۲ آذر ۱۴۰۳ |۲۰ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 22, 2024
سیپارۂ رحمان

حوزہ/قرآن مجید کے تیس پاروں کا اجمالی جائزہ؛بارھویں پارے کا مختصر جائزه۔

حوزہ نیوزایجنسیl

ترتیب و تحقیق: سیدلیاقت علی کاظمی الموسوی

بارھویں پارے کا مختصر جائزه

اس پارے کے ضمن میں سورهٔ ہود،یوسف کا ذکر کیا جائے گا۔

بارھویں پارے کےچیدہ نکات

وَمَا مِن دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللَّـهِ رِزْقُهَا وَيَعْلَمُ مُسْتَقَرَّهَا وَمُسْتَوْدَعَهَا ۚ كُلٌّ فِي كِتَابٍ مُّبِينٍ ﴿٦﴾ سورة هود

لفظ دا به، د بیب یعنی حرکت سے نکلا ہے جو اس بات کی واضح دلیل ہے کہ رزق کی ضمانت حاصل کرنے کے لئے بھی حرکت کی ضرورت ہے چاہے وہ فطری اور طبیعی ہی کیوں نہ ہو -

بعض حضرات نے مستقر سے دنیا کا ٹھکانا اور مستودع سے مرنے کے بعد سونپے جانے کی جگہ کو مراد لیا ہے اور بعض نے مستقر دنیا کا ٹھکانا اور مستودع دنیا میں آنے سے پہلے رحم مادر کو مراد لیا ہے جہاں انسان عارضی طور پر رہتا ہے اور یہی زیادہ مناسب بھی ہے اس لئے کہ تذکرہ رزق کا ہے اور رزق مرنے کے بعد قبر میں نہیں دیا جا تا ہے اور یہ رزق رحم مادر میں بھی ملتا ہے اور دنیا میں مخلوقات کے ٹھکانے پر بھی ملتا رہتا ہے۔

واضح رہے کہ رزق کی ضمانت کے معنی یہ ہرگز نہیں ہیں کہ انسان کام کرنا اور محنت کرنا ترک کردے۔

محنت بہرحال ایک فریضہ ہے جس سے غافل نہ ہونا چاہیے۔ رزق کی ضمانت اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ محنت ضائع نہ ہوگی اور

اسی لئے شہدائے راہِ خدا سے مرنے کے بعد رزق کا وعدہ کیا گیا ہے کہ شہادت بے اثر اور بے فیض نہیں ہوسکتی ہے۔

مَن كَانَ يُرِيدُ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا نُوَفِّ إِلَيْهِمْ أَعْمَالَهُمْ فِيهَا وَهُمْ فِيهَا لَا يُبْخَسُونَ ﴿١٥﴾ سورة هود

دنیا دار اسباب ہے۔ یہاں ہر کام اسباب کے تحت انجام پاتا ہے اور جو بھی ان اسباب کو اختیار کرے گا وہ نتائج ضرور حاصل کرلے گا لہذا اگر کسی نے دنیا داری کے اسباب فراہم کئے تو وہ نعمت خدا یہاں حاصل کرلے گا اور اگر کسی نے عمل آخرت انجام دیا تو وہ آخرت میں اپنا اجر حاصل کرے گا۔ خدا قانون اسباب کی بنا پرکسی کی محنت کو ضائع نہیں کرتا ہے۔ علاوہ اس کے کہ کوئی ایسی صورت پیدا ہو جائے جہاں تنبیہ کے لئے دنیا میں سزا دینا پڑ جائے تو وہاں بھی اسباب ہی اپنا کام کرتے ہیں اور بربادی کا سبب ہی بربادی پیدا کرتا ہے۔

وَيَا قَوْمِ لَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مَالًا ۖ إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّـهِ ۚ وَمَا أَنَا بِطَارِدِ الَّذِينَ آمَنُوا ۚ إِنَّهُم مُّلَاقُو رَبِّهِمْ وَلَـٰكِنِّي أَرَاكُمْ قَوْمًا تَجْهَلُونَ ﴿٢٩﴾ سورة هود

یہ اشارہ ہے کہ مخلص تبلیغ کرنے والوں کی نگاہیں مال دنیا پر نہیں ہوتی ہیں اور دین کے نام پر کھانے کمانے والے دین کے

مخلص نہیں ہوتے ہیں۔

وَنَادَىٰ نُوحٌ ابْنَهُ وَكَانَ فِي مَعْزِلٍ يَا بُنَيَّ ارْكَب مَّعَنَا وَلَا تَكُن مَّعَ الْكَافِرِينَ ﴿٤٢﴾ سورة هود

ایک مبلغ کا صحیح فریضہ یہی ہے کہ کسی آن بھی اپنے کلام کی تاثیر سے مایوس نہ ہو اور برابر ہدایت قوم پر لگا رہے۔ حد یہ ہے کہ اگر جناب نوح کی طرح یقین بھی ہو جائے کہ اثر نہ ہوگا تو بھی وجوب تو ساقط ہو جائے گا لیکن حسن ظن بہر حال برقرار رہے گا اور کام کو جاری رکھنا چاہئے۔ یہ واقعہ ہر باپ کے لئے ایک سبق ہے کہ آخر تک بیٹے کی ہدایت کرتے رہنا چاہئے اور پھر سامان تسکین بھی ہے کہ اگر بیٹا ڈوب بھی جائے تو باپ اپنے کو قصور وار نہ سمجھے کہ نوحؑ جیسے پیغمبر کا بیٹا بھی غرق ہو چکا ہے اور یہی حال بیوی کا بھی ہے کہ ہدایت کرنا اپنا فرض ہے پھر اس کے بعد بچنا یا ڈوبنا اس کا اپناعمل ہے۔

قَالَ يَا نُوحُ إِنَّهُ لَيْسَ مِنْ أَهْلِكَ ۖ إِنَّهُ عَمَلٌ غَيْرُ صَالِحٍ ۖ فَلَا تَسْأَلْنِ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ ۖ إِنِّي أَعِظُكَ أَن تَكُونَ مِنَ الْجَاهِلِينَ ﴿٤٦﴾ سورة هود

آیت نے صاف واضح کردیا ہےکہ نبی کے اہل میں نسب سے شمول نہیں ہوتا ہے اس کے لئے عمل صالح درکار ہوتا ہے اور عمل صالح نہ ہو تو ابولہب بھی خارج ہو جاتا ہے اور عمل صالح ہوتو سلمانؒ بھی داخل ہو جاتے ہیں ۔ صرف نسب سیادت پر ناز کرنے والے اس نکتہ پر خصوصیت کے ساتھ توجہ دیں۔

وَإِلَىٰ عَادٍ أَخَاهُمْ هُودًا ۚ قَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّـهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَـٰهٍ غَيْرُهُ ۖ إِنْ أَنتُمْ إِلَّا مُفْتَرُونَ ﴿٥٠﴾ سورة هود

جناب ہو دB قوم عاد ہی کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور آپ نے سب سے پہلے عربی زبان میں کلام کیا تھا اور آپ کی قبر نجف اشرف میں ہے،آپ نے اس بات کو واضح کردیا تھا کہ گناه معاشرہ کی تباہی کا سبب ہوتا ہے اور اس سے بچانے کا کوئی ذریعہ استغفار کے علاوہ نہیں ہے۔

وَيَا قَوْمِ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوبُوا إِلَيْهِ يُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَيْكُم مِّدْرَارًا وَيَزِدْكُمْ قُوَّةً إِلَىٰ قُوَّتِكُمْ وَلَا تَتَوَلَّوْا مُجْرِمِينَ ﴿٥٢﴾ سورة هود

یہ آیت دلیل ہے کہ استغفار کا اثر صرف آخرت میں نہیں ہوتا ہے بلکہ دنیا میں بھی ہوتا ہے جیسا کہ امام حسنؑ نے ایک لا ولد کو سات مرتبہ روزانہ استغفار کرنے کی تعلیم دی تھی اور وہ صاحب اولاد ہو گیا تھا اور پھر فرمایا تھا کہ میں نے یہ اس آیت کریمہ سے استنباط کیا ہے۔

وَيَا قَوْمِ هَـٰذِهِ نَاقَةُ اللَّـهِ لَكُمْ آيَةً فَذَرُوهَا تَأْكُلْ فِي أَرْضِ اللَّـهِ وَلَا تَمَسُّوهَا بِسُوءٍ فَيَأْخُذَكُمْ عَذَابٌ قَرِيبٌ ﴿٦٤﴾ سورة هود

ناقہ ،ناقتہ اللہ اور زمین ارض اللہ ہے مگر ظالموں سے یہ بھی گوارا نہ ہوا کہ جس زمین کی ساری نعمتوں پر اپنا قبضہ ہے اس کے چند دانے اللہ کی طرف منسوب ناقہ بھی کھا لے اور یہ برتا ؤ اللہ والوں کے ساتھ ہر دور میں ہوتا رہا ہے کہ اہل دنیا نے ان کی زندگی اور ان کا کھانا پینا بھی برداشت نہیں کیا اور ہمیشہ ان کی ہلاکت کے درپے رہے۔ اس کے بعد بھی اگر عذاب نہیں آیا تو صرف مصلحت پروردگار ہے اور اسی کی طرف اشارہ کر کے امام حسیؑن نے اپنے شیر خوار بچے کے بارے میں فرمایا تھا کہ گواہ رہنا میرا بچہ ناقہ صالح سے کم نہیں ہے... اور میں نے بہت بڑی قربانی دی ہے۔

وَيَا قَوْمِ أَوْفُوا الْمِكْيَالَ وَالْمِيزَانَ بِالْقِسْطِ ۖ وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ أَشْيَاءَهُمْ وَلَا تَعْثَوْا فِي الْأَرْضِ مُفْسِدِينَ ﴿٨٥﴾ سورة هود

جناب شعیبB کا یہ پیغام اس بات کی علامت ہے کہ دین خدا صرف دین عبادت نہیں ہوتا بلکہ اس کا تعلق عبادات اور سیاسیات سے یکساں طور پر ہوتا ہے اور نبی خدا بھی صرف چند عبادات کا ذمہ دار نہیں ہوتا ہے بلکہ اس کی نگاہ مسجد ہی کی طرح بازار پر بھی ہوتی ہے اور وہ سماج میں عدل و انصاف کے قیام کا ذمہ دار ہوتا ہے۔

جناب شعیب نے یہ بھی واضح کر دیا کہ بے ایمانی کے ذریہ دولت کمانے کا طریقہ بظاہر اچھا معلوم ہوتا ہے اور انسان اسے بھی برکت کا ذرایعہ سمجھتا ہے لیکن درحقیقت ایسا نہیں ہے بلکہ جو خدا کا ذخیرہ ہے خیر اور بھلائی اسی میں ہے اور صاحبان ایمان اپنا خیر اسی میں تلاش کرتے ہیں۔

بَقِيَّتُ اللَّـهِ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ ۚ وَمَا أَنَا عَلَيْكُم بِحَفِيظٍ ﴿٨٦﴾ سورة هود

بقیت اللہ۔ ہر وہ شے ہے جسے خدانے کسی خاص موقع کے لئے بچا کر رکھا ہو اور اسی لئے روایات میں امام عصر کو بقية اللہ کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے کہ پروردگار عالم نے انھیں آخری انقلاب اور زمانہ کی واقعی اصلاح کے لئے بچا کر رکھا ہے جیسا کہ ابن صباء مالکی نے فصول مہمہ میں نقل کیا ہے۔

قَالُوا يَا شُعَيْبُ أَصَلَاتُكَ تَأْمُرُكَ أَن نَّتْرُكَ مَا يَعْبُدُ آبَاؤُنَا أَوْ أَن نَّفْعَلَ فِي أَمْوَالِنَا مَا نَشَاءُ ۖ إِنَّكَ لَأَنتَ الْحَلِيمُ الرَّشِيدُ ﴿٨٧﴾ سورة هود

یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ دور قدیم سے آج تک بے ایمان لوگ جب دین کا استہزاء کرنا چاہتے ہیں تو انہیں سارے احکام دین میں ایک نماز ہی ملتی ہے جس کا مذاق اڑاتے ہیں۔

قوم شعیب نے یہی طریقہ اختیار کیا تھا کہ کیا نماز ہمیں بزرگوں کے راستے سے ہٹانا چاہتی ہے اور ہمارے کاروبار پر پابندی عائد کرنا چاہتی ہے۔ قدرت نے بھی آخری مرحلہ پر تنہی عن الفحشاء والمنکر کہہ کر واضح کر دیا کہ نماز ہی ہر برائی سے روکنے والی ہے اور اسی پر سارے خیر کا دارو مدار ہے۔

قَالُوا يَا أَبَانَا إِنَّا ذَهَبْنَا نَسْتَبِقُ وَتَرَكْنَا يُوسُفَ عِندَ مَتَاعِنَا فَأَكَلَهُ الذِّئْبُ ۖ وَمَا أَنتَ بِمُؤْمِنٍ لَّنَا وَلَوْ كُنَّا صَادِقِينَ﴿١٧﴾ سورة يوسف

امیر المومنینؑ نے کس قدر سچ فرمایا ہے کہ جھوٹے کی سب سے بڑی سزا یہ ہے کہ لوگ اس کے سچ کا بھی اعتبار نہیں کرتے ہیں۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .