۱۰ فروردین ۱۴۰۳ |۱۹ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 29, 2024
حال و هوای کربلا در آغاز ماه محرم

حوزہ / سید ذیجاہ کاظمی صاحب نے محرم الحرام کی مناسبت سے " عاشورا اور آزادی" کے عنوان پر ایک تحریر لکھی ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، سید زیجاہ کاظمی صاحب نے محرم الحرام کی مناسبت سے " عاشورا اور آزادی" کے عنوان پر ایک تحریر لکھی ہے۔ جسے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے:

آزادی کسے کہتے ہیں ؟ یہ آزادی جس کا ذکر ہوتا ہے اس سے کیا مراد ہے؟

آزادی زندگی اور ارتقاء کے لوازمات میں سے ہے۔ یعنی ہر زندہ موجود کی ایک ضرورت ہے۔ فرق نہیں پڑھتا کہ یہ زندہ موجود نباتات میں سے ہو یا حیوان میں سے یا پھر انسان ہو، بہر صورت آزادی کا محتاج ہے۔ ہر زندہ موجود کی خاصیت یہ ہوتی ہےکہ وہ رشد و نمو پاتا ہے ۔ ارتقاء کی جانب گامزن ہوتا ہے۔ متوصف اور منجمد نہیں ہوتا ایک ہی حالت میں پڑا نہیں رہتا۔جمادات جن میں نمو اور ارتقاء نہیں ہوتا، نہیں آزادی کی ضرورت بھی نہیں ہوتی اور آزادی کا مفہوم ہی نہیں ہوتا۔

آزادی یعنی اس کا راستہ نہ روکیں اور نہ ہی اس کی سامنے رکاوٹ کھڑی کریں۔ یعنی آزاد انسان وہ انسان ہوتےہیں جو اپنی نمو اور ارتقاء کی راہ میں حامل رکاوٹوں سے مقابلہ کرتے ہیں۔

آزادی کے لیے ہمیشہ دو چیزیں ہونی چاہئیں ۔ ایس چیز قید ہو اور دوسری چیز آزاد ہو۔ معنوی آزادی میں انسان کس سے آزاد ہونا چاہتا ہے؟ معنوی آزادی یعنی فکری آزادی، معاشرتی آزادی اور روحانی آزادی ہے۔

سماجی آزادی ، انسان کی دوسرے افراد کی قید اور اسیری سے آزادی کا نام ہے۔ لیکن معنوی آزادی ، آزادی کی ایک خاص قسم ہے ، در اصل انسان کی خود اپنی قید اور غلامی سے آزادی ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ ایک چیز خود ہی غلام ہو اور خود ہی اپنے آپ کو غلام بنانے ولی، خود ہی قید ی ہو اور خود ہی اپنے آپ کو قید کرنے والی؟

تو اس کا جواب ہے "ہاں" ممکن ہے۔ کیونکہ انسان وہ واحد مخلوق ہے جس کی سرشت میں عقل بھی رکھی ہے اور شہوت بھی رکھی ہے۔

نہج البلاغہ میں امام علی ؑ فرماتے ہیں کہ: الطمع رق مُئوبد (الحکمت 177 ) یعنی لالچ اور طمع غلامی سے بدتر ہے۔

اس بنیاد پر ہم ہم سمجھ سکتے ہیں کہ جسم کی غلامی کے علاوہ ایک دوسری قسم کی غلامی بھی ہے۔ ایسی غلامی جس میں انسان کا جسم آزاد ہوتا ہے۔

انسان میں دو رجحان پائے جاتے ہیں ایک انسان کی روح کا رجحان اور دوسرا انسان کے جسم کا رجحان ۔ اگر ہم اپنی روح کو آزاد رکھنا چاہتے ہیں تو پھر یہ ممکن نہیں کہ ہم شکم پرست ہوں، زن پرست ہوں اور ہماری روح آزاد ہو، مادیت کی شیدائی ہو اور روح آزاد ہو۔

درحقیقت ہم شہوت پرست نہیں ہوسکتے ، غصہ پرست نہیں ہوسکتے۔ پس اگر واقعی آزاد ہونا چاہتے ہیں تو اپنی روح کو آزاد کیجئے۔

انبیاء اورآئمہ کا سب سے عظیم دستور عمل معنوی آزادی ہے۔ تزکیہ نفس در اصل معنوی آزادی ہے۔ (قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكَّاهَا) یعنی وہی فلاح پایا جس نے تزکیہ نفس پر عمل پیرا ہو۔

آزادی ایک اعلیٰ قدر ہے جسے تمام انسان بلا تفریق فرقہ و مذہب تسلیم کرتے ہیں۔ یہ خاص طور پر ان لوگوں کے بارے میں سچ ہے جو پیغمبر اسلام (ص) کے نواسے امام حسین کی شہادت کی یاد مناتے ہیں، جو اپنے وقت کے کرپٹ ڈکٹیٹر یزید بن معاویہ کی مخالفت کرتے ہوئے شہادت کے عظیم درجے پر فائز ہوئے۔

میرے خیال میں عاشورہ کے تناظر میں اور امام حسین اور ان کے ساتھیوں کےاس بات پر غور کرنا دلچسپ ہوگا کہ آزادی کا کیا مطلب ہے۔ سب سے پہلے، آزادی کے دو تصورات پر مختصراً بحث کرتے ہوئے شروع کرتے ہیں۔

عصری ثقافت میں، آزاد ہونا اپنی پسند کے کام کرنے کے قابل ہونا ہے۔ آزادی ہماری زندگی میں دوسروں کی مداخلت کی عدم موجودگی ہے، جوہم کو اپنی مناسب زندگی گزارنے کی اجازت دیتی ہے۔ آزادی کا یہ تصور کلاسیکی لبرل ازم کا ہے، جو تاریخی طور پر بہت متاثر کن رہا ہے۔ چونکہ اس کی توجہ کسی چیز کی عدم موجودگی پر ہے، یعنی دوسروں کی مداخلت کی عدم موجودگی، اس لیے اسے ’منفی آزادی‘ کا نام دیا گیا ہے۔ اگر کوئی آپ کو کچھ کرنے پر مجبور کرتا ہے، تو وہ آپ کی منفی آزادی کو محدود کر رہے ہیں، کیونکہ وہ آپ کی زندگی میں مداخلت کر رہے ہیں۔ جب بدعنوان حکمران یزید نے مسلمانوں پر دھمکیوں، ڈرانے، قید اور بدترین نظام کے ذریعے ظلم کیا تو اس نے آزادی کے اس معنی میں ان کی آزادی کو محدود کردیا۔

بے شک یہ آزادی کا یہی احساس تھا جس کا ذکر امام حسین اس وقت کر رہے تھے جب انہوں نے دشمنوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: ’’اگر تم خدا اور آخرت پر یقین نہیں رکھتے تو کم از کم اس دنیا میں آزاد رہو‘‘۔

دوسرے لفظوں میں، یزید اور اس کےپیروکار کو اپنی آزادی پرمسلط نہ ہونے دیں۔ انہیں اپنی زندگی میں اس طرح مداخلت نہ کرنے دیں۔ اس طرح کی آزادی کو یزید کے سپاہیوں سمیت سبھی نے تسلیم کیا، ان میں سے اکثر خوف کے مارے یزید کی فوج میں شامل ہوئے۔

امام حسین کی آزادی کا احساس

تو امام حسین کا کیا ہوگا؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ آزادی کے اس گہرے احساس کا نمونہ تھے، خدا کے لیے اپنی عقیدت اور اپنی زندگی میں اعلیٰ اسلامی اصولوں کے نفاذ، اپنی ہمت اور بڑی سے بڑی آزمائشوں اور ناممکن مشکلات میں صبر و استقامت کے ذریعے۔ جب کہ یزید کی فوج نے اس کی منفی آزادی کو محدود کیا، وہ عاشورہ کے دن زمین کا سب سے آزاد آدمی تھا۔

ہم امام حسین کو ابوالاحرار کہتے ہیں یعنی آزادی کا باپ۔ ایک لقب ان کے پاس ہے اس آزادی کی وجہ سے جو انہوں نے اپنے ساتھیوں میں متاثر کیا۔ حر جیسے اصحاب، یزید کی فوج میں ایک جرنیل جس نے امام حسین کو کوفہ کے راستے میں روکا اور جو امام علیہ السلام کو کربلا میں پھنسانے کا ذمہ دار تھا۔ حر ابن یزد ریاحی کی کہانی معافی اور چھٹکارے کی ایک ناقابل یقین کہانی ہے، کیونکہ جب حرکو اپنے کیے کی برائی کا احساس ہوا تو اس نے یزید کی فوج سے علیحدگی اختیار کی اور یقینی موت کے منہ میں امام حسین کے ساتھ شامل ہوا۔ امام سے استغفار کرنے کے بعد دشمن سے لڑنے والے اور شہید ہونے والے اولین میں سے تھے۔ اس کے بعد امام حسین حر کے بے جان جسم کے پاس گئے جس کے عربی میں لفظی معنی 'آزاد' ہے اور اپنے چہرے سے مٹی اور خون صاف کرتے ہوئے فرمایا: مبارک ہو حر! آپ آزاد ہیں جیسا کہ آپ کی والدہ نے آپ کا نام رکھا ہے، دنیا اور آخرت میں بھی آزاد ہو!

اس کا مقابلہ عمر بن سعد سے کریں جنہوں نے ابن زیاد کے ذریعہ ایران میں رے کی حکومت کا وعدہ کرنے کے بعد امام حسین کے خلاف فوج کی قیادت کی۔ اگرچہ وہ آزادی کے سطحی منفی مفہوم میں امام حسین اور ان کے ساتھیوں سے زیادہ آزاد تھے، لیکن آخرکار وہ دولت اور طاقت کے لالچ اور محبت کے غلام تھے۔ وہ ان روحانی برائیوں کے رحم و کرم پر تھا اور ابلیس کے حکم میں تھا، اسی طرح گہرے اور اہم معنوں میں بالکل آزاد نہیں تھا۔

غالباً اسی احساسِ آزادی کا اشارہ حسین ؑکے سفیر مسلم بن عقیل نے کیا تھا، جب جنگ کے دوران کوفہ کی سڑکوں پر ان کے دشمنوں نے انہیں حفاظت کی پیشکش کی تھی۔ مسلم نے خوبصورت اشعار کی شکل میں جواب دیا جو شروع ہوا،

’’میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ مجھے آزاد ہونے کے سوا قتل نہیں کیا جائے گا۔‘‘حفاظت کی یہ پیشکش، خواہ صحیح ہو، اور یہاں تک کہ اگر اس نے مسلمان کو بغیر کسی مداخلت کے زندگی گزارنے کی اجازت دی، تو اس کی حقیقی آزادی سے سمجھوتہ ہو جائے گا۔

درحقیقت کربلا کا معرکہ آزاد اور غلام کے درمیان معرکہ ہے۔ یہ ان لوگوں کے درمیان جنگ ہے جنہوں نے اپنے حیوانی نفس (نفس) کو فتح کیا اور ان لوگوں کے درمیان جن پر اس کی حکومت تھی۔ خود امام حسین کے الفاظ میں ’’خدا کی قسم میں ذلیل ہو کر ہتھیار نہیں ڈالوں گا اور نہ غلام کی طرح بھاگوں گا۔‘‘

پس 61 ھجری کاوہ عظیم معرکہ جس کا استاد حسین ابن علی ؑ اور درسگاہ کربلا کی تپتی صحرا تھی ، جس میں یہ ایک ایسا عظیم درس اور شعور کی وہ مدھور آواز تھی جو مردہ ضمیر کے حامل لوگ جوباطل کی لوریوں سے مسلسل خواب غفلت میں سوتا چھوڑ گیا تھا ان کی ضمیر کو ، روح کو اور فکر کو آزادی دلانے والی عظیم معلم حسین ابن علی ؑ اور درسگاہ کربلا تھی جس کی تاریخ عاشورا تھی۔

پس اگر ہم تاریخ کے دریچوں میں ذرا غور کریں تو معلوم ہوتے ہیں کہ بڑے بڑے انقلاب چاہے افریقہ کی سرزمین پر ہو یا پھر مشرق وسطیٰ کی سرزمین پر ہر انقلابی اور ہر حریت پسندوں کے عظیم استاد حسین ابن علی ؑ ہی تھے اور وہ عاشورا کی اس عظیم پیغام "ابو الحرار" سے فیضیاب ہوئے تھے۔

عاشورا اور آزادی یعنی روحانی آزادی ہے، عاشورا اور آزادی یعنی فکری آزادی ہے، عاشورا اور آزادی یعنی ضمیر کی آزادی ہے اور عاشورا اور آزادی یعنی سماجی آزادی ہے۔ لہٰذا عاشورا درحقیقت انسانیت کی فکری ، روحی ، سماجی ضمیری اور نفسی آزادی کا نام ہے اس دن حریت پسندوں کے عظیم پیشوا حضر ت امام حسین ابن علی علیہ السلام نے اپنی پاک لہو ، اپنی اصحاب باوفا اور اہل البیت الاطہار علیہ السلام کی قربانی دے کر معصیت اور غیر اخلاقی برائیوں کی اسیر روح کو آزاد کرنے کا فلسفہ پیش کیا جس دن مرہ ضمیر اور غلامی کی اسیر فکر و روح کو زندہ و آزاد کرانے کا نسخہ پیش کیا ۔ لہٰذا عاشورا حقیقی آزادی ہے۔

ہم اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں امام حسین سے سیکھنے کی توفیق عطا فرمائے کہ کس طرح آزاد ہونا ہے۔

حوالہ جات:

1۔ معنوی آزادی: (استاد شہید مرتضی مطہری)

2۔ اسلام دین حکمت: (ٖڈاکٹر بہشتی)

3۔ سرخ شیعیت: ( ڈاکٹر علی شریعتی)

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .