حوزہ نیوز ایجنسی | خلافت ایک ذریعہ ہے نظامِ الٰہی کے نفوذ کا جس کے تحت شریعتِ الٰہی کی رو سے ایک حقیقی اسلامی معاشرے کی تشکیل ہوتی ہے نیز ایک خلیفہ کو خلافتِ الٰہیہ حاصل ہوتی ہے اسی لئے منصبِ خلافت اور یہ حاکمیت ایک معین نظام ہے پروردگارِ عالم کی طرف سے نہ کہ یہ اتھارٹی عام الناس کو سونپی گئی ہے کہ وہ اپنی مرضی سے جس کو چاہیں خلیفہ نامزد کر دیں کیونکہ اگر یہ اتھارٹی سب کے ہاتھوں میں دے دی جائے تو پھر خلافت وہ منصبِ الٰہی نہیں رہتا جس کے تحت خداوند قدوس نے اپنی حجتوں کو زمین پر خلیفہ بنا کر بھیجا *نیز انبیاء کرام علیہم السلام کا کام بھی ادھورا رہتا ہے کہ اگر وہ امت کو لاوارث چھوڑ کر دنیا سے رخصت ہو جائیں* اور کسی کو اپنا وصی و وارث و جانشین مقرر نہ کریں ایسا بالکل نہیں ہے کیونکہ ہر نبی اپنے بعد ایک خلیفہ نامزد کر کے جاتا ہے اور امت اس خلیفہ کے حوالے کر جاتا ہے *اسی لئے تو ہم کہتے ہیں خلیفہ بنانا پروردگارِ عالم کا کام ہے یا پھر خداوند کے حکم سے نبی یہ کام سر انجام دیتا ہے* نہ کہ عوام الناس کو ہی یہ اختیار دیا گیا ہے کیونکہ پروردگارِ عالم خود اپنے کلام میں ارشاد فرماتے ہیں:
*وَ اِذۡ قَالَ رَبُّکَ لِلۡمَلٰٓئِکَۃِ اِنِّیۡ جَاعِلٌ فِی الۡاَرۡضِ خَلِیۡفَۃً....*
"اور جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا: میں زمین میں ایک خلیفہ (نائب) بنانے والا ہوں..."
*(البقرہ آیت 30)*
اب اس آیت سے تو بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ خلیفہ بنانا خداوند متعال ہی کا کام ہے اگر اس آیت سے کسی کو تسلی نہیں ہوتی تو مندرجہ ذیل ایک اور آیت میں ارشادِ خداوندی ہوتا ہے:
*وَ ہُوَ الَّذِیۡ جَعَلَکُمۡ خَلٰٓئِفَ الۡاَرۡضِ وَ رَفَعَ بَعۡضَکُمۡ فَوۡقَ بَعۡضٍ دَرَجٰتٍ لِّیَبۡلُوَکُمۡ فِیۡ مَاۤ اٰتٰکُمۡ.....*
ترجمہ:"اور وہی ہے جس نے تمہیں زمین میں نائب بنایا اور تم میں سے بعض پر بعض کے درجات بلند کئے تاکہ جو کچھ الله نے تمہیں دیا ہے اس میں وہ تمہیں آزمائے"
*(سورہ انعام آیت 165)*
اسی لئے ہم بار بار یہ تکرار کرتے ہیں کہ قارئین محترم یہ منصبِ خلافت کوئی عام سا منصب نہیں ہے کہ لوگ اپنی مرضی سے جس کو چاہیں الیکشن کمپین چلا کر اس کو اس کرسی پہ بٹھا دیں اسی روش نے ہی اس امت کو پستی اور فرقہ واریت کی طرف دھکیلا ہے نیز کوئی ایک صدی حکومت کر رھے ہیں تو کوئی 5 صدیاں آگے چل گئے یعنی یہ سب مسلمانوں کا اپنی پسندیدہ شخصیات کو اپنی ہی مرضی سے منتخب کرنے کا نتیجہ ہے کہ لوگوں نے خلافتِ الٰہیہ کو ملوکیت بنا لیا *اب اس کا زمہ دار کون ہے کیا وہ شیعہ ہیں جنہوں نے کہا کہ خلیفہ نامزد کرنا خداوند متعال یا اس کی طرف سے نبی کا کام ہے یا وہ جنہوں نے کہا کہ خلیفہ وہی نامزد کریں جس کے ووٹ زیادہ ہوں؟؟* کیا یہ منصبِ خلافت ہم سب کی پسند یا ناپسند پر منحصر ہے؟؟
کیا الله تبارک و تعالیٰ نے عام الناس کو یہ اتھارٹی دی ہے کہ وہ اپنی مرضی سے خلیفہ نامزد کریں جبکہ الله تعالیٰ خود ارشاد فرماتے ہیں کہ ہم ہی خلیفہ بنانے والے ہیں یعنی یہ اختیار عام الناس کو حاصل نہیں ہے ، اب ملاحظہ فرمائیں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
*وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسۡتَخۡلِفَنَّہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ کَمَا اسۡتَخۡلَفَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ.....*
ترجمہ:"تم میں سے جو لوگ ایمان لے آئے ہیں اور نیک اعمال بجا لائے ہیں اللہ نے ان سے وعدہ کر رکھا ہے کہ انہیں زمین میں اس طرح جانشین ضرور بنائے گا جس طرح ان سے پہلوں کو جانشین بنایا"
*(سورہ نور آیت 55)*
قارئین محترم!اصل مسئلہ یہ ہے ہم نے منصبِ الٰہی کو اپنی پسند یا نہ پسند کے میزان میں رکھ دیا ہے جبکہ یہ خلافت ایک نظام ہے نمائندگان پروردگار کا نہ کہ شوریٰ پر منحصر ہے اسی لئے ہمارے نزدیک خلافت کے متعلق چند نکات کو جاننا انتہائی اہم اور ضروری ہے۔
خلافت کے متعلق چند اہم نکات:
خلافت کے متعلق چند انتہائی اہم و ضروری نکات ملاحظہ فرمائیں:
پہلا نکتہ
1_خلیفہ الله تعالیٰ کا نمائندہ ہوتا ہے اسی لئے اسے منتخب کرنا بھی الله تعالیٰ کا کام ہے یا اس کے حکم سے نبی یہ کام سرانجام دیتا ہے۔
دوسرا نکتہ
2_خلیفہ نمائندہ خدا ہے اسی لئے الیکشن کمپین یا شوریٰ سے منتخب نہیں ہوتا کہ ووٹ کرائیں جس کے ووٹ زیادہ ہوں اس کو خلیفہ یعنی حجت خدا نامزد کیا جائے اگر یہ بات ہو تو پھر معاذ الله نبوت و رسالت کے متعلق بھی یہی اعتقاد رکھنا پڑے گا کیونکہ یہ بھی خلافت و امامت کی طرح الله تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ منصب ہیں نہ کہ بندوں کی طرف سے۔
تیسرا نکتہ
3_ہر نبی کا ایک وصی و جانشین ہوتا ہے اور جب نبی اس دنیا سے رخصت ہوتا ہے تو امت اس وصی کے حوالے کر کے جاتا ہے نہ کہ لاوارث چھوڑ کر جاتا ہے وہی امت پر نمائندہ خدا ہوتا ہے اب عجیب منطق ہے اس امت محمدی ص کے مسلمانوں کی جو یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ معاذ الله جنابِ رسول خدا ص اپنا جانشین و خلیفہ کسی کو بنا کر نہیں گئے یعنی معاذ الله نبی کریم ص کی 63 سالہ محنت و مشقت پر بھی پانی پھیر دیا اس اعتقاد نے کہ نبی ص امت کو لاوارث چھوڑ کر گئے اسی لئے اختلافات رونما ہوئے؟ تعجب سے کم نہیں یہ خلافتِ الٰہیہ نہیں ہے بلکہ خلافتِ پسندیدہ ہے۔
چوتھا نکتہ
4_ خلیفہ چونکہ حجت خدا ہے اسی لئے وہ الله تعالیٰ کی طرف سے چرند پرند جن و انس سب کا خلیفہ ہوتا ہے مطلب کہ پوری کائنات میں وہ حق تصرف رکھتا ہے نہ کہ بس اپنی کرسی اور اپنی بستی تک محدود ہوتا ہے اسی لئے ضروری ہے کہ وہ خدا کی طرف سے معین ہو اگر عام الناس کی طرف سے اس کا تعین ہو گا تو اس کی خلافت انہی تک محدود ہو گی اسی لئے ہم کہتے ہیں کہ اس کی خلافت سب پر مقام رہبری ہے اور اس سے روگردانی کرنا بھی درحقیقت الله تعالیٰ اور رسول الله ص سے روگردانی کرنے کے مترادف ہے۔
پانچواں نکتہ
5_ خلیفہ چونکہ حجت خدا ہے اسی لئے اس کا معصوم ہونا شرط لازم ہے کیونکہ اگر خلیفہ غیر معصوم ہو تو اس سے غلط اقدامات جو خلافِ شریعت ہوں سر زد ہو سکتے ہیں جبکہ حجت خدا سے غلط کام کا اندیشہ ہوتا ہی نہیں ہے نیز خلیفہ نبی کے علم کا وارث ہونا چاھئے یعنی سلونی سلونی کا دعویٰ کرنے والا ہو یعنی ہر مسئلے کا حل وہ خود ہی قرآن و حدیث سے حل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو اگر کوئی خلیفہ مسائل میں عام الناس سے رجوع کرتا ہو تو اس کا معیارِ خلافت خداوند کی طرف سے نہیں ہو گا کیونکہ معصوم کا مطلب تمام صفات کمالیہ کا حامل ہونا ہے۔
قارئین محترم! ان تمام نکات کو دیکھتے ہوئے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ اگر کسی خلیفہ یعنی نمائندہ خدا کو عام الناس ووٹ اور شوریٰ کے تحت منتخب کرتے ہیں ، تو اس خلیفہ کی خلافت انہی لوگوں تک محدود ہو گی نہ کہ اس خلیفہ کا تعین خداوند کی طرف سے ہو گا کیونکہ اس کی یہ خلافت پوری مخلوقات کیلئے نہیں ہو گی جبکہ ایک خلیفہ جسے الله تعالیٰ یا اس کے حکم سے نبی مقرر کرتا ہے تو وہ پوری کائنات میں بحیثیت حجت خدا کا وجود رکھتا ہے یہی تو اصل فلسفہ خلافت ہے۔
امیر المومنین مولا علی ع خلیفہ بلا فصل کیوں؟
ہم نے اوپر بھی یہ نکتہ واضح کیا کہ ہر نبی کا ایک وصی و جانشین و وارث ہوتا ہے اور یہ بھی ضروری ہے کہ انبیاء کرام علیھم السلام چونکہ معصوم ع ہیں اسی لئے نبی کا خلیفہ بھی معصوم ہونا چاھئے لہذٰا قرآن مجید سے ہٹ کر مسلمانوں کے ہاں جتنے بھی منابع تفاسیر و احادیث ہیں اس سے واضح ہوتا ہے کہ جناب رسول خدا محمد مصطفیٰ ص نے کئی بار *امیر المومنین مولا علی ع کو اپنا وصی اور وارث اور خلیفہ قرار دیا ہے* لہٰذا ہم یہاں قرآن و حدیث سے فقط چند نکات پیش کریں گے اور امیر المومنین مولا علی ع کی خلافتِ بلا فصل ثابت کریں گے سب سے پہلے ہم قرآن مجید و کلامِ الٰہی کی طرف آتے ہیں اور کچھ آیات پیش کریں گے اب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے خداوند متعال سے یہ خواہش اور درخواست کی کہ پروردگار مجھے میرے بھائی ہارون ع کے زریعے مضبوط بنا اور اسی کے زریعے میری نصرت فرما تا کہ وہ وصی نبی کی تصدیق کرے اب امت کی طرف سے دی گئی اذیتیں اور سختیاں وہ وصی بھی برداشت کرے گا نیز وہ اس نبی کے ساتھ اس کام یعنی پیغام حق لوگوں تک پہنچانے میں مدد فرمائے کہ جو نبی نے اپنے ذریعے دوسروں تک پہنچانا ہے اب قرآن مجید کی طرف رجوع کرتے ہیں جیسا کہ قرآن مجید میں ہے حضرت موسٰی علیہ السلام نے الله تعالیٰ سے درخواست کی:
*وَ اَخِیۡ ہٰرُوۡنُ ہُوَ اَفۡصَحُ مِنِّیۡ لِسَانًا فَاَرۡسِلۡہُ مَعِیَ رِدۡاً یُّصَدِّقُنِیۡۤ ۫ اِنِّیۡۤ اَخَافُ اَنۡ یُّکَذِّبُوۡنِ.....*
"اور میرے بھائی ہارون کی زبان مجھ سے زیادہ فصیح ہے لہٰذا اسے میرے ساتھ مددگار بنا کر بھیج کہ وہ میری تصدیق کرے کیونکہ مجھے خوف ہے کہ لوگ میری تکذیب کریں گے"
*(سورہ قصص آیت 34)*
اب حضرت موسیٰ علیہ السلام الله تعالیٰ سے دعا کر رھے ہیں کہ اے پروردگار! ہارون علیہ السلام کے زریعے مجھے مضبوط بنا اور میری نصرت فرما ادھر ہمارے نبی جنابِ رسول خدا خاتم النبیین صلى الله عليه و اله وسلم حضرت امیر المومنین مولا علی ع کے متعلق الله تعالیٰ سے یہ دعا مانگتے ہیں :
*اللّٰھم انی اقول کما قال اخی موسیٰ اللّٰھم اجعل لی وزیراً من اھلی علیا اخی اشددبہ ازری واشرکہ فی امری کی نسبحک کثیراً ونذکرک کثیراً انک کنت بنا بصیراً.....*
ترجمہ:"اے الله! میں بھی وہی دعا کرتا ہوں جو میرے بھائی موسیٰ نے کی ہے اے الله میرے کنبے میں سے میرا ایک وزیر بنا دے میرے بھائی علی کو اسے میرا پشت پناہ بنا دے اور اسے میرے امر میں شریک بنا دے کہ ہم تیری خوب تسبیح کریں اور تجھے کثرت سے یاد کریں یقیناً تو ہمارے حال پر نظر رکھتا ہے"
*[شواہد التنزیل / الحافظ الکبیر الجسکانی الحنفی المتوفی 460ھ / ج 1 / الصفحة 479_478]*
🔷اب حضرت موسیٰ علیہ السلام الله تعالیٰ سے مزید التجاء کرتے ہیں کہ اے پروردگار! ہارون ع کو میرا جانشین و وزیر بنا دے اور کار رسالت میں میرا ساتھی قرار دے جیسا کہ قرآن مجید میں ہے:
*وَ اجۡعَلۡ لِّیۡ وَزِیۡرًا مِّنۡ اَہۡلِیۡ ، ہٰرُوۡنَ اَخِی ، اشۡدُدۡ بِہٖۤ اَزۡرِیۡ ، وَ اَشۡرِکۡہُ فِیۡۤ اَمۡرِیۡ....*
ترجمہ:" اور میرے کنبے میں سے میرا ایک وزیر بنا دے ، میرے بھائی ہارون کو ، اسے میرا پشت پناہ بنا دے ، اور اسے میرے امر (رسالت) میں شریک بنا دے"
*(سورہ طہ آیات 32__29)*
اسی طرح جنابِ رسول خدا ص نے امیر المومنین مولا علی ع کو اپنا وصی و جانشین مقرر کیا اور حضرت ہارون علیہ السلام کی مثل کہا چونکہ اب نبوت کا دروازہ بند ہے کیونکہ جنابِ رسول خدا خاتم النبیین ہیں اسی لئے مولا علی ع سے فرمایا کہ تمہاری مجھ سے وہی نسبت ہے جو ہارون ع کو موسی ع سے مگر بعد نبوت کا دروازہ بند ہے لیکن اگر نبی ہوتا تو یقیناً علی ابن ابی طالب ع ہی ہوتا اب آتے ہیں حدیث کی طرف:
*عَنْ اِبْنِ عباس، عَنِ النَّبِی قٰالَ لِاُمِّ سَلَمَة:یَااُمِّ سَلَمَةَ اِنَّ عَلِیًّا لَحْمُہُ مِنْ لَحْمِیْ وَدَمُہُ مِنْ دَمِیْ وَھُوَ بِمَنْزِلَةِ ہارُوْنَ مِنْ مُوْسٰی اِلَّا اَنَّہُ لَا نَبِیَّ بَعْدِی.....*
حضرت ابن عباس سے روایت کی گئی ہے کہ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جنابِ اُمِ سلمہ سے فرمایا: اے اُمِ سلمہ!بیشک علی کا گوشت میرا گوشت ہے ، علی کا خون میرا خون ہے اور اُس کی نسبت مجھ محمد ص سے ایسی ہے جیسی ہارون ع کی موسیٰ ع سے تھی سوائے اس کے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئیگا"
*[ابن عساکر ، تاریخ دمشق ، شرح حالِ امام علی ، جلد1، حدیث 406_336_456 / احمد بن حنبل ، مسند سعد بن ابی وقاص ، جلد1، صفحہ 177_189 نیز الفضائل ، حدیث 79_80 / ابن ماجہ قزوینی ، جلد1، صفحہ 42 ، حدیث 115 / صحیح بخاری ، جلد 5 ، صفحہ 81 ، حدیث 225 فضائلِ اصحاب النبی / الاستیعاب ، ج 3 ، ص1097 ، حدیث 1855 / ابی نعیم حلیة الاولیاء ، جلد 7 ، صفحہ 194 / بلاذری ، انصاب الاشراف ، ج 2 ، ص 95 ، حدیث 15، اشاعت اوّل بیروت / شیخ سلیمان قندوزی حنفی ، کتاب ینابیع المودة ، باب 6 ، صفحہ 56_153 / ابن مغازلی ،کتاب المناقب حدیث 40_50 ، صفحہ 33 / حاکم ، المستدرک ، جلد 3 ، صفحہ 108 / ابن کثیر ، کتاب البدایہ والنہایہ ، جلد 8 ، صفحہ77 / گنجی شافعی کفایة الطالب ، باب 37 ، صفحہ167 / ذہبی میزان الاعتدال ، جلد 2 ، صفحہ 3 ، حدیث 2586 / حافظ الحسکانی ، کتاب شواہد التنزیل ، حدیث 656 / سیوطی ، اللئالی المصنوعة ، جلد1، صفحہ177، اشاعت اوّل / ابن حجر عسقلانی لسان المیزان ، جلد 2 ، صفحہ 324 / فضائل الصحابہ احمد بن حنبل احادیث / وغیرہ وغیرہ۔۔۔]*
چنانچہ جب الله تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا قبول کر لی تو فرماتے ہیں کہ اب ہم موسیٰ علیہ السلام کی مدد ان کے بھائی ہارون علیہ السلام سے کریں گے اور انہیں قوت دیں گے ملاحظہ فرمائیں:
*قَالَ سَنَشُدُّ عَضُدَکَ بِاَخِیۡکَ وَ نَجۡعَلُ لَکُمَا سُلۡطٰنًا فَلَا یَصِلُوۡنَ اِلَیۡکُمَا ۚۛ بِاٰیٰتِنَاۤ ۚۛ اَنۡتُمَا وَ مَنِ اتَّبَعَکُمَا الۡغٰلِبُوۡنَ.....*
ترجمہ:"فرمایا: ہم آپ کے بھائی کے ذریعے آپ کے بازو مضبوط کریں گے اور ہم آپ دونوں کو غلبہ دیں گے اور ہماری نشانیوں (معجزات) کی وجہ سے وہ آپ تک نہیں پہنچ پائیں گے ، آپ دونوں اور آپ کے پیروکاروں کا ہی غلبہ ہو گا"
*(سورہ قصص آیت 35)*
اب یہاں الله تعالیٰ حضرت ہارون علیہ السلام کے زریعے سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نصرت کر رھے ہیں اور ان کا بازو مضبوط کر رھے ہیں اسی طرح جنابِ رسول خدا ص نے مولا علی علیہ السلام سے فرمایا کہ الله تعالیٰ نے تمہارے ذریعے سے میرا بازو مضبوط کیا ہے اس پر متعدد روایات ہیں ہم ایک بطور نمونہ پیش کرتے ہیں:
*بابی انت و امی من شد اللہ عضدی بہ کما شد عضد موسیٰ بھارون.....*
"میرے ماں باپ تجھ پر قربان ہوں اس پر جس سے الله نے میرا بازو مضبوط کیا ہے جس طرح موسیٰ کا بازو ہارون سے مضبوط کیا ہے"
*[شواہد التنزیل الحافظ الکبیر الجسکانی الحنفی ، الصفحة 435 ، حدیث 598]*
اب یہاں تک تو بات واضح ہو ہی گئی کہ رسول الله ص کے بعد اس امت کا حاکم و خلیفہ و وارث مولا علی علیہ السلام ہی ہیں کیونکہ مولا علی ع حضرت ہارون ع کی مثل ہی ہیں حضرت ہارون علیہ السلام نبی تھے لیکن یہاں نبوت کا دروازہ بند ہے اور خلافت و امامت و ولایت کا دروازہ کھلا ہے ، حضرت ہارون علیہ السلام حضرت موسیٰ علیہ السلام کے خلیفہ وصی و جانشین تھے لیکن حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زندگی میں ہی حضرت ہارون علیہ السلام کی وفات ہو گئی تھی لہٰذا اب جنابِ رسول خدا ص مولا علی علیہ السلام کے متعلق کہیں یہ فرماتے ہیں:
*أنتَ مِنِّي بمَنزِلَةِ ہارونَ مِن مُوسَي إلا أنَّہ لا نَبيَّ بعدي*
تو کہیں فرماتے ہیں:
*أنتَ أخِي، وَ وَزِيري وَ وارِثِي وَ خَلِيفَتِي مِن بَعدِي....*
"تم میرے بھائی ، وزیر اور وارث اور میرے بعد میرے جانشین ہو"
*[کفایۃ الطالب ، گنجی شافعی، ص 205]*
نیز کبھی اپنا خون و گوشت قرار دیتے ہیں تو کہیں اپنا نفس و بھائی قرار دیتے ہیں :
*قال رسول اللہ (ص): یا علی انت اخی فی الدنیا و الآخرۃ.....*
"اے علی ع تو دنیا اور آخرت میں میرا بھائی ہے"
مختصر جنابِ رسول خدا ص نے واضح طور پر اپنی زندگی میں ہی شروع سے لے کر یعنی دعوت ذوالعشیرہ سے غدیر تک امیر المومنین مولا علی ع کی خلافت و امامت و ولایت کا اعلان کرتے رھے اسی لئے تو دعوت ذوالعشیرہ میں جب رسول الله ص نے ندائے حق بلند کی تو سوائے علی علیہ السلام کے ور کوئی آپ کی تصدیق و نصرت کیلئے تیار نہیں تھا اسی لئے آپ ص نے فرمایا:
*أنتَ أخِي، وَ وَزِيري وَ وارِثِي وَ خَلِيفَتِي مِن بَعدِي....*
اب یہاں تک تو بات کلئیر ہے لیکن اب ہم اس کو مزید واضح کرتے ہیں تا کہ شک و شبہ کی گنجائش باقی ہی نہ رھے جناب رسول خدا محمد مصطفیٰ ص نے باقاعدہ طور پر ہی کئی مقامات پر کئی مرتبہ امیر المومنین مولا علی علیہ السلام کی خلافت کی وصیت کی ، ہم فی الحال سقیفہ سے ہٹ کر حدیث کی طرف آتے ہیں ، ایک حدیث جو ہم اس ضمن میں پیش کر رھے ہیں حسن کا درجہ رکھتی ہے اور متواتر حدیث ہے نیز ہم راویوں کی وضاحت بھی کریں گے اور ایک اشکال کی وضاحت بھی کریں گے حدیث مندرجہ ذیل ہے جو متعدد کتب میں موجود ہے:
حدیثِ خلافتِ علی (ع):
*ثنا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا یَحْیَى بْنُ حَمَّادٍ، عَنْ أَبِی عَوَانَةَ، عَنْ یَحْیَى بْنِ سُلَیْمٍ أَبِی بَلْجٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَیْمُونٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی الله علیه وسلم لِعَلِیٍّ: أَنْتَ مِنِّی بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى، إِلا أَنَّکَ لَسْتَ نَبِیًّا، إِنَّهُ لا یَنْبَغِی أَنْ أَذْهَبَ إِلا 👈وأَنْتَ خَلِیفَتِی فِی کُلِّ مُؤْمِنٍ مِنْ بَعْدِی👉..*
*اسناده حسن ورجاله ثقات رجال الشیخین غیر ابی بلج واسمه یحیی بن سلیم بن بلج. قال الحافظ: «صدوق ربما اخطأ»*
[کتاب السنہ الحافظ ابی بکر احمد بن عمرو بن ابی عاصم ، حدیث 1222 / ناصر الدین البانی ، حدیث 1188]
ناصر الدین البانی نے اس روایت کو حسن کہا ہے۔
روایت کی سند پر مزید تحقیق:
اس روایت کے تمام راوی صحیح بخاری و صحیح مسلم کے ہیں سوائے ابوبلج کے لہٰذا ہم اس روایت کے راویوں کی مختصر وضاحت پیش کرتے ہیں خصوصاً ابوبلج کی:
محمد بن المثني:
*محمد بن المثني بن عبيد العنزي بفتح النون والزاي أبو موسي البصري المعروف بالزمن مشهور بكنيته وباسمه ثقة ثبت من العاشرة وكان هو وبندار فرسي رهان وماتا في سنة واحدة...*
"اپنی کنیت اور اپنے نام سے مشہور ہے *دسویں طبقے کا ثقہ پختہ کار راوی ہے* یہ اور بندار باہم عروج پر پہنچے اور ایک ہی سال کو فوت ہوئے"
*[تقریب التہذیب 6264]*
📔 يحيي بن حماد
*يحيي بن حماد بن أبي زياد الشيباني مولاهم البصري ختن أبي عوانة ثقة عابد من صغار التاسعة مات سنة خمس عشرة...*
نویں صدی کے صغار حضرات میں سے *ثقہ عابد* راوی ہے۔۔۔
*[تقریب التہذیب 7535]*
📔 ضاح بن عبد الله الیشکری
*وضاح بتشديد المعجمة ثم مهملة اليشكري بالمعجمة الواسطي البزاز أبو عوانة مشهور بكنيته ثقة ثبت من السابعة مات سنة خمس أو ست وسبعين ع...*
اپنی کنیت سے مشہور ہے *ساتویں طبقہ کا ثقہ پختہ کار* راوی ہے...
*[تقریب التہذیب 7407]*
📔 عمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ
*عمرو بن ميمون الأودي أبو عبد الله ويقال أبو يحيي مخضرم مشهور ثقة عابد نزل الكوفة مات سنة أربع وسبعين وقيل بعدها ع.....*
مشہور مخضرمی *ثقہ عابد* راوی ہے۔۔۔۔
*[تقریب التہذیب 5122]*
📔 أبو بلج الفزاري يحيي بن سليم
اب أبو بلج الفزاري يحيي بن سليم پر مختصر بحث کی ضرورت ہے کیونکہ کچھ لوگ اس شخصیت کا سہارا لے کر روایت کو ضعیف قرار دینے کی ناکام کوشش کرتے ہیں کیونکہ فضائل امیر المومنین مولا علی ع ان لوگوں کو ہضم نہیں ہوتے حالانکہ فضائل میں روایت قبول کرنا بھی ان کے اصولوں میں شامل ہے خیر ہم اس روایت پہ آتے ہیں جس کو
البانی جیسے محققین نے *حسن* کہا ہے۔
🔷حافظ ابن حجر العسقلانی ابوبلج کے متعلق کہتے ہیں :
*أبو بلج بفتح أوله وسكون اللام بعدها جيم الفزاري الكوفي ثم الواسطي الكبير اسمه يحيي بن سليم أو بن أبي سليم أو بن أبي الأسود صدوق ربما أخطأ....*
اس کا نام یحییٰ بن سلیم یا ابن ابو سلیم یا ابن ابو الاسود ہے ، *پانچویں طبقہ کا صدوق راوی ہے* تا ہم بسا اوقات غلطی کر جاتا ہے۔
*[تقریب التہذیب 8003]*
🔷اس کے علاوہ امام نسائی ، امام ابن معین ، امام دارقطنی وغیرہ نے بھی اس کی تصدیق کی ہے جیسا کہ امام ذہبی کہتے ہیں:
*يحيي بن سليم ان أبو بلج الفزاري عن عمرو بن ميمون وعنه شعبة وهشيم وثقه بن معين والنسائي والدارقطني....*
[الکاشف ، رقم 6550]
🔷عسقلانی نے لسان المیزان میں بھی یہی کہا ہے:
*يحيي بن سليم ان أبو بلج الفزاري عن عمرو بن ميمون وعنه شعبة وهشيم وثقه بن معين والنسائي والدارقطني....*
*[لسان المیزان 5209]*
🔷نیز اس کے علاوہ اس کی روایات صحاحِ ستہ میں بھی موجود ہیں اور صحیح کا درجہ رکھتی ہیں جیسا کہ ترمذی ، نسائی ، ابن ماجہ و ابوداؤد میں موجود ہیں بطور نمونہ :
حدثنا عبد الله بن ابي زياد الكوفي، حدثنا عبد الله بن بكر السهمي، عن حاتم بن ابي صغيرة، *👈عن ابي بلج👉* ، عن عمرو بن ميمون، عن عبد الله بن عمرو، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ما على الارض احد يقول لا إله إلا الله والله اكبر ولا حول ولا قوة إلا بالله إلا كفرت عنه خطاياه ولو كانت مثل زبد البحر.....
*[سنن ترمذی تحقیق البانی / باب_58: مَا جَاءَ فِي فَضْلِ التَّسْبِيحِ وَالتَّكْبِيرِ وَالتَّهْلِيلِ وَالتَّحْمِيدِ / حدیث 3460]*
🔷امام ابو عیسیٰ ترمذی نے اس حدیث کو حسن غریب کہا ہے جبکہ دور ماضی قریب کے امام بخاری شیخ ناصر الدین البانی نے اس کو *حسن* کہا ہے۔۔
*قال الشيخ الألباني: حسن _ التعليق الرغيب (2 / 249)*
🔷نیز اس باب میں چار احادیث میں ابو بلج ہے اور چاروں احادیث *حسن* کا درجہ رکھتی ہیں۔
🔷اس کے علاوہ فضائل الصحابہ احمد بن حنبل میں بھی ابو بلج کی روایات کو صحیح کہا گیا ہے نیز علامہ احمد شاکر نے مسند احمد میں اس کی روایات کو صحیح کہا ہے اور کہتے ہیں کہ امام بخاری کی طرف سے تاریخ کبیر وغیرہ میں ابوبلج کے متعلق مجھے کوئی ایسی بات نہیں ملی۔۔
🔷نیز حافظ زبیر علی زئی نے امام بخاری کی کتاب الضعفاء کی تحقیق کی تو *تحفتہ الاقویاء فی تحقیق کتاب الضعفاء* میں بھی کہیں پہ ابوبلج کے متعلق ایسا کچھ نہیں ملتا۔
🔷آخر پہ ہم یہی کہتے ہیں ماضی قریب کے امام بخاری یعنی ناصر الدین البانی نے اس کی روایات کو قبول کیا ہے اور اس روایت کو بھی *حسن* کہا ہے تو مزید بحث کی ضرورت ہی نہیں ہے۔
حدیثِ خلافت:
مندرجہ بالا روایت سے تو خلافت واضح ہو ہی گئی اب یہ دوسری روایت ہے راوی وہی ہیں لیکن روایت طویل ہے نیز اس روایت سے امیر المومنین مولا علی علیہ السلام کی خلافت و ولایت نیز سب کچھ واضح ہے جس میں حضرت عبداللہ بن عباس رض نے مولا علی علیہ السلام کی دس فضیلتیں بیان کیں ملاحظہ فرمائیں روایت:
حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمَّادٍ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ حَدَّثَنَا أَبُو بَلْجٍ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مَيْمُونٍ قَالَ إِنِّي لَجَالِسٌ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ إِذْ أَتَاهُ تِسْعَةُ رَهْطٍ فَقَالُوا يَا أَبَا عَبَّاسٍ إِمَّا أَنْ تَقُومَ مَعَنَا وَإِمَّا أَنْ يُخْلُونَا هَؤُلَاءِ قَالَ فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ بَلْ أَقُومُ مَعَكُمْ قَالَ وَهُوَ يَوْمَئِذٍ صَحِيحٌ قَبْلَ أَنْ يَعْمَى قَالَ فَابْتَدَءُوا فَتَحَدَّثُوا فَلَا نَدْرِي مَا قَالُوا قَالَ فَجَاءَ يَنْفُضُ ثَوْبَهُ وَيَقُولُ أُفْ وَتُفْ وَقَعُوا فِي رَجُلٍ لَهُ عَشْرٌ وَقَعُوا فِي رَجُلٍ قَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَأَبْعَثَنَّ رَجُلًا لَا يُخْزِيهِ اللَّهُ أَبَدًا يُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ قَالَ فَاسْتَشْرَفَ لَهَا مَنْ اسْتَشْرَفَ قَالَ أَيْنَ عَلِيٌّ قَالُوا هُوَ فِي الرَّحْلِ يَطْحَنُ قَالَ وَمَا كَانَ أَحَدُكُمْ لِيَطْحَنَ قَالَ فَجَاءَ وَهُوَ أَرْمَدُ لَا يَكَادُ يُبْصِرُ قَالَ فَنَفَثَ فِي عَيْنَيْهِ ثُمَّ هَزَّ الرَّايَةَ ثَلَاثًا فَأَعْطَاهَا إِيَّاهُ فَجَاءَ بِصَفِيَّةَ بِنْتِ حُيَيٍّ قَالَ ثُمَّ بَعَثَ فُلَانًا بِسُورَةِ التَّوْبَةِ فَبَعَثَ عَلِيًّا خَلْفَهُ فَأَخَذَهَا مِنْهُ قَالَ لَا يَذْهَبُ بِهَا إِلَّا رَجُلٌ مِنِّي وَأَنَا مِنْهُ قَالَ وَقَالَ لِبَنِي عَمِّهِ أَيُّكُمْ يُوَالِينِي فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ قَالَ وَعَلِيٌّ مَعَهُ جَالِسٌ فَأَبَوْا فَقَالَ عَلِيٌّ أَنَا أُوَالِيكَ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ قَالَ أَنْتَ وَلِيِّي فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ قَالَ فَتَرَكَهُ ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَى رَجُلٍ مِنْهُمْ فَقَالَ
أَيُّكُمْ يُوَالِينِي فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ فَأَبَوْا قَالَ فَقَالَ عَلِيٌّ أَنَا أُوَالِيكَ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ فَقَالَ أَنْتَ وَلِيِّي فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ قَالَ وَكَانَ أَوَّلَ مَنْ أَسْلَمَ مِنْ النَّاسِ بَعْدَ خَدِيجَةَ قَالَ وَأَخَذَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَوْبَهُ فَوَضَعَهُ عَلَى عَلِيٍّ وَفَاطِمَةَ وَحَسَنٍ وَحُسَيْنٍ فَقَالَ إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمْ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا قَالَ وَشَرَى عَلِيٌّ نَفْسَهُ لَبِسَ ثَوْبَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ نَامَ مَكَانَهُ قَالَ وَكَانَ الْمُشْرِكُونَ يَرْمُونَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَاءَ أَبُو بَكْرٍ وَعَلِيٌّ نَائِمٌ قَالَ وَأَبُو بَكْرٍ يَحْسَبُ أَنَّهُ نَبِيُّ اللَّهِ قَالَ فَقَالَ يَا نَبِيَّ اللَّهِ قَالَ فَقَالَ لَهُ عَلِيٌّ إِنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ انْطَلَقَ نَحْوَ بِئْرِ مَيْمُونٍ فَأَدْرِكْهُ قَالَ فَانْطَلَقَ أَبُو بَكْرٍ فَدَخَلَ مَعَهُ الْغَارَ قَالَ وَجَعَلَ عَلِيٌّ يُرْمَى بِالْحِجَارَةِ كَمَا كَانَ يُرْمَى نَبِيُّ اللَّهِ وَهُوَ يَتَضَوَّرُ قَدْ لَفَّ رَأْسَهُ فِي الثَّوْبِ لَا يُخْرِجُهُ حَتَّى أَصْبَحَ ثُمَّ كَشَفَ عَنْ رَأْسِهِ فَقَالُوا إِنَّكَ لَلَئِيمٌ كَانَ صَاحِبُكَ نَرْمِيهِ فَلَا يَتَضَوَّرُ وَأَنْتَ تَتَضَوَّرُ وَقَدْ اسْتَنْكَرْنَا ذَلِكَ قَالَ وَخَرَجَ بِالنَّاسِ فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ قَالَ فَقَالَ لَهُ عَلِيٌّ أَخْرُجُ مَعَكَ قَالَ فَقَالَ لَهُ نَبِيُّ اللَّهِ لَا فَبَكَى عَلِيٌّ فَقَالَ لَهُ أَمَا تَرْضَى أَنْ تَكُونَ *👈منِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى إِلَّا أَنَّكَ لَسْتَ بِنَبِيٍّ إِنَّهُ لَا يَنْبَغِي أَنْ أَذْهَبَ إِلَّا وَأَنْتَ خَلِيفَتِي👉* قَالَ وَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ أَنْتَ وَلِيِّي فِي كُلِّ مُؤْمِنٍ بَعْدِي وَقَالَ سُدُّوا أَبْوَابَ الْمَسْجِدِ غَيْرَ بَابِ عَلِيٍّ فَقَالَ فَيَدْخُلُ الْمَسْجِدَ جُنُبًا وَهُوَ طَرِيقُهُ لَيْسَ لَهُ طَرِيقٌ غَيْرُهُ قَالَ وَقَالَ مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَإِنَّ مَوْلَاهُ عَلِيٌّ قَالَ وَأَخْبَرَنَا اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فِي الْقُرْآنِ أَنَّهُ قَدْ رَضِيَ عَنْهُمْ عَنْ أَصْحَابِ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِي قُلُوبِهِمْ هَلْ حَدَّثَنَا أَنَّهُ سَخِطَ عَلَيْهِمْ بَعْدُ قَالَ وَقَالَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِعُمَرَ حِينَ قَالَ ائْذَنْ لِي فَلْأَضْرِبْ عُنُقَهُ قَالَ أَوَكُنْتَ فَاعِلًا وَمَا يُدْرِيكَ لَعَلَّ اللَّهَ قَدْ اطَّلَعَ إِلَى أَهْلِ بَدْرٍ فَقَالَ اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ...
عمرو بن میمون کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں حضرت ابن عباس (رض) کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ نو آدمیوں پر مشتمل لوگوں کا ایک وفد آیا تھا اور کہنے لگا کہ اے ابو العباس ! یا تو آپ ہمارے ساتھ چلیں یا یہ لوگ ہمارے لئے خلوت کر دیں ، ہم آپ سے کچھ سوالات پوچھنا چاہتے ہیں ، حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا میں ہی آپ لوگوں کے ساتھ چلتا ہوں ، یہ حضرت ابن عباس (رض) کی بینائی ختم ہونے سے پہلے کی بات ہے ان لوگوں نے گفتگو کا آغاز کیا اور بات چیت کرتے رھے لیکن ہمیں کچھ نہیں پتہ کہ انہوں نے کیا کہا ؟ تھوڑی دیر بعد حضرت ابن عباس (رض) اپنے کپڑے جھاڑتے ہوئے آئے اور کہنے لگے اف ، تف ، یہ لوگ ایک ایسے آدمی (حضرت علی ع) میں عیب نکال رھے ہیں ، جسے دس خوبیاں اور خصوصیات حاصل تھیں ، یہ لوگ ایک ایسے آدمی کی عزت کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں جس کے متعلق نبی ص نے فرمایا تھا کہ اب میں ایک ایسے آدمی کو بھیجوں گا جسے اللہ کبھی رسوا نہیں کرے گا اور وہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہو گا ، جھانک کر دیکھنے والے اس اعزاز کو حاصل کرنے کے لئے جھانکنے لگے لیکن نبی ص نے فرمایا علی کہاں ہیں ؟ لوگوں نے بتایا کہ وہ چکی میں آٹا پیس رھے ہوں گے، نبی ص نے فرمایا تم میں سے کوئی آٹا کیوں نہیں پیستا ؟ پھر نبی ص ان کے پاس آئے تو انہیں آشوب چشم کا عارضہ لاحق تھا ، گویا انہیں کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا، نبی ص نے ان کی آنکھوں میں لعاب دہن لگایا اور تین مرتبہ جھنڈا ہلا کر ان کے حوالے کردیا اور وہ ام المومنین حضرت صفیہ بنت حیی کو لانے کا سبب بن گئے ایک مرتبہ نبی ص نے حضرت ابوبکر (رض) کو سورت توبہ کا اعلان کرنے کے لئے مکہ مکرمہ روانہ فرمایا : بعد میں ان کے پیچھے حضرت علی (رض) کو بھی روانہ کر دیا، انہوں نے اس خدمت کی ذمہ داری سنبھال لی اور نبی ص نے فرمایا یہ پیغام ایسا تھا جسے کوئی ایسا شخص ہی پہنچا سکتا تھا جس کا مجھ سے قریبی رشتہ داری کا تعلق ہو اور میرا اس سے تعلق ہو ایک مرتبہ نبی ص نے اپنے چچا زاد بھائیوں سے فرمایا دنیا و آخرت میں تم میں سے کون میرے ساتھ موالات کرتا ہے ،
اس وقت حضرت علی (رض) بھی تشریف فرما تھے، باقی سب نے انکار کردیا لیکن حضرت علی (رض) کہنے لگے کہ میں آپ کے ساتھ دنیا و آخرت کی موالات قائم کرتا ہوں ، نبی ص نے فرمایا تم دنیا اور آخرت میں میرے دوست ہو ، اس کے بعد نبی ص دوبارہ ان میں سے ایک آدمی کی طرف متوجہ ہوئے اور یہی صورت دوبارہ پیش آئی حضرت خدیجہ (رض) کے بعد تمام لوگوں میں سب سے پہلے قبول اسلام کا اعزاز بچوں میں حضرت علی (رض) کو حاصل ہے ، ایک مرتبہ نبی ص نے ایک چادر لے کر حضرت علی ، حضرت فاطمہ ، حسن اور حسین (رض) پر ڈالی اور فرمایا اے اہل بیت ! اللہ تم سے ناپاکی کو دور کرنا اور تمہیں خوب پاک کرنا چاہتا ہے پھر حضرت علی (رض) نے اپنا آپ بیچ دیا تھا ، انہوں نے نبی ص کا لباس شب ہجرت زیب تن کیا اور نبی ص کی جگہ سو گئے ، مشرکین اس وقت نبی ص پر تیروں کی بوچھاڑ کر رھے تھے ، حضرت ابوبکر (رض) وہاں آئے تو حضرت علی (رض) سوئے ہوئے تھے لیکن حضرت ابوبکر (رض) یہ سمجھ رھے تھے کہ یہ نبی ص لیٹے ہوئے ہیں اس لئے وہ کہنے لگے اے اللہ کے نبی ! حضرت علی (رض) نے منہ کھول کر فرمایا کہ نبی ص بیر میمون کی طرف گئے ہیں ، آپ انہیں وہاں جا کر ملیں ، چناچہ حضرت ابوبکر (رض) چلے گئے اور نبی ص کے ساتھ غار میں داخل ہوئے ، حضرت علی (رض) کے پاس تیروں کی بوچھاڑ ہو رہی تھی جیسے نبی ص پر ہوئی تھی اور وہ تکلیف میں تھے، انہوں نے اپنا سر کپڑے میں لپیٹ رکھا تھا ، صبح تک انہوں نے سر باہر نہیں نکالا ، جب انہوں نے اپنے سر سے کپڑا ہٹایا تو قریش کے لوگ کہنے لگے تم تو بڑے کمینے ہو ، ہم تمہارے ساتھی پر تیربر سا رھے تھے اور ان کی جگہ تمہیں نقصان پہنچ رہا تھا اور ہمیں یہ بات اوپری محسوس ہوئی۔ ایک مرتبہ نبی ص لوگوں کو لے کر غزوہ تبوک کے لئے نکلے، حضرت علی (رض) نے پوچھا کیا میں بھی آپ کے ساتھ جاؤں گا ؟ فرمایا نہیں، اس پر وہ رو پڑے، نبی ص نے فرمایا کیا تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ تمہیں مجھ سے وہی نسبت ہو جو حضرت ہارون (علیہ السلام) کو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے تھی، البتہ فرق یہ ہے کہ تم نبی نہیں ہو اور میرے لئے جانا مناسب نہیں ہے *👈الاّ یہ کہ تم میرے خلیفہ بن جاؤ👉* ، نیز نبی ص نے فرمایا کہ تم میرے بعد ہر مؤمن کے مولا ہو نیز نبی کریم ص نے فرمایا مسجد کے سارے دروازے بند کر دو سوائے حضرت علی (رض) کے دروازے کے، چناچہ وہ مسجد میں حالت جنابت میں بھی داخل ہو جاتے تھے کیونکہ ان کا اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ ہی نہ تھا۔ نیز نبی ص نے فرمایا جس کا میں مولیٰ ہوں، علی بھی اس کا مولیٰ ہے، نیز اللہ نے ہمیں قرآن کریم میں بتایا ہے کہ وہ ان سے راضی ہو چکا ہے یعنی اصحاب الشجرہ سے (بیعت رضوان کرنے والوں سے) اور ان کے دلوں میں جو کچھ ہے ، اللہ سب جانتا ہے ، کیا بعد میں کبھی اللہ نے ہمیں یہ بتایا ہے کہ وہ ان سے ناراض ہو گیا ہے، نیز حضرت عمر (رض) نے ایک مرتبہ نبی ص سے حضرت حاطب بن ابی بلتعہ (رض) کے متعلق عرض کیا کہ مجھے اجازت دیجئے، میں اس کی گردن اڑا دوں تو نبی ص نے ان سے فرمایا کیا تم واقعی ایسا کرسکتے ہو ؟ کیا تمہیں معلوم نہیں ہے کہ اللہ نے اہل بدر کی طرف جھانک کر دیکھا اور فرمایا تم جو مرضی عمل کرتے رہو"
*[إسناده صحیح _ المستدرک علی الصحیحین]*
[مسند امام احمد بن حنبل ، باب: عبداللہ بن عباس کی مرویات ، حدیث نمبر 3062 / المستدرک علی الصحیحین ، حدیث 4652]
قارئین محترم!
ہم نے اس حصہ میں قرآن و حدیث سے منصبِ خلافت کو واضح کیا کہ خلافت کا تعین خداوند متعال کرتا ہے یا اس کے نمائندے کرتے ہیں اسی کے حکم سے اور ہم نے امیر المومنین مولا علی علیہ السلام کی خلافت بلافصل کو بھی قرآن و حدیث سے ثابت کیا ہے۔