۲ آذر ۱۴۰۳ |۲۰ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 22, 2024
رئیس دانشگاه اصفهان

حوزہ / حسین ہرسیج نے کہا: حوزویوں اور یونیورسٹی کے طلبہ سے نئی اسلامی تہذیب کے احیاء کی توقع کی جانی چاہیے لہذا اسلامی نظام کی بقا اور انقلاب کی حاکمیت کے لیے حوزویوں اور یونیورسٹی کے طلبہ کو سنجیدگی سے معیشت اور سافٹ پاور کے شعبوں میں داخل ہونا چاہیے۔

حوزہ نیوز ایجنسی اصفہان کی رپورٹ کے مطابق، اصفہان یونیورسٹی کے سرپرست جناب حسین ہرسیج نے اصفہان یونیورسٹی کے زیر اہتمام "حوزہ اور یونیورسٹی کے اتحاد" کے موضوع پر منعقدہ ایک سمپوزیم میں "پیغمبر اعظم ہال" میں خطاب کرتے ہوئے کہا: میرے ذہن میں یہ سوال ہمیشہ رہتا تھا کہ دشمن نے شہید مطہری، شہید مفتح، شہید شہریاری، علی محمدی اور فخری زادہ جیسے عظیم علماء  و دانشوروں کو کیوں قتل کیا؟ لیکن یہ دیکھنا چاہئے کہ ان شہداء کی خصوصیات کیا تھیں؟

انھوں نے کہا: مجھے اس سوال کا جو جواب ملا وہ یہ ہے کہ باوجود اس کے کہ شہداء نے دو الگ الگ علمی اداروں میں تعلیم حاصل کی، بعض نے حوزہ میں اور کچھ یونیورسٹیوں میں پڑھے لیکن ان کے ایک دوسرے کے ساتھ کئی ایسے مشترک نکات تھے جنہوں نے دشمن کو انھیں قتل کرنے پر مجبور کیا۔

اصفہان یونیورسٹی کے سرپرست نے کہا: ان لوگوں کا پہلا مشترک نکتہ ان کا "قدرت ساز علم و دانش" تھا۔ یہ تمام شہداء حقیقی معنوں میں عالم اور دانشمند تھے۔

ایک امریکی ماہر سیاسیات کے نقطۂ نظر سے طاقت کی تقسیم کا حوالہ دیتے ہوئے، انہوں نے کہا: ہم طاقت کی تین اقسام کا تصور کرتے ہیں: پہلی فوجی طاقت، دوسری اقتصادی طاقت اور تیسری نرم طاقت (سیاسی لحاظ سے اثر و رسوخ)۔

حسین ہرسیج نے کہا: گذشتہ دہائیوں میں اعداد و شمار اور بجٹ کے اعداد و شمار کے مطابق امریکہ کو دنیا کی پہلی فوجی طاقت سمجھا جاتا تھا۔ اقتصادی طاقتوں کے حوالے سے بھی چین، امریکہ، فرانس اور جرمنی جیسے ممالک ہمیشہ نمایاں رہے ہیں لیکن نرم طاقت کے عالمی منظر نامے میں مختلف کریکٹرز ہیں اور یہ معلومات اور ڈیٹا پر مبنی ہے اور اب صرف چند ممالک کی اجارہ داری نہیں ہے۔

انہوں نے مزید کہا: دنیا کی حالیہ پیش رفت کو دیکھتے ہوئے ایران کے پاس تین قسم کی طاقتوں میں کچھ کہنے کو ہے لیکن نکات قوت و ضعف موجود ہیں کہ جنہیں حوزہ اور یونیورسٹی کے اتحاد کی مدد سے طاقت میں بدلنا چاہیے۔

اصفہان یونیورسٹی کے صدر نے کہا: حالیہ برسوں میں ایران نے یقیناً فوجی طاقت میں دنیا کے سامنے اپنی حاکمیت کو ثابت کیا ہے لیکن اقتصادیات کی بحث میں انقلاب کی گزشتہ دہائیوں میں کئی ماڈلز تشکیل پائے ہیں۔

انہوں نے کہا: آج ہمیں جن مسائل کا سامنا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے انقلاب کے مختلف مراحل میں لبرل اور سوشلسٹ ماڈلز کی بنیاد پر کام کیا اور بدقسمتی سے اس سے لوگوں میں عدم اطمینان پیدا ہوا ہے۔

اصفہان یونیورسٹی کے علمی کمیٹی ممبر نے کہا: میرا یقین ہے کہ اس مقام پر حوزہ اور یونیورسٹی مل جل کر راہ حل کو تلاش کریں گے اور ملکی کمزوریوں عوام کے بے اطمینانی کو دور کرنے میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں گے۔

اصفہان یونیورسٹی کے سرپرست نے کہا: ہمیں بھی حوزویوں اور یونیورسٹی کے طلبہ سے نئی اسلامی تہذیب کے احیاء کی توقع کی جانی چاہیے لہذا اسلامی نظام کے بقا اور انقلاب کی حاکمیت کے لیے حوزویوں اور یونیورسٹی کے طلبہ کو سنجیدگی سے معیشت اور سافٹ پاور کے شعبوں میں داخل ہونا چاہیے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .