۳ آذر ۱۴۰۳ |۲۱ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 23, 2024
تصاویر/ مراسم عزاداری شهادت حضرت زهرا (س) در هیئت انصارالمهدی (عج) قم-میرباقری

حوزه/ استاد حوزہ علمیہ قم نے یہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ رسول اللہ(ص)کی رحلت کے بعد پیش آنے والا واقعہ اور کیوں حضرت زہرا سلام اللہ علیہا نے احتجاج کیا اور کیوں اس راہ میں شہید ہو گئیں؟ان واقعات کو سمجھنے کے لئے ہمیں سب سے پہلے رسول اللہ(ص)اور حضرت زہرا (س)کی عظمت کو جاننا چاہئے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،حجۃ الاسلام والمسلمین سیدمحمدمہدی میرباقری نے شبِ شہادتِ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی مناسبت سے حرم حضرت فاطمہ معصومہ(س)قم میں زائرین سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ رسول اللہ(ص)کی رحلت کے بعد پیش آنے والا واقعہ اور کیوں حضرت زہرا سلام اللہ علیہا نے احتجاج کیا اور کیوں اس راہ میں شہید ہو گئیں؟ان واقعات کو سمجھنے کے لئے ہمیں سب سے پہلے رسول اللہ(ص)اور حضرت زہرا (س)کی عظمت کو جاننا چاہئے۔

انہوں نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ایک ایسی شخصیت تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنا دین سونپا تھا اور اس بات کی اجازت دی تھی کہ آپ حکم صادر فرمائیں اور جنت و جہنم کی تقسیم کریں،کہا کہ خدا قرآن میں فرماتا ہے:اگر تم نے پیغمبر کی بیعت کی تو گویا خدا کی بیعت کی اور حضرت زہرا سلام اللہ علیہا وہ عظیم المرتبت خاتون تھیں جن سے سارے ائمہ معصومین(ع)کا نور روشن ہوا اور روایات نے آپ کو شب قدر سے تعبیر کیا ہے کہ قرآن کی تمام حقیقتیں آپ کے مبارک وجود میں ہیں۔

استاد حوزه علمیہ نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ دنیا میں ہدایت کا اہتمام رسول اللہ کے توسط سے ہوا ہے اور آپ(ص)کے دشمنوں کی شناخت ہونی چاہئے،کہا کہ رسول اللہ(ص)کے مقابلے میں آنے والے خاص دشمن تھے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے ہر نبی کے مقابلے میں جنات اور انسانوں کے دشمن رکھے ہیں اور ان شیاطین کا ایک منصوبہ اور کام ہے اور کفر و نفاق پر اصرار کی شدت کی وجہ سے اپنے زمانے کے نبی سے مدمقابل رہیں گے،لہٰذا جو یہودی حضرت موسیٰ(ع)کی قوم میں تھے ان کا رسول اللہ(ص)کے زمانے کے یہودیوں سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔

استاد میرباقری نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ امیرالمؤمنین(ع)کو پیغمبرِاسلام(ص)کے بعد رونما ہونے والے واقعات کے تعلق سے صبر کرنے کی ہدایت کی گئی تھی اسی لئے آپ علیہ السلام نے دشمنوں کے مقابلے میں صبر کیا تھا،مزید کہا کہ دوسرے ان شیاطین سے مقابلہ کرنے کی حیثیت نہیں رکھتے تھے اور صرف حضرت زہرا سلام اللہ علیہا ہی اقدامات کی ذمہ دار تھیں اور آنحضرت(س)نے بھی اہم اقدامات اٹھائے اور شیاطین کے تیار کردہ منصوبوں کو مکمل کرنے کی انہیں اجازت نہیں دی۔

حجۃ الاسلام والمسلمین میرباقری نے مزید کہا کہ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا نے مسجد میں خلافت اور فدک کو غصب کرنے کے بعد جو خطبہ دیا تھا اس میں قرآن کی متعدد آیات کی تلاوت فرمائیں،جو رسول اللہ(ص)کے بعد رونما ہونے والے ان واقعات،امت کی عہد و پیماں سے بے وفائی اور ان کی جہالت کی وضاحت کرتی ہیں۔

استاد حوزه علمیہ نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ حضرت زہرا (س)نے انصار کو مخاطب کرتے ہوئے جن آیتوں کی تلاوت فرمائی تھیں ان میں سے ایک سورۂ مبارکہ توبہ کی 13ویں آیت تھی،کہاکہ خداوند متعال اس آیت میں ارشاد فرماتا ہے:کیا اس گروہ کے ساتھ کہ جس نے اپنا عہدو پیمان توڑدیا ہے اور جو(شہر سے)پیغمبرکے اخراج کا پختہ ارادہ کرچکے ہیں تم جنگ نہیں کرتے ہو حالانکہ پہلے انھوں نے(تم سے جنگ کی)ابتداء کی تھی،کیا ان سے ڈرتے ہو جبکہ خدا زیادہ سزاوار ہے کہ اس سے ڈرو،اگر تم مومن ہو۔حضرت زہرا سلام اللہ علیہا نے ان لوگوں کو سقیفہ کے سرداروں سے تشبیہ دی اور انصار کو مخاطب کر کے فرمایا: تم کیوں خاموش ہو اور ان کے ساتھ شامل ہو گئے ہو؟

استاد حوزہ علمیہ نے مزید کہا کہ اصحابِ سقیفہ پر اس آیت کا اطلاق اس لئے ہے کہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا یہ کہنا چاہتی ہیں کہ جن لوگوں نے امیرالمؤمنین کو جھٹلایا وہ خدا کے دین سے خارج ہو گئے اور رسول اللہ(ص)کو اپنے بنائے ہوئے شہر سے نکالنے کا ارادہ رکھتے ہیں،جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۂ المنافقون میں فرمایا ہے کہ منافقین مومنوں کو ذلیل کرنا اور انہیں شہر سے نکالنا چاہتے ہیں۔

انہوں نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ منافقین کا منصوبہ یہ تھا کہ وہ مدینۃ الرسول کہ جس کی بنیاد رسول اللہ(ص)نے رکھی تھی اس سے تباہ کر دیں،رسول اللہ(ص)کے آثار کو مٹائیں اور ایک اور شہر تعمیر کریں جہاں آنحضرت(ص)کا کوئی نام و نشان نہ ہو،مزید کہا کہ سقیفہ نے غدیر میں کئے گئے اپنے عہد و پیماں کو توڑا اور وہ کام کیا کہ گویا مسلمانوں میں امیر المؤمنین(ع)کی کوئی جگہ نہیں تھی اور سقیفہ کے بعد 70ہزار سے زائد منبروں سے امیرالمؤمنین پر لعنت بھیجی جاتی رہی جو کہ اخراج الرسول کے لئے کئے گئے اقدامات کی ایک واضح مثال ہے۔

حجۃ الاسلام والمسلمین میرباقری نے مزید بتایا کہ بات یہاں تک پہنچی کہ سنہ61 ہجری میں یعنی رسول اللہ(ص)کی رحلت کے 50 سال بعد انہوں نے سبطِ پیغمبر کو قتل کردیا اور ان کے پاک سروں کو نیزے پر بلند کر کے ان کے خاندان کو اسیر کرلیا،یہ بھی اخراج الرسول(رسول کے آثار اور نام و نشان کو مٹانے)کے لئے کئے گئے سقیفائی اقدامات کی ایک اور مثال ہے۔

انہوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ سقیفائی دور میں مسلمانوں کو ڈرنا اور پیچھے نہیں ہٹنا چاہئے تھا،کہا کہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے اس لئے قیام فرمایا تھا کہ کفر کے سرداروں کو پیغمبرِ اِسلام(ص)اور امیر المومنین(ع)کو امت مسلمہ سے خارج کرنے سے روکیں،اگر حضرت زہرا سلام اللہ علیہا اور سیدالشہداء علیہ السلام کا قیام نہ ہوتا تو دشمن ایسا منصوبہ بناتے کہ جس سے وحی اور رسول اللہ(ص)کا کوئی نام باقی نہ رہتا۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .