۳۰ فروردین ۱۴۰۳ |۹ شوال ۱۴۴۵ | Apr 18, 2024
سیپارۂ رحمان

حوزہ/قرآن مجید کے تیس پاروں کا اجمالی جائزہ؛بیسویں پارے کا مختصر جائزه۔

حوزہ نیوزایجنسی l

ترتیب و تحقیق: سیدلیاقت علی کاظمی الموسوی

بیسویں پارے کا مختصر جائزه

بیسویں پارے کےچیدہ نکات

وَإِذَا وَقَعَ الْقَوْلُ عَلَيْهِمْ أَخْرَجْنَا لَهُمْ دَابَّةً مِّنَ الْأَرْضِ تُكَلِّمُهُمْ أَنَّ النَّاسَ كَانُوا بِآيَاتِنَا لَا يُوقِنُونَ ﴿٨٢﴾ سورة النمل

دابة الارض ایک باشعور انسان ہے جس کی تفسیر بعض روایات میں امیر المومنین ؑسے اور بعض میں امام مہدی (عجل)سے کی گئی ہے ،مختلف اوقات میں معصومینFسے یہ پوچھا گیا ہے کہ آخر وہ کونسی مخلوق ہے جس کو اس کام کیلئے معین کیا گیا ہے تو فرمایا کہ وہ صاحب لحیہ ہے جس سے یہ بھی اشارہ ملتا ہے کہ باطل سے بیزاری کا اعلان کوئی ڈاڑھی والا ہی کر سکتا ہے، ڈاڑھی منڈوں کو یہ شرف بھی حاصل نہیں ہوسکتا ہے اور نہ ان کے اعلان کا کوئی اعتبار ہے ۔

وَنُرِيدُ أَن نَّمُنَّ عَلَى الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا فِي الْأَرْضِ وَنَجْعَلَهُمْ أَئِمَّةً وَنَجْعَلَهُمُ الْوَارِثِينَ﴿٥﴾ سورة القصص

مستضعف اگرچہ علمی، ادبی، فکری، اقتصادی اور سیاسی ہر اعتبار سے ہوسکتا ہے لیکن عام طور سے اس کا اطلاق سیاسی اور اخلاقی کمزوری پر ہوتا ہے قرآن مجید میں مستضعفین کا ذکر پانچ مقامات پر ہوا ہے اور ان سے مراد وہ صاحبان ایمان ہیں جنہیں ہر اعتبار سے پامال کردیا گیا ہے۔

وَقَالَتِ امْرَأَتُ فِرْعَوْنَ قُرَّتُ عَيْنٍ لِّي وَلَكَ ۖ لَا تَقْتُلُوهُ عَسَىٰ أَن يَنفَعَنَا أَوْ نَتَّخِذَهُ وَلَدًا وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ ﴿٩﴾ سورة القصص

زوجہ فرعون کا نام آ سیہ بنت مزاحم تھا اور انہیں قدرت نے اسی دن کیلئے فرعون کے قصر میں رکھا تھا ، انہوں نے ایک نبئ خدا کی زندگی کا تحفظ کر لیا تو روایت میں وارد ہوا ہے کہ دنیا کی بہترین عورتیں چار ہیں۔ مریم بنت عمران، آسیہ بنت مزاحم ، خدیجہ بنت خويلد اور فاطمہ بنت محمد1اور سب کا مشترک کردار یہ ہے کہ سب نے اپنے اپنے دور میں نبئ خدا کی حیات کا تحفظ کیا ہے؛ جناب مریم نے جناب عیسی علیہ السلام کو بچایا ہے، جناب آسیہ نے حضرت موسی علیہ السلام کا تحفظ کیا ہے، حضرت خدیجہ نے پیغمبر اسلام کو سہارا دیا ہے اور جناب فاطمہ نے اپنے باپ کے لئے ماں کی شفقت و محبت کا انتظام کر کے ان کا حوصلہ بڑھایا ہے، یہاں تک کہ روایات کی بنا پر سرکار دو عالمؐ انہیں اپنے باپ کی ماں کہہ کر یاد کیا کرتے تھےتحفظ رسالت ایک ایسا عظیم کارنامہ ہے جس کی مدح و ثناء آیات قرآن اور ارشادات معصومینؑ میں بار بار کی گئی ہے اب حیرت ہے ان احسان فراموش مسلمانوں پر جو اپنے نبیؐ کے محافظ ِحقیقی حضرت ابو طالب کے دشمن ہیں اور ان کے ایمان کا دیدہ و دانسته انکار کر رہے ہیں ۔

……أَنَّ وَعْدَ اللَّـهِ حَقٌّ وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ ﴿١٣﴾ سورة القصص

بیشک وعدهٔ نصرت الہی یہی ہے اور وہ غیب سے اس کا سامان فراہم کرنے والا ہے اور موسی علیہ السلام کو اس بات کا مکمل اعتبار تھا لیکن افسویں کہ عہد حاضر کے مسلمانوں کو یہ اعتبار نہیں ہے اور وہ ہرفرعون وقت سے خوفزدہ ہیں اور اس کے خلاف آواز اٹھانے سے لرز رہے ہیں بلکہ ان کے خلاف آواز اٹھانے والے کی آواز کو دبا دینے ہی کوقوم وملت کی خدمت تصور کر رہے ہیں خدا ان سب کو نیک ہدایت دے ۔

ۖ فَاسْتَغَاثَهُ الَّذِي مِن شِيعَتِهِ عَلَى الَّذِي مِنْ عَدُوِّهِ فَوَكَزَهُ مُوسَىٰ فَقَضَىٰ عَلَيْهِ ۖقَالَ هَـٰذَا مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ ۖ إِنَّهُ عَدُوٌّ مُّضِلٌّ مُّبِينٌ ﴿١٥﴾ سورة القصص

جناب موسیٰ علیہ السلام نے ایک اسرائیلی اور ایک قبطی کو لڑتے ہوئے دیکھا اور اسرائیل کی مدد کر دی اس لئے کہ قبطیوں کا ظلم عام تھا اور فرعون کی قوم ہونے کی بنا پر وہ مسلسل اسرائیلیوں کو ستا رہے تھے ۔

قرآن مجید نے اولاً اسرائیلی کو شیعہ کہا ہے اور پھر قبطی کو دشمن قرار دیا جس سے اس قرآنی اصطلاح کا اندازہ ہوتا ہے کہ نبی کے چاہنے والے اور مظلوم کو شیعہ کہا جاتا ہے اور اس کے مد مقابل کو دشمن کہا جاتا ہے ۔

دوسری طرف جب اسی اسرائیلی نے دوبارہ فریاد کی تو جناب موسیٰ علیہ السلام نے اسے بھی گمراہ قرار دیدیا کہ اس نے حالات کی رعایت کو نظر انداز کر دیا ہے اور روزانہ لڑنے کیلئے تیار رہتا ہے جب کہ قبطیوں کے مظالم سے باخبر ہے اور اس کا واضح ترین مطلب یہ ہے کہ جناب موسیٰ علیہ السلام کی نگاہ میں تقیہ نہ کرتا کھلی ہوئی گمراہی ہے، انسان کو حالات کا جائزه لے کر قدم اٹھانا چاہیے ادھر قبطی نے جناب موی علیہ السلام پر ظلم کا الزام لگا دیا جو اس بات کی دلیل ہے کہ قبطی غیر شیعہ ہونے کی بنا پر نبی کی عصمت و عدالت کا قائل نہیں تھا ۔

جناب موسی علیہ السلام کو قوم کی سازش سے باخبر کرنے والے کو سورهٔ غافر میں رجل مومن کہا گیا ہے جو علامت ہے کہ ایمان کا چھپانا مصلحت کے وقت خود بھی ایمان کی بہترین دلیل ہے اور جناب موسیٰ علیہ السلام کا مصر سے نکل جانا اس بات کی دلیل ہے کہ تقیہ سیرت انبیاء ہے اور اس کی مخالفت سیرت فرعون و ہامان و شیطان ہے ۔

فَلَمَّا جَاءَهُ وَقَصَّ عَلَيْهِ الْقَصَصَ قَالَ لَا تَخَفْ ۖ نَجَوْتَ مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ ﴿٢٥﴾ سورة القصص

اس واقعہ میں بے شمار اخلاقی تعلیمات اور نصیحتیں پائی جاتی ہیں جن کی طرف متوجہ رہنا ہر مسلمان اور قاری قرآن کی ذمہ داری ہے[ ۱]عورتوں کا کام کرنا کوئی عیب نہیں ہے بلکہ انہیں زندگی کے معاملات میں حصہ لینا چاہیئے۔[۲] عورتوں کو مردوں کے مجمع سے الگ رہنا چاہیے اور بھیڑ بھاڑ میں داخل نہیں ہونا چاہیے۔[ ۳] مردوں کی ذمہ داری ہے کہ کمزور عورتوں کی امداد کر یں اور ہر طاقت والے کی طاقت کا شکر یہ یہ ہے کہ اسے کمزور کی راہ میں صرف کر دے۔[ ۴] کوئی شخص فی سبیل اللہ بھی کام کر دے تو اس کی اجرت کی فکر ہونی چاہیے۔[ ۵] کسی سے کام لینے کیلئے دو باتوں کا لحاظ رکھنا ضروری ہے؛مادّی اعتبار سے طاقت ور ہو اور معنوی اعتبار سے دیانتدار ہو اور انہیں دونوں بنیادوں پر عقد کرنا چاہیئے تا کہ کسب معاش بھی کر سکے اور گھریلو ماحول کو مذہبی بھی بنا سکے۔[ ۶]- صاحب ایمان و کردار کے سامنے عقد کی پیش کش کرنا کوئی عیب کی بات نہیں ہے۔[۷] عورت کو اپنی رفتار میں شرم وحیا کا خاص خیال رکھنا چاہیے ایسا نہ ہو کہ لوگوں کے دلوں میں غلط جذبات پیدا ہو جائیں ۔

واضح رہے کہ جانور چَرانا جناب موسیٰ علیہ السلام کی مزدوری تھی مہر نہیں تھا؛ مہر کا معین ہونا ضروری ہے اسے اختیاری نہیں قرار دیا جا سکتا البتہ یہ ہوسکتا ہے کہ عقد کے ذیل میں یہ ایک شرط بھی رہی ہو اور یہ طریقہ اس دور میں رائج رہا ہو۔

فَأَخَذْنَاهُ وَجُنُودَهُ فَنَبَذْنَاهُمْ فِي الْيَمِّ ۖ فَانظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الظَّالِمِينَ ﴿٤٠﴾ سورة القصص

حق و باطل کے انجام کا کتنا نمایاں فرق ہے کہ کل اسی دریا میں موسیٰ علیہ السلام کی ماں نے موسیٰ علیہ السلام کو ڈال دیا تھا تو فرعون ہی کے قصر میں پناہ مل گئی تھی اور آج اسی دریا میں فرعون غرق ہورہا ہے تو کوئی پناہ دینے والا نہیں ہے ۔

إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ يَهْدِي مَن يَشَاءُ ۚ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ ﴿٥٦﴾ سورة القصص

اکثر مفسرین اہلسنت نے اس آیت کو حضرت ابو طالبؑ کی طرف موڑنے کی ناکام کوشش کی ہے کہ رسول اکرم 1نے بہت چاہا کہ وہ ایمان لے آئیں لیکن چونکہ خدا نے نہیں چاہا اس لئے وہ اسلام نہ لا سکے، جب کہ آیت بالکل عام ہے اور اس میں کسی فرد کی طرف اشارہ نہیں ہے اور اس اعتبار سے بھی حضرت ابوطالبؑ کی نگرانی کی داستان بالکل مہمل ہے کہ خدا اور رسول کی مرضی میں اختلاف نہیں ہوسکتا ہے ورنہ رسول رسالت سے برخواست ہو جائے گا، در اصل ان روایات کی بنیاد وہ احساسِ شکست ہے جو ابوطالبؑ کے مقابلہ میں تمام کفار کو حاصل ہوا تھا جن کا انہوں نے بظاہر کلمہ پڑھ کر انتقام لینا چاہا ہے کہ اسلام میں اپنے کو اصل بنا لیا ہے اور فداکاروں کو اسلام سے خارج کردیا ہے جو آج تک ہوتا چلا آرہا ہے اور خدا جانے کب تک ہوتا چلا جائے گا۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .