۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
سیپارۂ رحمان

حوزہ/قرآن مجید کے تیس پاروں کا اجمالی جائزہ؛گیارھویں پارے کا مختصر جائزه۔

حوزہ نیوزایجنسیl

ترتیب و تحقیق: سیدلیاقت علی کاظمی الموسوی

گیارھویں پارے کا مختصر جائزه

گیاھویں پارے کےچیدہ نکات

الْأَعْرَابُ أَشَدُّ كُفْرًا وَنِفَاقًا وَأَجْدَرُ أَلَّا يَعْلَمُوا حُدُودَ مَا أَنزَلَ اللَّـهُ عَلَىٰ رَسُولِهِ ۗوَاللَّـهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ ﴿٩٧﴾ سورة التوبة

واضح رہے کہ کفر و اسلام شہر اور دیہات کی میراث نہیں ہیں نہ شہری زندگی اسلام کی ضمانت ہے کہ اس میں صنادید قریش اور یہود مدینہ بھی پیدا ہوتے ہیں، اور نہ د یہاتی زندگی کفر و نفاق کی ضمانت ہے کہ اس میں بڑے بڑے مخلص صاحبان ایمان پیدا ہوئے ہیں شہری اور دیہاتی زندگی میں فرق ضرور ہوتا ہے کہ دیہات والا عام طور سے علوم اور معلومات سے دور رہتا ہے اور اسی لئے اپنے نظریات میں شدید اور جہالت سے قریب تر ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس کا ایمان و اخلاص بھی شدید تر ہوتا ہے جیسا کہ خود اسی آیت کے آخر میں بیان کیا گیا ہے ۔

معلومات سے دور ہونے ہی کا نتیجہ ہے کہ راہ خدا مال خرچ بھی کرتے ہیں اور اسے گھاٹا بھی سمجھتے ہیں ورنہ شهری قسم کے ہوشیار ہوتے تو خرچ ہی نه کرتے ان لوگوں کی منافقت کا اثر یہ ہے کہ مسلمانوں کے بارے میں گردش زمانہ کا انتظار کرتے رہتے ہیں کہ یہ سب تباہ ہو جائیں تو ہمیں اس خسارہ سے بھی نجات مل جائے ۔

بہرحال اعرابیت ایک کردار ہے جس کی روح جہالت اور کفر و نفاق میں شدت ہے یہ جہاں بھی پیدا ہو جائے اسے اعراب ہی کہا جائے گا چاہے دنیا کے متمدرن ترین علاقہ کا ہی رہنے والا کیوں نہ ہو ۔

وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ رَّضِيَ اللَّـهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ۚ ذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ ﴿١٠٠﴾ سورة التوبة

آیات کریمہ نے عالم اسلام کو چار حصوں پر تقسیم کر دیا ہے [۱] ہجرت اور نصرت کی طرف سبقت کرنے والے [۲] سابقین کا اتباع کرنے والے [۳] دیہات کے منافقین [۴] شہر کے ہوشیار منافقین ۔

اس کے بعد ان لوگوں کا ذکر کیا ہے جن کے اعمال نیک و بد مخلوط تھے اور انہوں نے جنگ تبوک میں شرکت نہیں کی اور پھر توبہ کرنے آئے ان دس افراد میں ابو لبابہ بھی تھے جنہوں نے اپنے کو ستون مسجد سے باندھ لیا تھا اور پھر آیت کے نزول کے بعد پیغمبر1نے آ کر انہیں کھولا تو سارا مال لا کر دے دیا کہ اسی نے جہاد سے روکا تھا اور حضور 1نے بحکم خدا قبول بھی کرلیا ۔

اس مقام پر ایک لمحۂ فکریہ یہ بھی ہے کہ جنگ تبوک ۹ھ تک مدینے اور اس کے اطراف میں منافقین بھرے ہوئے تھے تو ۱۱ھ میں یہ سب کہاں چلے گئے اور وفات رسول1کے بعد سارامد ینہ اہل حل و عقد کا شہر کس طرح بن گیا اور سارے بزم نشین عادل کس طرح قرار پاگئے؟؟؟ ۔

وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مَسْجِدًا ضِرَارًا وَكُفْرًا وَتَفْرِيقًا بَيْنَ الْمُؤْمِنِينَ وَإِرْصَادًا لِّمَنْ حَارَبَ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ مِن قَبْلُ ۚ وَلَيَحْلِفُنَّ إِنْ أَرَدْنَا إِلَّا الْحُسْنَىٰ ۖ وَاللَّـهُ يَشْهَدُ إِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ ﴿١٠٧﴾ سورة التوبة

ابو عامر راہب، مدینہ کا ایک نصرانی تھااس نے روز اول سے اسلام کی مخالفت شروع کر رکھی تھی سرکار 1نے مدینہ میں قدم جمائے تو مکہ بھاگ گیامکہ فتح ہوا تو طائف چلا گیا طائف کے لوگ اسلام لے آئے تو شام بھاگ گیا اور وہاں سے منافقین کو لکھا کہ تم لوگ مسجد قبا کے پاس ایک مسجد بنا اور اسے اپنا قلعہ قرار دو میں قیصر روم کے یہاں سے فوج لے کر آ رہا ہوں لوگوں نے فی الفور شاندار مسجد بنا دی اور سرکار1سے افتتاح کی خواہش کی کہ یہ ہمارے گھروں سے قریب تر ہے اور کمزور لوگوں کے لئے کافی کارآمد ہے آپ نے تبوک کی واپسی تک ملتوی کر دیا اور واپس آکربحکم خدا اسے منہدم کرا دیا ۔

واضح رہے کہ ایسے ابو عامر ہر دور میں پیدا ہوتے رہے ہیں اور مسجد ضرار ہر دور میں تعمیر ہوتی رہتی ہے اسلام کے نام پر اسلام کی تباہی کا منصوبہ کفرکا بہت پرانا حربہ ہے افسوس کہ آج کوئی ان حقائق کا بے نقاب کرنے والا نہیں ہے اور نفاق برابر ترقی کر رہا ہے اور اسلام کے نام پر اسلام کو تباہ کیا جا رہا ہے خدا نے چاہا تو وارث پیغمبر 1پردہ ٔغیب سے باہرآ کر ان حقائق کو پھر سے بے نقاب کرے گا ۔

مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَن يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ وَلَوْ كَانُوا أُولِي قُرْبَىٰ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُمْ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ ﴿١١٣﴾ سورة التوبة

مفسرین نے آیت کے بارے میں تین احتمالات دیئے ہیں [۱] بعض مسلمانوں نے اپنے مشرک بزرگوں کے بارے میں استغفار کی خواہش پیغمبر اسلام(ص) سے کی تو آیت نازل ہوئی کہ یہ جائز نہیں ہے[۲]رسول اکرم 1نے خود اپنی والدہ کے بارے میں استغفار کی اجازت مانگی تو آیت نازل ہوئی [۳] رسول اکرم 1نے جناب ابوطالبBکے بارے میں استغفار کرنا چاہا تو خدا نے منع کر دیا کہ وہ مسلمان نہیں تھے ۔

یہ تیسرا قول بہرحال باطل ہے کیونکہ ابوطالبB کا انتقال ہجرت سے تین سال پہلے ہو چکا تھا اور یہ سوره ۹ ھ میں نازل ہوا ہے تو اب تک پیغمبر کا طرز عمل کیا تھا؟؟یہی حال جناب آمنہ کے بارے میں ہے کہ ان کا انتقال بھی بہت پہلے ہو چکا تھا لہذا آیت درحقیقت تمام مسلمانوں کے تقاضے کے بارے میں ہے اورابوطالبB کا نام صرف اموی محدثین نے بغض علیBکے انتقام میں شامل کر دیا ہے ۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّـهَ وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ ﴿١١٩﴾ سورة التوبة

جن صادقین کے ساتھ رہنے کا حکم اہل ایمان و تقویٰ کو دیا گیا ہے وہ صرف زبان اور قول کے صادقین نہیں ہیں بلکہ قول، عمل، وعدے اور کردار ہر اعتبار سے صادقین ہیں تاکہ سارا عالمِ ایمان و تقویٰ ان کے ساتھ چل سکے اور وہ سب کے قائد قرار پاسکیں ۔

سورة يونس

اس سورهٔ مبارک کو جناب یونسؑ کے نام سے موسوم کیا گیا ہے کہ اس میں ان کا ذکر خیر کیا گیا ہے مکہ میں نازل ہوا ہے اسی لئے عقائد کا ز ور زیادہ ہے کہ ابتدائے تبلیغ میں اعمال پر زیادہ زور نہیں دیا جا سکتا یہ اور بات ہے کہ بعض آیات کو مدنی قرار دیا گیا ہے ۔

بہر حال ابتدا میں کفار کے اس اعتراض کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ ایک انسان پر وحی کس طرح نازل ہوسکتی ہے اور اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ نہ وحی نازل کرنے والے میں کمزوری ہے اور نہ انسان نا اہل ہے تو حیرت کی کیا بات ہے ۔

وَإِذَا مَسَّ الْإِنسَانَ الضُّرُّ دَعَانَا لِجَنبِهِ أَوْ قَاعِدًا أَوْ قَائِمًا فَلَمَّا كَشَفْنَا عَنْهُ ضُرَّهُ مَرَّ كَأَن لَّمْ يَدْعُنَا إِلَىٰ ضُرٍّ مَّسَّهُ ۚ كَذَٰلِكَ زُيِّنَ لِلْمُسْرِفِينَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴿١٢﴾ سورة يونس

انسان ایک عجیب و غریب مزاج کی مخلوق ہے کہ جب حالات سے عاجز آ جاتا ہے تو بدترین عذاب کی دعا کرنے لگتا ہے اور مرنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے جس طرح کفار نے آسمان سے پتھروں کی بارش کی دعا کر دی اس کے بعد جب عذاب شروع ہوتا ہے تو اس کے دفع ہونے کی دعا کرنے لگتا ہے پھر جب عذاب دفع ہو جاتا ہے تو رب العالمین سے اس طرح منہ پھیر لیتا ہے جیسے اسے پہچانتا ہی نہیں ہے اور اس سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے ۔

بندوں کے بارے میں احسان فراموشی تو سمجھ میں آتی ہے کہ انسان یہ سوچ سکتا ہے کہ اب آئندہ اس سے سابقہ نہ پڑے گا جس طرح عام حالات میں ہوتا ہی رہتا ہے لیکن خدا سے تو انسان کسی وقت بھی بے نیاز نہیں ہوسکتا ہے اس کی طرف سے اس طرح کی غفلت علامت ہے کہ بندہ نفسانی اعتبار سے خبيث وذلیل اور نہایت درجہ رذیل ہے ورنہ رب العالمین کے احسانات کی طرف سے غافل ہونے کا کوئی امکان ہی نہیں ہے ۔

وَلَوْ أَنَّ لِكُلِّ نَفْسٍ ظَلَمَتْ مَا فِي الْأَرْضِ لَافْتَدَتْ بِهِ ۗ وَأَسَرُّوا النَّدَامَةَ لَمَّا رَأَوُا الْعَذَابَ ۖ وَقُضِيَ بَيْنَهُم بِالْقِسْطِ ۚ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ﴿٥٤﴾ سورة يونس

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ عذاب الہی سے بچانے کے لئے فدیہ بھی کام آتا ہے اور ندامت اور شرمندگی بھی لیکن ہر چیز کا ایک وقت معین ہے دنیا دارِ عمل ہے یہیں یہ سارے کام کے لئے تو کام بھی آ جائیں گے اس کے بعد قیامت آ گئی اور عذاب سامنے آ گیا تو کل کائنات کا بھی فدیہ دے دیا جائے تو بھی کام آنے والا نہیں ہے دنیا میں ایک ایک پیسہ کام آتا ہے اور آخرت میں خزانہ بھی کام نہیں آ سکتا ہے یہ صاحبان ایمان کے لئے سامان عبرت ہے کہ کفار کی طرح مرنے کا انتظار نہ کریں اور دنیا ہی میں عمل خیر کر لیں خمس، زکوۃ ادا کر دیں کہ آخرت میں فدیہ دینے کی ضرورت نہ پڑے اور توبہ کر لیں تا کہ وہاں شرمندگی اور ندامت کا سامنا نہ کرنا پڑے ۔

وَجَاوَزْنَا بِبَنِي إِسْرَائِيلَ الْبَحْرَ فَأَتْبَعَهُمْ فِرْعَوْنُ وَجُنُودُهُ بَغْيًا وَعَدْوًا ۖ حَتَّىٰ إِذَا أَدْرَكَهُ الْغَرَقُ قَالَ آمَنتُ أَنَّهُ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا الَّذِي آمَنَتْ بِهِ بَنُو إِسْرَائِيلَ وَأَنَا مِنَ الْمُسْلِمِينَ ﴿٩٠﴾ سورة يونس

فرعون نے بنی اسرائل کا پیچھا کیا بنی اسرائیل کے سامنے دریا آیا تو جناب موسیؑ نے عصا مار کے راستہ بنا دیا پھر سب کے الگ الگ راستے بنا دیئے اور درمیان میں پانی میں جالیاں بنا دیں تاکہ سب ایک دوسرے کو دیکھتے رہیں فرعون نے بھی بنایا راستہ دیکھا تو اس پر چل پڑا لیکن جب سارا لشکر پانی میں آ گیا تو قدرت نے غرق کردیا فرعون نے توبہ شروع کردیا قدرت نے جواب دیا کہ دوسروں کو گمراہ کرنے کے بعد توبہ قبول نہیں ہوا کرتی البتہ تیرے جسم کو برائے عبرت ضرور باقی رکھا جائے گا ۔

اس واقعہ سے صاف واضح ہو جاتا ہے کہ نبی کے بنائے ہوئے راستہ پر چلنا بھی نجات کا سبب نہیں ہوتا ہے جب تک انسان کی نیت صاف نہ ہو ورنہ کوئی انسان نبی کے راستہ پر نبی کے خاتمہ یا ان کے پیغام کی بربادی کی نیت سے چلے گا تو بربادی کے علاوہ کچھ ہاتھ نہ آ ئے گا۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .