۱۳ آذر ۱۴۰۳ |۱ جمادی‌الثانی ۱۴۴۶ | Dec 3, 2024
مجلسِ

حوزہ/ عزاخانہ ابو طالب املو میں شہید راہ مقاومت سید حسن نصراللہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہ کے لئے ایصال ثواب کی مجلس ترحیم کا انعقاد.

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،املو مبارکپور،اعظم گڑھ/ انسان کی اصل فتح و ظفر کا معیار ،حیات انسانی کی کامیابی کاراز شہادت میں مضمر ہے۔جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد رب العزت ہورہا ہے’’اور جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جائیں، انہیں مُردہ نہ کہو، ایسے لوگ تو حقیقت میں زندہ ہیں، مگر تمہیں ان کی زندگی کا شعور نہیں ہوتا‘‘۔

یہ انسانی موت و حیات کا قرآنی فلسفہ اور اسلامی نظریہ ہے جس کی روشنی میں یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ قتل کردینا جیت کی علامت نہیں ہوتی اور نہ ہی قتل ہو جانا ہار کی نشانی ہوتی ہے۔اگر قاتل فاتح ہوتا تو نعوذ باللہ ابن ملجم فاتح ہوتا اور مولا علی ؑ مفتوح ہوتے۔اگر قاتل فاتح ہوتا تو معاذ اللہ یزید فاتح ہوتا امام حسین مفتوح ہوتے۔حضرت علی ؑ جانتے تھے کہ 19ویں رمضان کی شب میں نماز فجر کی حالت میں ابن ملجم انھیں قتل کرنے کا پورا منصوبہ بناکر آمادہ قت ل ہے تو مولا علی ؑ کو چاہیئے تھا وہ نماز فجر پڑھانے کے لئے مسجد کوفہ ہی نہ جاتے ،گھر ہی میں نماز پڑھ لیتے یا اگر گئے تھے تو ابن ملجم کوہی مار کر جان کا خطرہ دور کرلیتے ۔مگر مولا علیؑ نے ایسا کچھ بھی نہیں کیا بلکہ ان کو خوشی تھی کہ آج میری زندگی کی کامیابی کی گھڑی آپہونچی ہے۔اسی لئےحالت سجدہ میں زہر آلود تلوار سر پر لگنے کے بعد فرمایا ’’رب کعبہ کی قسم آج میں کامیاب ہوگیا‘‘۔

عشق علی ؑ کے دیوانہ،شمع شہادت کے پروانہ شہید حسن نصراللہ سربراہ حزب اللہ لبنان زندگی کی جنگ جیت گئے ۔وہ خوب اچھی طرح جانتے تھے کہ وہ قتل کئے جائیں گے مگر غزہ و فلسطین اور لبنان وغیرہ کے مظلوموں کی حمایت سے دست بردار نہیں ہوئے نہ حزب اللہ پارٹی کو چھوڑا۔کیونکہ شہادت ان کی دیرینہ خواہش تھی۔

ان خیالات کا اظہار مولانا ڈاکٹر سید کاظم مہدی عروج جونپور ی نے بتاریخ یکم ؍ ستمبر بروز سہ شنبہ عزاخانہ ابو طالب محمود پورہ املو میں انجمن جوانان حسینی کے زیر اہتمام شہید راہ مقاومت سید حسن نصراللہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہ کے لئے منعقد ایصال ثواب کی مجلس ترحیم کو خطاب کے دوران کیا۔

مولانا نے مزید کہا کہ اسی طرح حضرت امام حسین ؑ کربلا ہی کیوں گئے ؟جبکہ وہ جانتے تھے اور بار بار اس کا اظہار فرماتے جاتے تھے کہ ہم کربلا میں قتل کردئے جائیں گے۔اہل حرم قیدی بنا ئے جائیں گے تو پھر کربلا کیوں گئے ۔شائد مولا کا جواب ہو کہ اگر کربلا نہ جاتا تو سب سے بڑا ’’سید الشہداء‘‘کا الٰہی خطاب کیسے ملتا ۔اور قرآن مجید کی اس آیت کا مصداق کون بنتا’’اے نفس مطمئنہ! اپنے رب کی طرف پلٹ آ اس حال میں کہ تو اس سے راضی اور وہ تجھ سے راضی ہو۔ پھر میرے بندوں میں شامل ہو جا۔ اور میری جنت میں داخل ہو جا۔‘‘(سورہ فجر؛ آیات 27 تا 30)۔

آخر میں مولانا نے جناب قاسم ابن امام حسن ؑ کے مصائب بیان کئے جن کے جسم میں ابھی جان باقی تھی کہ گھوڑوں کی ٹاپوں سے رونڈ کر جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کردئا تھا یہ سن کر سامعین کی انکھیں اشکبار ہو گئیں۔

اس موقع پر مولانا ابن حسن املوی واعظ،مولانا شمیم حیدر ناصری،مولانا محمد مہدی قمی سمیت کثیر تعداد میں مومنین موجود رہے۔

عشق علی ؑ کے دیوانہ،شمع شہادت کے پروانہ سید مقاومت حسن نصراللہ زندگی کی جنگ جیت گئے: مولانا کاظم مہدی عروج جونپوری

تبصرہ ارسال

You are replying to: .