۹ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۹ شوال ۱۴۴۵ | Apr 28, 2024
سیپارۂ رحمان

حوزہ/قرآن مجید کے تیس پاروں کا اجمالی جائزہ؛چودھویں پارے کا مختصر جائزه۔

حوزہ نیوزایجنسیl

ترتیب و تحقیق: سیدلیاقت علی کاظمی الموسوی

چودھویں پارے کا مختصر جائزه

چودھویں پارے کےچیدہ نکات

إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ ﴿٩﴾ سورة الحجر

رب العالمین کی طرف سے عظمت قرآن کا اعلان ہے کہ اسے ہم نے ہی نازل کیا ہے اور اس میں کسی بندے کا ایک حرف یا ایک آیت کے برابر حصہ نہیں ہے اور پھر ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں کہ اس میں باطل کی آمیزش یا اس کی تباہی و بربادی کا کوئی امکان نہیں ہے یہ واضح اعلان ہے کہ قرآن میں کسی طرح کی تحریف ممکن نہیں ہے نہ اس میں کوئی آیت کم ہو سکتی ہے اور نہ زیادہ اس کی ترتیب بھی وحی الہی کے مطابق ہے اگر چہ تنزیل کے مطابق نہیں ہے کہ تنزیل حالات کے اعتبار سے ہوئی ہے اور ترتیب مقصد اور مضامین کے اعتبار سے ہوئی ہے جس طرح کہ انسان مکان کی تعمیر کے سارے سامان مختلف اوقات میں جمع کرتا ہے اور اس کے بعد تعمیر عمارت کے سلیقہ ہی سے کرتا ہے خریداری کی ترتیب سے نہیں واضح رہے کہ تحریف قرآن کی اکثر روایت احمد بن محمد بن سیاری سے نقل ہوئی ہیں اور یہ شخص فاسد المذہب تھا لہذا اس کا اعتبار نہیں ہےامیر المومنین Bکے جمع کروہ قرآن میں ناسخ و منسوخ، شان نزول اور تشریح و تفسیر کا اضافہ تھا؛ آیات کا کوئی اضافہ نہیں تھا اور نہ اس کا تحریف سے کوئی تعلق ہے ۔

وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ مِن صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَإٍ مَّسْنُونٍ ﴿٢٦﴾ سورة الحجر

صلصال۔ خشک مٹی جو پکائی نہ گئی ہو حماء۔ وہ مٹی جو سیاہی مائل ہوجائے مسنون۔ وہ مٹی جونرمی کی بناء پر مختلف شکلوں میں تبدیل کی جا سکے انسان کا کالی مٹی سے بننا اور پھر اس میں روح الہی کا پھونکا جانا اس کے نزول صعود کی بہترین علامت ہے کہ روح خدا سے رابطہ اسے اشرف مخلوقات بنا سکتا ہے اور اس سے قطع تعلق اسے پھر کیچڑ سے ملاسکتاہے ۔

قَالَ يَا إِبْلِيسُ مَا لَكَ أَلَّا تَكُونَ مَعَ السَّاجِدِينَ ﴿٣٢﴾ سورة الحجر

ابلیس کی ماہمیت اور حقیقت کے بارے میں بحث ایک غیر ضروری موضوع ہے اتنا بہر حال ثابت ہے کہ اس کی گمراہی کا ایک راز عنصریت اور مادیت کا مسئلہ تھا کہ اس نے آدم کی معنویت اور منزلت کے بجائے ان کی مادی حیثیت پر نگاہ کی اور اسے اپنی شیطنت کا ایک ذریعہ بنا لیا جس کا مطلب یہ ہے کہ صرف ہڈی اور گوشت پر نگاہ رکھنے والوں کو چاہئے کہ معنویت اور نسبت پر توجہ دیں اور قومی اور عنصری تصورات سے ذہن کو بالاتر بنائے رکھیں تا کہ شیطنت سے محفوظ رہیں۔

قَالَ رَبِّ بِمَا أَغْوَيْتَنِي لَأُزَيِّنَنَّ لَهُمْ فِي الْأَرْضِ وَلَأُغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ ﴿٣٩﴾ سورة الحجر

شیطان کی ایک شیطنت یہ بھی ہے کہ اس نے اپنی گمراہی کو خدا کی طرف منسوب کر دیا ہے جو علامت ہے کہ عقیدهٔ جبرانسانی اور ایمانی

ذہن کی پیداوار نہیں ہے بلکہ یہ صرف ایک شیطانی وسوسہ ہے اور بس!

نَبِّئْ عِبَادِي أَنِّي أَنَا الْغَفُورُ الرَّحِيمُ ﴿٤٩﴾ وَأَنَّ عَذَابِي هُوَ الْعَذَابُ الْأَلِيمُ ﴿٥٠﴾ سورة الحجر

یہ کرم پروردگار ہے کہ رحمت کو اپنی طرف منسوب کیا ہے اور تاکید کے ساتھ منسوب کیا ہے اور عذاب کے موقع پر اپنا ذکر کرنے

کے بجائے براہ راست عذاب کو دردناک کہہ دیا گیا ہے نیز یہ نکتہ بھی قابل توجہ ہے کہ متقین کے لئے آٹھ نعمتوں کا تذکرہ کرنے کے بعد اس امر کی طرف اشارہ کر دیا گیا کہ گناہ گار بھی یکسر محروم نہیں رہیں گے بلکہ ان کے حق میں مغفرت کا بھی امکان پایا جاتا ہے اور اس کی بشارت بھی دی گئی ہے ۔

قَالُوا إِنَّا أُرْسِلْنَا إِلَىٰ قَوْمٍ مُّجْرِمِينَ ﴿٥٨﴾ إِلَّا آلَ لُوطٍ إِنَّا لَمُنَجُّوهُمْ أَجْمَعِينَ ﴿٥٩﴾إِلَّا امْرَأَتَهُ قَدَّرْنَا ۙ إِنَّهَا لَمِنَ الْغَابِرِينَ ﴿٦٠﴾ سورة الحجر

آل لوط کی نجات کے وعدہ کے ساتھ زوجہ کی ہلاکت کی خبر علامت ہے کہ زوجہ شرف کے اعتبار سے آل میں شمار نہیں ہوتی ہے اور نبی کی زوجیت عذاب سے بچانے کی ضمانت بھی نہیں ہے عذاب صرف ایمان اور کردار سے دور ہو سکتا ہے زوجیت اور رشتہ سے ہیں ۔

إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّلْمُتَوَسِّمِينَ ﴿٧٥﴾ سورة الحجر

قوم لوط پر اتنے سخت عذاب کا نازل ہونا اور اس تذکرہ کا قرآن حکیم میں محفوظ ہو جانا اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ جس قوم نے بھی اس عمل بد کو اختیار کیا ہے اس کا انجام قوم لوط ہوا ہے یا ہونے والا ہے ، دور حاضر میں سارے ترقی یافتہ ممالک میں عمل لواط کا قانونی طور پر جائز ہونا اور اس کا بڑھتا ہوا ذوق درحقیقت ان قوموں اور ملکوں کی تباہی کا بہترین پیش خیمہ ہے اور صاحبان ایمان کو چاہئے کہ اسی آغاز کو دیکھ کر انجام کی طرف سے مطمئن جائیں کہ ’’ان الباطل كان زهوقا‘‘ باطل ایک دن بہر حال فنا ہونے والا ہے ۔

جَنَّاتُ عَدْنٍ يَدْخُلُونَهَا تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ ۖلَهُمْ فِيهَا مَا يَشَاءُونَ ۚ كَذَٰلِكَ يَجْزِي اللَّـهُ الْمُتَّقِينَ ﴿٣١﴾ سورة النحل

جنت کی اس صفت کا مقابلہ دنیا کی کسی نعمت سے نہیں ہوسکتا کہ دنیا میں انسان کو بقدر ضرورت بھی سامان مل جائے تو بہتر ہے بقدر خواہش ملنے کا کیا سوال پیدا ہوتا ہے کہ انسانی خواہشات ایک طرح سے لامحدود ہیں اور دنیا کی نعمتیں ہر حال محدود ہیں لیکن جنت کو مالک کائنات نے جملہ خواہشات کا علاج بتایا ہے کہ وہاں انسان جو چیز بھی حاصل کرنا چاہے گا اسے سامنے حاضر ملے گی اور اس طرح یہ بات واضح ہو جائے گی کہ ضرورت کے لئے دنیا بنائی گئی ہے اور خواہشات کے لئے جنت ۔

وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ إِلَّا رِجَالًا نُّوحِي إِلَيْهِمْ ۚ فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ ﴿٤٣﴾ سورة النحل

یوں تو یہ حکم عام ہے اور ہر شخص کا فرض ہے کہ جس بات کو نہیں جانتا ہے اس کے جاننے والوں سے دریافت کرے اور جہالت پر اڑا نہ رہے لیکن روایات میں اہل ذکر سے اہل بیت طاہرینؑ کو مراد لیا گیا ہے کہ وہ دنیا کے تمام حقائق کے جانے والے ہیں اور ہر نہ جانے والے کی علمی تشنگی کو رفع کرنے والے ہیں ۔

وَإِذَا بُشِّرَ أَحَدُهُم بِالْأُنثَىٰ ظَلَّ وَجْهُهُ مُسْوَدًّا وَهُوَ كَظِيمٌ ﴿٥٨﴾ يَتَوَارَىٰ مِنَ الْقَوْمِ مِن سُوءِ مَا بُشِّرَ بِهِ ۚ أَيُمْسِكُهُ عَلَىٰ هُونٍ أَمْ يَدُسُّهُ فِي التُّرَابِ ۗ أَلَا سَاءَ مَا يَحْكُمُونَ ﴿٥٩﴾ سورة النحل

دور جاہلیت کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ بھی تھی کہ ان سے لڑکیوں کا وجود برداشت نہیں ہوتا تھا کوئی انہیں زندہ فن کر دیتا تھا کوئی بلندی سے پھینک دیتا تھا کوئی پانی میں غرق کر دیتا تھا اور کوئی ذبح کر دیتا تھا اور اسی کا نام حیا و غیرت رکھ لیا گیا تھا یہاں تک کہ ایک شخص نے اپنی لڑکی کو دفن کرنا چاہا تو اس نے فریاد کی کہ بابا میری خطا کیا ہے لیکن اس نے دفن کر دیا جس کے بعد مسلمان بھی ہو گیا تو بقول خود اسے اسلام میں کوئی مزہ نہیں آیا اور کسی طرح کا سکون نصیب نہیں ہوا بے شک جاہلیت میں لڑکیوں کو بے قصور مار ڈالنا ایک عظیم جرم تھا لیکن یہ جرم اس جرم سے یقیناً ہلکا تھا جو آج کے دور میں استعمارگر افراد عام انسانیت پر ڈھارہے ہیں اور ایک ایٹمی تجربہ کے لئے لاکھوں بے قصور انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں اور انہیں کسی طرح کا احساس بھی نہیں ہوتا ہے ۔

اسلام نے بیٹی کو باپ کی زندگی کے لئے سامان سکون و راحت اور اس کے جنازہ کے لئے رونق و زینت قرار دیا ہے اور سرکار دو عالم(ص) کی تو نسل بھی دنیا میں بیٹی کے دم سے قائم ہوئی ہے ۔

أَلَمْ يَرَوْا إِلَى الطَّيْرِ مُسَخَّرَاتٍ فِي جَوِّ السَّمَاءِ مَا يُمْسِكُهُنَّ إِلَّا اللَّـهُ ۗ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ ﴿٧٩﴾ سورة النحل

انسان پرندوں کے حالات پر غور کرے تو ایمان کے بے شمار راستے کھل جاتے ہیں، ایک جہاز کو فضا میں روکنے کے لئے کتنی مشینوں کی ضرورت ہوتی ہے اور کتنے آلات استعمال کرنا پڑتے ہیں اور اس کے بعد بھی ایندھن ختم ہو جائے تو فورا ہی گر پڑتا ہے اور یہاں ایک ایک پرندہ مدتوں سے پرواز کر رہا ہے نہ ایندھن استعمال ہوتا ہے اور نہ آ لات صرف ایک قدرت خدا ہے جو سب کو فضائے بسیط میں روکے ہوئے ہے اور اس کے اشارہ پر ساری کائنات چل رہی ہے ۔

مَن كَفَرَ بِاللَّـهِ مِن بَعْدِ إِيمَانِهِ إِلَّا مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالْإِيمَانِ سورة النحل

فخر الدین رازی نے اپنی تفسیر کبیر میں یہ واقعہ درج کیا ہے کہ کفار نے ابتدائی دور کے مسلمان عمار، یا سر، سمیہ، صہیب، بلال، حباب اور مسلم وغیرہ کو اس قدر ستایا کہ یاسر اور سمیہ کو قتل ہی کر ڈالا اور عمار پر اس قدر دباؤ ڈالا کہ انہوں نے عاجز آ کر زبان پر کلمہ کفر جاری کر دیا، اصحاب میں شور ہو گیا کہ عمار کافر ہو گئے سرکار دو عالم(ص) کو اطلاع ملی تو فرمایا عمار سراپا اسلام سے معمور ہیں اور ایمان ان کے رگ و پے میں سرایت کر گیا ہے پھر جب عمار روتے ہوئے حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا کہ وہ لوگ دوبارہ جبر کریں تو پھر وہی کلمات ادا کر دینا کہ رب العالمین نے تمہاری شان میں یہ آیت نازل فرمائی ہے ۔

آیت کریمہ تقیہ کے جواز اور اس کے مدوح ہونے کی بہترین دلیل ہے؛ اور اس کے بعد تقیہ کا مذاق اڑانا اور اسے کتمان حق سے تعبیر کرنا قرآن مجید سے صریحی جہالت یا اسلام کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .