۲ آذر ۱۴۰۳ |۲۰ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 22, 2024
News ID: 383114
6 اگست 2022 - 12:27
حیدر آغا

حوزہ/ حسینؑ کا مقصد نوعِ انسانیت سے وابستہ تھا اور اجتماعی حیثیت رکھتا تھا اس لئے انسانیت نے اپنا دل چیر کر اس کی یاد کو محفوظ کرلیا۔

تحریر: حجۃ الاسلام والمسلمین مولانا سید نثار حسین ( حیدر آقا)
حوزہ نیوز ایجنسی| قال الامام الحسینؑ : انا لله و اناالیه راجعون و علی الاسلام السلام، اذ قد بلیت الامه براع مثل یزید، یعنی اگر امت محمدیؐ کے رہبر و راہنما یزید جیسا فاسق و فاجر رہا تو اسلام کا فاتحہ پڑھ لینا چاہئے ۔
دنیا کے بہت سے حصوں میں حسینؑ کا غم منایا جارہا ہےاور 61؁ھ میں کربلا کی سرزمین پر جو قربانی دی گئی ہے اسے آج چودہ برس ہوچکے ہیں اس چودہ سو برس کی لمبی مدت میں زمانہ نے کئی کروٹیں لیں ، آندھیاں چلیں اور نکل گئیں ، سیلاب آئے اور گزرگئے مگر حسینؑ کی یاد زندہ رہی اور آج بھی زندہ ہے ۔ اس سے واضح ہوجاتی ہے کہ حسینؑ کے نام اور انکے کام نے نوعِ انسانی کے دل میں گھر کرلیا ہے ، کسی مصیبت کے ستائے کو دیکھ کر دل میں ہمدردی کا احساس کرنا ایک فطری چیز ہے مگر اسے کوئی مستقل حیثیت نہیں ملتی بلکہ وقتی ہے مگر حسینؑ کا مقصد نوعِ انسانیت سے وابستہ تھا اور اجتماعی حیثیت رکھتا تھا اس لئے انسانیت نے اپنا دل چیر کر اس کی یاد کو محفوظ کرلیا۔
امامؑ کے عظیم و عالی مقصد قیام پر تبصرہ کرنا بہت مشکل مرحلہ ہے لیکن ہم اپنی توانائی کے مطابق ایک مقدمہ کے ذکر کے ساتھ مقصد قیام امام حسینؑ کے ایک گوشہ پر مختصر گفتگو کرنے کی کوشش کریں گے ۔
رسول اسلامؐ نے تمدن اور معاشرت اور آئین زندگی میں ایک انقلاب کا پیغام پہنچایا جس کا نام اسلام تھا اور اس پیغام نے ہر ایک کی انفرادی زندگی سے لیکر اجتماعی زندگی تک میں بہت تبدیلیاں کیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ نوعِ انسانی کو جہالت کی پستی سے نکال کر سب کو منزل کمال پر گامزن فرمایا ۔ آپؐ نے ان امتیازات کو جو انسانوں میں قائم ہوگئے تھے جن سے خدا کی مخلوق اونچے اور نیچے کے درجوں میں تقسیم ہوگئی تھی ان تمام امتیازات پر قلم پھیر کر اسے ختم کردیا اور اللہ کے نزدیک بزرگی کا جو معیار ہے اسے بیان فرمایا کہ ’’ اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ مکرم و محترم وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ پرہیزگار ہو‘‘۔ اس سے تمام ان لوگوں کے اقتدار پر بہت بڑا گہرا اثر پڑا جو عزت و اقتدار کے بٹوارے میں پہلےسے کافی حصہ رکھتے تھے انہوں نے ڈٹ کر اسلام کا مقابلہ کیا اور رسول اسلامؐ کو ان کے ہاتھوں بڑی تکلیفیں اٹھانا پڑیں ۔ پیغبرؐ کے زمانہ میں کسی کو یہ موقع نہیں مل سکتا تھا کہ وہ اسلام کے اصول میں کوئی تبدیلی کرسکے لیکن افسوس کہ جیسے ہی آپؐ اس دنیا سے رخصت ہوگئے ویسے ہی بنی امیہ کے اقتدار کی بنیاد قائم ہوئی اور اس جماعت کے برسر اقتدار آتے ہی انہوں نے ان تمام امتیازات کو واپس لانے کا مشن چلایا جنہیں پیغبر اسلامؐ نے مٹادیا تھا اور جن کا ثر اس جماعت کے اقتدار پر بہت گہرا اثر پڑا ہوا تھا مگر چونکہ اس جماعت کا اقتدار اب اسلام کے سایہ میں اسلام کی نمائندگی میں حاصل ہوا تھا اس لئے ضرورت تھی کہ اس پردہ میں ہی میں اپنے منصوبوں کی تکمیل کریں ، اور یہ اس سے زیادہ خطرناک تھا کہ یہ کھل کر ایک دشمن کی حیثیت سے اپنے مقاصد کا اعلان کردیتے ۔! رفتہ رفتہ وقت ایسا بھی آچکا تھا کہ معاویہ نے اپنے بعد اپنے بیٹے یزید کو جانشین بنایا اور وہ بخوبی جان رہا تھا کہ اس جانشینیت میں حسینؑ کی حمایت بہت اہم کردار کے حامل ہے لہذا اس نے کوشسش کی کہ آپؑ کو ملالیا جائے مگر یہ کوشش ناکامیاب ہوئی اور امامؑ نے صاف کہہ دیا کہ میں اس کاروائی سے اتفاق نہیں کرسکتا اور جب یزید تخت حکومت پر بیٹھا تو اس کے سامنے سب سے پہلا مسئلہ حسینؑ کی بیعت کا تھا تو اس نے مدینہ کے گورنر کو نامہ لکھا کہ حسینؑ سے بیعت لے لو نہیں تو انہیں قتل کردو۔ یہ پہلا تشدد کا قدم تھا جو حسینؑ کے خلاف اٹھایا اور آپؑ نےکہا کہ میری جان چلی جائے مجھے گوارا ہے لیکن میں اس ظالم و جابر سلطنت کے سامنے سر تسلیم خم نہیں کروں گا اور ان کلمات کے ذیعہ آپ نے ظالم حکومت سے بیزاری کا اعلان فرمایا ۔
إنّا اهل بیت النُبوة و معدن الرسالة و مختلف الملائکة و بنا فتح الله و بنا ختم الله و یزید رجلُ فاسق، شاربُ الخَمر، قاتل النَفس المُحرّمة، مُعلنُ بالفِسق و «مِثْلِی لَا یُبَایِعُ مِثْلَهُ ‘‘ یعنی ہم اہلبیت نبیؐ اور معدن رسالت اور فرشتوں کے رفت و آمد کی جگہ ہیں اور اللہ نے ہم ہی کے ذریعے اسلام کا آغاز فرمایا ہے اور ہم ہی پر اللہ اسلام کا خاتمہ فرمائے گا ، یزید شرابی، فاسق و فاجر اور نفس محترمہ کا قتل کرنے والا ہے لہٰذا مجھ جیسا اس جیسے کی بیعت نہیں کرسکتا۔‘‘
یزید ظاہری طور پر اسلام کا لبادہ اوڑھ کر حق و باطل کو مخلوط کرکے عوام کی آنکھوں پر ایسا پردہ ڈالا گیا تھا کہ عوام کے لئے حق و باطل کو تشخیص دے کر اُسے ماننا بہت سخت ہوچکا تھا ۔ اور وہ ( یزید) عیاشی، شراب نوشی اور اس جیسے کئی حرام کاموں کو وہ علنی طور پر انجام دیتا تھا حد تو یہ تھی کہ خدا کے حلال کو حرام اور حرام خدا کو حلال کیا تھا اور یہاں تک کہ جب اسراء کربلا کو جب دربار میں لایا گیا تو اس نے اپنے اشعار کے ذریعے خبر آسمانی اور وحی کا انکار کرتے ہوئے اپنے کفر کو آشکار کیا
’’ لَعِبَتْ ھَاشَمُ بِالْمُلْکَ فَلَا۔۔ خَبَرٌ جَآءَ وَ لَا وَحْیٌ نَزَلَ‘‘ تاریخ طبری ج ۲ ص ۴۱۷۔
لہٰذا اس طرح دین کی بنیادوں کو کمزور کر چکا تھا کہ عام مسلمانوں کی آنکھوں میں حق و باطل کے درمیان تمیز دینے کی صلاحیت نہیں تھی ، ان کی عقلیں جامد ہوچکی تھیں اور ان میں یہ شعور بھی باقی نہیں رہا کہ بنی امیہ کے افعال و اعمال دین محمدیؐ کے طریقہ کے خلاف ہیں لہذا امامؑ کے مقاصد میں سے ایک مقصد انکے سامنے باطل کے حقیقی چہرے کو آشکار کرکے حقیقی اسلام کو پیش کرنا تھا ۔ اس کے لئے امامؑ نے فوج و لشکر جمع نہیں کیا بلکہ آپؑ نے وہ عابد اور متقی لوگ ڈھونڈے جن میں کا ہر شخص اپنے اخلاق و اوصاف کی بلندی پر فائز تھے اور آپؑ نے خاندان رسالتؐ کے جوان اور بچے یہاں تک کہ دودھ پیتا بچہ تک اپنے ساتھ لے لیا اور رسولؐ کے گھرانے کی معزز عورتیں جن میں خاص رسولؐ خدا کی حقیقی نواسیاں موجود تھیں اپنے ساتھ لیں اور دنیا نے دیکھ لیا کہ یہ سب حسینی مقصد کی تکمیل میں صرف ہوا نتیجہ میں امام حسینؑ اپنے مقصد میں کامیاب ہوئے ۔ مسلمانوں کی آنکھیں کھل گئیں اور یزیدیت اور اسلام دو الگ الگ چیزیں ہوگئیں ۔ حسینؑ کا مقصد بھی بس یہی تھا کہ اسلامی تمدن پر جو شہنشاہیت کا رنگ چڑھا ہوا تھا جس سے اسلام کا حقیقی چہرہ ختم ہوچکا تھا یہ رنگ اتر جائے اور حقیقی دین اور اسلام کی حفاظت کرتے ہوئے اسے دنیا والوں کے سامنے پیش کیا جائے ۔ لہٰذا دنیا کو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ اسلامی تمدن وہ نہیں ہے جہاں شراب کے جام چل رہے ہوں اور گناہوں کو سر عام انجام دیا جارہا ہو بلکہ حقیقی اسلام اور اسلامی تمدن وہ ہے جسے کربلا کے میدان میں امام حسینؑ نے اپنے تمام عزیزوں کو خدا کی راہ میں قربان کرکے پیش کیا ہے ۔ جہاں ایک حبشی غلام بھی جب گھوڑے سے گرتا ہے تو امامؑ اس کے سرہانے جاکر اس کے سر کو اٹھا کر گود میں رکھتے ہیں اور غلام کی روح آقا کی گود میں جسم سے مفارقت کرتی ہے ۔ لہذا تمام اہل فکر و دانش یہ جان لیں کہ یزیدیں طاقتیں دنیا میں مختلف شکلوں میں پیدا ہوسکتی ہیں اور ہردور میں پیدا ہوئی ہیں مگر حسینیؑ مشن جو کربلا کی زمین پر پائیہ تکمیل کو ہو پہنچا تھا وہ ہر زمانہ میں یزیدیت کی شکست کے لئے کافی ہے اس شرط سے کہ حسین کے کارمانے کو یاد رکھتے ہوئے اس سے سبق حاصل کرے ۔ جیسے مہاتماگاندھی جیسی شخصیت کا بیان ہے کہ ’’ میں نے ہندوستان کو انگریزوں کی غلامی سے آزاد کرنے کا سبق کربلا والوں سے لیا ہے اور اگر میرے پاس امام حسینؑ کے ساتھیوں جیسے بہتر لوگ موجود ہوتے تو میں دو دن میں ہندوستان آزاد کرلیتا ۔ اسی طرح اور ایک مقام پر مہاتماگاندھی نے کہا تھا کہ ’’ اسلام کا پھلنا پھولنا تلوار سے نہیں بلکہ ولی خدا امام حسینؑ ابن علیؑ کی قربانی کا نتیجہ ہے ‘‘

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .