۱ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۱ شوال ۱۴۴۵ | Apr 20, 2024
سیپارۂ رحمان

حوزہ/قرآن مجید کے تیس پاروں کا اجمالی جائزہ؛انیسیویں پارے کا مختصر جائزه۔

حوزہ نیوزایجنسیl

ترتیب و تحقیق: سیدلیاقت علی کاظمی الموسوی

انیسیویں پارے کا مختصر جائزه

انیسویں پارے کےچیدہ نکات

يَا وَيْلَتَىٰ لَيْتَنِي لَمْ أَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِيلًا﴿٢٨﴾سورة الفرقان

انسان دنیا میں دوست احباب پا کر روز آخرت سے بالکل غافل ہو جاتا ہے اور مذہب کے مقدسات اور تعلیمات کا بھی نداق اڑانے لگتا ہے، وہ یہ بھول جاتا ہے کہ قیامت کا دن بڑا اندوہناک اور ہولناک دن ہو گا، اس دن کوئی دوست کام آنے والا نہ ہو گا اور ہر ظالم غصے سے اپنے ہاتھوں کو کاٹے گا اور کہے گا کہ اے کاش میں نے فلاں شخص کو اپنا دوست نہ بنایا ہوتا، ایک مسلمان کا فرض ہے کہ دوستی کرنے سے پہلے اسکے انجام پر نظر کر لے اور انہیں افراد سے محبت کرے جو روزمحشر کام آنے والے ہیں اور ان کے ساتھ نہ جائے جن کی رفاقت میں حسرت و ندامت کے علاوہ کچھ ہاتھ آنے والا نہیں ہے ۔

وَقَالَ الرَّسُولُ يَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَـٰذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا ﴿٣٠﴾ سورة الفرقان

مهجور بنا لینے کے معنی تلاوت نہ کرنے سے نہیں ہیں کہ انسان تلاوت اور حفظ کر کے مطمئن ہو جائے کہ ہم نے قرآن کا حق ادا کر دیا ہے اور نبی کی فریاد کے دائرہ سے باہر نکل گئے ہیں بلکہ مهجور بنا لینے کے معنی زندگی کے تمام شعبوں میں نظر انداز کر دینے کے ہیں لہذا صبح و شام تلاوت کرنے کے بعد بھی زندگی کے مسائل میں اسے سند اور حکم نہ بنایا جائے تو وہ نظر انداز کر دینے ہی کے مترادف ہے ۔

تَبَارَكَ الَّذِي جَعَلَ فِي السَّمَاءِ بُرُوجًا وَجَعَلَ فِيهَا سِرَاجًا وَقَمَرًا مُّنِيرًا ﴿٦١﴾ سورة الفرقان

اللہ نے آفتاب کو چراغ سے تعبیر کیا ہے اور ماہتاب کو منیر قرار دیا ہے جس کے بارے میں بعض علماء کا خیال ہے کہ نور انعکاسی روشنی کا نام ہے اور چراغ میں اپنی روشنی ہوتی ہے اور اسی لئے آفتاب کو چراغ اور ضوء سے تعبیر ہے کیا جاتا ہے اور چاند کو نور اور منیر سے لیکن اس مقام پر ایک ادبی نکتہ یہ بھی ہے کہ قدرت نے آفتاب کو سراج قرار دیا ہے اور ماہتاب کو منیر اور اپنے حبیب(ص) کو سراج منیر قرار دیا ہے جو اس بات کی علامت ہے کہ سرکار دوعالم(ص) کی ذات میں آفتاب اور ماہتاب دونوں کے انوار کی جامعیت پائی جاتی ہے ۔

وَالَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا ﴿٧٤﴾ سورة الفرقان

انسان مؤمن کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ وہ قوم کا قائد اور پیشوا بننے سے پہلے اس بات کی فکر کرتا ہے کہ اس کی زوجہ اور اولاد اس کے نقش قدم پر چلے، احکام الہی کی اطاعت کرے اورصحیح راستہ پر چلے تا کہ اس کے لیے خنکئ چشم کا باعث بنی رہے ۔

قَالَ أَلَمْ نُرَبِّكَ فِينَا وَلِيدًا وَلَبِثْتَ فِينَا مِنْ عُمُرِكَ سِنِينَ ﴿١٨﴾ سورة الشعراء

فرعون کے ان کلمات نے واضح کر دیا کہ کفر اسلام والوں کی تربیت کرتا ہے تو اختلافِ عقائد کی صورت میں احسان ضرور جتاتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ بعثت کے موقع پر جناب ابوطالبؑ کا اعتراض نہ کرنا اور احسان جتانے کے بجائے حمایت و نصرت کا وعدہ کرنا ایمان ِ کامل کی بہترین دلیل ہے اور اس امر کا اعلان ہے کہ ایک مسلمان نے بانیٔ اسلام کو پالا ہے اور ایک مومن کامل نے روح ایمان کی پرورش کی ہے ، فرعون جیسے سیاستدان ہر دور میں پائے جاتے ہیں، جن کا کام ہوتا ہے آگ لگانا اور پھر بالٹی لے کر دوڑنا تا کہ لوگ اس نکتہ کی طرف سے غافل ہو جائیں کہ اس شخص نے ہی آگ لگائی تھی اور لوگ فقط یہ دیکھنے لگیں کہ اگر یہ شخص نہ ہوتا تو آگ کس طرح بجھتی حالانکہ کہ صحیح صورت حال یہ ہے کہ یہ شخص نہ ہوتا تو آگ ہی نہ لگتی ،بنیادی مسئلہ آگ لگانے کا ہے آگ بجھانے کی بات تو بعد میں ہوتی ہے، فرعون نے اس ظلم پر پردہ ڈالنے کیلئے کہ اس نے ہر شریف انسان کو بے گھر کر دیا ہے اور بچوں کو شکم مادر میں بھی پناہ لینے نہیں دی ہے، یہ احسان جتانا شروع کر دیا کہ ہم نے آپ کو اپنے قصر میں پالا ہے، جناب موی علیہ السلام نے اس بالٹی لے کر دوڑنے کی حقیقت کو واضح کر دیا کہ تو نے ہی آگ لگائی تھی اور ہر شخص کو بے گھر بنا دیا تھا کہ میری ماں کو مجھے دریا کے حوالے کرنے کی ضرورت پڑی،فرعون نے فورا بات کا رخ پلٹ دیا اور جناب موسیٰ علیہ السلام برابر بحث جاری رکھے رہے۔

حقیقتاً مقام عبرت ہے کہ دو اللہ کے بندے اتنے بڑے مغرور اورمتکبر بادشاہ کے سامنے کھڑے ہیں اور اس لہجہ میں گفتگو کر رہے ہیں کہ دور دور تک خوف و ہراس کا نام و نشان بھی نہیں ہے؛ کیا آج کے صاحبان ایمان میں کوئی اس واقعہ سے سبق لینے والا ہے اور باطل کے مقابلہ میں ایسی ہمت کا مظاہرہ کرنے والا ہے؟؟ ضمیر فروشی کے اس دور میں ایسی ہمت کا پیدا کر پانا تقریبا ًناممکنات میں ہے رب کریم سب کو توفیق عطا فرمائے

تَاللَّـهِ إِن كُنَّا لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ ﴿٩٧﴾ سورة الشعراء

کیا بد نصیبی ہے ان بیچاروں کی کہ دنیا میں ایک دوسرے کی اطاعت کرتے رہے اور ان کی ہاں میں ہاں ملاتے رہے اور جہنم میں جا کر جھگڑا کرنے لگے کہ گمراہی کا گناہ گار اور ذمہ دار کون ہے اور کس نے کس کو گمراہ کیا ہے، کاش اہل باطل سے یہ جھگڑا یہیں کر لیا ہوتا تو وہاں یہ دن دیکھنے میں نہ آتے،اس کا واضح سا مطلب یہ ہے کہ جس کے اصول مذہب میں باطل سے تبرّا نہیں ہے اسے جہنم میں جا کر تبرّا کرنا پڑے گا، یہ اور بات ہے کہ وہاں کا تبرّا مفید نہ ہوگا کیونکہ اس کی جگہ دنیا ہے آخرت نہیں ، یہاں باطل سے بیزاری کا اعلان کرو تا کہ وہاں اس کا اجر وعوض حاصل کر سکو، وہاں جھگڑ ا کرنے سے کیا فائدہ ہوگا ۔

وَلَا تُطِيعُوا أَمْرَ الْمُسْرِفِينَ ﴿١٥١﴾ الَّذِينَ يُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ وَلَا يُصْلِحُونَ﴿١٥٢﴾ سورة الشعراء

انسان کی بے شمار کمزوریوں میں سے ایک کمزوری یہ بھی ہے کہ وہ عیش ونشاط کو دیکھ کر انجام سے بالکل بے خبر ہو جاتا ہے اور یہ تصور بھی نہیں کرتا کہ یہ سامان راحت کسی وقت بھی تباہ ہوسکتا ہے یا یہ بھی ممکن ہے کہ یہ سامان رکھا رہ جائے اور انسان خود ہی چلا جائے اور اس سامان سے استفادہ نہ کر سکے، یہ کردار ،اپنے دور میں بعض روساء اور زمینداروں میں بھی دیکھا گیاہے اور بعض تاجروں اور افسروں میں بھی کہ نہ اول الذکر نے سوچا تھا کہ یہ زمینداری اور یہ ریاست ختم بھی ہوسکتی ہے اور اُس وقت مظلوم عوام نے بدلہ لینے کا ارادہ کر لیا تو کیا ہوگا، اور نہ ثانی الذکر یعنی تاجر اور افسر یہ سوچتے ہیں کہ دکان بند ہوگئی یا نوکری چلی گئی تو کیا ہو گا اور اگر کبھی سوچا بھی تو شیطانی فکر و نظر سے کہ اس طرح ذخیرہ اندوزی میں لگ گئے اور بینک بیلنس بنانے لگے اور یہ نہ سوچا کہ ابھی حالات بہتر ہیں کچھ کار خیر کر لینا چاہیے اس کے بعد حالات خراب ہو گئے تو سوائے حسرت کے کچھ ہاتھ نہ آئے گا ۔

وَتَذَرُونَ مَا خَلَقَ لَكُمْ رَبُّكُم مِّنْ أَزْوَاجِكُم ۚ بَلْ أَنتُمْ قَوْمٌ عَادُونَ ﴿١٦٦﴾ سورة الشعراء

اللہ نے جنسی تسکین کے لیے عورتوں کو پیدا کیا ہے اور قوم لوط نے یہی کام مردوں سے لینا شروع کردیا جس پر قدرت نے سخت ترین عذاب نازل کردیا کہ اسے یہ ہرگز پسند نہیں ہے اور وہ اسے کسی شکل میں بھی برداشت نہیں کر سکتا ہے، صاحبان ایمان کو ان قوموں کی بربادی دیکھنے کا انتظار کرنا چاہیے جو آج کے ترقی یافتہ دور میں اس عمل ِبد کو سرکاری سطح پر جائز بنا کر اس کی حوصلہ افزائی کررہی ہیں اور اس طرح عورتوں پر ایک نیا ظلم ہورہا ہے کہ دھیرے دھیرے مردانکی طرف سے بالکل بے نیاز ہو جا ئیں گے اور ان کا مصرف بھی مردوں جیسا ہو جائے گا اور نسلوں کا سلسلہ ختم ہو جائے گا نسلوں کی بربادی خود بھی ایک عذاب والی ہے جس میں یہ قوم مبتلا ہورہی ہیں ۔

وَالشُّعَرَاءُ يَتَّبِعُهُمُ الْغَاوُونَ﴿٢٢٤﴾ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ ﴿٢٢٧﴾ سورة الشعراء

شعراء کے ساتھ استثناء کا ذکر اس بات کی علامت ہے کہ اسلام ادبی ذوق کا مخالف یا شعری لطافت کا دشمن نہیں ہے، اسلام ہمیشہ اس ذوق کی حوصلہ افزائی کرتا رہا ہے بشرطیکہ اس کی بنیاد ایمان و عمل صالح پر ہو ورنہ شراب و کباب کی تعریف اور حکام جور کی توصیف شعر کو آسمان ذوق سے گرا کر بدذوقی کے گڑھے میں ڈال دیتی ہے’’نستجير بالله ‘‘۔

فَقَالَ مَا لِيَ لَا أَرَى الْهُدْهُدَ أَمْ كَانَ مِنَ الْغَائِبِينَ ﴿٢٠﴾ سورة النمل

ہد ہد کو پروردگار نے اتنی صلاحیت عطا کر دی کہ اس نے ملکہ کو پہچانا، اس کے اقتدار کو پہچانا، اس کے مذہب کو پہچانا اور اس کی گمراہی کے اسباب کا بھی اندازہ لگا لیا اور جناب سلیمانB سے یہ کہہ دیا کہ جو میں جانتا ہوں وہ آپ بھی نہیں جانتے ہیں ،یہ ہد ہد کی ذاتی صلاحیت کا کارنامہ نہیں ہے، یہ پروردگار کی مصلحت ہے کہ وہ ضرورت کے وقت جانوروں کو بھی مخصوص صلاحیت عطا کر دیتا ہے جس طرح کہ حوأب کے کتوں نے حضرت عائشہ کے عمل کو دیکھ کر بھونکنا شروع کر دیا تھا اور انہیں توجہ دلائی تھی کہ سرکار دو عالم1 نے تنبیہ کی ہے کہ میری کوئی زوجہ مقام حوا ٔب تک نہ جائے کہ وہاں کے کتے بھونکنے لگیں۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .