۱۳ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۲۳ شوال ۱۴۴۵ | May 2, 2024
News ID: 389651
12 اپریل 2023 - 17:33
پرچم فلسطین

حوزه/ بیت المقدس جو مسلمانوں کا قبلہ اول اور فلسطینیوں کا حرم، جسے سر زمین انبیاء کہا جاتا ہے اسی پاک و مقدس سر زمین پر 1948 میں عالمی استکبار نے فلسطین کی جغرافیائی، تاریخی و مذہبی اہمیت کو جانتے ہوئے یہاں اسرائیل جیسی ناپاک ریاست قائم کی۔

تحریر: عنیزہ، کراچی پاکستان

حوزه نیوز ایجنسی| بیت المقدس جو مسلمانوں کا قبلہ اول اور فلسطینیوں کا حرم، جسے سر زمین انبیاء کہا جاتا ہے اسی پاک و مقدس سر زمین پر 1948 میں عالمی استکبار نے فلسطین کی جغرافیائی، تاریخی و مذہبی اہمیت کو جانتے ہوئے یہاں اسرائیل جیسی ناپاک ریاست قائم کی۔ فلسطین میں قدم جمانے کے لیے صیہونیوں نے اپنی مظلومیت و نسل کشی کا سہارا لیا دوسری طرف ان صیہونیوں کو مضبوط بنانے طاقت میں لانے کے لیے امریکہ نے انہیں خوب مالی و عسکری طاقت سے نوازا جس کے باعث اسرائیلی فلسطینیوں سے زیادہ طاقتور ہو گے اختیار ہاتھ میں آتے ہی اپنی حکومت قائم کی اور فلسطینیوں پر ظلم و جبر کے پہاڑ توڑے گئے کئی لاکھ فلسطینی جلاوطن ہو گئے۔ کئی نوجوان ان کے ہاتھوں قتل کیے گئے عزت و ناموس کو پامال کیا گھروں کو جلایا گیا۔ حتیٰ کہ اسکول مسجدوں پر حملے کیے گئے۔ حتی الامکان کوشش کی گئی کہ فلسطینیوں کی نسل کشی کی جائے باقی رہ جانے والے خوف کھا کر خود ہی فلسطین چھوڑ دیں اور پھر فلسطین کو اسرائیل تسلیم کروایا جائے۔ مگر ممکن نہ تھا کہ غیرت مند، جذبہ حریت رکھنے والے فلسطینی صیہونیوں کو ان کی سازشوں میں کامیاب ہونے دیتے وہ فلسطینی جن کے پاس وسائل مہیا نہیں تھے جن کے پاس عسکری و مالی طاقت اسرائیلیوں کی طرح نہیں تھی وہ پتھروں کے ذریعے سر زمین انبیاء کا دفاع کرنے میں مصروف رہے اور یہ دفاع آج بھی جاری و ساری ہے مگر تف ہیں ان عرب مسلمان حکمرانوں پر جو امریکہ کے چمچ سے کھاتے ہیں جنہوں نے اسرائیل جیسی ناپاک ریاست کو قبول کر لیا مگر ان میں اتنا حوصلہ و طاقت نہیں تھی کہ اپنے قبلہ اول کی آزادی مسلمان بہن بھائیوں کے لیے ان سے نبردآزما ہوتے پتھروں سے دفاع کرنے والے فلسطینی ان جیسے حکمرانوں سے مقام میں بلند تر ہیں جو جسم میں موجود خون کے آخری قطرے تک لڑ رہیں ہیں تاکہ ان صیہونیوں کو ایک دن یہاں سے نکال باہر کریں۔

جس ناجائز ریاست کو عالمی طاقتوں نے قبول کیا جس میں عرب حکمران بھی شامل ہیں مگر وہی امام خمینی رح نے دنیائے اسلام کو اسرائیل کے خطرے سے آگاہ کیا کیوں کہ امام خمینی جانتے تھے کہ یہ مسئلہ صرف زمینی یا فلسطین کا ذاتی مسئلہ نہیں رہا بلکہ یہ ہمارا مذہبی و تاریخی مسئلہ بن چکا ہے۔ آپ نے عالمی سطح پر اعلان کر دیا کہ رمضان المبارک کا آخری جمعہ (جمعۃ الوداع) یوم القدس کے نام سے تمام مسلم ممالک میں منایا جائے تاکہ عالمی سطح پر معلوم ہو سکے عالمی استکباری استعماری طاقتوں کی سازشوں سے اسرائیل کا وجود قائم ہوا ہے۔ آپ نے یوم القدس کو رسول ص کا دن کہا ہے کیوں کہ یہ دن ہر ظالم کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کا دن ہے جس طرح رسول ص نے ہر ظالم و جابر کے خلاف بغیر کسی خوف خطر کے جہاد کیا یہی مظلومین کی حمایت کا دن ہے پھر چاہے وہ مظلومین فلسطین، یمن، کشمیر ہوں یا شام کے مظلومین ہوں یہی دن ہے جب ظالم و جابر حکمرانوں کے ایوانوں کو حق کی طاقت ہلا کر کھوکھلا کر دیتی ہے اور ان کا مکروہ و فریب زدہ چہرہ عالم دنیا کو دکھاتی ہے امام خمینی رح کے قول پر عمل کرتے ہوئے آج دنیائے اسلام ( کئی مسلم ) ممالک میں یوم القدس منایا جاتا ہے جس میں یہ بات عالمی ایوانوں تک پہنچائی جاتی ہے کہ ہم ہرگز ہرگز اسرائیل کو قبول نہیں کریں گے۔ بقول سید حسن نصر اللہ " اسرائیل مکڑی کے جالے سے بھی زیادہ کمزور ہے" اگر آج تمام مسلمان یکجا ہو کر فلسطین کی حمایت کے لیے گھروں سے نکلیں تو وہ دن دور نہیں جب یہ ریاست اپنی موت آپ مر جائے گی۔ جیسا کہ کہا جاتا ہے اگر مسلمان مل کر ایک ایک بالٹی پانی کی پھینکیں تو اسرائیل نابود ہو آئے گا اور یوم القدس ایک دن انہیں صیہونیوں کے خاتمے و نابودی کا دن بن جائے گا۔ ان شاءاللہ

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .