حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق عزاخانہ ابوطالب(بھوپال)/ میں مجالس عزا کا پر شکوہ اہتمام
بھوپال:ماہ مبارک رمضان کی اہم مناسبات میں وصی رسول،زوج بتول حضرت علی مرتضی علیہ السلام کی المناک شہادت ہے۔اس غم و اندوہ کے موقع پر پوری دنیا میں ان دنوں تمام عدل پسند انسانیت بالعموم اور موالیان امیر المومنین بالخصوص مولائے کائنات کا غم مناتے ہیں۔اسی سلسلہ میں شہادت کے ایام کی مناسبت سے بھوپال(مدھیہ پردیش)کے عزاخانہ ابوطالب میں مجالس عزا کا اہتمام کیا گیا۔جس سے خطاب کرنے مولانا سید حیدر عباس رضوی لکھنؤ سے تشریف لائے۔
مولانا موصوف نے اپنے خطابات میں ماہ مبارک سمیت شب قدر کی فضیلت پر روشنی ڈالتے ہوئے امیر المومنین کے تعلیمات کی جانب سینکڑوں مرد و زن کو متوجہ کیا۔
سورہ دخان کی آیت نمبر تین کو سرنامہ سخن قرار دیتے ہوئے مولانا سید حیدر عباس نے بیان کیا کہ شب قدر کی طرح روز قدر کی بھی اہمیت ہے۔کیوں شب قدر معین نہیں کی گئی اس کا جواب دیتے ہوئے خطیب محترم نے صراحت کی تا کہ بندگان خدا شب قدر درک کرنے کی خاطر مسلسل کوشاں رہیں۔مولانا نے دوران خطاب بعض بزرگ علماء کرام کا تذکرہ بیان کرتے ہوئے بیان کیا کہ کچھ ایسی بھی علمی شخصیات گزری ہیں جنہوں نے پورے سال احیاء(شب بیداری) کیا تا کہ وہ شب قدر کی سعادتوں سے محروم نہ رہ جائیں۔
مرحوم آیت اللہ کشمیری کی ماہ مبارک رمضان سے متعلق نصیحتوں کا تذکرہ کرنے کے ضمن مولانا نے کہا کہ آیت اللہ کشمیری تاکید فرماتے کہ ماہ مبارک میں دن بھر میں کم از کم ایک طولانی سجدہ ضرور کیا کریں۔وقت افطار دلال کی تاکید کرتے یعنی افطار کا وقت داخل ہوتے ہی کھانا پینا نہ شروع کر دیں بلکہ خدا سے ناز کریں کہ خدایا میری فلاں حاجت قبول کر لے۔دعائے افتتاح کے آغاز میں ذکر بھی ہوا ہے مولا علیک۔
مولانا سید حیدر عباس رضوی نے امیر کائنات حضرت علی ابن ابوطالب کی شہادت کے موقع پر آپ کے طرز حکمرانی کا تذکرہ کرتے ہوئے اپیل کی کہ آج کے اس نفرت والے ماحول میں بر سر اقتدار حکمران جماعت تک مولا کا طرز حکومت پہنچانا ہم سب کا فریضہ ہے۔مولا علی مرتضی اپنی ظاہری خلافت میں ایک غیر مسلم بزرگ کو پریشان حال دیکھ کر مالک اشتر جیسے بیت المال کے خازن سے فرماتے ہیں اس بوڑھے کے لئے بیت المال سے وظیفہ معین کرو۔
مولا امیر المومنین علیہ السلام کی وصیت بیان کرنے کے ضمن میں مولانا موصوف نے بعد ضربت مولا سے ہونے والی ملاقاتوں کا تذکرہ کیا اور ساتھ ہی ان سے ملنے والے پیغامات کو بیان فرمایا۔
مولانا سے عبد الرحمن ابن ملجم مرادی سے ہونے والی ملاقات کا مفصل تذکرہ کیا جس میں مولا نے سوال کیا تھا اے ابن ملجم کیا میں تیرا محسن نہیں ہوں کیا میں نے تجھے دوسروں سے زیادہ نہیں دیا جبکہ مجھے معلوم تھا کہ تو میرا قاتل ہے؟ابن ملجم اپنی غفلت کے سبب مولا کا قاتل قرار پایا جبکہ دوسری طرف حجر ابن عدی کا کردار نظر آتا ہے جو مولا کو ضربت لگنے کے بعد آتے ہیں اور اشعار پڑھتے ہیں کہ آج یتیموں کا باپ جا رہا آج شجاعت کا پیکر رخصت ہو رہا گریہ کرتے جاتے ہیں اور پھر مولا نے حجر کے حق میں دعا کی ساتھ ہی سوال کیا کہ میری محبت سے پیچھے تو نہ ہٹوگے؟حجر کہتے ہیں اگر تلوار سے میرے بدن کے ٹکڑے ٹکڑے بھی کر دئیے جائیں تو بھی آپ کی محبت سے ایک قدم پیچھے ہٹنے والا نہیں۔اسی محبت کے جرم میں حجر جام شہادت نوش کرتے ہیں۔
مولانا سید حیدر عباس رضوی نے حالیہ دنوں میں مسلسل افغانستان میں بے گناہ مومنین کے قتل پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے عالمی میڈیا پر تعجب کیا کہ ایک یوکرین میں ہونے والے مظالم پر آنسو بہانے والے علی کے چاہنے والوں کی شہادت پر خاموشی کیوں اختیار کر لیتے ہیں۔کیا ان کا خون خون نہیں ہے؟
مولانا سید حیدر عباس نے ان مجالس میں اپنے مخصوص انداز خطابت میں امیر المومنین کی مظلومیت کے تین اسباب بیان کئے :
۱: انکار: نبی نے حجۃ الابلاغ کے موقع پر علی کی ولایت کا اعلان کیا رحلت نبی کے کچھ ہی دنوں کے بعد ثقیفہ سجائی گئی
۲: کتمان: لوگ گونگے ہو گئے انس ابن مالک سے کہا تم تو غدیر میں موجود تھے پھر کیوں خاموش ہو؟ جواب ملتا ہے نسیت یعنی میں بھول گیا۔
۳: عدم نصرت: لوگوں نے ولایت کا دفاع نہ کیا۔ان مجالس میں مولانا نے مصائب پر گفتگو تمام کی جسے سن کر مجمع میں شور گریہ بلند ہوا۔مذکورہ مجالس کے مہتمم اعلی مسکین ایرانی نے وضاحت کی کہ گذشتہ دو برسوں سے عالمی وبا کے چلتے ہم اس عزاداری سے محروم تھے لیکن شکر کہ اس برس پوری دنیا کی طرح ہم اہل بھوپال کو بھی مجالس عزا اور جلوس عزا بپا کرنے کا موقع ملا۔امید کہ جلد ہی دنیا میں امن و عدل کا راج ہوگا اور جہاں بھی ظلم ہوگا وہاں سے ظلم کا خاتمہ ہوگا۔