حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،فلک پر محرم کا چاند نمودار ہوتے ہی پوری دنیا میں صدائے یا حسین،لبیک یا حسین گونجنے لگی۔دنیا بھر میں انصاف پسند افراد بالعموم اور عاشقان سید الشہداء امام حسین علیہ السلام بالخصوص مجالس عزا کا اہتمام کر رہے ہیں۔ دہلی کے دوارکا موڑ واقع حسینیہ میں حفظان صحت کے اصولوں کی رعایت کے ساتھ عشرہ مجالس کا آغاز ہو چکا ہے۔جس سے خطاب کرنے کے لئے لکھنؤ سے مولانا سید حیدر عباس تشریف لائے ہیں۔ خطیب مجلس نے ایام عزائے حسینی کو معرفت رب کے حصول کا بہترین موقع بتاتے ہوئے اضافہ کیا کہ قرآن مجید میں مختلف مقامات پر پروردگار عالم نے اپنی نصرت کا وعدہ کیا ہے۔البتہ اس نصرت کو حاصل کرنے کے لئے چند چیزیں درکار ہیں جن میں ایمان،تقوی،استغاثہ اور ثبات قدمی خصوصیت سے قابل ذکر ہیں۔
مولانا سید حیدر عباس نے مشرکین کے اعتراض کا قرآنی آیات سے جواب دیتے ہوئے بیان کیا کہ الہی امداد کا مطلب ذہن و دل و دماغ میں انبیاء کرام اور ائمہ اطہار نیز ان کے سچے پیروکاروں کے افکار کا پہنچنا ہے۔ قوم عاد، ثمود، شعیب، لوط اور نوح کی تباہی کا تذکرہ کرتے ہوئے مولانا موصوف نے اضافہ کیا کہ نبی اعظم حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے محض ۶۳ برس کی عمر پائی لیکن آج بھی آنحضرت کے افکار زندہ ہیں۔
جوانسال عالم نے اپنے پر مغز بیان میں بعض علماء کا تذکرہ کیا جن میں شہید صدر،شہید مطہری کا خاص ذکر کیا۔ساتھ ہی معمار انقلاب امام خمینی کا تذکرہ کرتے ہوئے مولانا سید حیدر عباس نے کہا کہ امام خمینی کے پاس شاہ ایران سے مقابلہ کے لئے اسلحے نہ تھے لیکن ایمان اور اخلاص کی طاقت نے آج پوری دنیا میں انہیں زندہ رکھا ہے۔کربلا کو آئیڈیل بنانے والے امام خمینی نے لیبرلزم اور کمیونزم کے دور میں اپنے حسینی کردار سے دنیا بھر میں اسلامی تمدن کا چراغ روشن کیا۔
اس خطاب میں خطیب مجلس نے جوانوں سے خطاب کے دوران تاکید کی کہ ہمیں ائمہ اطہار کی نصرت کرنی ہے خاص کر حسین زمان حضرت حجت کی نصرت کے لئے خود کو تیار کرنا ہے۔جس کا بہترین موسم یہی فصل عزا محرم و صفر ہے۔امام حسین کی میدان کربلا میں گونجنے والی صدائے استغاثہ آج بھی باقی ہے۔ہمیں امام عالیمقام کی نصرت کے لئے علمی،عملی،فکری،مالی اور اخلاقی طور پر خود کو آمادہ کرنا ہوگا۔
ساحر اجتہادی کے شعر سے مصائب کا خطیب مجلس نے آغاز کیا کہ:
جیتے ہیں غم شہ کے سہارے ساحر
یہ غم نہ میسر ہو تو جیتے نہ بنے
محرم کے چاند کا تذکرہ ساتھ ہی امام حسین کی مظلومیت کا بیان لوگوں کے زار و قطار گریہ کے لئے کافی تھا۔
قابل ذکر ہے کہ مجلس کا آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا۔بعدہ مرثیہ خوانی ہوئی اور مجلس کے اختتام پر ضرغام عالمپوری نے پر درد آواز میں نوحہ پڑھا۔