۹ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۹ شوال ۱۴۴۵ | Apr 28, 2024
سیپارۂ رحمان

حوزہ/قرآن مجید کے تیس پاروں کا اجمالی جائزہ؛تیرھویں پارے کا مختصر جائزه۔

حوزہ نیوزایجنسیl

ترتیب و تحقیق: سیدلیاقت علی کاظمی الموسوی

تیرھویں پارے کا مختصر جائزه

تیرھویں پارے کےچیدہ نکات

واضح رہے کہ قصۂ حضرت یوسف Bکوئی داستان حسن و عشق نہیں ہے جیسا کہ بعض سادہ لوح افراد کا خیال ہے کہ اسے قرآن میں ہونا ہی نہیں چاہیے تھا اور یہ قرآن کی عظمت اور اس کے تقدس کے خلاف ہے۔ یہ عبرت خیز واقعہ ہے جس میں نمایاں طور پر حسب ذیل نکات پائے ہیں۔ (1) انسان کو دین و مذہب کے مقابلہ میں کسی خواہش کی طرف نہیں جھکنا چاہئے ۔ (۲) حق و صداقت اور تقوی کی راہ میں کسی بھی مصیبت کی کوئی پرواہ نہیں کرنی چاہئے۔ (۳) مصائب کتنے ہی شدید کیوں نہ ہو جائیں رحمت خدا سے مایوس نہیں ہونا چاہے ۔ (۳) سخت ترین حالات میں بھی ظالموں کی خوشامدنہیں کرنی چاہئے ۔ (۵) مجرم شرمندہ ہو جائے تو اسے معاف کر دینا چاہئے اور اپنا احسان نہیں جتانا چاہئے وغیرہ ۔

وَمَا أُبَرِّئُ نَفْسِي ۚ إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَةٌ بِالسُّوءِ إِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّي ۚ إِنَّ رَبِّي غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴿٥٣﴾سورة يوسف

انسان کتنا ہی بلند کردار کیوں نہ ہوجائے اسے یہ احساسی رہنا چاہیے کہ یہ بلند کرداری رحمت پروردگار کا نتیجہ ہے۔

قَالَ اجْعَلْنِي عَلَىٰ خَزَائِنِ الْأَرْضِ ۖ إِنِّي حَفِيظٌ عَلِيمٌ ﴿٥٥﴾ سورة يوسف

یہ علامت ہے کہ انسان بوقت ضرورت اپنی تعریف آپ کرسکتا ہے، جناب یوسف نے یہ بھی کر دیا کہ حقوق بشر کے تحفظ کے لئے سب سے بڑا اہم عہدہ وزارت مالیات کا ہے، خصوصیت کے ساتھ قحط کے زمانے میں کہ اس دور میں حقوق کی بربادی کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔ جناب یوسفؑ کے الفاظ نے وزارت مالیات کو وزارت خزانہ کا نام دے دیا تھا جو آج تک دنیا میں رائج ہے۔

يَا بَنِيَّ اذْهَبُوا فَتَحَسَّسُوا مِن يُوسُفَ وَأَخِيهِ وَلَا تَيْأَسُوا مِن رَّوْحِ اللَّـهِ ۖ إِنَّهُ لَا يَيْأَسُ مِن رَّوْحِ اللَّـهِ إِلَّا الْقَوْمُ الْكَافِرُونَ ﴿٨٧﴾ سورة يوسف

جناب یعقوبBکی نبوی تعلیمات میں سے ایک تعلیم یہ بھی ہے کہ انسان نه تنها رحمت خدا پر بھروسہ کر کے کام ترک کر دے اور نه تنها کام پر بھروسہ کر کے رحمت خدا سے مایوس ہو جائے بلکہ رحمت کا آسرا بھی رکھے اور محنت و مشقت بھی جاری رکھے اور اسی لئے آپ نے فرمایا کہ یوسفؑ کو تلاش بھی کرو اور رحمت خدا سے مایوس بھی نہ ہوکہ یہی شان مسلمان اور صاحب ایمان ہے۔

فَلَمَّا دَخَلُوا عَلَيْهِ قَالُوا يَا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنَا وَأَهْلَنَا الضُّرُّ وَجِئْنَا بِبِضَاعَةٍ مُّزْجَاةٍ فَأَوْفِ لَنَا الْكَيْلَ وَتَصَدَّقْ عَلَيْنَا ۖ إِنَّ اللَّـهَ يَجْزِي الْمُتَصَدِّقِينَ ﴿٨٨﴾ سورة يوسف

ظلم کا انجام کتنا برا ہوتا ہے اور ظالم کو دنیا میں کن حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس کی عبرت کا مرقع برادران یوسفؑ کی حالت ہے کہ کس طرح یوسفBکے سامنے فریاد کر رہے تھے، کیا کوئی تصور کر سکتا ہے کہ کل جن لوگوں نے نہایت غرور کے ساتھ کنویں میں ڈالا تھا وہ آج اس طرح گڑ گڑا کر صدقہ خیرات کا مطالبہ کریں گے لیکن قدرت کا انتقام بڑا شدید ہوتا ہے،یہ اور بات ہے کہ وہ ارحم الراحمین بھی ہے اور اعتراف گناہ پر معاف بھی کردیتا ہے۔

قَالَ لَا تَثْرِيبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ ۖ يَغْفِرُ اللَّـهُ لَكُمْ ۖ وَهُوَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ ﴿٩٢﴾ سورة يوسف

کوئی پیغمبر سا کلیجہ کہاں سے لے کر آئے گا کہ کل جناب یوسفؑ نے اپنے بھائیوں کو انتہائی فراخدلی سے معاف کر دیا تھا اور فتح مکہ کے موقع پر سرکار دو عالم (ص)نے فرمایا تھا کہ تم لوگ مجھ سے کیا توقع رکھتے ہو؟ ان لوگوں نے کہا کہ آپ ایک بردار کریم اور فرزند برادر کریم ہیں فرمایا اچھا جاؤ تم سب آزاد کئے جاتے ہو۔ اب تم سے کوئی محاسبہ نہیں کیا جائے گا۔ جیسے میرے بھائی یوسفؑ نے کہا تھا کہ ۔ لَا تَثْرِيبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ۔۔۔۔۔۔۔۔!

وَرَفَعَ أَبَوَيْهِ عَلَى الْعَرْشِ وَخَرُّوا لَهُ سُجَّدًا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سورة يوسف

واضح رہے کہ جناب یوسف کے سامنے جناب یعقوبؑ اور بھائیوں کا سجدہ صرف رب العالمین کا سجدهٔ شکر تھا اور یوسف ایک قبلے کی حیثیت رکھتے تھے جس کے ذریعہ ان کے احترام کا اظہار کیا جارہا تھا اور اسی اعتبار سے اسے سجدۂ تعظیمی کہا جاتا ہے ورنہ غیر خدا کو سجده کرنا بہر حال حرام ہے اور شرکِ عبادت کی حیثیت رکھتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَعْقِلُونَ ﴿٤﴾ سورة الرعد

ایک زمین میں مختلف قسم کے نباتات اور ایک دریا میں مختلف قسم کی مچھلیاں اس بات کی علامت ہیں کہ مخلوقات کے پیچھے کوئی ایک مدبر اور صاحب حکمت طاقت ہے جو اس انداز سے کائنات کو چلا رہی ہے ورنہ حالات کی وحدت میں مخلوقات کا یہ تنوع ناممکن ہے۔

يُثَبِّتُ اللَّـهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ ۖ وَيُضِلُّ اللَّـهُ الظَّالِمِينَ ۚ وَيَفْعَلُ اللَّـهُ مَا يَشَاءُ ﴿٢٧﴾ سورة ابراهيم

صاحبان ایمان سے مراد قول وعمل اور گفتار و کردار دونوں کے مومن ہیں صرف چند کلماتِ خیر کو زبان پر جاری کرنے والے افراد کو حقیقی صاحب ایمان نہیں کہا جا سکتا ہے۔ دور حاضر میں جو لوگ کلمہ خبیثہ اور شجرۂخبیثہ کی مکمل حمایت کر رہے ہیں اور عام انسانیت کو ایٹمی اور کیمیاوی اسلحوں سے تباہ کرنے کے منصوبے بنانے والوں کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھا رہے ہیں انہیں کسی قیمت پر صاحب ایمان نہیں کہا جا سکتا ہے ان کا انجام ان کافروں سے بھی بدتر ہو گا جو کھل کر اپنے کفر کا اعلان کرتے ہیں اور اسلام و ایمان کو بدنام نہیں کرتے ہیں۔

رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلَاةِ وَمِن ذُرِّيَّتِي ۚ رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَاءِ ﴿٤٠﴾ سورة ابراهيم

چناب ابراہیمBنے ذریت کے لئے امامت اور اقامه صلوٰة دونوں کی دعا کی ہے جو اس بات کی علامت ہے کہ نگاہِ خلیل میں نماز اور امامت میں انتہائی گہرا ربط پایا جاتا ہے اور دونوں ایسے عظیم شرف ہیں جن کے لئے خلیل تمنا اور دعا کرتا ہے۔ کیا کہنا اس بندہ کا جو اس منزل پر کمال کردار کا مظاہر ہ کر سکے۔۔۔۔ اشهد انك قد اقمت الصلوة اور یہ فقره امام ہی سے کہا جا تا ہے۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .