حوزه نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، آئی ایس او پاکستان کی جانب سے بانی انقلابِ اسلامی ایران سید روح اللہ خمینیؒ کی برسی کے موقع پر ٹوئٹر سپیس میں امتِ واحدہ پاکستان کے سربراہ علامہ محمد امین شہیدی نے امام راحل کی برسی کی مناسبت سے تعزیت پیش کرتے ہوئے کہا کہ امام خمینیؒ کی رحلت کا وقت حقیقی معنوں میں ہمارے لئے یتیمی کے ایام کا آغاز تھا۔
انہوں نے بانی انقلابِ اسلامی کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے مکتب میں بہت سے فقہاء، مجتہدین، عرفاء، متکلمین، مفسرین اور مبلغین آئے جن کا کام کتاب اور تاریخ کی حد تک محدود ہے۔ با الفاظ دیگر مخصوص شعبوں میں خدمات انجام دینے اور اپنی طبیعی عمر مکمل کرنے کے بعد یہ لوگ دنیا سے رخصت ہوگئے، لیکن ان تمام افراد اور مختلف علوم کے ماہرین کے درمیان امام خمینیؒ کا کردار منفرد ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ فقہ، اصول، کلام، عرفان، تصوف اور تفسیر کے حوالے سے امام خمینیؒ کا شمار ان شخصیات میں ہوتا ہے جنہوں نے عالمی طور پر نمایاں کام کیا اور امتِ مسلمہ کے درمیان ایک بڑا ورثہ چھوڑ کر گئے۔ اس کے باوجود جو چیز امام خمینیؒ کو دیگر افراد سے جدا کرتی ہے اور ان کے قد کاٹھ کو اتنا بڑھا دیتی ہے کہ ان کا امام خمینیؒ کے ساتھ مقایسہ کرنا عبث محسوس ہوتا ہے، وہ یہ ہے کہ امام خمینیؒ کا اسلامی اور عالم تشیع کے معاشرے کے اندر وہ اثر موجود ہے جس کی وجہ سے مکتبِ اہل بیت علیہم السلام کے ماننے والوں کو پوری دنیا میں ایک نئی شناخت ملی۔ اس شناخت کا تعلق ہماری عملی زندگی سے ہے۔ یہ محض نظریات، تاریخ کی کتب یا مسجد و محراب تک محدود نہیں بلکہ تاریخِ انسانیت میں جتنے بھی انبیاء کرام، رسل حتی کہ نبی خاتم محمد صلی اللہ علیہ و آلہ تشریف لائے اور اللہ کے آخری دین کی تکمیل کے بعد اس کی عملی شکل اور فہم کو اصلی تقاضوں کے مطابق پیش کرنے کیلئے آئمہ اطہار علیہم السلام آئے۔ ان الہیٰ نمائندوں کی زندگی کا ہدف یہی تھا کہ دین کو عملی زندگی میں اس طرح نافذ کیا جائے کہ زمین پر عدل وانصاف کا قیام اور ظلم و ناانصافی کا خاتمہ ہو۔
علامہ امین شہیدی نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ انبیاء عالمی تھے، نبی خاتم کا پیغام عالمِ انسانیت کیلئے ہے اور تاقیامت رہے گا۔ آئمہ اہل بیتؑ بھی عالمِ انسانیت کی نجات، لوگوں کو دین کے دائرے میں داخل کرنے اور دین کے آفاقی پیغام کو تمام انسانی معاشرہ پر نافذ کرنے کیلئے جدوجہد کے طور پر اپنی تحریک لے کر آئے۔ امام خمینیؒ زمین کے ایک ٹکڑے پر دین کے نفاذ کے ذریعے اسی الٰہی حکومت کی تصویر پیش کرنے میں کامیاب ہوئے۔ آج ہم اس تصویر کے عملی مظاہر کو اس طرح دیکھتے ہیں کہ عالمی سرمایہ دارانہ نظام اور شرق وغرب غیر الہیٰ حکومتوں، حکمرانوں، بادشاہوں اور مستکبرین کے مقابلہ میں اپنے پیروکاروں کو امام خمینیؒ کے نظام کی مثالیں دینے پر مجبور ہیں۔ ہمارے سامنے ایک مثال کربلا کی ہے آج تمام دنیا کے اندر جہاں جہاں کوئی تحریک اٹھتی ہے، قربانی اور شہادتوں کا میدان سجتا ہے یا جان دینے کا مرحلہ آتا ہےتو دنیا کے بڑے بڑے لیڈرز کو سوائے حسین ابن علی علیہ السلام کے اور کوئی نام یاد نہیں آتا۔ اسی طرح جب عصرِ حاضر کے طاغوتوں کے مقابلے میں ایک سربلند نظام کے قیام کی بات کی جائے تو اس تحریک کے علمبرداروں کو امام خمینیؒ ہی بطور رول ماڈل نظر آتے ہیں۔
انہوں نے یہ سوال اٹھاتے ہوئے کہ امام خمینیؒ کی کامیابی کی وجہ کیا تھی؟ کہا کہ امام راحل اس لئے کامیاب ہوئے کیونکہ وہ ایک الہیٰ انسان تھے، علومِ دین کو ان کی گہرائیوں کے ساتھ سمجھتے تھے جب کہ ان کی عملی زندگی دین ہی سے عبارت تھی۔ انہوں نے زمانہ کے تقاضوں کے مطابق وہ راستہ اختیار کیا جس کا ثمرہ سب حاصل کر سکتے تھے۔ امام خمینیؒ نے مظلوموں کی آواز بن کر ظالموں کے مقابلے میں تحریک کا آغاز کیا، اپنی قوم کو جہالت سے نکال کر آگہی کا شعور بخشا اور اسے یہ یقین دیا کہ اگر کوئی قوم اپنے آپ کو تبدیل کرنے کے لئے اٹھ کھڑی ہو تو وہ یہ کام کر سکتی ہے، اللہ بھی اس کی مدد کرتا ہے کیونکہ یہ اللہ کا وعدہ ہے۔ جیسے قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے: اِنَّ اللّٰهَ لَا يُغَيِّـرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّـٰى يُغَيِّـرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِـمْ۔ بقول شاعر:
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
امام خمینیؒ نے شاعر کے شعور اور قرآن کے پیغام کو اپنی قوم کے اندر اس حوالے سے زندہ کیا اور اسے اس یقین تک پہنچایا کہ اگر ہم قیام کریں تو بڑے سے بڑا ظالم ہمارے سامنے کھڑا ہونے کی طاقت نہیں رکھتا۔ امام خمینی کا کمال یہ ہے انہوں نے معاشرے کی نبض کو پہچانا اور انبیاء علیہم السّلام کے کردار کو اپنا کر لوگوں کی طاقت سے لوگوں کی نجات کا راستہ ہموار کیا۔
علامہ امین شہیدی نے مزید کہا کہ امام خمینی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے عوام کو اللہ سے جوڑا، کمزور کو شعور کی طاقت دے کر طاقتور ترین ظالموں کے مقابلے میں کھڑا ہونے کا حوصلہ دیا۔ لہٰذا جو لوگ گھروں میں بیٹھ کر کتابیں لکھتے یا درس دیتے ہیں اور معاشرتی مسائل، معاشرہ کے نشیب و فراز، ظالم کے ظلم اور مظلوم کی مظلومیت سے لا تعلق ہیں، وہ امام خمینیؒ سے قابلِ مقائسہ نہیں ہیں۔