۲ آذر ۱۴۰۳ |۲۰ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 22, 2024
سیپارۂ رحمان

حوزہ/قرآن مجید کے تیس پاروں کا اجمالی جائزہ؛اٹھارھویں پارے کا مختصر جائزه۔

حوزہ نیوزایجنسی l

ترتیب و تحقیق: سیدلیاقت علی کاظمی الموسوی

اٹھارھویں پارے کا مختصر جائزه

اٹھارویں پارے کےچیدہ نکات

سورة المؤمنون۔ یہ سوره مکی ہے اور حکم زکوٰۃ مدینہ میں نازل ہوا ہے لہذا اس سوره میں زکوٰة سے مراد زکوۃ واجب نہیں ہے بلکہ کار خیر ہے جسے زکوٰة مستحب سے تعبیر کیا جاسکتا ہے، اس سوره کا ہر جمعہ کے دن تلاوت کرنے والا فردوس اعلیٰ کا استحقاق پیدا کر لیتا ہے ۔

قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ ﴿١﴾ الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ ﴿٢﴾ سورة المؤمنون

ان آیات مبارکہ نے یہ صاف واضح کر دیا ہے کہ مسلمان اور مؤمن ہونے کیلئے عقیدہ کافی ہے لیکن کامیابی اور نجات حاصل کرنے کیلئے مختلف قسم کی ذمہ داریوں کا ادا کرنا بھی ضروری ہے اور وہ ذمہ داریاں یہ ہیں کہ خدا کی بارگاہ میں خضوع وخشوع ہو، بندوں کیلئے مال زکوٰة ادا کیا جائے، اخلاقی اعتبار سے لغو بات سے پرہیز کیا جائے،عفت کے اعتبار سے ناجائز ذرائع سے شہوت کی تسکین کا سامان نہ کیا جائے، سارے ہی معاملات میں امانت اور عہد کا خیال رکھا جائے، بندگی کے استحکام کیلئے نماز کے اوقات کی پابندی کی جائے، ان شرائط کے بغیر نجات کا کوئی امکان نہیں ہے ۔

بعض روایات میں وارد ہوا ہے کہ حضرت علیB نے ولادت کے بعد سب سے پہلے انہیں آیات کی تلاوت کی تھی اور پیغمبر اسلام1 نے سند دی تھی کہ یہ بات تمہارے ہی ذریعے حاصل ہوئی ہے، گویا محبت اہلبیتؑ انسان کو انہیں ذمہ داریوں پر عمل کرنے کی دعوت دیتی ہے اور یہی ذمہ داریاں ہیں جو انسان کو منزل نجات تک لے جاتی ہیں ۔

فَقَالَ الْمَلَأُ الَّذِينَ كَفَرُوا مِن قَوْمِهِ مَا هَـٰذَا إِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُرِيدُ أَن يَتَفَضَّلَ عَلَيْكُمْ وَلَوْ شَاءَ اللَّـهُ لَأَنزَلَ مَلَائِكَةً مَّا سَمِعْنَا بِهَـٰذَا فِي آبَائِنَا الْأَوَّلِينَ ﴿٢٤﴾ سورة المؤمنون

ہر دور میں اشراف قوم کو یہی پریشانی رہتی ہے کہ اگر دوسرے شخص کی عظمت بیان کی گئی تو ہماری ریاست کا کیا انجام ہوگا ، خود ہمارے دور میں بھی دنیا کی تمام بڑی طاقتیں اسی ایک تصور سے پریشان رہتی ہیں کہ علماء دین کی حیثیت کا اندازہ لگا لیا گیا تو ہم جیسے شرابیوں اور کبابیوں کا پرسان حال کون ہوگا ۔

وَقَالَ الْمَلَأُ مِن قَوْمِهِ الَّذِينَ كَفَرُوا وَكَذَّبُوا بِلِقَاءِ الْآخِرَةِ وَأَتْرَفْنَاهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا مَا هَـٰذَا إِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يَأْكُلُ مِمَّا تَأْكُلُونَ مِنْهُ وَيَشْرَبُ مِمَّا تَشْرَبُونَ ﴿٣٣﴾ سورة المؤمنون

انسان عجیب وغریب شخصیت کا مالک ہے کہ جب دولت اور سامان عشرت نہیں ملتا ہے تو دعا کرتا ہے اور فریاد کرتا ہے اور جب سامان عشرت مل جاتا ہے تو سب سے پہلے اسے خدا کی مخالفت کے ذریعہ کے طور پر استعمال کرتا ہے اور اپنے کو دنیا میں مشغول رکھنے کیلئے خیال آخرت کو ذہن سے یکسر نکال دینا چاہتا ہے اگر چہ یہ خیال ہرآن اس کے ذہن کو ٹہو کے دیتا رہتا ہے اور اس کے ضمیر کو کسی طرف سے بھی مطمئن نہیں ہونے دیتا ہے لیکن پھر بھی وہ اپنی بات کو بالا رکھنے کیلئے اس کی مخالفت کرتا ہے تا کہ کم از کم قوم اس کی طرف متوجہ نہ ہونے پائے ورنہ ہماری حیثیت اور شخصیت کا جنازہ نکل جائے گا اور ہماری کوئی قدر و قیمت نہ رہ جائے گی ۔

يَا أَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا ۖإِنِّي بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ ﴿٥١﴾ سورة المؤمنون

اسلام کسی مقام پربھی کھانے پینے اور عیش و آرام کرنے سے منع نہیں کرتا ہے اس کا مطالبہ صرف یہ ہے کہ انسان پاکیزہ غذا کھائے اور کھا کر سو نہ جائے بلکہ عمل صالح کرتا رہے تا کہ غذا مقصد حیات نہ بننے پائے اور اس کی حیثیت ایک وسیلۂ عمل ہی کی رہے جیسا کہ سرکار دو عالم 1کے حالات میں نقل کیا گیا ہے کہ آپ اپنے اصحاب کی اچھی غذاؤں سے انکار نہیں فرماتے تھے بلکہ انہیں نوش فرما لیتے تھے اور پسندیدگی کا اظہار فرماتے تھے اور آپ کا منشا یہ تھا کہ قوم میں تصوف اور رہبانیت کو رواج نہ ملنے پائے ورنہ اسلام تباہ و برباد ہو جائے گا، اسلام مسائل حیات کو حل کرنے اور مشکلات زندگی سے جہاد کرنے آیا ہے، وہ میدان حیات سے فرار کی تعلیم دینے کیلئے نہیں آیا ہے، اور جو لوگ اس قسم کی تعلیم دیتے ہیں اور پھٹے لباس یا خراب غذا ہی کو مذہب یا تقدس کا معیار بنانے ہوئے ہیں وہ درحقیقت روح مذہب سے دور اور نظام اسلام کی بربادی کا ذریعہ ہیں البتہ اسلام ذمہ داران نذہب کو ضرور حکم دیتا ہے کہ وہ عوام کی زندگی کا خیال رکھیں اور اس سے بلند نہ ہوں تا کہ اس طرح عوام کے قلوب کو تسکین ملتی رہے اور وہ دل شکستہ نہ ہوں ، لیکن یہ رہبانیت کے علاوہ ایک دوسرا مسئلہ ہے جس کا تصوف اور ترک دنیا سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔

اسکے علاوہ یہ ایک اشارہ ہے کہ عمل خیر کا جذبہ پاکیزہ غذا سے ہی پیدا ہوتا ہے اگر کسی انسان کی غذا پاکیزہ نہیں ہے اور اس کے رگ و پئے میں نجاست و خباثت سرایت کرگئی ہے تو کہیں نہ کہیں اس کا اثر ضرور ہوگا، حرام تنخواہ کھانے والے ،حرام کاروبار کو اسی لیے نہیں ترک کرپاتے ہیں کہ مال حرام نے قبول حق کی صلاحیت کو سلب کرلیا ہے اور اب وہ راستے پر آنے والے نہیں ہیں۔

قُلْ مَن بِيَدِهِ مَلَكُوتُ كُلِّ شَيْءٍ وَهُوَ يُجِيرُ وَلَا يُجَارُ عَلَيْهِ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ ﴿٨٨﴾ سورة المؤمنون

قرآن مجید میں منکرین معاد کو سمجھانے کیلئے جس قدر اسالیب اور عناوین سے کام لیا گیا ہے شاید اسی قدر اسالیب و عناوین کسی اور موضوع کیلئے استعمال نہیں ہوئے ہیں، چنانچہ اس مقام پر تین اسالیب پیش کیے گئے ہیں۔

[۱] تمہارا خیال یہ ہے کہ ہم مٹی ہو جائیں گے تو دوبارہ کیسے اٹھائے جائیں گے؟ تو سوال یہ ہے کہ تم تو مٹی میں شامل ہو جاؤ گے خود اصل مٹی کا خالق کون ہے اور اگر اسے پہچانتے ہو تو جو اتنی بڑی زمین کو پیدا کرسکتا ہے وہ زمین سے آدمی کو کیوں نہیں نکال سکتا ہے ۔

[۲] زمین تو چھوٹی سی چیز ہے ان ساتوں آسمانوں اور عرش اعظم کا حساب بتاؤ کہ ان کا مالک کون ہے؟ اور جب مانتے ہو کہ ان کا مالک بھی خدا ہی ہے تو سوچو کہ جو اتنے بڑے آسمان کو پیدا کر سکتا ہے اس کو ایک آدمی کے پیدا کرنے میں کیا زحمت ہے ۔

[۳] پھر انسان اور عرش کی بات تو ایک طرف رہی کل کائنات کے بارے میں سوچو کہ یہ کائنات کس کے قبضۂ قدرت میں ہے اور اگر پہچانتے ہو کہ وہ خدا ہی ہے تو آخر کسی کے جادو میں مبتلا ہو گئے ہو کہ قادر مطلق کو عاجز تصور کر لیا ہے اور حیات آخرت پر ایمان نہیں لا رہے ہو ۔

ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ السَّيِّئَةَ ۚ نَحْنُ أَعْلَمُ بِمَا يَصِفُونَ ﴿٩٦﴾ سورة المؤمنون

بعض حضرات کا خیال ہے کہ ہر برائی کا بہترین جواب یہ ہے کہ انسان صبر سے کام لے تا کہ ظالم کو خود ہی شرم آ جائے اور وہ ظلم سے باز آ جائے یا منکر کو ہوش آ جائے اور وہ راه راست پر آ جائے لیکن یہ بات قاعدۂ کلیہ کے طور پر نہیں ہے بلکہ اچھائی کا معیار یہ ہے کہ جواب حالات کے مطابق ہو اور انسان میں نیکی کی صلاحیت پائی جاتی ہے تو جواب صبر سے ہو اور صرف شرارت پر آمادہ ہے تو طاقت کا بھی مظاہرہ کرو تا کہ اسے تمہاری کمزوری کا احساس نہ ہونے پائے کہ اس طرح مزید بغاوت اور شرارت پیدا ہو گی ، جس طرح کہ سرکار دو عالم(ص) نے مدینہ منورہ کی زندگی میں کیا ہے ۔

قَالَ اخْسَئُوا فِيهَا وَلَا تُكَلِّمُونِ ﴿١٠٨﴾ سورة المؤمنون

واضح رہے کہ زبان عرب میں یہ لفظ کتے کو دھتکارنے کے لئے استعمال ہوتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ کفار اور ظالمین نگاه پروردگار میں ایک نجس العین جانور سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے ہیں، اب یہ حیرت کی بات ہے کہ کفار و مشرکین کو مسلمان اپنا آقا و مولا اور اپنے مقدر کا مالک و مختار بنائے ہوئے ہیں

سورة النور ۔ سوره ٔنور کے بارے میں امام صادق Bنے فرمایا کہ اپنے اموال اور اپنی عورتوں کی عفت کا تحفظ سوره نور کی تلاوت کے ذریعہ کرو کہ اس کی روزانہ تلاوت کا اثر یہ ہوتا ہے کہ گھرانے میں کوئی شخص بھی بد کا نہیں ہوتا ہے ۔

اس سوره کا کل خلاصہ یہ ہے کہ یہ مؤمنین کے پیغام نجات سے شروع ہوا ہے اور کافر ین کے عدم نجات پر تمام ہوا ہے اور اسی لئے اس کے فورا بعد مغفرت اور رحمت کی دعا کی گئی ہے تا کہ انسان توفیقات الہیہ اور رحمت پروردگار کے سہارے زمرۂ مومنین میں شامل رہے اور کفار کے گروہ میں محشور نہ ہونے پائے ۔

الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي فَاجْلِدُوا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ ۖ ﴿٢﴾ سورة النور

اسلام عفت اور پاکیزگی کا مذهب ہے، وہ اس مسئلہ میں کسی طرح کی مروت کا قائل نہیں ہے، وہ مسئلہ کی تحقیق اور گواہی پر ضرور زور دیتا ہے لیکن جرم کے ثابت ہو جانے کے بعد پھر کسی طرح کی رعایت نہیں کرتا ہے بلکہ سزا کو منظر عام پر لانا چاہتا ہے، تاکہ عزت لوٹنے والے کا انجام عزت لٹنے کی شکل میں دیکھنے میں آئے اور اسے عبرت حاصل ہو سکے اور اس کی عبرت کے بیج میں دیگر افراد معاشرہ بھی عبرت حاصل کر لیں ۔

أَن تَأْكُلُوا مِن بُيُوتِكُمْ أَوْ بُيُوتِ آبَائِكُمْ أَوْ بُيُوتِ ﴿٦١﴾ سورة النور

بعض حضرات کا خیال ہے کہ گھروں کی تکرار اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ اسلام جوائنٹ فیملی کا طرفدارنہیں ہے اور وہ ہر ایک کا گھر الگ الگ دیکھنا چاہتا کہ اس طرح بغض وحسد، حرص و طمع اور مقابله و چشمک سے بھی انسان محفوظ ہو جائے گا اور پردےکا بھی با قاعدہ اہتمام ہو سکے گا ۔

وَلَـٰكِن مَّتَّعْتَهُمْ وَآبَاءَهُمْ حَتَّىٰ نَسُوا الذِّكْرَ وَكَانُوا قَوْمًا بُورًا﴿١٨﴾ سورة الفرقان

انسانی گمراہی کا سب سے بڑا سرچشمہ دنیا کا عیش و آرام اور مال و سرمآیت ہوتا ہے کہ یہ جب کسی کے پاس آ جاتا ہے تو اس کے لئے گمراہی کے جملہ امکانات فراہم ہو جاتے ہیں اور وہ راہ راست سے بہکنے لگتا ہے ۔

کفار و مشرکین تو کفار ومشرکین ہیں، |مسلمان اور مومنین کو بھی یہ مال دنیا مل جاتا ہے تو ان میں فرعونیت پیدا ہونے لگتی ہے اور لوگوں کے مقابلہ میں اپنی برتری کو دیکھ کر اپنے کو خدا سے بھی بالاتر سمجھنے لگتے ہیں اور انہیں یہ احساس ہونے لگتا ہے کہ اب ہم پر اطاعت خدا فرض نہیں ہے اور ہم میں تو خود بھی خدائی کا ایک پرتو نظر آنے لگا ہے ۔

دنیا میں کتنے افراد ایسے ہیں جو مال دنیا اور سرمآیت و دولت پر عبادت خدا کو مقدم کریں ؟؟اور اگر کاروبار یا نوکری میں اس طرح ترقی مل رہی ہو کہ اوقات نماز متاثر ہورہے ہوں یا نماز جماعت ترک ہو رہی ہو یا روز ہ ہاتھ سے جا رہا ہو یا اعمال خیر میں شرکت سے محرومی ہو رہی ہو تو وہ نوکری کی تر قی یا آمدنی میں اضافہ کو نظر انداز کر دیں؟؟ اور عبادت الہی کو دنیا و آخرت کی ترقی کا سرمایہ تصور کر یں؟؟؟!

تبصرہ ارسال

You are replying to: .