۱۴ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۲۴ شوال ۱۴۴۵ | May 3, 2024
سحر رامپوری

حوزہ/ مرحوم بےشمار اخلاقی فضائل کے مالک تھے اور نوجوانوں کے درمیان فروتنی،اخلاص، نصیحت اور ہمدردی کا کامل نمونہ تھے، آپ کے اکثر اشعار ہمیشہ متاثر کن اور بیداری کا باعث ہوا کرتے تھے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،شاعر اہلبیت اطہار مرزا تنویر علی بیگ سحر رامپوری ابنِ مرزا عابد علی بیگ مرحوم سحر رامپوری استاد الشعراء کے ایصال ثواب کیلئے امام بارگاہ قلعہ معلی شھر رامپور میں شب میں پہلی مجلس کا انعقاد کیا گیا جس میں لکھنؤ سے تشریف لائے مولانا خطیب اہلبیت علیہم اجمعین سید علی متقی زیدی نے خطاب فرمایا اور مرحوم ساتھی کا انکے پسماندگان کو پرسہ دیا ۔

مجلس میں فضائل اور مصائب کو خطاب فرمانے کے بعد مرحوم تنویر علی بیگ کے سلسلے میں بھی روشنی ڈالی اپنے دوران تقریر تنویر علی سحری کے حوالے سے کہا کہ آپ ملنسار اور ایک اچھے شاعر اہلبیت تھے جو ہمیشہ اہل بیت کی مدح میں اشعار کہا کرتے تھےآپ نے انکی وفات حسرت پر اپنے اظہارے تعزیت پیش کیا اور ان کی مغفرت کی دعا بھی کی ۔

مجلس کے انعقاد پر تقی عباس بیگ نے سوزو سلام پیش کیا انکے کلام کو سنکر مؤمنین نے داد و تحسین سے نوازا اسکے بعد مرحوم کے چھوٹے فرزند حیدر بیگ نے اپنے والد مرحوم کے اشعار پیش فرمائے پھر اظہر عنایتی ۔مولانا محمد زمان باقری نے شان اقدس اہلبیت علیہم اجمعین میں اشعار پیش فرمائے دوسری مجلس اسی سلسلہ کی اٹھارہ جون کی صبح میں منعقد ہوئی جس میں مرثیہ گوئی تقی عباس بیگ نے کی اور اسکے بعد شعراء حضرات نے اپنے مخصوص کلام بارگاہ اہلبیت علیہم اجمعین میں پیش کئے ۔

اسکے بعد مجلس کو علامہ وکیل فضائل و مصائب اہلبیت شاہد رضوی ممبئی نے مرحوم کی شخصیت پر روشنی ڈالی اور مقام شاعر بتلاتے ہوئے عرض کیا کہ اہل بیت کی شان میں اشعار کہنے والے شاعر کے لیئے رب کائنات جنت میں ایک بیت کے بدلے ایک بیت مرحمت فرماتا ہے ایک شعر کہنے پر اللہ جنت میں ایک شہر عطاء فرماتا ہے فضا ئل و مصائب اہل بیت بیان کرنے پر مولانا شاہد رضوی نے اسلام میں سلام کے سلسلے سے بیان فرمایا اور سلام کو قرآنی آیات سے ثابت کرتے ہوئے فرمایا کہ جس طرح زندہ افراد کو سلام کیا جاسکتا ہے اسی طرح سے مرحومین کو بھی مرنے کے بعد سلام کیا جا سکتا ہے۔

انہوں نے بیان فرمایا کہ سلام سے انسان کے اندر کا تکبر نکلتا ہے سلام گاڑی میں بیٹھنے والا پیدل چلنے والے کو کرے اس سے اسکی ذات سے تکبر دور ہوتا ہے سلام بڑا انسان چھوٹے کو کرے اس میں خود بخود تہذیب کی صلاحیت آجائے گی اگر آپ دس دن تک چھوٹے کو سلام کریں گے تو وہ گیارھویں دن آپ کو سلام کرنے لگے گا اسکے بعد آپ نے فضائل اہل بیت کو بیان کرتے ہوئے دولت بی بی خدیجہ ملیکةالعرب سلام اللہ علیہا کو بیان فرمایا جس کو سنکر سامعین نے داد و تحسین سے نوازا مجلس کے اختتام پر شہیدان کربلا کو ان کی قربانیوں کا نذرانہ پیش کیا جس سے سامعین میں گریہ کی صدا بلند ہوئی۔

مجلس کے بعد چنندہ رہنمائوں کی نشست میں سید محمد زمان باقری نے مرزا تنویر علی بیگ سحر رام پوری کی وفات حسرت پر گہرے صدمے کا اظہار کرتے ہوئے اپنے تعزیتی کلمات میں کہا ہے کہ مرحوم اردو شاعری کے میدان میں بلند مرتبہ پر فائز تھے ان کی رحلت ایک المناک سانحہ ہونے کے ساتھ ساتھ رامپور اور اطراف اضلاع کے مسلمانوں کے لیے بھی بہت بڑا غم ہے ۔

مولانا سید محمد زمان باقری نے کہا کہ انہیں خاص روحانی اور باطنی پاکیزگی حاصل تھی اور وہ مدح اہل بیت میں اشعار گوئی میں بلند و بالا مرتبہ پر فائز تھے انہوں نے اپنی بابرکت عمر مدح اہل بیت علیہم اجمعین اور اسلام کی سربلندی معارف الہی کی ترویج اور اہل بیت اطہار کی مدحت میں گزار دی وہ ہمیشہ لوگوں کی خدمات اور ان کی خیر خواہی اور راہنمائی میں پیش پیش رہتے تھے ، آپ بےشمار اخلاقی فضائل کے مالک تھے اور نوجوانوں کے درمیان فروتنی،اخلاص، نصیحت اور ہمدردی کا کامل نمونہ تھے آپ کے اکثر اشعار ہمیشہ متاثر کن اور بیداری کا باعث ہوا کرتے تھے ،انکو علمی اور اخلاقی مقام اور علمی میراث چونکہ اشعار گوئی کا ہنر و فن اپنے والد بزرگوار استاد الشعراء علام مرزا عابد علی بیگ سحر رامپوری اور خیال رامپوری سے حاصل ہوا تھا، اخلاقی اور علمی میراث کے علاوہ ان کی سماجی اور سیاسی فکر اور بین الاقوامی حالات حاضرہ سے آگاہی اور ان کے بارے میں انکا نظریہ بھی قابل ستائش تھا۔

شاعر اہلبیت تنویر سحری استاد شاعر سحر رامپوری کے صاحبزادے معروف شاعر اہلبیت اطہار تنویر علی سحری تھے جو تقریباً چھ ماہ بستر علالت پر گزارنے کے بعد ١٧، مئی ٢٠٢٣ صبح ٩،بجے اپنے دولت کدے پر اس دار فانی کو الوداع کہہ کر دار بقاء کو کوچ کر کے داعئ اجل کو لبیک کہا،اور اپنے پسماندگان کو روتا بلکتا چھوڑ کر خالق حقیقی کی بارگاہ میں حاضری کا شرف حاصل کیا مرحوم تنویر سحری نے اپنے والد علام استاد الشعراء (سحر رامپوری) کے انتقال کے بعد سن 1986 میں میونسپل بورڈ میں اپنے والد کی جگہ ملازمت اختیار کی تھی موجودہ وقت میں بھی وہ معاون اکاؤنٹ کے عہدے پر فائز تھے مرحوم تنویر سحری کو نعت و منقبت اور سوز و سلام کی محفلوں میں شاعر اہل بیت اطہار کے نام سے یاد کیا جاتا تھا وہ اکثر ایسی پاکیزہ اور روحانی محفل کی نظامت کے فرائض بھی بحسن و خوبی انجام دیتے تھے شاعر اہلبیت مرحوم مرزا تنویر علی بیگ ۔تنویرسحری ۔کی پیدائش رام پور کے مشہور و معروف استاد الشعراء سحر رامپوری کے گلشن میں 15 اگست 1967 کو ہوئی تھی ابتدائی تعلیم اپنے والد محترم سے حاصل کرنے کے بعد جین انٹر کالج رامپور میں داخلہ لیا اور وہیں سے ہائی اسکول پاس کیا بعد ازاں گورنمنٹ رضا انٹر کالج رامپور سے انٹرمیڈیٹ کیا مرحوم اتحاد المسلمین کے علمبردار رہے اور ان کے کلام میں بھی جذبہ اتحاد نمایاں طور پر نظر آتا تھا آپنے فرمایا،

گلے جو شیعہ وسنی جہاں پہ مل جائیں

پھر اتحاد کے گلشن میں پھول کھل جائیں،

مرحوم نے 2016 سے 2022 تک 25 محرم الحرام کے علم جلوس کی نظامت کے فرائض بھی بحسن و خوبی انجام دیئے اور فاتح ناظم قرار پائے مرحوم تنویر سحری18۔ اٹھارہ ذی الحجہ کو ہر سال حضرت مولا علی علیہ السلام کی یاد میں، جشن تاج پوشی، کا انعقاد کیا کرتے تھے مرحوم کے پس ماندگان میں ان کی بیوہ کے علاوہ دو صاحبزادے مرزا احتشام علی بیگ ۔مرزا محمد حیدر بیگ ۔اور شادی شدہ صاحبزادی ہیں۔ مجلس کے بعد نذر و فاتحہ خوانی ہوئی اس میں مؤمنین کی کثیر تعداد نے ہاتھ اٹھائے اور انکی مغفرت کی دعا بھی کی اس مجلس میں شاعر اہلبیت وقار حلم ۔عباس سرسوی ۔ریحان مورانوی ۔مجتبی علی بیگ کربلائی مرزا آصف علی بیگ مرزا تسنیم بیگ منصور حسین ۔ مولانا علی رضا ۔مولانا علی محمد ۔مولانا موسیٰ رضا ۔مولانا سید محمد زمان باقری۔وغیرہ نے کثیر تعداد میں شرکت فرمائی۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .