حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں دنیا بہت محدود سمجھی جاتی تھی۔ اُس دور کے لوگ صرف تین براعظموں کو جانتے تھے: ایشیا، افریقہ اور یورپ۔ زمین کے باقی بڑے حصے اُس وقت انسانوں کے علم میں نہیں تھے، اس لیے انہیں ’’غیر دریافت شدہ‘‘ کہا جاتا تھا۔
اسلامی عقیدے کے مطابق اللہ تعالیٰ نے دنیا کے کسی بھی حصے کو ہدایت کے بغیر نہیں چھوڑا، چاہے ہمیں وہاں کے ہادیوں اور رہنماؤں کے نام معلوم ہوں یا نہ ہوں۔ اسی اصول کی روشنی میں ہم اُس زمانے کی دنیا کو سمجھ سکتے ہیں۔
عہدِ نبوی میں کون سے براعظم معلوم نہیں تھے؟
ساتویں صدی عیسوی میں، یعنی رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں، شمالی اور جنوبی امریکا، آسٹریلیا، انٹارکٹیکا اور بحرالکاہل کے بے شمار جزائر دنیا کے لیے نامعلوم تھے۔
یورپی اقوام 1492ء میں امریکہ پہنچیں، آسٹریلیا سترہویں صدی میں دریافت ہوا، جبکہ قطبِ جنوبی انیسویں صدی تک دنیا کی نظروں سے اوجھل رہا۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ عہدِ رسالت میں انسان کی معلومات زمین کے ایک چھوٹے حصے تک محدود تھیں۔
کیا یہ علاقے خالی تھے؟
نہیں، یہ علاقے ہرگز خالی نہیں تھے۔
امریکہ میں یورپی آمد سے بہت پہلے مایا، ازتک اور انکا جیسی بڑی اور منظم تہذیبیں موجود تھیں۔ ان لوگوں کے پاس شہر، کھیتی باڑی، عمارت سازی اور باقاعدہ معاشرتی نظام تھا۔ اندازوں کے مطابق، کولمبس کی آمد سے پہلے امریکہ میں کروڑوں انسان آباد تھے۔
اسی طرح آسٹریلیا میں ابوریجن قومیں ہزاروں سال سے رہتی آ رہی تھیں اور ان کی اپنی ثقافت اور روایات تھیں۔ بحرالکاہل کے جزائر میں بھی قدیم زمانے سے لوگ آباد تھے۔
عہدِ رسالت میں دنیا کی آبادی کتنی تھی؟
تاریخی اندازوں کے مطابق، ساتویں صدی میں دنیا کی کل آبادی تقریباً 20 سے 30 کروڑ کے درمیان تھی۔ بیماریوں، طبی سہولیات کی کمی، خوراک کی قلت اور جنگوں کی وجہ سے آبادی میں اضافہ بہت سست تھا۔
آج کے دور میں دنیا کی آبادی آٹھ ارب سے بھی زیادہ ہو چکی ہے۔
ان علاقوں کے انبیاء کے نام تاریخ میں کیوں نہیں ملتے؟
اسلام یہ تعلیم دیتا ہے کہ اللہ نے ہر قوم کی طرف ہدایت بھیجی ہے۔ قرآنِ کریم میں صاف طور پر کہا گیا ہے کہ کوئی قوم ایسی نہیں گزری جس کے پاس کوئی انذار و تبلیغ کرنے والا نہ آیا ہو۔
لیکن تمام انبیاء کے نام تاریخ میں محفوظ نہیں رہے۔ روایات کے مطابق انبیاء کی تعداد ایک لاکھ چوبیس ہزار تک بتائی جاتی ہے، جن میں سے بہت سے انبیاء کے حالات ہم تک نہیں پہنچ سکے۔
ممکن ہے امریکہ، آسٹریلیا اور دیگر دور دراز علاقوں میں بھی اللہ کے ہدایت یافتہ بندے موجود رہے ہوں، لیکن چونکہ یہ علاقے باقی دنیا سے الگ تھے، اس لیے ان کے نام تاریخ کا حصہ نہ بن سکے۔
یہ براعظم ہزاروں سال تک ایشیا، افریقہ اور یورپ سے کٹے ہوئے تھے۔ نہ سفر کے ذرائع تھے اور نہ باہمی رابطہ۔
مزید یہ کہ ان تہذیبوں میں زیادہ تر تاریخ زبانی طور پر آگے بڑھائی جاتی تھی، مکتوب تاریخ کم تھی، اسی وجہ سے ان کے انبیاء اور رہنما کے نام محفوظ نہ رہ سکے۔
خلاصہ
رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں اگرچہ دنیا کا بڑا حصہ انسانوں کے لیے نامعلوم تھا، لیکن وہ علاقے انسانوں اور تہذیبوں سے خالی نہیں تھے۔
کسی خطے کے انبیاء کے نام نہ ملنا اس بات کی دلیل نہیں کہ وہاں ہدایت نہیں تھی، بلکہ یہ جغرافیائی دوری اور تاریخ محفوظ نہ رہنے کا نتیجہ ہے۔









آپ کا تبصرہ