حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے چند ہی ماہ بعد، اپنے مؤثر جہادِ تبیین کے ذریعے ان سیاسی و فکری انحرافات کے مقابل ڈٹ کر کھڑی ہوئیں جنہیں آج “سیکولر اسلام” کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ آپؑ نے خطبہ فدکیہ جیسے خطبے کے ذریعے یہ یاد دلایا کہ خلافت صرف خدا منصوص من اللہ یعنی چاہئے اور دین و سیاست میں جدائی کے دعوے بے بنیاد ہیں۔ بی بی دو عالم کا یہ اقدام محض عاطفی نہیں بلکہ “خالص اسلام” کے اصولی دفاع کا عملی نمونہ تھا۔
حضرت زہرا سلام اللہ علیہا نے مکمل حجاب و عفاف کے ساتھ موثر سیاسی و اجتماعی کردار ادا کیا اور مرد و خواتین دونوں کو سقیفہ کے انحرافات سے آگاہ کیا۔ ان کا طرزِ عمل مسلم خواتین کیلئے ایسا جامع نمونہ ہے جو حجاب کے ساتھ سماجی و سیاسی میدان میں موجودگی کو عین اسلامی قرار دیتا ہے۔ ان کی یہی جدوجہد انقلاب اسلامی ایران کی فکری بنیادوں میں بھی نظر آتی ہے، جہاں خالص اسلام کے مقابل سیکولر اسلام کا مقابلہ کیا گیا۔
اس موضوع پر مزید گفتگو کیلئے رکنِ هیئتِ علمی مؤسسہ امام خمینیؒ اور مدیرِ گروه فقہ سیاسی جامعہ المصطفی، حجۃ الاسلام والمسلمین قاسم شباننیا رکن آبادی سے تفصیلی گفتگو کی گئی ہے جسے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔
سوال: حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کا جہاد سیاسی کیا تھا؟ اور آپؑ نے ولایت کے دفاع کیلئے کن طریقوں کو اختیار کیا؟
قاسم شباننیا رکن آبادی:
حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی سب سے بڑی جدوجہد “خالص اسلام” کو “نا خالص اسلام” اور سیاسی تحریفات سے بچانا تھا۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے فوراً بعد، ایک ایسا اسلام عوام کے سامنے پیش کیا گیا جو نبی اکرم (ص) کے لائے ہوئے اسلام سے مختلف تھا۔ اس تحریف شدہ فکر کا سب سے سنگین پہلو یہ تھا کہ نبی اکرم (ص) کے دینی اور سیاسی منصب کو دو حصوں میں تقسیم کرکے کہا گیا کہ سیاست دین سے الگ ہے، اسی سوچ نے سقیفہ کو جنم دیا۔
وہاں بیٹھے چند افراد نے اعلان کیا کہ “حکومت کا تعین ہم کریں گے” جبکہ اسلام ہمیشہ سے حکومت کو منصبِ الٰہی سمجھتا آیا تھا۔
یہی وہ لمحہ تھا جہاں سے—جیسا کہ شہید مطہری نے کہا—اسلامی دنیا میں سیکولرزم کی بنیاد پڑی۔
حضرت زہرا سلام اللہ علیہا نے اسی گمراہ کن فکر کو بے نقاب کیا۔ صرف دو سے تین ماہ کے محدود عرصے میں آپؑ نے ایسے اقدامات کیے کہ خالص اور حقیقی اسلام کو دوبارہ نمایاں کیا اور سیکولر اسلام کو چیلنج کیا۔
آپؑ کا دفاع امام علی علیہ السلام کی ذات سے بڑھ کر “نظامِ ولایت” اور حکومت من جانب اللہ کا دفاع تھا۔
انقلاب اسلامی دراصل ایک “تحریک فاطمی” تھی جو امام خمینیؒ کی قیادت میں اسلامِ حقیقی کو دوبارہ سامنے لانے کیلئے اٹھی۔ اگر یہ جدوجہد نہ ہوتی تو اسلامی دنیا میں سکولرزم اور تحریف کے غلبے سے اصل اسلام محفوظ نہ رہتا۔
حضرت زہرا (س) کے وہ سوالات جنہوں نے معاشرے کو بیدار کیا
عیادت کیلئے آنے والی خواتین سے بی بی دو عالم نے پوچھا: "تمہارے شوہروں نے کس کے ہاتھ پر بیعت کی؟ سقیفہ میں کیا ہوا؟ غدیر کا عہد کیوں توڑا گیا؟"
یہ سوالات بعد میں پورے مدینہ میں شعور و بیداری کا ذریعہ بنے۔
مردوں سے بھی آپؑ نے فرمایا: "کیا غدیر بھول گئے؟ کیا نبی (ص) نے علی (ع) کو کھلے لفظوں میں پیش نہیں کیا تھا؟"
یہ کلمات ان کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کیلئے کافی تھے۔
سوال: یہ انحراف اتنی جلدی کیوں پیدا ہوا؟
حجۃ الاسلام قاسم شباننیا رکن آبادی نے کہا:
حضرت آیت اللہ جوادی آملی کے مطابق، اس انحراف کی دو بنیادی وجوہات تھیں:
1. شُبہۂ علمی – حقیقت کا ادراک کمزور ہونا یا گمراہ کن پروپیگنڈے سے متاثر ہونا
2. شہوتِ عملی – ذاتی مفاد، مقام، قبائلی سیاست
بہت سے افراد غدیر میں موجود تھے، حق کو جانتے تھے، مگر اقتدار اور قبائلی مفادات نے انہیں بدل دیا۔
اسلام عورت کو “گوشہ نشینی” نہیں بلکہ “باوقار سیاسی عمل” چاہتا ہے
حجۃ الاسلام قاسم شباننیا نے کہا: اسلام عورت کو یہ نہیں کہتا کہ وہ گھر کے اندر محدود ہو جائے۔
اسلام کہتا ہے: اپنا حجاب مکمل اختیار کرو، لیکن سماج میں فعال کردار ادا کرو، تاریخ بنانے والی خاتون بنو۔ جیسا کہ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا اور حضرت زینب علیہ السلام نے انجام دیا۔
کیا آج کی دینی و ثقافتی فضا میں بھی وہی سکولرزم موجود ہے؟ اس کا مقابلہ کیسے کیا جائے؟
حجۃ الاسلام قاسم شباننیا رکنآبادی نے اس سوال کے جواب میں کہا:
جی ہاں، بالکل۔ رہبر انقلاب اسلامی کئی برسوں سے یہ انتباہ دے رہے ہیں کہ سیکولر فکر اب کھلے نام سے سامنے نہیں آتی کہ لوگ فوراً پہچان لیں۔ آج کا سیکولرزم نئے لباس میں آتا ہے، دینی عنوانات کے ساتھ، اخلاق اور رواداری کے نام پر، یا “روشن خیالی” کی صورت میں۔
یہی وجہ ہے کہ میں اسے “نرم، دھیمی رفتار سکولرزم” کہتا ہوں جو معاشرے کے فکری نظام کو اندر سے کھوکھلا کر دیتا ہے۔
ماضی میں سکولرزم صاف صاف یہ کہتا تھا کہ دین الگ، سیاست الگ۔ لیکن آج یہ نعرہ اس طرح پیش کیا جاتا ہے:
“دین صرف اخلاقی نصیحت ہے، حکومت کا کام الگ ہے”
“دین کو عبادات اور دعاؤں تک محدود رہنا چاہیے”
“سیاسی دین، دین کو خراب کر دیتا ہے”
“ولیّ فقیہ یا دینی قیادت کا ریاست سے کیا تعلق؟”
یہی وہ فکر ہے جو عین وہی انحراف ہے جس کے خلاف حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے جدوجہد کی تھی
یہ خطرہ صرف معاشرے کے اندر نہیں، بلکہ علمی اور دینی مراکز تک پھیل رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ رہبر انقلاب کا حالیہ انتباہ بہت سنگین ہے، جس میں انہوں نے صاف فرمایا کہ: “اگر علمی مراکز میں دنیا پرستی اور بے روح مذہب داخل ہو گیا تو انحراف پیدا ہونے میں دیر نہیں لگے گی۔”
یہ وہی کیفیت ہے جو سقیفہ کے بعد پیدا ہوئی تھی—کہ جہاں کچھ لوگ “لوگوں کی رائے” کو “الٰہی منصوبہ” پر ترجیح دینے لگے، کچھ نے “سیاست” کو “دیانت” سے جدا سمجھنا شروع کیا، کچھ نے “قیادتِ معصومؑ” کے ہوتے ہوئے بھی اپنی پسند کا راستہ چن لیا، آج بھی یہی سوچ مختلف انداز میں سامنے آ رہی ہے۔
اس خطرے سے نمٹنے کا واحد راستہ جهادِ تبیین ہے۔









آپ کا تبصرہ