۳۱ فروردین ۱۴۰۳ |۱۰ شوال ۱۴۴۵ | Apr 19, 2024
سیپارۂ رحمان

حوزہ/قرآن مجید کے تیس پاروں کا اجمالی جائزہ؛اٹھائسویں پارے کا مختصر جائزه۔

حوزہ نیوزایجنسی l

ترتیب و تحقیق: سیدلیاقت علی کاظمی الموسوی

اٹھائسویں پارے کا مختصر جائزه

اٹھائسویں پارے کےچیدہ نکات

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قِيلَ لَكُمْ تَفَسَّحُوا فِي الْمَجَالِسِ فَافْسَحُوا يَفْسَحِ اللَّـهُ لَكُمْ ۖ وَإِذَا قِيلَ انشُزُوا فَانشُزُوا يَرْفَعِ اللَّـهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ ۚ وَاللَّـهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ﴿١١﴾ سورة المجادلة

مسلمانوں میں ایک شوق یہ بھی تھا کہ ہر وقت بزم رسول1 میں حاضررہو تا کہ اپنے تقرب کا پروپیگنڈہ کیا جا سکے اور اس طرح عدیم الفرصت مسلمانوں کو زحمت ہوتی تھی، تو قدرت نے تنبیہ کی کہ اول تو آنے والوں کو جگہ دو اور پھر جگہ کم ہو تو اٹھ جاو اور اسے برا نہ مانو اس لئے کہ صاحبان علم و ایمان کو بہرحال برتری حاصل ہونی چاہیے اور انہیں محفل میں مناسب جگہ ملنی چاہیے، انہیں جاہلوں اور کم رتبہ افراد کے برابر نہیں قرار دیا جا سکتا ہے ۔

عالم عالم ہوتا ہے اور جاہل جاہل صرف محفل میں آ کر بیٹھ جانے سے جاہل عالم نہیں کہا جا سکتا اورمحفل میں حاضر نہ رہ سکنے کی بناپر عالم جاہل کے مانند نہیں ہوسکتا ،اعلم ایک کمال بشریت ہے جو اپنے حامل کو ہمیشہ سرفراز اور سر بلند رکھتا ہے ۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نَاجَيْتُمُ الرَّسُولَ فَقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيْ نَجْوَاكُمْ صَدَقَةً ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ لَّكُمْ وَأَطْهَرُ ۚ فَإِن لَّمْ تَجِدُوا فَإِنَّ اللَّـهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴿١٢﴾ سورة المجادلة

جب بعض مسلمانوں نے صحبتِ پیغمبر1کو شخصیت سازی کا ذریعہ بنا لیا اور غریبوں کا داخلہ بند کر دیا تو قدرت نے یہ پابندی عائد کر دی کہ پہلے صدقہ دو اس کے بعد بزمِ پیغمبر1میں آؤ تا کہ یہ واضح ہو جائے کہ کون اپنی صحابیت کی کس قدر قیمت لگاتا ہے لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ فخر رازی اور طبری جیسے مفسرین کے اعتراف کے مطابق اس آیت پر حضرت علیBکے علاوہ کسی نے عمل نہیں کیا؛ صرف آپ کے پاس ایک دینار تھا تو اسے دس درہم میں بُھنایا اور ایک ایک کر کے صدقہ دیتے رہے اور بزم پیغمبر1میں حاضری دیتے رہے جس کے بعد آیت کا حکم منسوخ ہو گیا اور سارے صاحبان ریا کی صحابیت کا راز کھل گیا ۔

واضح رہے کہ آیت کا رخ ان افراد کی طرف ہے جنہیں بلا سبب محفل میں جمے رہنے کا شوق تھا، اس سے ان افراد کا کوئی تعلق نہیں ہے جنہیں اس طرح کی شخصیت سازی کا خیال نہیں تھا اور جو اپنے رتبہ سے خود بھی باخبر تھے اور بوقت ضرورت حاضری دیتے تھے اور پھر اپنے فرائض میں مصروف ہو جاتے تھے ۔

هُوَ الَّذِي أَخْرَجَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ مِن دِيَارِهِمْ لِأَوَّلِ الْحَشْرِ ۚ ﴿٢﴾ سورة الحشر

یہودیوں کا ایک قبیلہ بنی نضیر جس نے پیغمبراسلام1 سے صلح کا معاہدہ کر لیا تھا اور دونوں مدینہ میں سکون کی زندگی گزار رہے تھے لیکن جب احد میں مسلمانوں کے قدم اکھڑ گئے تو ان کے سردار کعب بن اشرف نے رسول اکرمؐ کی ہجو میں اشعار پڑھنے شروع کر دیئے، آپ نے اس کے قتل کا حکم دے دیا اور ایک لشکر بھیج کر ان یہودیوں کا محاصرہ کر لیا، ادھر منافقین نے یہودیوں سے سازش کر لی کہ ہم مسلمانوں کے مقابلہ میں تمہارا ساتھ دیں گے لیکن ۲۱ دن کے مسلسل محاصرہ میں بھی کوئی ایک بھی ہمدرد نہ نکالا اور بالآخر یہودیوں نے جلا وطن ہوجانے پر صلح کر لی اور ہر تین آدمی پر ایک اونٹ سامان لے کر ہمیشہ ہمیشہ کیلئے رخصت ہو گئے مفسرین کا بیان ہے کہ یہ یہودیوں کی پہلی سزا تھی ؛ اس کے بعد دوبارہ انہیں حضرت عمر نے نکالا ہے لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ آج رسول اکرم1کا کلمہ پڑھنے والے اور حضرت عمر سے خصوصی عقیدت رکھنے والے مسلمان بھی یہودیوں سے سازش اور دوستی کر رہے ہیں اور دونوں کی روح کو اذیت دے رہے ہیں، انہیں یہ بھی احساس نہیں ہے کہ اس طرح نہ سنت رسولؐ پر باقی رہ سکیں گے اور نہ سیرت شیخین پرعمل کر سکیں گے خدا برا کرے سیاست دنیا کا کہ اس نے مسلمانون سے سب کچھ چھین لیا اور غیرت اسلامی کا بھی خاتمہ کر دیا جب کہ خدا مسلمانوں کی امداد کیلئے ہمیشہ تیار ہے اور اس کے اسباب فراہم کرتا رہتا ہے اور یہودیوں کے دل میں خوف اور دہشت خودبھی ایک بہترین وسیلہ ہے جس کے ذریہ یہودی آج تک لرز رہے ہیں اور منافق مسلمان ان یہودیوں سے لرزہ براندام ہیں اور جبکہ یہودیوں میں حقیقی مسلمانوں کا مقابلہ کرنے کی ہمت نہیں ہے ۔

مَّا أَفَاءَ اللَّـهُ عَلَىٰ رَسُولِهِ مِنْ أَهْلِ الْقُرَىٰ فَلِلَّـهِ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ كَيْ لَا يَكُونَ دُولَةً بَيْنَ الْأَغْنِيَاءِ مِنكُمْ ۚ وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا ۚوَاتَّقُوا اللَّـهَ ۖ إِنَّ اللَّـهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ ﴿٧﴾ سورة الحشر

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ جس مال کے حصول میں مسلمانوں کا جہاد شامل نہ ہو اس میں مسلمانوں کا کوئی حصہ بھی نہیں ہے اور اس کا مکمل اختیار رسول اکرم1کے ہاتھ میں ہوتا ہے گویا یہ رسالت کی شخصی ملکیت ہوتی ہے اور اس کا استعمال صرف اس کے اختیار میں ہے اب یہ ان کا فرض ہے کہ وہ غریبوں میں تقسیم کر دیں تا کہ دولت ابل دولت کے درمیان نہ رہ جائے اور سارے سماج میں سکون اور اطمینان پیدا ہو سکے، یہ مال کے صرف کرنے کا ایک طریقہ ہے اس کا اجتماعی ملکیت سے کوئی تعلق نہیں ہے کہ اسلام کو اشتراکیت کا مرادف قرار دیدیا جائے، اشتراکیت ایک الگ نظام ہے اور اسلام ایک الگ قانون حیات ہے جس میں ایک کو دوسرے پر قیاس نہیں کیا جا سکتا ہے اور نہ ایک کی خصوصیات کو دوسرے میں تلاش کیا جاسکتا ہے ۔

وَمَن يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ﴿٩﴾ سورة الحشر

یہ زندگی کا ایک بڑا بنیادی قانون ہے کہ انسان حرص سے بچ گیا تو ہر بلا سے محفوظ ہو گیا، دنیا میں ادنی ٰمظالم سے لے کر استعمار اور ملک گیری تک سارے مظالم کی بنیاد یہی ایک حرص ہے جو دولت و اقتدار کے ساتھ بڑھتی بھی جاتی ہے اور انسان کو تباہ کیے بغیر نہیں چھوڑتی؛ ملک گیری، استحصال ، توسیع پسندی ، استعمار یہ سب اس حرص و ہوس کے شعبے ہیں جو وقتا فوقتا مختلف شکلوں میں سامنے آتے رہتے ہیں، رب کریم ہر مرد مومن کو اس بدترین بلا سے محفوظ رکھے اور قناعت و کفایت کا جذ بہ عطا فرمائے ۔

لَوْ أَنزَلْنَا هَـٰذَا الْقُرْآنَ عَلَىٰ جَبَلٍ لَّرَأَيْتَهُ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنْ خَشْيَةِ اللَّـهِ ۚ وَتِلْكَ الْأَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ ﴿٢١﴾ سورة الحشر

حرف ’’لو‘‘ اشارہ ہے کہ قرآن کا پہاڑ پرا تار دینا ناممکن تھا اس لئے کہ پہاڑ میں اس قدر قوت تحمل نہیں ہوتی ہے کہ اس کے معنی اور معارف کا وزن برداشت کر سکے اور یہیں سے انداز ہوتا ہے کہ جس قلب پیغمبؐر پر اتارا گیا ہے اس میں کسی قدر ہمت اور طاقت پائی جاتی ہے کہ پورے قرآن کے وزن کو برداشت کرلیا اور پھر نبی1 کے بعد وہ افراد کیسے قوی القلب اور باصلاحیت ہوں گے جنھیں حقائق قرآن کا مرکز قرار دیا گیا ہے، اور شائد اسی نکتہ کی طرف اشارہ کرنے کے لئے سرکار دو عالم 1نے قرآن اور اہلبیتFدونوں کو ثقلین سے تعبیر کیا تھا کہ دونوں کی سنگینی ایک جیسی ہے اور دونوں ایک دوسرےکے واقعی اہل اور مرکز ہیں اور ایک دوسرے کے وزن کو برداشت کر سکتے ہیں۔

بیشک اگر قرآن اس قد رسنگین ہے کہ پہاڑ پر نازل ہو جائے تو پہاڑ ٹکڑےٹکڑے ہو جائے تو وارثان قرآن کو اس قدر طاقت اور قوت کا مالک ہونا چاہیے کہ بقول نصاریٰٔ نحران پہاڑ سے کہہ دیں کہ اپنی جگہ سے ہٹ جائے تو ایک حرف دعا سے ہٹ سکتا ہے ۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا عَدُوِّي وَعَدُوَّكُمْ أَوْلِيَاءَ ﴿١﴾ سورة الممتحنة

کہا جاتا ہے کہ سورة الممتحنة حاطب بن بلتعہ کے کردار کے گرد گھوم رہا ہے کہ وہ اسلام لانے کے بعد شریک ہجرت رہا، بدر میں جنگ بھی کی لیکن جب فتح مکہ کا موقع آیا تو کفار کو ایک عورت کے ذریعہ خفیہ خط بھیج کر انہیں پیغمبرؐ کی تیاری سے باخبر کر دیا، جس کی وحی الٰہی نے نبی کو اطلاع دیدی تو آپ نے حضرت علیBکو چند اصحاب کے ساتھ اس عورت کے تعاقب میں روانہ کر دیا، اس نے نامہ بر ہونے سے انکار کیا تو حضرت علیBنے قتل کا ارادہ کر لیا، اس نے مجبور ہو کر اپنے جوڑے میں سے خط نکال کر دےد یا، اور حضرت علیBنے واپس آ کر اسے رسول اکرم1 کی خدمت میں پیش کیا، آپ1 نے حاطب سے سوال کیا، اس نے اقرار کر لیا اور کہا کہ میرے بال بچے مکہ میں تھے، میں نے چاہا کہ کفار پر ایسا احسان کر دوں کہ کفار انہیں اذیت نہ دیں ؛ قدرت نے حاطب کو اس عذر پر معاف کر دیا لیکن اس کردار کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے قابل مذمت قرار دید یا جہاں مال اور اولاد کی خاطر اسلام کے خلاف سازش کی جاتی ہے اور اسے نقصان پہنچایا جاتا ہے زمانے کے حالات پر غور کیا جائے تو آج عوام سے لے کر حکام تک میں حاطب کی ایک مسلسل نسل پائی جاتی ہے جسے بال بچے اور مال و دولت ،اسلام سے کہیں زیادہ عزیز ہیں اور جو اسلام کو ہر قدم پر بھینٹ چڑھانے کیلئے تیار رہتی ہے ۔.

لَّا يَنْهَاكُمُ اللَّـهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُم مِّن دِيَارِكُمْ أَن تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ ۚ إِنَّ اللَّـهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ ﴿٨﴾ سورة الممتحنة

یہ اسلام کی مکمل ترین سیاست صلح و جنگ ہے کہ جو قومیں ظلم و تعدی سے کام نہ لیں ان سے جنگ نہ کی جائے اور جو قومیں ظلم و تعدی پر کمر بستہ ہو جائیں ان سے صلح نہ کی جائے لیکن افسوس کہ مسلمانوں نے آیت کو بالکل الٹ کر رکھ دیا اور جس امریکہ نے عالم اسلام کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا ہے اور قلب عالم اسلام میں اسرائیل کو ایجاد کر دیا ہے اور ہمیشہ اس کی حمایت میں ویٹو کا استعمال کیا ہے اس سے صلح کی جارہی ہے اور جو ملک اسلامی مفادات کیلئے ہر طرح کی قربانی دے رہا ہے اس سے جنگ کی تیاریاں ہورہی ہیں، خدا اس صورت حال کی اصلاح کرنے اور مسلمانوں کو عقل سلیم اور صحت ایمان عطا کرے ۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلَىٰ تِجَارَةٍ تُنجِيكُم مِّنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ ﴿١٠﴾ سورة الصف

دنیا میں ہر انسان مزاجی اعتبار سے تاجر ہے اور فائدے کا طلبگار رہتا ہے اور فائدہ کے بغیر کوئی کام انجام نہیں دینا چاہتا، قدرت نے اسی مزاج پر نظر رکھتے ہوئے فائدہ کی عظمت کی طرف توجہ دلائی اور بتایا کہ تجارت ہی کرنا ہے تو خدا سے معاملہ کرو اور فائدہ ہی لینا ہے تو جنت جیسا فائدہ حاصل کرو جیسا کہ امیر المونینؑ کا ارشاد ہے کہ تمہارے نفس کی قیمت صرف جنت ہے لیکن خبردار کسی اور دام پر اسے مت بیچنا۔

مَثَلُ الَّذِينَ حُمِّلُوا التَّوْرَاةَ ثُمَّ لَمْ يَحْمِلُوهَا كَمَثَلِ الْحِمَارِ يَحْمِلُ أَسْفَارًا ۚ ﴿٥﴾ سورة الجمعة

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہودیوں نے توریت میں تحریف کر دی ہے ،اور مسلمانوں نے قرآن میں تحریف نہیں کی ہے لیکن اس کے باوجود جو مسلمان قرآنی تعلیمات پر عمل نہیں کرتے ہیں وہ حقیقتاً انسان کہے جانے کے قابل نہیں ہیں اس لئے کہ توریت جیسی کتاب کا بار نہ اٹھانا انسان کو گدھا بنا دیتا ہے تو قرآن کا مرتبہ تو اس سے کہیں زیادہ بلند و برتر ہے اور اس کا بار نہ اٹھانے والا تو کسی رخ سے انسان کہے جانے کے لائق نہیں ہے ۔

وَإِذَا رَأَوْا تِجَارَةً أَوْ لَهْوًا انفَضُّوا إِلَيْهَا وَتَرَكُوكَ قَائِمًا ۚ قُلْ مَا عِندَ اللَّـهِ خَيْرٌ مِّنَ اللَّـهْوِ وَمِنَ التِّجَارَةِ ۚ وَاللَّـهُ خَيْرُ الرَّازِقِينَ ﴿١١﴾ سورة الجمعة

حضور اکرم1 خطبہ پڑھ رہے تھے اور مال تجارت کا قا فلہ آ گیا تو بارہ افراد کے علاوہ سب بھاگ کھڑے ہوئے اور ساری صحابیت رخصت ہوگئی اور حقیقت امر یہ ہے کہ آج بھی ایسے کردار پائے جاتے ہیں جنہیں تجارت اور تماشہ کے آگے نماز کی اہمیت کا احساس نہیں ہوتا، کچھ لوگ کاروبار میں لگے رہ جاتے ہیں اور کچھ ریڈیو ر پورٹ اور ناچ گانے اور فلموں کے پروگرام کی نذر ہو جاتے ہیں ، ایسے لوگوں کا شمار عملی طور سے انہیں منافقین میں ہے اگر چہ بظاہر مومنین میں شمار کیے جاتے ہیں ۔

إِذَا جَاءَكَ الْمُنَافِقُونَ ﴿١﴾ سورة المنافقون

منافقت کی بہترین تعریف حضرت علیB نے ان الفاظ میں کی ہے کہ مومن کی زبان دل کے پیچھے ہوتی ہے اور منافق کا دل زبان کے پیچھے ہوتا ہے مؤمن جو دل میں رکھتا ہے وہی کہتا ہے اور منافق جو کہتا ہے وہ دل میں نہیں رکھتا ہے ۔

يَوْمَ يَجْمَعُكُمْ لِيَوْمِ الْجَمْعِ ۖذَٰلِكَ يَوْمُ التَّغَابُنِ ۗ ﴿٩﴾ سورة التغابن

تغابن ہار جیت کو کہا جا تا ہے اور اس سوره میں دہرے کر دار کا ذکر کر کے اسی حقیقت کا اعلان کیا گیا ہے کہ نیک کردار افراد زندگی کی بازی میں جیتنے والے ہیں اور بدکردار خسارہ اٹھانے والوں میں ہیں، اب انسان کا فرض ہے کہ وہ میدان حیات کو اپنی جیت کا میدان بنا دے اور شکست کا میدان نہ بننے دے کہ روز قیامت شرمندگی اور رسوائی کا منہ دیکھنا پڑے اور اس انعام سے محروم ہو جائے جو اس بازی کے جیتنے والوں کیلئے معین کیا گیا ہے اور جس کے لئے بہترین ایمان اور کردار کی شرط لگا دی گئی ہے ۔

لِيُنفِقْ ذُو سَعَةٍ مِّن سَعَتِهِ ۖ وَمَن قُدِرَ عَلَيْهِ رِزْقُهُ فَلْيُنفِقْ مِمَّا آتَاهُ اللَّـهُ ۚ لَا يُكَلِّفُ اللَّـهُ نَفْسًا إِلَّا مَا آتَاهَا ۚ سَيَجْعَلُ اللَّـهُ بَعْدَ عُسْرٍ يُسْرًا ﴿٧﴾ سورة الطلاق

اسلام کے نظام عدل کا ایک رخ یہ بھی ہے کہ انسان کسی حالت میں بھی انسانیت کو ہاتھ سے نہ جانے دے اور طلاق کے بعد بھی اگر عورت سے بچہ کی رضاعت کا کام لے تو اسے دودھ کی قیمت دیدےاور بلا سبب غربت کا بہانہ نہ کرے بلکہ جس حالت میں پروردگار نے رکھا ہے اسی اعتبار سے خرچ بھی کرے ،اگر غریب ہے تو غریبوں کی طرح کرے اور اگر صاحب وسعت ہے تو اس طرح خرچ کرے جس طرح ایک صاحب وسعت کرتا ہے اور بخل سے کام نہ لے کہ خدا کسی شخص کو بھی اس سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا ہے جتنا اسے عطا کیا ہے اور خدا بخیل کو ہرگز دوست نہیں رکھتا ہے۔

اسلام نے یہی قانون طاقت کے بارے میں بھی رکھا ہے اور یہی قانون مالیات کے بارے میں بھی ہے، فرق صرف یہ ہے کہ طاقت کے سلسلہ میں اسے لفظ وسع سے تعبیر کیا ہے جو طاقت کا سب سے ادنیٰ درجہ ہے اور مالیات میں مِمَّا آتَاهُ سے تعبیر کیا ہے جو انسان کو یہ احساس دلانے کیلئے کافی ہے کہ وہ جو کچھ بھی خرچ کر رہا ہے وہ اس کا اپنا نہیں ہے اور نہ پروردگار نے زبردستی اس کے سر پر قانون کو لادیا ہے بلکہ اس نے پہلے مال عطا کیا ہے اور اسکے بعد خرچ کا مطالبہ کیا ہے ۔

وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلَىٰ بَعْضِ أَزْوَاجِهِ حَدِيثًا فَلَمَّا نَبَّأَتْ بِهِ وَأَظْهَرَهُ اللَّـهُ عَلَيْهِ عَرَّفَ بَعْضَهُ وَأَعْرَضَ عَن بَعْضٍ ۖ فَلَمَّا نَبَّأَهَا بِهِ قَالَتْ مَنْ أَنبَأَكَ هَـٰذَا ۖقَالَ نَبَّأَنِيَ الْعَلِيمُ الْخَبِيرُ ﴿٣﴾ إِن تَتُوبَا إِلَى اللَّـهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا ۖ وَإِن تَظَاهَرَا عَلَيْهِ فَإِنَّ اللَّـهَ هُوَ مَوْلَاهُ وَجِبْرِيلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِينَ ۖ وَالْمَلَائِكَةُ بَعْدَ ذَٰلِكَ ظَهِيرٌ ﴿٤﴾ سورة التحريم

واقعہ یہ ہے کہ پیغمبر اسلام 1کے گھر میں ازواج کی دو پارٹیاں تھیں، ایک طرف عائشہ وحفصہ تھیں اور ایک طرف باقی ازواج اور یہ دونوں دیگر ازواج کو برداشت نہ کرتی تھیں چنانچہ ایک روز پیغمبر1نے زینب بنت جحش کے یہاں شہد کھا لیا تو دونوں نے سازش کر لی کہ جب پیغمبر1گھر میں آئیں تو ان سے کہا جائے کہ آپ کے منہ سے بو آ رہی ہے، چنانچہ اس کے بعد پہلی ملاقات حفصہ سے ہوئی اور انہوں نے منصوبہ پر عمل کر دیا، آپ نے صورت حال سے آگاہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اچھا اب نہ کھاؤں گا تا کہ ان کے دل سے زینب کا حسد نکل جائے اور گھر میں کوئی فساد نہ برپا ہو؛ لیکن دیکھو کسی سے اس وعد ہ کا ذکر نہ کرنا، حفصہ نے فورا اپنی شریک کار کو مطلع کر دیا ،اور جب پیغمبر1 نے یہ کہا کہ مجھے اس خیانت کا علم ہے تو گھبرا کر پوچھا کہ آپ کو کس نے بتا دیا ہے،تو فرمایا کہ پروردگار نے اور اب عافیت اسی میں ہے کہ دونوں توبہ کرو کہ تمہارے دلوں میں کجی آگئی ہے اور اگر توبہ نہ کی اور سازش کا سلسلہ جاری ر ہا تو یاد رکھو کہ میرے ساتھ خدا، ملائکہ اور وہ صاحبان ایمان ہیں جو نیک کردار ہیں اور مجھے تمہاری پرواہ بھی نہیں ہے تم کو چھوڑ بھی دوں تو مجھے تم سے کہیں بہتر عورتیں مل سکتی ہیں۔

حیرت کی بات ہے کہ ان حقائق قرآنیہ کے ہوتے ہوئے بھی بعض مسلمان ان خواتین کو ساری کائنات سے بہتر قرار دیتے ہیں اور انہیں دین کا مأخذ اور مدرک قرار دینے میں کسی تکلف سے کام نہیں لیتے ہیں، اسلام میں شریعت سازی کا کیا معیار ہے اور دین خدا ایسے ہی افراد سے لیا جائے گا جن کے دلوں کی کجی کا خودقرآن مجید نے اعلان کیا ہے تو ’’على الاسلام بعدہ السلام‘‘۔


[1] علی‌بابایی، برگزیدہ تفسیر نمونہ، ۱۳۸۲ش، ج۵، ص۱۱۶

[2] علی‌بابایی، برگزیدہ تفسیر نمونہ، ۱۳۸۲ش، ج۵، ص۱۱۶

[3] شیخ صدوق، ثواب الاعمال، ۱۳۸۲ش، ص۱۱۷۔

[4] طبرسی، مجمع البیان، ۱۴۰۶ق، ج۹، ص۳۸۴۔

[5] صدوق،‌ ثواب الاعمال، ص۱۱۸۔

[6] بحرانی،‌ تفسیر البرہان، ج۵، ص۳۵۱۔

[7] طبرسی، مجمع البیان، ج۹، ص۴۵۹۔

[8] شیخ صدوق، ثواب الاعمال، ۱۴۰۶ق، ص۱۱۸۔

[9] ملا صدرا، تفسیر سورہ الجمعہ، ۱۴۰۴ق، ص۱۵، بہ نقل از صفوی، «سورہ جمعہ»، ص۷۱۶۔

[10] طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۱۰، ص۴۲۷۔

[11] مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج۸۶، ص۳۶۲۔

[12] صدوق، علل الشرایع، ۱۳۸۵ق، ج۲، ص۳۵۶۔

[13] بحرانی، البرہان، ۱۴۱۶ق، ج۵، ص۳۷۱۔

[14] طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۱۰، ص۴۳۷۔

[15] شیخ صدوق، ثواب الاعمال، ۱۴۰۶ق، ص۱۱۸۔

[16] امام خمینی، توضیح المسائل (مُحَشّی)، ۱۴۲۴ق، ج۱، ص۸۴۸۔

[17] طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۱۰، ص۴۴۶۔

[18] شیخ صدوق، ثواب الاعمال، ۱۳۸۲ش، ص۱۱۸۔

[19] شیخ صدوق، ثواب الاعمال، ۱۳۸۲ش، ص۱۱۸۔

[20] بحرانی، تفسیر البرہان، ۱۴۱۶ق، ج۵، ص۳۹۱، بحرانی، تفسیر البرہان، ۱۴۱۶ق، ج۵، ص۳۹۱۔

[21] طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۱۰، ص۴۵۴۔

[22] صدوق، ثواب الأعمال، ۱۴۰۶ق، ص۱۱۹۔

[23] طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۱۰، ص۴۶۸۔

[24] صدوق، ثواب الأعمال، ۱۴۰۶ق، ص۱۱۸۔

[25] نوری، مستدرک الوسائل، ۱۴۰۸ق، ج۲، ص۲۴۱۔

[26] بحرانی، البرہان، ۱۴۱۶ق، ج۵، ص۴۱۷۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .