا کرم ہے کہ ایسی عمارت کو سیکڑوں سال اسی شان سے باقی رکھتا ہے، اسلام کا عقیدہ ٔتوحید اگر چہ ایک غیبی عقیدہ ہے لیکن اس کے دلائل اور شواہد ہرگز غیبی نہیں ہیں بلکہ سر تا سر بالکل واضح اور محسوس ہیں جن کے بعد انسان کو غیب کہہ کر نظر انداز کر دینے کا کوئی حق نہیں پہنچتا ہے۔

امیر المؤمنیؑن نے انسانی وجود کے بارے میں کتنا حسین جملہ ارشاد فرمایا ہے کہ یہ ایک ایسی مخلوق ہے جو گوشت سے بولتا ہے، ہڈی سے سنتا ہے اور چربی سے دیکھتا ہے، کیا ایسے اعضاء یعنی گوشت و استخوان کے ٹکڑوں میں ایسی صلاحیت کا پیدا کرد یناخالقیت اور مالکیت کی محکم ترین دلیل نہیں ہے، اور اگر انسان خود اپنے وجود کی طرف سے بھی غافل ہے تو خدا کی طرف کسی طرح متوجہ ہو گا ۔

وَلَوْ شَاءَ اللَّـهُ لَجَعَلَهُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَلَـٰكِن يُدْخِلُ مَن يَشَاءُ فِي رَحْمَتِهِ ۚ وَالظَّالِمُونَ مَا لَهُم مِّن وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍ ﴿٨﴾ سورة الشورى

بیشک خدا جبری طور پر ہدایت دے سکتا ہے لیکن اس طرح انسان انسان نہیں رہ جاتا ہے بلکہ جماوات اور نباتات میں شامل ہو جاتا ہے اس لئے کہ انسان کی انسانیت اس کے اراده و اختیار سے وابستہ ہے اس کے بغیر کوئی انسانیت نہیں ہے ۔

انسانیت کے تحفظ اور احترام کا تقاضا یہ ہے کہ اس پر جبر نہ کیا جائے اور اسے اپنے ارادہ سے حق قبول کرنے کی دعوت دی جائے اور وہ بھی اسی نشان سے حق کو قبول کرے اور اس کے تقاضوں پر عمل کرے۔

قُل لَّا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَىٰ ۗ ﴿٢٣﴾ سورة الشورى

صاحب کشاف، صاحب بحر المحیط ، صاحب روح البیان اور صاحب تفسیر کبیر سب نے اس بات کا تذکرہ کیا ہے کہ آیت مبارکہ کے نزول کے بعد اصحاب نے پیغمبراکرم1 سے یہ سوال کیا تھا کہ ان قرابتداروں سے کون حضرات مراد ہیں تو آپ نے فرمایا تھا کہ علیؑ فاطمہؑ اور حسنؑ و حسینؑ ۔

نظام الدین نیشاپوری نے غرائب القرآن میں یہ الفاظ نقل کیے ہیں کہ علیؑ و فاطمہؑ اور دونوں کے دونوں فرزند بعض مفسرین نے اس استثناء کو منقطع قرار دے کر اس مطالبہ کو اجر رسالت سے الگ کرنا چاہا ہے حالانکہ استثناء کی اصل ہی یہ ہے کہ اسے متصل ہونا چاہیے جب تک کہ اس کے خلاف کوئی دلیل نہ آ جائے اور اسی کی بنیاد پر مودۃ القربي تبليغ رسالت کی اجرت ہے اور الگ سے کوئی مطالبہ نہیں ہے ۔

بعض مفسرین نے اس روایت میں بھی تشکیک کیا ہے کہ یہ سوره مکّی ہے اور حسنینؑ کی ولادت مدینہ میں ہوئی ہے لہذا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے حالانکہ کھلی ہوئی بات ہے کہ سوره کے مکی ہونے کے یہ معنی ہر گز نہیں ہیں کہ تمام آیات مکی ہوں جیسا کہ خود اس سوره کے بارے میں مفسرین نے تصریح کی ہے۔

وَمَا أَصَابَكُم مِّن مُّصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُو عَن كَثِيرٍ ﴿٣٠﴾ سورة الشورى

انسان یہ خیال کرتا ہے کہ بلائیں از غیب نازل ہوتی ہیں اور ان میں اس کا کوئی خل نہیں ہے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ان سب کا انسان سے قریب یا دور کا کوئی نہ کوئی رابط ضرور ہوتا ہے،یہ بلائیں کبھی براہ راست انسان کی سزا یا تنبیہ کے طور پر نازل ہوتی ہیں اور کبھی اس کے کسی عمل کا اثر ہوتی ہیں جو بعيد المدت زہر کی طرح کام کرتی ہیں۔

وَلَمَنِ انتَصَرَ بَعْدَ ظُلْمِهِ فَأُولَـٰئِكَ مَا عَلَيْهِم مِّن سَبِيلٍ ﴿٤١﴾ سورة الشورى

یہ ایک قانونِ عام ہے کہ مظلوم کو انتقام لینے کا حق ہے اور انتقام میں کوئی عیب نہیں ہوتا ہے،اہل دنیا میں ہمیشہ یہ دیکھا گیا ہے کہ وہ ظالم کو ظلم پر آمادہ کرتے ہیں اور جب مظلوم انتقام لینا چاہتا ہے تو اسے منع کر دیتے ہیں، اسلام نے بالکل اس کے خلاف قانون بنایا ہے کہ روکنا ہے تو ظالم کو روکو کہ اس نے ظلم کی بنیاد رکھی ہے ورنہ مظلوم کو انتقام لینے کا حق دو بلکہ ممکن ہو تو اس کا ساتھ دو تاکہ ظلم کا قلع قمع ہو جائے اور ظالمین سر اٹھانے کے قابل نہ رہ جائیں، ظالم کے ظلم پر بے محل سکوت اور اس کے ظلم سے رضامندی در حقیقت ظلم میں شرکت کے مترادف ہے اور اسی لئے مظالم کو سننے کے بعد راضی رہ جانے والوں کو قابل لعنت قرار دیا گیا ہے ۔

يَهَبُ لِمَن يَشَاءُ إِنَاثًا وَيَهَبُ لِمَن يَشَاءُ الذُّكُورَ ﴿٤٩﴾ أَوْ يُزَوِّجُهُمْ ذُكْرَانًا وَإِنَاثًا ۖ وَيَجْعَلُ مَن يَشَاءُ عَقِيمًا ۚ إِنَّهُ عَلِيمٌ قَدِيرٌ ﴿٥٠﴾ سورة الشورى

یہ مالک کائنات کی قدرت کا مرقع ہے کہ کسی کو بیٹی دیتا ہے اور کسی کو بیٹا عطا کرتا ہے اور کسی کو دونوں سے نوازتا ہے اور کسی کو بانجھ بنا دیتا ہے اور یہ سب اپنی مخصوص مصلحت کے تحت کرتا ہے، نہ بانجھ بنا دینااس کی قوت تخلیق کانقص ہے اور نہ بیٹا پیدا کردینااس کے کمالِ تخلیق کی علامت ہے بلکہ لطیف ترین بات یہ ہے کہ اس نے بیٹی اور بیٹے دونوں کو ہبہ سے تعبیر کرنے کے بعد بیٹی کا ذکر پہلے کیا ہے اور بیٹے کا ذکر بعد میں، گویا کہ بیٹی کو ذ کر کے اعتبار سے تقدم کا شرف حاصل ہے اور عملی اعتبار سے بھی اس نے اپنے محبوب ترین بندہ کو بیٹی ہی سے نوازا ہے اور اس کی نسل کو آج تک اسی بیٹی کے ذریہ قائم و دائم رکھا ہے جو بیٹی کی عظمت و اہمیت کی بہترین دلیل ہے ۔

بیٹی دار دنیا میں مختلف وجوہ سے زحمت اور مشقت کا باعث بنتی ہے لیکن اجر وثواب کے اعتبار سے اس کی اہمیت یہ ہے کہ پروردگار اجر وثواب بھی زحمت ہی پر عطا کرتا ہے راحت و آسائش پرنہیں ۔

وَنَادَىٰ فِرْعَوْنُ فِي قَوْمِهِ قَالَ يَا قَوْمِ أَلَيْسَ لِي مُلْكُ مِصْرَ وَهَـٰذِهِ الْأَنْهَارُ تَجْرِي مِن تَحْتِي ۖ أَفَلَا تُبْصِرُونَ ﴿٥١﴾ سورة الزخرف

اہل باطل کے پاس مادی اسباب کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا ہے اور وہ اسی کے ذریعہ اپنے مطالب کو منوانا چاہتے ہیں، کفار قریش نے بھی پیغمبر ؐاسلام کی مادی حالت اور غربت پر طنز کیا تھا تو پروردگار نے جناب موسیٰ علیہ السلام کا قصہ دہرا دیا کہ تم سے پہلے فرعون نے بھی یہی بات کہی تھی اور اس کا انجام تمہیں معلوم ہے لہذا اب ایسی احمقانہ گفتگو مت کرنا اور گربت و امارت سے بلند ہوکر حقائق اور معارف پر غور کرنا شروع کرو۔

ادْخُلُوا الْجَنَّةَ أَنتُمْ وَأَزْوَاجُكُمْ تُحْبَرُونَ ﴿٧٠﴾ سورة الزخرف

شوہر کی طرح زوج بھی صاحب کردار ہو تو دونوں کو ایک ساتھ رکھا جائے گا تا کہ حیات دنیا کا سرور اور انس برقرار رہے ورنہ جب نسبی رشتے کام آنے والے نہیں ہیں تو سببی رشتوں کا کیا بھروسہ ہے اور جب وہاں زوجۂ نوح جناب نوحؑ کے ساتھ نہیں جاسکتی ہے تو دوسروں کی ازواج کا کیا ذکر ہے ۔

إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي مَقَامٍ أَمِينٍ ﴿٥١﴾ سورة الدخان

انسان زندگانئ دنیا میں چار طرح کی راحتوں کا طلبگار رہتا ہے، کھانے کیلئے بہترین غذا مل جائے، پینے کیلئے بہترین لباس فراہم ہو جائے ، رہنے کیلئے عمدہ مکان مل جائے جو محفوظ بھی ہو اور اس میں اسباب آسائش بھی ہوں اور اس کے بعد انتہائی خوبصورت اور خوش اخلاق زوجہ مل جائے تا کہ زندگی کا سکون درہم برہم نہ ہونے پائے ۔

پروردگار عالم نے انسان کو توجہ دلائی کہ دنیا میں تو ان راحتوں کا فراہم ہونا ناممکن ہے، ہر راحت کے ساتھ ایک تکلیف ضرور شامل ہو جاتی ہے، غذا میں خراب ہونے کا خطرہ رہتا ہے، لباس میں بوسیدہ ہو جانے کا اندیشہ رہتا ہے، مکان میں گِر جانے کا خطرہ رہتا ہے ،زوجہ میں چُھٹ جانے اورضعیف ہو جانے کا اندیشہ رہتا ہے البتہ جنت کی نعمتیں ہمیشہ رہنے والی ہیں اور ان میں اس طرح کے خطرات نہیں ہیں صرف فرق یہ ہے کہ ان کا حصول تقوی کے بغیر ممکن نہیں ہے ۔

جنت کا مکان محفوظ بھی ہے اور اس میں باغات اور چشموں کا سلسلہ بھی ہے، وہاں کا لباس ریشم کا ہے اور دبیزاور ہلکا دونوں طرح کا ہے جو ساتر بھی ہے اور زینت بھی پیدا کرتا ہے وہاں کی زوجہ بڑی بڑی آنکھوں والی حوریں ہوں گی اور وہاں کی غذا میں ہر طرح کا میوہ ہے جو چاہے سامنے حاضر ہے ۔

اور اس کے بعد سب سے بالاتر یہ نعمت ہے کہ وہاں موت کا کوئی اندیشہ نہیں ہے اور فضل پروردگار ہمہ وقت شامل حال رہنے والا ہے اور یہی وہ راحت ہے جس کو عظیم کامیابی کہا جا سکتا ہے اللهم ارزقنا !

أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَـٰهَهُ هَوَاهُ ﴿٢٣﴾ سورة الجاثية

دنیا میں بہت کم افراد ایسے ہیں جنہوں نے خدا کو خدا سمجھا ہو اور خواہشات کی خدائی کا در پردہ اقرار نہ کیا ہو ،خواہشات کے بندے حدود مذہب کے باہر بھی پائے جاتے ہیں اور حدود مذہب کے اندر بھی بلکہ کبھی بھی مذہب کے نام پر جان دینے والے بھی دراصل خواہشات ہی کے بندے ہوتے ہیں کہ ان کا جان دے دینے کا فیصلہ بھی خواہشات کی پیداوار ہوتا ہے اور اس کا حکم ِخدا سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ہے گویا کہ یہ خواہشات کو قربان کرنے کے بجائے خواہشاتی قربانی پیش کرتے ہیں اور اس طرح شہادت کے شرف سے محروم رہ جاتے ہیں، شریعت کے قوانین در اصل اسی لئے بنائے گئے ہیں کہ انسانی خواہشات پر روک لگائی جائے اور انسان کو ایک ایسا معیار دے دیا جائے کہ اس سے انحراف خواہشات کی خدائی کے مترادف ہو جائے چاہے اس کا نام جو بھی رکھ لیا جائے، اکثر دیکھا جاتا ہے کہ بعض لوگ احکام شریعت میں بھی ہیرا پھیری کرتے رہتے ہیں اور اپنی پسند اور ناپسند سے تقلید تک تبدیل کر دیتے ہیں اور پھر دوسرے اعلم کی رائے کا سہارا لے کر اپنے مقصد کو پورا کر لیا کرتے ہیں ، یہ بھی درحقیقت خواہشات ہی کی خدائی کا ایک نمونہ ہے ورنہ تقلید کا ایک معیار ہے اور اس کی تبدیلی کا بھی ایک معیار مقرر ہے جس سے ہٹ کر کوئی چیز حدود اطاعت و عبادت میں داخل نہیں ہوسکتی، خدا ہر انسان کو خود اس کے شر سے بھی محفوظ رکھے۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .