۵ آذر ۱۴۰۳ |۲۳ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 25, 2024
سیپارۂ رحمان

حوزہ/قرآن مجید کے تیس پاروں کا اجمالی جائزہ؛سولھویں پارے کا مختصر جائزه۔

حوزہ نیوزایجنسیl
ترتیب و تحقیق: سیدلیاقت علی کاظمی الموسوی

سولھویں پارے کا مختصر جائزه

سولھویں پارے کےچیدہ نکات

فَأَبَوْا أَن يُضَيِّفُوهُمَا ﴿٧٧﴾سورة الكهف

بعض مفسرین کا کہنا ہے کہ کھانا دینے کے بجائے ضیافت سے انکار کا ذکر کر کے یہ واضح کر دیا گیا ہے کہ مہمان نوازی سے انکار کردینا انتہائی ذلیل عمل ہے ۔

الَّذِينَ ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ يَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ يُحْسِنُونَ صُنْعًا ﴿١٠٤﴾ سورة الكهف

آیت نے صاف واضح کر دیا ہے کہ عمل خیر کا معیار نہ اپنی پسند ہے اور نہ اپنے چاہنے والوں کی پسند؛عمل خیر کا معیارصرف حکم الہی ہے عمل اس کے مطابق ہے تو عمل خیر ہے ورنہ وقت کی بربادی اور صلاحیت کی تباہی کے علاوہ کچھ نہیں ہے ۔

قُل لَّوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِّكَلِمَاتِ رَبِّي لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ أَن تَنفَدَ كَلِمَاتُ رَبِّي وَلَوْ جِئْنَا بِمِثْلِهِ مَدَدًا ﴿١٠٩﴾ سورة الكهف

كلمات الہیہ صرف الفاظ وعبارات کا نام نہیں ہے بلکہ ہر ارادۂ الٰہی ایک کلمہ ہے اور ہر موجود جو اپنے وجود سے اپنے خالق کی عظمت کی نشاندہی کر کے ایک کلمہ ہے اور اس طرح کلمات الٰہیہ کا احصاءممکن نہیں ہے ۔

قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُوحَىٰ إِلَيَّ أَنَّمَا إِلَـٰهُكُمْ إِلَـٰهٌ وَاحِدٌ ۖ فَمَن كَانَ يَرْجُو لِقَاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهِ أَحَدًا ﴿١١٠﴾ سورة الكهف

بشریت کیلئے وحی کی قید اس امر کی علامت ہے کہ رسول کو ہر جہت سے اپنا جیساسمجھنا ان سے یکسر ناواقفیت کی علامت ہے؛ ان کی بشریت میں یقینا یہ امتیاز ہوتا ہے کہ انہیں منزل وحی بنا دیا جائے اور دوسرے افراد کو ہر حال یہ شرف نہیں دیا جاتا ہے ۔

سورة مريم

اس سوره مبارکہ میں جناب مریم کے تذکرہ سے پہلے جناب زکریاBکے یہاں ولادت کا ذکر کیا گیا ہے تا کہ دنیا کو یہ اندازہ ہو جائے

کہ خدا نظام تخلیق میں عام حالات اور اسباب کا پابند نہیں ہے وہ ۹۹ سال کی عمر میں جناب زکریا کے یہاں اولاد پیدا کر سکتا ہے جب کہ ان کی زوجہ بھی بوڑھی اور بانجھ تھیں تو بغیر شوہر کے جناب مریم کے یہاں بھی فرزند پیدا کر سکتا ہے ،اور اسی لئے جناب زکریا کی زبان سے یہ بھی کہلوا دیا کہ یہ بات بہت مشکل ہے کہ ایک بوڑھے مرد کے یہاں بانجھ عورت سے بچہ پیدا ہو جائے اور اس کا جواب بھی دے دیا کہ خدا کیلئے کوئی مشکل نہیں ہے؛ اس وقت کم از کم بوڑھا مرد اور بوڑھی عورت کا ذریہ تو موجود ہے وہ تو بالکل عدم سے وجود میں لانے والا |ہے تو اسکے لئے یہ تخلیق کون سا مشکل کام ہے جناب زکریاBکی دعا نے یہ بھی واضح کر دیا کہ انبیاء کرام مادی وراثت کیلئے بھی پسندیده فرزند چاہتے ہیں تا کہ مال برباد نہ ہونے پائے صاحبان ایمان کو بھی یہی دعا کرنی چاہیے اور ایسی ہی تربیت دینی چاہیے کہ وارث مال کو تاہ و برباد نہ کرنے پائے ۔

وَهُزِّي إِلَيْكِ بِجِذْعِ النَّخْلَةِ تُسَاقِطْ عَلَيْكِ رُطَبًا جَنِيًّا ﴿٢٥﴾ سورة مريم

پروردگار نے مریم کے لئے از غیب بلا فصل کے میوے پیدا کر دیئے لیکن یہ حکم دیا کہ درخت کو ہلا ؤ تو پھل گریں گے تا کہ اولاد آدم کے لئے یہ نصیحت رہے کہ رزق دینا خدا کا کام ہے لیکن محنت کرنا بہر حال ایک ضروری امر ہے ۔

قَالَ إِنِّي عَبْدُ اللَّـهِ آتَانِيَ الْكِتَابَ وَجَعَلَنِي نَبِيًّا ﴿٣٠﴾ سورة مريم

یہ ایک عجیب وغریب بات ہے کہ نبئ خدا اپنے کو بندهٔ خدا کہہ رہا ہے اور اس کے ماننے والے اسے فرزند خدا کہہ رہے ہیں ؛اور یہ ایک اشارہ ہے کہ یہ رسم دور قدیم سے چلی آرہی ہے کہ کسی شخصیت کو ماننے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس کی بات کو بھی مان لیا جائے بلکہ اکثر ماننے والے شخصیت پرست ہوتے ہیں اور بات کا اتباع نہیں کرتے ہیں فرق صرف یہ ہے کہ پہلے یہ کام عیسائی کیا کرتے تھے اور اب یہی کام مسلمان اور مومنین کر رہے ہیں کہ ایمان اور عقیدت کے باوجود احکام پر عمل نہیں کرتے اور اپنے کو سب سے بڑا مانے والا تصور کرتے ہیں اور جو جس قدر ماننے والا کہا جا تا ہے وہ اس قدر بدعمل اور بے عمل بھی ہو جاتا ہے ۔

لَّا يَسْمَعُونَ فِيهَا لَغْوًا إِلَّا سَلَامًا ۖ ﴿٦٢﴾ سورة مريم

آیت کا صاف اعلان ہے کہ جنت میں لغو آواز وں کا گذر بسر نہیں ہے، اب گانے بجانے کے شوقین افراد کو سوچنا چاہیے کہ وہ اپنے شوق کی تسکین کیلئے اپنا ٹھکانا کہاں بنائیں گے ۔

قَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِلَّذِينَ آمَنُوا أَيُّ الْفَرِيقَيْنِ خَيْرٌ مَّقَامًا وَأَحْسَنُ نَدِيًّا ﴿٧٣﴾ سورة مريم

یہ منطق ہر دور کے گمراہوں میں رائج رہی ہے کہ انہوں نے حقائق کا فیصلہ مال ودولت اور دنیاوی وجاہت کی بنا پر کیا ہے اور اسی بات نے فرعون وشداد ونمرود کو خدا بنا دیا تھا اور اسی بات نے مشرکین مکہ کو مرسل اعظمؐ کا مذاق اڑانے پر آمادہ کیا تھا اور یہی بات آج کے مسلمانوں سے سپر پاورزکی چوکھٹ پر سجدے کرا رہی ہے ورنہ اسلامی نقطۂ نگاہ سے اس منطق کی کوئی قیمت نہیں ہے اور یہ مادیت پرستی کے علاوہ کچھ نہیں ہے جسے خدا پرستی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

وَاجْعَل لِّي وَزِيرًا مِّنْ أَهْلِي ﴿٢٩﴾ سورة طه

واضح رہے کہ جناب موسیٰؑ نے وزیر بنایا نہیں بلکہ خدا سے مطالبہ کیا جو اس بات کی دلیل ہے کہ نبی کا وزیر بھی خدا ہی بناتا ہے نبی یا عام بندے نہیں بنا سکتے ہیں ۔

فَلَبِثْتَ سِنِينَ فِي أَهْلِ مَدْيَنَ ﴿٤٠﴾ سورة طه

جناب موی علیہ السلام نے اپنے ایک دوست کی فریاد پر ایک فرعونی کوقتل کر دیا او انتقام کے خوف سے باہر نکل گئے اور کئی برس تک مدین میں مقیم رہے جہاں عقد کیا اور بطور مہر دس سال تک جناب شعیبؑ کی بکریاں چرائیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مہر کا ادا کرنا ایک انتہائی اہم کام ہے چاہے اس راہ میں بکریاں چرانے ہی کا کام انجام دینا پڑے ہمارے سماج کو اس تذکرہ ٔقرآن سے عبرت حاصل کرنی چاہیے ۔

وَأَضَلَّهُمُ السَّامِرِيُّ ﴿٨٥﴾ سورة طه

ایک سامری کی شاطرانہ حرکت سے جناب موسیٰؑ کی تمام توحیدی تعلیمات بے اثر ہو گئ اور چھ لاکھ افراد سامری کے چکر میں آگئےاور صرف بارہ ہزار افراد توحيد پر باقی رہ گئے اور تاریخ نے اس نکتہ کو محفوظ کر لیا کہ نہ نبی کا ساتھ گمراہی سے بچانے کی ضمانت ہے اور نہ اکثریت حقانیت کی علامت ہے، تاریخ میں ایک سامری بھی پیدا ہو جائے تو قوم کی اکثریت کو تباہ و برباد کر سکتا ہے ، ہر امت اپنے نبی کے بعد اسی طرح گمراہ ہوتی ہے کہ اپنے ہارون کو چھوڑ کر ایسے لوگوں کے پیچھے لگ جاتی ہے جن سے نہ کسی فائدہ کی توقع ہوتی ہے اور نہ نقصان کی اور صرف اس لئے کہ انہیں سونے سے سجا کر رکھا جاتا ہے۔

أَفَلَا يَرَوْنَ أَلَّا يَرْجِعُ إِلَيْهِمْ قَوْلًا وَلَا يَمْلِكُ لَهُمْ ضَرًّا وَلَا نَفْعًا ﴿٨٩﴾ سورة طه

نقصان کے لفظ کو مقدم کر کے بتایا گیا ہے کہ جو نقصان نہ پہنچا سکتا ہو وہ فائدہ کیا پہنچائے گا ( یہ بیچارہ تو اس قدر بے بس ہے کہ اس سے گوبر کی بھی توقع نہیں کی جاسکتی ہے اور یہ احمق اس سے خدائی کی امید لگائے بیٹھے ہیں) ۔

قَالَ بَصُرْتُ بِمَا لَمْ يَبْصُرُوا بِهِ فَقَبَضْتُ قَبْضَةً مِّنْ أَثَرِ الرَّسُولِ فَنَبَذْتُهَا وَكَذَٰلِكَ سَوَّلَتْ لِي نَفْسِي ﴿٩٦﴾ سورة طه

اصل قصہ یہ ہے کہ رسول سے مراد خود جناب موسیٰBہیں اور اثر سے مرادان کے تعلیمات ہیں جن کا ایک حصہ سامری نے لے لیا تھا اور پھر اسے پھینک دیا اور گمراہی کی طرف مائل ہو گیا جیسا کہ جنگ جمل کے موقع پر امیر المومنینؑ نے حسن بصری کے بارے میں فرمایا تھا کہ یہ سامری کی طرح میرے بیانات نوٹ کررہا ہے اور پھر لوگوں کو جنگ کے خلاف ورغلا رہا ہے (احتجاج طبری) ۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .