۴ آذر ۱۴۰۳ |۲۲ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 24, 2024
علامہ حسن ظفر نقوی

حوزہ / حضرت امام خمینی (رہ) اور شہداء 15 خرداد کی برسی کی مناسبت سے پاکستان کے معروف عالم دین علامہ سید حسن ظفر نقوی نے اپنا پیغام جاری کیا ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کے مطابق، حضرت امام خمینی (رہ) اور شہداء 15 خرداد کی برسی کی مناسبت سے پاکستان کے معروف عالم دین علامہ سید حسن ظفر نقوی نے اپنا پیغام جاری کیا ہے۔جس کا متن حسبِ ذیل ہے:

بسم اللہ الرحمن الرحیم

انقلابات دنیا میں آتے رہے اور پھر بھی آتے رہیں گے۔ لیکن دیکھنا یہ ہے کہ اسلامی انقلاب اور دیگر انقلابوں میں کیا فرق ہے اور اسلامی انقلاب سے کیا تغیرات و تبدلات ایجاد ہوئے؟ انقلاب اسلامی سے پہلے اور بعد میں کیا تبدیلی آئی؟۔

اس مسئلہ کو سمجھنے کے لئے ہمیں واقعۂ کربلا کی طرف مراجعہ کرنے پڑے گا۔ کربلا سے پہلے اور کربلا کے بعد کیا ہوا؟ وہاں نہ تو حکومت بدلی، نہ یزید بدلا اور نہ ہی نظام بدلا۔ پھر ہم کہتے ہیں "انقلابِ کربلا"۔ تو کیا ہے یہ انقلابِ کربلا!! تو یاد رکھیں کربلا سے پہلے تحریکیں نہیں تھیں بلکہ بغاوتیں ہوتی تھیں اور لوگ جب اپنے حاکموں سے ناراضی ہوتے تو وہ صحیح یا غلط جیسے بھی ہو بغاوت کر دیا کرتے۔ حکومت بدل گئی تو یہ لوگ فاتح قرار پاتے اور دوسرے کو غدار قرار دے کر اس کی گردن اڑا دی جاتی تھی اور اگر یہ بغاوت کچل دی گئی تو انہیں غدار قرار دے کر ان کی گردنیں اڑا دی جاتیں۔ لیکن تحریک کی صورت میں ایسا نہیں ہوتا۔

کربلا کا واقعہ بھی اگر ایسا ہوتا تو عصرِ عاشور کے بعد یہ واقعہ ختم ہو جاتا۔ یہاں سمجھ میں آتا ہے کہ "شریکۃ الحسین (ع)" کا کردار کیا ہے، جناب سیدہ زینب سلام اللہ علیہا کو کیوں امام حسین علیہ السلام اپنے ہمراہ لے کر آئے تھے۔ کربلا سے کوفہ اور کوفہ سے شام تک ظالم اپنے تئیں اپنی فتح کی نمائش کر رہا تھا لیکن ثانی زہراء سلام اللہ علیہا اور جناب امام سجاد علیہ السلام نے جس مقصد کے لئے انہیں سید الشہداء علیہ السلام لائے تھے وہ اس مقصد پر کام کر رہے تھے۔ یعنی اس تحریک کو آگے لے کر چل رہے تھے، لوگوں کو بتا رہے تھے جس کی وجہ سے دنیا نے دیکھا کہ یہ نہضت اور تحریک ایک ایسی تحریک بن گئی کہ جس نے کربلا کو ایک "محرِّک" بنا دیا، لوگوں کو روح دے دی یعنی اس کے بعد لوگوں کو احتجاج کرنے کا طریقہ آیا، اس کے بعد لوگوں کو پتا چلا کہ طویل تحریکیں کیسے چلائی جا سکتی ہیں۔ آپ دیکھیں کہ ایک کربلا کی تحریک ہر زمانے کو روح عطا کرتی ہے کہ جس سے حتی غیر مسلموں نے بھی استفادہ کیا ہے۔ تو یہ فرق تھا کہ جو "نہضتِ کربلا" نے زمانہ کو بتایا کہ کس طرح ظالم کے خاف ایک طویل جدوجہد انجام دی جاتی ہے۔

واقعہ کربلا کے بعد آپ دیکھیں تو تشیع مسلسل قیام کی حالت میں رہے، مسلسل ظالم اور ظلم کے خلاف لڑتے رہے اور کبھی تسلیم نہیں ہوئے۔ آگے بڑھیں تو بنو امیہ کی ملوکیت، بنی عباس کی ملوکیت آگئی، اس کے بعد برصغیر میں منگلوں کی آمریت و بادشاہت اور اسی طرح سلطنتِ عثمانیہ وغیرہ۔ تو آمریت کی شکلیں تھیں، چھوٹے چھوٹے قیام ان کے خلاف ہو رہے تھے۔ اور دوری طرف یورپ کروٹ بدل رہا تھا۔ فرانس کے انقلاب آیا جس نے ایک نظام کو بدل دیا۔

توجہ طلب یہ ہے کہ وہ حکومت کے خلاف نہیں لڑے تھے بلکہ نظام کے خلاف لڑے تھے۔ چونکہ حکومت کے خلاف لڑنا ایک اور چیز ہے اور نظام کے خلاف لڑنا ایک اور چیز ہے۔ تو اس کے بعد جمہوریت کے نعرہ نے اپنی جگہ بنائی۔ پورا یورپ آہستہ آہستہ امریکہ سمیت اس جمہوریت کی لپیٹ میں آ گئے۔ او پھر سرمایہ داری نظام اپنی بدترین صورت میں سامنے آیا۔ جس نے لوگوں کو جکڑتے ہوئے غریب کو غریب تر بنا دیا، مزدور کو مشین کا ایک پرزہ بنا کر رکھ دیا۔ اب اس سرمایہ داری نظام کی کوکھ سے کمیونزم نے جنم لیا۔ ایک چیز ان تمام تحریکوں میں مشترک تھی اور وہ تھا "اقتصادی نعرہ"اور "اقتصادی شعار"۔ جو بھی آتا اسی نعرہ سے سامنے آتا۔ تو اس کے ذیل میں سوشلزم یا ڈیموکریٹ پر جو بھی حکومتیں قائم ہوئیں اس سے اور زیادہ بدترین آمریت کی شکل سامنے آئی کہ جس میں اس کے خلاف آپ بات بھی نہیں کر سکتے، بول بھی نہیں سکتے۔

ان دونوں نظاموں نے چھوٹی قوموں کو جکڑ لیا، چھوٹی قومیں مجبور ہو گئیں کہ وہ کسی ایک بلاک کے اندر چلی جائیں یا مشرقی بلاک میں یا مغربی بلاک میں۔ کمیونسٹوں کا بلاک اور ایک ڈیموکریٹس کا بلاک۔ دنیا دو حصوں میں تقسیم ہو گئی، چھوٹے ملک مجبور ہو گئے کہ کسی ایک بڑی طاقت کا سہارا لیں۔ یعنی آزادی ان کو پھر بھی نہیں ملی، آزادی کی تحریکیں چلیں۔

اسلامی انقلاب کی خوبی یہ تھی کہ اسلامی انقلاب میں کہیں بھی رہبر عظیم الشان حضرت امام خمینی (رہ) نے روٹی، کپڑے اور مکان وغیرہ کا نعرہ نہیں دیا بلکہ استعمار سے آزادی کا نعرہ دیا، استقلال کا نعرہ دیا۔ لہذا اس کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ استقلال کیا ہے؟۔ استقلال یعنی ہم اپنے فیصلے خود کریں گے، ہماری قوم اپنے فیصلے کرے گی۔ ہمارے فیصلہ واشنگٹن یا روس وغیرہ میں نہیں ہوں گے۔ استقلال یہ ہے کہ ہم اپنی داخلہ و خارجہ پالیسی کے خود ذمہ دار ہیں۔ اسی لئے امام (رہ) نے "لا شرقیہ ولا غربیہ" کا شعار دیا تھا۔ کہ ہمارے پالیسی ہم خود بنائیں گے۔ ہمیں شرق و غرب سے کام نہیں۔ ہمیں استقلال چاہئے۔

یہ ہے وہ "حقیقی نعرہ" جس نے پوری دنیا کی انقلابی تحریکوں کو اپنی طرف متوجہ کیا، یہ نعرہ اقتصادیات کے نام پر نہیں بلکہ استقلال کے نام پر وجود میں آیا۔ اور اس میں سب سے بڑا "محرّک" وہ اسلامی جذبہ تھا کہ ہم اللہ کے بندے ہو کر دوسروں کی غلامی کیسے قبول کر لیں؟!۔

پھر اتنے بڑے استعمار کے خلاف ایک مرد کھڑا ہوتا ہے اور پوری قوم اس کا ساتھ دیتی ہے چونکہ یہ سچائی کا ساتھ تھا۔تو اب جب جمہوری اسلامی ساری طاقتوں کے خلاف اسٹینڈ کرتی ہے تو دنیا کی جو کمزور قومیں تھیں، جو ان ظالموں کے شکنجوں سے آزاد ہونا چاہتی تھیں ان کو بھی حوصلہ ملا، انہیں قدرت و طاقت ملی۔ کہ جب ایران شہنشاہیت کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک سکتا ہے اور آج چوالیس سال سے تمام تر اقتصادی پابندیوں کے باوجود اسی "استقلال" کے نعرہ کے ساتھ اپنے فیصلے خود کر رہا ہے۔ تو آج یہ قوم اور نظام وہاں پہنچ گیا ہے کہ دنیا کی بڑی طاقتوں میں اس کا شمار ہونے لگا ہے۔

15 خرداد 1342 شمسی ہجری یا 5 جون 1964ء کو کیا ہوا تھا؟ یہ وہ ہزاروں، لاکھوں انسانوں کی قربانیاں ہیں جس میں وہ جانتے تھے کہ آنے والی نسل کو آزادی ملے گی۔ تو اب دیکھیں "سید الأحرار" یعنی امام حسین علیہ السلام جو احرار یعنی آزادی پسندوں کا سردار ہے۔ جو بھی امام حسین علیہ السلام کا نعرہ لگاتا ہے تو یعنی وہ "حریت پسند" ہے۔ لہذا اس انقلاب نے لوگوں کے ذہنوں کو بدلا۔ دنیا نے دیکھا کہ اپنی تمام تر طاقت کے باوجود نہ یہ عراق کو تسلیم کرا سکے اور نہ ہی لبنان، یمن یا سوریہ جیسے چھوٹے ملکوں کو ہی سرینڈر کرا سکے۔ اور ان کا وطیرہ یہ تھا کہ یہ ان علاقوں میں اپنے مزدور اور حمایت یافتہ پٹھوؤں کو لا کر بٹھا دیتے اور خود پیچھے چھپ کر ان کی پشت پناہی کرتے لیکن جمہوری اسلامی نے جب بھی کسی مظلوم کا ساتھ دیا تو کھل کر ساتھ دیا۔ اور یہ تب ہوتا ہے کہ جب آپ کو یقین ہو کہ ہم حق پر ہیں اور یہ فکر کس نے دی؟ یہ فکر اس "مردِ بزرگ، خمینی بت شکن" نے دی۔ تو یہ فرق تھا دوسری تحریکوں اور اس نہضتِ اسلامی میں۔

اس خمینی بت شکن نے تحریکِ کربلا سے اپنی راہ لی۔ ان کی پوری تحریک کی روح "کربلا اور محرم و صفر" تھی۔ بعض جگہوں پر نعرے تو لگائے جاتے ہیں لیکن وہ جذبہ، شعور اور آگہی پیدا نہیں ہوتی۔ لہذا سوچنے کی بات ہے کہ آزادی کا یہ نہیں ہوتا کہ ہم ایک طاقت سے آزاد ہو کر دوسری طاقت کے نیچے لگ جائیں جیسا کہ بدقسمتی سے ہمارے اکثر اسلامی ممالک میں یہ چیز مشاہدہ کی جا سکتی ہے کہ سامراج جب چاہتا ہے انہیں کٹھ پتلیوں کی طرح استعمال کرتا ہے۔ لیکن خمینی بزرگ کی فکر نے لوگوں کواستقلال و آزادی سے جینے کا طریقہ بھی بتایا اور راہ بھی دکھائی کہ آج پوری دنیا میں جب مثال دی جاتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ "ایک خمینی کی ضرورت ہے"۔ اور یہ نہیں ہو سکتا تھا کہ اگر راہِ اہلبیت علیہم السلام ہمارے پاس نہ ہوتا، یہ نہیں ہو سکتا تھا کہ اگر انقلابِ اسلامی کے دو مرکز قم المقدس اور مشہد المقدس ہمارے پاس نہ ہوتے۔ یہاں سے روح ملی، یہاں سے علماء آگے بڑھے، یہاں سے لوگوں کو معلوم ہوا کہ تشیع کے علماء کتنی بصیرت و آگہی رکھتے ہیں۔

ان شاء اللہ امید ہے کہ دنیا میں جہاں کہیں بھی انقلابی تحریکیں چل رہی ہیں پروردگار عالم ان کو کامیابی سے ہمکنار کرے۔ اور دوسری دعا یہ ہے کہ آخری سانس تک ہم آخری سانس تک رہبر انقلاب کے دئے گئے خطوط کی پابندی کریں، اس خط پر چلتے رہنے کی اللہ ہمیں توفیق عطا فرمائے اور ہماری عاقبت اہلبیت علیہم السلام کے غلاموں میں ہو۔ وما علینا الا البلاغ

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .