۱۴ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۲۴ شوال ۱۴۴۵ | May 3, 2024
شوکت بھارتی

حوزہ/ صحابہ تقوے میں علی کے پیر کی دھول بھی نہیں ہیں اور نہ ھی قرآن کے مقابلے میں ابوبکر کی بنائی ہوئی جھوٹی حدیث کی کوئی ویلیو ہو سکتی ہے۔جسکا دل کرے وہ قرآن کی مانے جسکا دل کرے قرآن کی مخالفت کرنے والوں کو مانے۔

تحریر: شوکت بھارتی، صدر اثر فاؤنڈیشن

حوزہ نیوز ایجنسی | رسول اللہ کا خلیفہ یا حاکم عقل،انصاف اور قرآن کی روشنی میں صرف اسکو ہونا چاہئے جو ہر معاملے تمام لوگوں سے افضل ہو، قرآن جو عقل اور عدل کی ایک ایسی بے جوڑ کتاب ہے جسکی کسی ایک آیت کا جواب بھی کوئی نہیں لا سکتا قرآن کی م گائیڈ لائن قیامت تک کے مسلمانوں کے لیے حرفِ آخر ہے۔
قرآن میں صاف صاف لکھا ہوا ہے کی سارے انسان ایک مرد اور عورت کی اولاد ہیں اور سب آپس میں برابر ہیں اور جو تقوٰی میں سب سے افضل ہے وہی سب سے افضل ہے۔
إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ [ الحجرات: 13]
کیونکہ حضرت علی ہر معاملہ اور تقویٰ میں تمام صحاب سے افضل تھے اس لئے رسول اللہ نے حضرت علی کو میدانِ غدیر میں سب کا مولا اور حاکم بنا دیا تھا تاکہ بعد میں کوئی دشواری نہ ہو۔ ہائے افسوس جو تقویٰ میں سارے صحابہ سے افضل تھا اور جسے اُسکے تقوے کی بنیاد پر رسول اللہ نے میدان غدیر میں سب کا مولا اور حاکم بنا دیا تھا جب وہ رسول اللہ کے دفن کفن میں مشغول تھے، تو مسلمانوں نے موقع غنیمت جانا اور رسول اللہ کا دفن کفن چھوڑ کر سقیفہ بنو ساعدہ پہنچے اور وہاں قرآن کا اصول توڑ کر پہلے ابوبکر نے عمر سے کہا کی تم اپنا ہاتھ مجھے دو میں تمہاری بیعت کرتا ہوں اور تمھیں رسول اللہ کا خلیفہ بنا دیتا ہوں۔ عمر نے کہا کی نہیں آپ بذرگ ہیں،آپ اپنا ہاتھ دیجئے، ابوبکر نے اپنا ہاتھ بڑھا دیا اور عمر نے انکے ہاتھ پر پر بیعت کر کے انکو رسول اللہ کا خلیفہ بنا دیا۔ اور سب سے پہلے سقیفہ بنو ساعدہ میں اللہ کی کتاب قرآن کی مخالفت کرتے ہوئے ابوبکر کو جو تقوے میں بہت سے صحابیوں کے برابر بھی نہیں تھے انہیں قرآن کا اصول توڑ کر رسول اللہ کا جانشین بنا دیا۔ اسطرح دیکھا جائے تو جو تقوے میں سب سے بہتر وہ سب سے افضل کے قرآنی اصول کو سقیفہ بنو ساعدہ میں ابوبکر عمر نے پائمال کر دیا۔ اس طرح قرآنی اصول کو سب سے پہلے عمر اور ابوبکر نے سقیفہ بنو ساعدہ میں توڑ کر اپنی منمانی کی اور ابو بکر رسول کے جانشین بن کر خلافت کی کرسی پر بیٹھ گئے ۔ ابوبکر ئے خلیفہ بنتے ہی قرآن کے وراثت انبیاء کے دوسرے اصول کو توڑا قرآن میں صاف صاف لکھا ہوا ہے کی انبیاء کا وارث ہوتا ہے. وَ وَرِثَ سُلَیۡمٰنُ دَاوٗدَ وَ قَالَ یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ عُلِّمۡنَا مَنۡطِقَ الطَّیۡرِ وَ اُوۡتِیۡنَا مِنۡ کُلِّ شَیۡءٍ ؕ اِنَّ ہٰذَا لَہُوَ الۡفَضۡلُ الۡمُبِیۡنُ ﴿۱۶﴾ اور داؤد کے وارث سلیمان ہوئے اور کہنے لگے لوگو! ہمیں پرندوں کی بولی سکھائی گئی ہے اور ہم سب کچھ میں سے دیئے گئے ہیں بیشک یہ بالکل کھلا ہوا فضل الٰہی ہے۔
قرآن میں موجود وراثت کے اصول کے خلاف ابوبکر نے سب سے پہلی یہ جھوٹی حدیث گڑھ لی۔۔۔ ؛{نحن معشر الانبیاء لانرث ولا نورث، ما ترکنا صدقة؛} یعنی ہم گروہ انبیاء نہ کسی کے وارث بنتے ہیں،نہ کوئی ہمارا وارث بنتا ہے، ہم جو چھوڑتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے۔ اس طرح دیکھا جائے تو سب سے پہلے ابوبکر اور عمر نے قرآن کی گائیڈ لائن جو تقوٰی میں سب سے بہتر ہے وہی اللہ کی نگاہ میں سب سے افضل ہوتا ہے کو توڑا اور خلیفہ بن بیٹھے۔ قرآن کا دوسرا اصول تھا کی انبیاء کا وارث ہوتا ہے اور انبیاء وراثت چھوڑتے اور لیتے بھی ہیں۔اس قرآنی اصول کو توڑ اور پھر ابوبکر نے جھوٹی حدیث بھی گڑھ لی اس سے یہ پتہ چلا کی بنی امیہ نے بعد میں جھوٹی حدیث گڑھنے کا کام شروع کیا سب سے پہلے یہ کام ابوبکر نے شروع کیا۔ مسلمانوں قرآن کی گارنٹی اللہ نے لے رکھی ہے اور قرآن کا ہی فیصلہ ہے کی،افضل وہ ہے جو تقوے میں سب سے افضل ہے۔ قرآن میں ہی لکھا ہوا ہے کی انبیاء کی وراثت ہوتی ہے ۔قرآن گھر میں بھی رکھا ہے، مسجد میں بھی رکھا ہے،آخرت کا فیصلہ قرآن کے مطابق ہی ہوگا,اس لیے قرآن کے فیصلے پر ایک سچّا مسلمان سر جھکا دیتا ہے۔
یاد رکھو جس طرح قیامت تک کوئی قرآن کی ایک آیت نہیں بنا سکتا اُسی طرح کوئی عالم قیامت تک ابوبکر،عمر،عثمان يا کسی بھی صحابہ کو تقویٰ میں یا کسی بھی فضیلت میں علی سے افضل نہیں ثابت کر سکتا۔
صحابہ تقوے میں علی کے پیر کی دھول بھی نہیں ہیں اور نہ ھی قرآن کے مقابلے میں ابوبکر کی بنائی ہوئی جھوٹی حدیث کی کوئی ویلیو ہو سکتی ہے۔جسکا دل کرے وہ قرآن کی مانے جسکا دل کرے قرآن کی مخالفت کرنے والوں کو مانے۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .