۳۱ فروردین ۱۴۰۳ |۱۰ شوال ۱۴۴۵ | Apr 19, 2024
سیپارۂ رحمان

حوزہ/قرآن مجید کے تیس پاروں کا اجمالی جائزہ؛چوبیسویں پارے کا مختصر جائزه۔

حوزہ نیوزایجنسیl

ترتیب و تحقیق: سیدلیاقت علی کاظمی الموسوی

چوبیسویں پارے کا مختصر جائزه

چوبیسویں پارے کےچیدہ نکات

اللَّـهُ يَتَوَفَّى الْأَنفُسَ حِينَ مَوْتِهَا وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا ۖ فَيُمْسِكُ الَّتِي قَضَىٰ عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الْأُخْرَىٰ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ ﴿٤٢﴾ سورة الزمر

مالک کائنات نے تخلیق کائنات میں یہ عجیب مصلحت رکھی ہے کہ انسان کو دو اجزا سے مرکب کر دیا ہے، ایک کو مادی بنایا ہے اور ایک کو غیر مادی اور پھر حیات کا فلسفہ یہ قرار دیا ہے که مادی کی حیات کا دارو مدار غیر مادی پر رکھا ہے اور غیر مادی کی زندگی کا دارومدار مادی پر نہیں رکھا ہے، گویا یہ ایک اشارہ ہے کہ انسانیت کا دارو مدار روحانیت اور معنویت پر ہے، مادیت کی کوئی ہستی اور حقیقت نہیں ہے اور یہیں سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ پروردگار نے غائب کی زندگی کو حاضر سے وابستہ نہیں کیا ہے بلکہ حاضر کی زندگی کو غائب سے وابستہ کیا ہے کہ جب تک جسم ِحاضر کا رشتہ روح غائب سے برقرار رہے گا انسان زنده رہے گا اور جب غیب سے رشتہ ٹوٹ جائے گا تو موت واقع ہو جائے گی اور یہ ایک اشارہ ہے کہ جس طرح انسان کی حیات روح غائب سے وابستہ ہے اسی طرح ایمان کی زندگی بھی ایمان بالغیب سے وابستہ ہے اور اس کے بغیر ایمان زندہ رہنے والا اور ایمان کہے جانے کے قابل نہیں ہے، صاحبان عقل کو تخلیق کے ان نکات اور مصالح پرغور کرنا چاہیے اور ایمان بالغیب کی عظمت کا اندازہ کرنا چاہیے

قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللَّـهِ ۚ إِنَّ اللَّـهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا ۚ إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ ﴿٥٣﴾ سورة الزمر

رحمت خدا سے مایوسی ایک عظیم جرم ہے اور گناہ کبیرہ ہے اور اس کا مطلب صرف یہ ہوتا ہے کہ انسان یہ تصور کر لے کہ کوئی گناہ ایسا بھی ہو سکتا ہے جو رحمت خدا سے بالاتر ہو اور جس کے معاف کرنے پر خدا بھی قادر نہ ہو، جو بہرحال ایک غیر منطقی تصور ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ انسان اس طرح رحمت خدا کا مذاق اڑانے لگے اور اسے گناہ کرنے کا بہترین بہانہ بنا لے کہ یہ بھی ایک دوسرا جرم عظیم ہے اسلام کی نگاہ میں رحمت خدا سے مایوس ہونا بھی ایک جرم ہے اور عذاب خدا کی طرف سے لا پرواہ ہو جاتا بھی ایک جرم ہے ۔

اسلام اس توازن حیات کا قائل ہے جہاں ذہن میں عذاب الہی کا احساس بھی رہے تا کہ جرم سرزد نہ ہونے پائے اور رحمت خدا کا خیال بھی رہے کہ اگر جرم سرزرد ہو جائے تو رحمت خدا سے ما یوس نہ ہو کہ توبہ کا خیال بھی نہ پیدا ہو ورنہ رحمت کا احساس ذہن سے نکل گیا اور یہ طے کر لیا کہ جہنم میں بہر حال جانا ہی ہے تو جرائم کی تعداد میں اور اضافہ ہو جائے گا اور گناہ کی مقدار بڑھتی ہی جائے گی ، اسی اضافۂ گناہ کو رو کے لئے اتنا وسیع اعلان مغفرت کر دیا گیا ہے ورنہ مغفرت بہرحال اسی کے ہاتھ میں ہے، وہ جس کو چاہے گا معاف کر دے گا اور جس کو چاہے گا جہنم میں ڈال دے گا ، اس پر معاف کر دینے کا کوئی لزوم اور جبر نہیں ہے۔

فَادْعُوا اللَّـهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ ﴿١٤﴾ سورة غافر

عبادت کا سب سے بڑا اخلاص یہی ہے کہ انسان کو اس بات کی فکر نہ ہو کہ اس کی عبارت لوگوں کو اچھی لگتی ہے یا بری ورنہ جہاں لوگوں کی پسند و ناپسند کا خیال ذہن میں آ گیا وہاں اخلاصِ عمل مجروح ہو جائے گا اور جس قدر یہ خیال راسخ ہوتا جائے گا اخلاص عمل تباہ و برباد ہوتا جائے گا، یہاں تک کہ بعض علماء اسلام نے اس نکتہ کی طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ انسان ریاکاری کے خوف سے اگر لوگوں کا خیال ذہن میں رکھ کرعمل کو چھپا کر بھی انجام دے گا کہ لوگوں کو معلوم نہ ہونے پائے یا وہ طعن و طنز نہ کرنے پائیں تو یہ بھی ریا کاری ہی کی ایک قسم ہے کہ اس میں بھی انسان کے ذہن پر انسان ہی مسلط ہے اور خدا کا اخلاص نہیں ہے ورنہ وہ رب العالمین کا مخلص بندہ ہوتا تو بندوں کے خیال سے بے نیاز ہو کرعمل کرتا اور خدا مجمع عام میں حکم دیتا تو مجمع عام میں عمل انجام دیتا اور وہ تنہائی میں عمل کرنے کا حکم دیتا تو گوشہ گمنامی میں چلا جاتا، اس کے کسی عمل کا محرک بندوں کا خیال یا ان کی تعریف و تنقیص نہ ہوتی بلکہ ہر عمل کا محرک صرف پروردگار کی اطاعت کا جذ بہ ہوتا، چاہے دنیا اسے پسند کرے یا یکسر ناپسندیدہ قرار دیدے ۔

رَفِيعُ الدَّرَجَاتِ ذُو الْعَرْشِ يُلْقِي الرُّوحَ مِنْ أَمْرِهِ عَلَىٰ مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ لِيُنذِرَ يَوْمَ التَّلَاقِ ﴿١٥﴾ سورة غافر

بیشک وہ خدا رفیع الدرجات ہے اور جس کو جس قدر بلندی چاہے عطا کر دیتا ہے وہ کسی میں صلاحیت دیکھتا ہے تو عرش اعظم تک بلا لیتا ہے اور کسی میں قابلیت دیکھتا ہے تو صاحب معراج کے کاندھوں پر بلند کر دیتا ہے ۔

وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا مُوسَىٰ بِآيَاتِنَا وَسُلْطَانٍ مُّبِينٍ ﴿٢٣﴾ إِلَىٰ فِرْعَوْنَ وَهَامَانَ وَقَارُونَ فَقَالُوا سَاحِرٌ كَذَّابٌ ﴿٢٤﴾ سورة غافر

یہ عجیب بات ہے کہ قدرت نے جناب موسی علیہ السلام کے مقابلہ میں ساری قوم کو چھوڑ کر صرف تین افراد کا ذکر کیا ہے کہ ہر موسیٰ کے مقابلہ میں گمراہی اور فساد کی بنیاد ایسے ہی افراد ہوا کرتے ہیں اور یہ بھی عجیب و غریب بات ہے کہ ان تین افراد کی حیثیت بھی یہ تھی کہ ایک حاکم تھا اور دوسرا اس کا وزیر اور تیسرا اپنے دور کا غنی اور مالدار اور حاکم نے اپنی ہر شرارت میں وزیر کا سہارا لیا ہے جیسا کہ قرآن مجید میں بھی صراحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے ۔رب العامین امت اسلامیہ کو اس وقت سے محفوظ رکھے جب تاریخ اپنے آپ کو دہرانے لگے اور فرعونیت دو بار منظر عام پر آجائے ۔

وَقَالَ رَجُلٌ مُّؤْمِنٌ مِّنْ آلِ فِرْعَوْنَ يَكْتُمُ إِيمَانَهُ أَتَقْتُلُونَ رَجُلًا أَن يَقُولَ رَبِّيَ اللَّـهُ وَقَدْ جَاءَكُم بِالْبَيِّنَاتِ مِن رَّبِّكُمْ ۖ وَإِن يَكُ كَاذِبًا فَعَلَيْهِ كَذِبُهُ ۖ وَإِن يَكُ صَادِقًا يُصِبْكُم بَعْضُ الَّذِي يَعِدُكُمْ ۖ إِنَّ اللَّـهَ لَا يَهْدِي مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ كَذَّابٌ ﴿٢٨﴾ سورة غافر

یہ آیت کریمہ پکار پکار کر اعلان کر رہی ہے کہ نمائندہ پروردگار کے تحفظ کیلئے اپنے ایمان کو مخفی رکھنا اور اس کا اظہار نہ کرنا جسے زبان شریعت میں تقیہ کہا جاتا ہے ایک قابل تعریف عمل ہے جو انسان کو مالک کائنات کی نظر میں قابل تعریف و توصیف بنا دیتا ہے ۔

اب بعض مسلمانوں کا تقیہ پر اعتراض کرنا اور اسے حق کی پردہ پوشی کا نام دے کر اس کے خلاف طرح طرح کی آوازیں اٹھانا ایک انتہائی حیرت انگیز عمل ہے جو سراسرصراحت قرآن کے خلاف ہے ۔

کسی چیز کے حق وصدق ہونے کے معنی یہ نہیں ہیں کہ اس کا اعلان کیا جائے اور اسے بہر صورت منظر عام پر لایا جائے کہ اس کی پردہ پوشی اور اس کا مخفی رکھنا حرام اور جرم ہو جائے ، حق کا مطلب صرف یہ ہے کہ اسے حق تسلیم کیا جائے اور جہاں اس کے اظہار کی ضرورت ہو وہاں اس کی پردہ پوشی نہ کی جائے جس طرح کفار ومشرکین کو پیغمبرؐ اسلام کے بارے میں تمام حقائق کا علم تھا اور وہ ان کی پردہ پوشی کرتے تھے تا کہ دنیا پر یہ حقائق عام نہ ہوسکیں، ورنہ سب حلقہ بگوش اسلام ہو جائیں گے اور ہمارے آبائی دین و مذہب کا کوئی نام و نشان نہ رہ جائے گا ۔

تقیہ کرنے والے انسان کو’’ رجل مومن‘‘ سے تعبیر کرنا اس امر کی علامت ہے کہ تقیہ نہ خلاف ایمان ہے اور نہ خلافت مردانگی اسے نہ کفر کہا جا سکتا ہے اور نہ بزدلی اس کی عظمت وضرورت سے وہ سب باخبر ہیں جنہیں حق و اہل حق کے تحفظ کا خیال ہے اور وہ اس راہ میں جذبات و احساسات کی قربانی دنیا جانتے ہیں ۔

هُوَ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن تُرَابٍ ثُمَّ مِن نُّطْفَةٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ ثُمَّ يُخْرِجُكُمْ طِفْلًا ثُمَّ لِتَبْلُغُوا أَشُدَّكُمْ ثُمَّ لِتَكُونُوا شُيُوخًا ۚ وَمِنكُم مَّن يُتَوَفَّىٰ مِن قَبْلُ ۖ وَلِتَبْلُغُوا أَجَلًا مُّسَمًّى وَلَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ ﴿٦٧﴾ سورة غافر

انسان ایک نظر فقط اپنے سراپا پر کرلے تو معرفت خدا اور ایمان و ایقان کیلئے کسی اور دلیل کی کوئی ضرورت نہ ہوگی ، ایک بالشت کے پیدا ہوئے بچے کے جسم کے اندر کونسا ضرورت کا سامان ہے جو نہیں رکھا گیا ہے اور کون سی چیز ہے جو کسی نا مناسب مقام پر رکھ دی گئی ہے، کسی بھی عضو بدن کو کم کر دیا جائے یا اسے اس کی جگہ سے ہٹا کر دیکھا جائے تو اندازہ ہوگا کہ انسان موجودہ صورت میں کس قدر حسین ہے اور اس صورت کے بدل جانے کے بعد کسی قد قبیح المنظر اور مکروہ وبے مصرف ہو جائے گا ۔

یہ تو اس کی ظاہری صورت کا حال ہے، اس کے بعد معنویات پر نگاہ کی جائے تو انسان کے ہوش و حواس سلامت نہیں رہ جاتے ہیں ایک انتہائی مختصر سے دماغ میں اس قدر صلاحیت اور ایک انتہائی مختصر سے دل میں اس قدر جذبات و احساسات اور ایک انتہائی مختصر سے وجود میں اس قدر تخلیق اور تصرف کی استعداد و قابلیت کے ماشاء اللہ اور اس کے بعد انسان کو دو قسموں میں تقسیم کر کے ہر ایک کے وجود میں دوسرے کے وجود کی کمی کےپورا کرنے کی صلاحیت رکھ دی گئی اور ہر ایک کو دوسرے کا مکمل قرار دیدیا گیا ، یہ کمال قدرت وصنعت کی دلیل نہیں تو اور کیا ہے!!!!

وَيُرِيكُمْ آيَاتِهِ فَأَيَّ آيَاتِ اللَّـهِ تُنكِرُونَ ﴿٨١﴾ سورة غافر

یہ کس قدر افسوسناک حقیقت ہے کہ علم انسان کو دعوت عمل اور دعوت بندگی دینے کے بجائے اسے سرکشی اور بغاوت پر آماده کرے اور انسان اپنے علم کے دعوے پر کافر و منکر ہو جائے جب کہ قارون کے واقعہ میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ اسے اللہ کی نعمتوں کو یا د والا یا گیا تو اس نے صاف کہہ دیا کہ اس میں احسان خداوندی کا کوئی دخل نہیں ہے، یہ سب میرے علم کا نتیجہ ہیں اور دور حاضر میں کتنے ہی افراد ایسے ہیں جو اپنے علم کا مصرف بغاوت اور سرکشی ہی کو قرار دیتے ہیں اور اللہ کی جملہ نعمتوں کو یہ کہہ کر نظر انداز کر دیتے ہیں کہ یہ سب ہماری حکمت عملی اور علمی ترقی کا نتیجہ ہے اس میں کسی کے فضل و کرم کا کوئی دخل نہیں ہے، یہاں تک کہ ایران کے معزول شاہ محمد رضا کو اس کے فرزند کی ولادت پر مباکباد دی گئی کہ خدا نے آپ کو فرزند نرینہ اور جانشین عطا کیا ہے تو اس نے جواب دیا کہ اس میں خدا کا کیا دخل ہے، یہ میرا اپنا کارنامہ ہے، قارون وفرعون سے لے کر شاہان وقت تک میں یہی فکر رہتی ہے اور آج تک اسی کا سلسلہ جاری ہے اور سب کا انجام بھی ایک ہی جیسا ہے ۔

وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لَا تَسْمَعُوا لِهَـٰذَا الْقُرْآنِ وَالْغَوْا فِيهِ لَعَلَّكُمْ تَغْلِبُونَ ﴿٢٦﴾ سورة فصلت

یہ بہت پرانا سیاسی حربہ ہے جو اہل باطل آج تک استعمال کر رہے ہیں کہ عوام کو اہل حق کی باتیں نہ سننے دو ورنہ ان کی بات اثر انداز ہو جائے گی اور اتنا ہنگامہ کرو کہ بات ہوا میں اڑ جائے اور اپنی پارٹی کمزور نہ ہونے پائے ۔

وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّن دَعَا إِلَى اللَّـهِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَقَالَ إِنَّنِي مِنَ الْمُسْلِمِينَ ﴿٣٣﴾ سورة فصلت

قرآن مجید کی اس ایک آیت میں زندگی کی تمام خوبیوں کو یکجا کر دیا گیا ہے اور اس بات کی وضاحت کر دی گئی ہے کہ انسان کے کردار کا کمال نه تنہا قول سے ظاہر ہوتا ہے اور نہ تنہاعمل سے اور عمل کا کمال بھی نه تنها انفرادیت سے حاصل ہوتا ہے اور نہ تها اجتماعیت سے بلکہ کردار کا کمال یہ ہے کہ خیر کے تمام شعبے اکٹھا ہو جائیں اور انسان ہر شعبہ حیات میں صاحب خیر کہا جائے جیسا کہ آیت کریمہ کے تین لفظوں سے واضح کیا گیا ہے کہ انسان اسلام کا اعلان کرے یہ زبان اور قول کا کمال ہے پھرعمل صالح کرے کہ یہ اعضاء و جوارح اور کردار کا کمال ہے اور آخر میں اللہ کی طرف دعوت دے کہ یہ اجتماعیت کا کمال ہے تنہا انفرادی اعمال انسان کے کامل کردار کا ذریعہ نہیں بن سکتے ہیں جب تک کہ اجتماعی اور سماجی حالات پر نگاہ نہ رکھی جائے اور بندگان خدا کو خدا کی طرف دعوت نہ دی جائے اسلام میں اپنی اپنی قبر اور اپنے اپنے اعمال کی کوئی گنجائش نہیں ہے، وہ ہرشخص پر دوسروں کی ہد ایت کر نے کی ذمہ داری عائد کرتا ہے اور ہر شخص سے اس کے سماج اور معاشرہ کے بارے میں سوال کیے جانے کا اعلان کرتا ہے ۔

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا مطلب ہی یہ ہے کہ انسان سے انفرادی کردار کے بارے میں بھی سوال کیا جائے گا اور اجتماعی حالات کے بارے میں بھی، سماج بگڑ گیا تو انسان بہرحال جواب دہ ہوگا کہ اس فساد میں اس کی خاموشی اور گوشہ نشینی کا کتنا حصہ ہے کہ عام طور پر سماج میں تباہی مصلحین کے سکوت اور بے محل تقدس سے ہی پیدا ہوتی ہے اور وہی بد کردار افراد کو کھلی چھوٹ دے دیتے ہیں کہ وہ سماج میں تباہی اور بربادی پیدا کر سکیں۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .