۱۴ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۲۴ شوال ۱۴۴۵ | May 3, 2024
حالاتِ مولانا ابن حسن املوی واعظ

حوزہ/ حوزہ/ معروف محقق و اہل قلم مولانا ابن حسن املوی واعظ کی حالات زندگی کی دوسری قسط خود انہی کی زبانی۔

حوزہ نیوز ایجنسی |

اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم۔بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الحمد لاھلہ والصلوٰۃ علی اھلھا۔اما بعد:

قیدوالعلم بالکتابہ یا قیدوالعلم بالکتاب کی اہمیت وافادیت کے پیش نظر ضروری ہے کہ اہل علم اپنے خطبات و بیانات اور خیالات و نظریات وغیرہ کو اخبارات و رسائل یا کتابوں کی شکل میں بھی محفوظ کرتے جائیں جن سے موجودہ و آئندہ نسلیں استفادہ کر سکتی ہیں ۔اور سب سے بڑی بات کہ ان کا شمار باقیات الصالحات میں ہوتا ہے جن کا فیض و فائدہ خود مصنف و مؤلف کو ان کی زندگی میں اور مرنے کے بعد بھی پہونچتا رہتا ہے۔اور یوں بھی تقریر نویسی حوزات علمیہ کا مشہور و معروف اور مستحسن تعلیمی طریقہ ہے۔

وطن میں تبلیغی سرگرمیوں کی چند اخباری جھلکیاں
چند سال سے وطن مالوف موضع املو (مبارکپور)ضلع اعظم گذھ (یوپی) ہندوستان میں مستقلاََ قیام پذیر ہوں۔کہیں باہر آنا جانا موقوف کردیا ہے۔تاہم خود مختاری و آزادی کے ساتھ فی سبیل اللہ دینی تبلیغی خدمات میں جو روحانی سرور و سکون میسر ہوتا ہے اس سے میں بہت مطمئن ہوں۔الحمد للہ اصلاح لکھنؤ اور الجواد وارانسی اور دیگر روزنامے انقلاب و راژٹریہ سہارا وغیرہ میں بھی مضامین لکھتا رہتا ہوں۔تحریری و تقریری دونوں جہت سے حتی الامکان خدمت دین کا فریضہ انجام دینے میں کوتاہی نہین کرتا۔حتی ٰ کہ غیر شیعہ اسکولوں میں بھی خاص خاص مواقع پر تقر یر کرنے کے لئے مدعو کیا جا تا ہوں وہاں بھی میرا مقصد علوم و معارف اہل بیت علیہم السلام کی نشر واشاعت ہوتا ہے۔

وطن میں رہ کر علماء وواعظین پوروانچل کے نام سے ایک واٹس ایپ گروپ بھی تشکیل دیا جس میں پوروانچل کے مشاہیر علماء وواعظین نےبخوشی شمولیت اختیار کی ۔جس کے ذریعہ اخبارات وذرایع ابلاغ کے توسط سے اسلامی افکار و نظریات کی نشر و اشاعت کا سلسلہ جاری کیا گیا جو قومی پیمانہ پر مفید و مؤثر ثابت ہوا۔

واضح رہے کہ منبر وں سے کی گئی تقریریں مخصوص حضر ات تک ہی محدود ہوتی ہیں۔لیکن اخبارات میں شائع ہونے والی رپورٹیں عوام و خواص سب کے لئے دعوت ِ فکر و نظر ہوتی ہیں۔اور ثبو ت شواہد بھی۔اس لحاظ سے میری بعض تقریروں کی مختصر رپورٹیں اردو۔ھندی۔اور انگریزی اخباروں میں شائع ہوتی ہیں۔سب کا شمار تو دشوار ہے ذیل میں چند اخباری جھلکیاں پیش کی جاتی ہیں۔ ملاحظہ ہوں:۔

اہل بیت ؑ تمام مخلوقات سے افضل و اشرف ہین: مولانا ابن حسن املوی
عزاخانۂ ابو طالب محلہ پورہ محمود املو میں عشرۂ محرم کے سلسلہ کی تاریخی و اجتماعی مجلس کا انعقادمبارکپور،اعظم گڑھ(نامہ نگار )اہل بیت ِرسول ؐ تمام مخلوقات سے افضل و اشرف ہیں۔فرشتے اہل بیت کے خادم ہیں۔اسی لئے کبھی درِ در اہل بیت پر روٹیاں لینے آتے تھے۔کبھی جنت سے خوانِ نعمت لے کے آتے تھے۔کبھی حسن ؑ و حسین ؑ کی گہوارہجنبانی کرتے تھے۔ان خیالات کا اظہار مولانا ابن حسن املوی واعظ نے عزاخانۂ ابو طالب واقع محلہ پورہ محمود ،موضع املو میں عشرۂ محرم کے سلسلہ کی نویں محر م کے شب کی تاریخی و اجتماعی بڑی مجلس کوخطاب کرتے ہوئے کیا۔

مولانا نے مسئلہ ٔ طھارت پر مختلف اسلامی فرقوں کے فقہی نقطۂ نظر سے روشنی ڈالی اور کہا کہ جب تمام مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ اللہ پاک ہے۔رسول پاک ہیں۔کعبہ پاک ہے۔قرآن پاک ہے۔تو رہنما و پیشوا بھی پاک ہونے چاہئیں۔خدا کا شکر ہے کہ پنجتن پاک ہیں۔ اور اہل بیت کی طہارت و پاکیزگی کا اعلان اللہ نے قرآن کے سورۂ احزاب کی آیت نمبر ۳۳ میں صاف صاف طور فرما دیا ہے۔لہٰذا تمام مسلمانوں کو چاہئیے کہ اہل بیت طیبین و طاھرین کے پاک و پاکیزہ دامن سے کامل طور پر وابستہ اور متمسک رہیں۔

آخر میں مولانا نے لشکر حسینی کے علمبردار ،سقائے سکینہ حضرت ابو الفضل العباس علیہ السلام کی شہادت کا ذکر کیا جسے سن کر مجمع میں کہرام گریہ بلند ہوگیا۔مجلس کا آغاز نورالحسن اور ان کے ہم ساتھیوں کی سوز خوانی سے ہوا۔اور انجمن حسینیہ املو کی نوحہ خوانی و سینہ زنی پر اختتام ہوا۔اس موقع پر کثیر تعداد میں سیاہ لباس میں ملبوس حسینی عزادار وں نے شرکت کی۔
( روز نامہ انقلاب اردو وارانسی۔صفحہ ۲ ،۱۰؍ محرم الحرام ۱۴۳۶ھ؁ مطابق ۴؍نومبر ۲۰۱۴ء؁)
۔۔۔۔۔۔۔

کائنات اللہ کی سب سے بڑی نعمت ہے : مولانا ابن حسن
انجمن حسینیہ رجسٹرڈ کے زیر اہتمام عزاخانۂ ابو طالب میں شب بیداری کا انعقاد
املو،مبارکپور (اعظم گڑھ)اہل بیت علیہم السلام ساری کائنات میں اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت ہیں۔دنیا میں لاتعداد و بے شمار نعمتیں جو پائی جا رہی ہیں اہل بیت ؑ کا صدقہ ہیں۔اور قیامت میں اہل بیت ؑ ہی کی برکت سے نیکو کار بندگان ِ خدا کو نعمتیں ملیں گی۔ان خیالات کا اظہار
الحاج مولانا شیخ ابن حسن املوی واعظ نے انجمن حسینیہ رجسٹرڈ کے زیر اہتمام امامباڑہ عزا خانۂ ابو طالب محلہ محمود پورہ املو میں منعقدہ تیرھویں دورکی سالانہ شب بیداری میں مجلس عزا سے خطاب کے دوران کیا۔

مولانا نے مزید فرمایا کہ آج دنیائے انسانیت بالخصوص عالم اسلام میں انتشار و خلفشار ، ذلت و خواری، اضطراب و بے چینی کا جو منحوس کالا بادل چھایا ہوا ہے اس کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ دنیا والوں نے اور اکثر مسلمانوں نے اہل بیت ؑ کی ایسی قدر نہیں کی جیسی کرنی چاہئیے۔اللہ سبحانہ تعالیٰ کی نعمتوں کی ناقدری کے باعث گذشتہ امتوں پر کیسے کیسے عبرتناک عذاب نازل ہوئے اس کی مثالیں قرآن ، احادیث ، اور تواریخ کے دامن میں واضح طور پر بکثرت موجود ہیں۔

حضرت عیسیٰ ؑ کے زمانہ میں انواع و اقسام کے بہترین و لذیذ کھانوں سے سجا سجایا مائدہ ( دستر خوان)نازل ہوتا تھا ۔ اس کی خاصیت یہ تھی کہ چاہے جتنے لوگ بھی کھائیں مگر اس کھانے میں کوئی کمی نہیں ہوتی تھی۔اور جس کی برکت یہ تھی کہ جو اس میں سے کچھ بھی کھاتا تھا اگر وہ بیمار ہوتا تو شفا یاب ہوجاتا ، محتاج و نادار ہوتا تو دولتمند و مالدار ہو جاتا۔یہ سلسلہ کچھ عرصے تک برابر ٹھیک ٹھاک چلتا رہا ۔مگر جب لوگوں نے ناقدر شروع کی تو نزول مائدہ میں تخفیف ہونے لگی۔اور جب ناقدری کی حد ہوگئی یعنی آپس میں لڑنے جھگڑنے لگے یہاں تک کہ حضرت عیسیٰ ؑ سے بھی بغاوت کرنے لگے تو مائدہ کا آنا بند ہو گیا۔اور جو لوگ دین سے منحرف ہو گئے تھے ان پر بھیانک عذاب نازل ہوا ۔اللہ نے انھیں کتّا ،سور جیسے چار سو قسم کے نجس و حرام جانوروں کی صورتوں میں مسخ کر دیا۔جو تین روز تک مسخ شدہ حالت میں زندہ رہے پھر ہلاک ہوگئے۔

اسی طرح حضرت موسیٰ ؑ کے زمانہ میں بنی اسرائیل کے لئے ’’ من و سلویٰ‘‘ نازل ہوتا تھا مگر جب اسرائیلیوں نے اس نعمت کی ناشکری اور ناقدری کرنی شروع کی حتیٰ کہ ’’ باب حطہ ‘‘ بخشش کے دروازہ کا بھی مذاق اڑانے لگے تو ان کی پوری قوم پر اللہ تعالیٰ نے طاعون بیماری کو مسلط کردیا اور چوبیس ہزار اسرائیلیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔

کتاب تفسیر در منثور اور صواعق محرقہ میں ہے کہ پیغمبر اسلام نے ارشاد گرامی ہے کہ میری امت کے لئے اہل بیت ؑ کی مثال ’’ باب حطہ ‘‘ کی سی ہے۔آج بھی تکفیری لوگ ’’ باب حطہ ‘‘ سے عقیدت و احترام نہیں کرتے بلکہ ان کے نام و نشان اور قدیم متبرک اسلامی شعائر و آثار کو مٹانے پر تلے ہوئے ہیں۔آخر میں مولانا نے اسیران ِ کربلا کے مصائب بالخصوص قید خانہ ٔ شام میں حضرت سکینہ بنت الحسین ؑ کی شہادت کا ذکر کیا جس کو سن کر اہل مجلس کی آنکھیں اشکبار ہوگئیں۔

پروگرام کا آغاز نورالحسن اور ہمنوا ساتھیوں کی سوز خوانی سے ہوا۔اور شبیہ تابوت حضرت سکینہ بھی برآمد ہوا ۔شب بیداری کا اختتا م انجمن دستۂ سپاہ ِ مہدی شیولی اعظم گرھ۔انجمن فیض پنجتن کٹرہ مبارکپور۔انجمن قمر بنی ہاشم مبارکپور۔انجمن قمر الایمان پورہ معروف مئو۔انجمن عباسیہ نوادہ۔انجمن حسینیہ املو کی نوحہ خوانی و سینہ زنی پر ہوا۔نظامت کے فرائض ماسٹر قیصر ؔجاوید املوی۔ماسٹر مختار معصوم ؔ املوی نے بحسن و خوبی انجام دئے۔اس موقع پر کثیر تعداد میں مردو خواتین نے شرکت کر کے فاطمہ زہرا ؑ کو ان کے لال کا پرسہ دیا۔قریب ڈیڑھ بجے شب میں شب بیداری کا یہ تیرھواں دور بکمال احترام اختتام پذیر ہوا‘‘۔
( رواز نامہ اودھ اردو لکھنؤ۔صفحہ ۵ ۔جمعرات ۴؍دسمبر ۲۰۱۴ء؁)
.............

عالم اسلام میں انتشار و خلفشار کی اہم وجہ دین سے دوری : مولانا ابن حسن املوی
انجمن حسینیہ کے زیر اہتمام امامباڑہ عزاخانۂ ابو طالب محلہ محمود پورہ املو میں سالانہ شب بیداری کا انعقاد
مبارک پور ،اعظم گڑھ(نامہ نگار) اہل بیت علیہم السلام ساری کائنات میں اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت ہیں۔دنیا میں لا تعداد و بے شمار نعمتیں جو پائی جا رہی ہیں اہل بیت ؑ کا صدقہ ہیںاور قیامت میں اہل بیت ؑ ہی کی برکت سے نیک بندگان ِ خدا کو نعمتیں ملیں گی۔مذکرہ خیالات کا اظہار الحاج مولانا شیخ ابن حسن املوی واعظ نے انجمن حسینیہ املو کے زیر اہتمام امامباڑہ عزاخانۂ ابو طالب محلہ محمود پورہ املو میں منعقدہ تیرھویں دور کی سالانہ شب بیداری میں مجلس عزا سے خطاب کے دوران کیا۔

مولانا نے کہا کہ دنیائے انسانیت بالخصوص عالم اسلام میں انتشار و خلفشار ،ذلت و خواری،اضطراب و بے چینی جو منحوس کالا بادل چھایا ہوا ہے اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ دنیا والوں نے اور اکثر مسلمانوں نے دین سے دوری اختیا کرلیاور اہل بیت ؑ کی ایسی قدر نہیں کی جیسی کرنی چاہئیے۔اللہ سبحانہ تعالیٰ کی نعمتوں کی ناقدری کے باعث گزشتہ امتوں پر کیسے کیسے عبرتناک عذاب نازل ہوئے اس کی مثالیں قرآن،احادیث تواریخ کے دامن میں واضح طور پر بکثرت موجود ہیں۔حضرت عیسیٰ ؑ کے زمانہ میں انواع و اقسام کے بہترین و لذیز کھانوں سے سجا سجایا مائدہ (دستر خوان) نازل ہوتا تھا۔اس کی خاصیت یہ تھی کہ چاہے جتنے لوگ بھی کھائیں مگر اس کھانے میں کوئی کمی نہیں ہوتی تھی۔اور جس کی برکت یہ تھی کہ جو اس میں سے کچھ بھی کھاتا تھا اگر وہ بیمار ہوتا تو شفا یاب ہوجاتا،محتاج و نادار ہوتا تو دولت مند و مالدار ہوجاتا ۔یہ سلسلہ کچھ عرصے تک برابر ٹھیک ٹھاک چلتا رہا مگر جب لوگوں نے ناقدری شروع کی تو نزول مائدہ میں تخفیف ہونے لگی ۔اور جب ناقدری کی حد ہو گئی یعنی آپس میں لڑنے جھگڑنے لگے ،یہاں تک کہ حضرت عیسیٰ ؑ سے بھی بغاوت کرنے لگے تو مائدہ کا آنا بند ہو گیا۔
مگر آج کسی قوم پر بظاہر کوئی عذاب ِ الٰہی نازل نہیں ہورہا ہے اس کی وجہ رحمۃ للعالمین سے کیا ہوا خدائی وعدہ کہ ’’ اے رسول ؐ جب تک تم ان کے درمیا رہوگے میں ان پر عذاب نازل نہیں کروں گا‘‘۔ مگر یہ صرف دنیاوی زندگی میں رعایت ہے ۔آخرت میں تو عدالت ہوگی۔اگر نگاہ ِ بصیرت سے دیکھا جائے تو عالم اسلام میں جو دھشت ناک و وحشت ناک واقعات رونما ہورہے ہیں وہ کسی عذاب سے کم نہیں ہیں۔اسی طرح واقعۂ کربلا کے بعد شہدائے کربلا اور اسیران ِ کربلا کے قاتلوں اور دشمنوں کا جو حشر ہوا وہ کسی عذاب سے کم نہیں تھا۔

آخر میں مولانا نے اسیران ِ کربلا کے مصائب بالخصوص قید خانۂ شام میں حضرت سکینہ بنت الحسین ؑ کی شہادت کا ذکر کیا جس کو سن کر اہل مجلس کی آنکھیں اشکبار ہو گئیں۔نظامت کے فرائض ماسٹر قیصر جاوید ؔ املوی اور ماسٹر مختار معصوم ؔ املوی نے انجام دئے ‘‘۔
( روزنامہ انقلاب اردو وارانسی۔صفحہ ۲ ۔۴؍دسمبر ۲۰۱۴ء؁ بروز جمعرات)
.........................

اسلام تطہیر معاشرہ کا سب سے بڑا حامی ہے : مولانا ابن حسن املوی
انجمن عباسیہ نوادہ کے زیر اہتمام امامباڑہ دربار حسینی محلہ چاند پورہ نوادہ میں سالانہ مجلس و جلوس اربعین ِ حسینی
املو، مبارکپور (اعظم گڑھ)اہل بیت ِ نبوی کی سب سے بڑی فضیلت یہ ہے کہ وہ راسخون فی العلم ہیں۔ دنیا میں ہر انسان جاہل پیدا ہوتا ہے پل بڑھ کر علم حاصل کر کے انسان خواہ کتنا ہی بڑا عالم و ماہر بن جائے مگر قرآن کی نظر میں وہ کم اور تھوڑا ہی کہا جائے گا ۔وما اوتیتم من العلم الّا قلیلاً۔مگر اہل بیت ؑ علم ِ الٰہی لے کر پیدا ہی ہوتے ہیں۔جن کی شان میں قرآن کا اعلان ہے علم الانسان ما لم یعلم۔یہاں انسان
سے مراد محمد و آل محمد علیہم السلام ہیں۔ان خیالات کا اظہار الحاج مولانا شیخ ابن حسن املوی واعظ نے انجمن عباسیہ نوادہ کے زیر اہتمام قصبہ مبارکپور سے متصل محلہ چاند پورہ نوادہ موضع املو میں واقع امامباڑہ دربار حسینی میں بعد نماز مغرب منعقدہ سالانہ مجلس و جلوس اربعین حسینی کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے کیا۔

مولانا نے مزید فرمایا کہ دنیا میں ہر انسان چاہے گورا ہو یا کالا ، چھوٹا ہو یا بڑا ، موٹا ہو یا دبلا ، لمبا ہو یا ناٹا ، عربی ہو یا عجمی ، امیر ہو یا غریب ، شہری ہو یا دیہاتی سب جاہل اور نجس پیدا ہوتے ہیں۔سب قطرۂ نجس کی پیداوار ہیں۔جہالت و نادانی بھی ایک طرح کی گندگی اور نجاست ہے ۔مگر اہل بیت ؑ ہر طرح کی نجاستوں اور کثافتوں سے پاک و پاکیزہ پیدا ہی ہوتے ہیں۔کیونکہ وہ نور سے خلق ہوئے ہیں۔اہل بیت ؑ خود پاک و صاف ہیں اور دوسروں کو پاک و صاف بنانے کے لئے دنیا میں آئے ہیں۔اہل بیت ؑ نے عبادت اور طہارت کا جو مفہوم و مطلب پیش کیا ہے وہ رہتی دنیا تک لا جواب اور بے مثال ہے۔
اسلام صفائی پسند دین ہے اس لئے صفائی ستھرائی کی بہت تاکید کرتا ہے ۔مثلاًنماز افضل ترین عبادت ہے ،مگر نماز کے لئے طہارت لازم ہے ۔یعنی وضو یا غسل کے بغیر نماز نہیں ہو سکتی۔اور وضو یا غسل کے لئے پاک اور صاف پانی ہونا ضروری ہے ۔آب ِمطلق شرط ہے۔میلا کچیلا گدلا آب ِ مضاف سے وضو یا غسل صحیح نہیں ہوتے۔اور پھر نمازی کا لباس پاک و صاف ہونا چاہئیے۔نماز ادا کرنے کی جگہ بھی پاک و صاف ہونی چاہئیے۔اس طرح ہر عبادت کے لئے طہارت ضروری ہے۔اسلام میں عبادت کا مفہوم جتنا وسیع ہے طہارت کا مطلب بھی اتنا ہی عمیق ہے۔

آج ہمارے ہندوستان کے مختلف مذاہب کے مذہبی رہنما گنگا صفائی مہم کے تحت مشترکہ کانفرنس میں یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ’’ گندگی اور بندگی ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے‘‘ اسلام نے چودہ سوسال قبل یہ تعلیم دی تھی النظا فۃ من الایمان۔ نظافت ،پاکیزگی ، صفائی ایمان کی نشانیوں میں سے ہے۔دنیا میں انسانوں کے قلب و ذہن ،اطوار و افکار و کردار جتنے پاک و صاف ہوں گیاسی قدر اہل بیت ؑ سے خود بخود قریب تر ہوتے جائیں گے۔

جبراً تبدیلی مذہب انسانیت و شرافت کے سراسر منافی ہے ۔اسلام میں کسی قسم کا جبر و اکراہ جائز نہیں ہے۔جو کوئی لوگ بھی دھوکے سے ، دھمکا کے ، پیسے وغیرہ کی لالچ دے کے کسی کو جبراً مذہب تبدیل کرواتے ہیں انھیں زنا بالجبر اور دھشت گردی سے زیادہ سخت سزا دینی چاہئیے۔کیونکہ ایس کرنے والے پورے ملک کی پرامن فضا گندہ کرتے ہیں ۔

آج ہمارے ملک کے بڑے بڑے وزراء ، سیاسی رہنما ، سماجی ہستیاں سڑکوں ، گلیوں اور کوچوں میں جھاڑو لگانے کا دکھاوا کرتے ہیں۔’’ سوچھ بھارت ‘‘ کا نعرہ دیتے ہیں۔ہمیں بھی اچھا لگتا ہے۔مگر ملک کے اندر ظلم ، نا انصافی ، بد عنوانی ، قتل ، غارتگری ،خونریزی ، دھشت گردی ، زور زبر دستی ، رشوت خوری ، حق تلفی ، تعصب ، تنگ نظری ، بد اخلاقی ، جہالت ، نادانی ، وغیرہ ایسی سماجی و معاشرتی کثافتوں اور نجاستوں کو دور کرنے کے لئے دلوں ، دماغوں ، اور فکروں کو پاک و صاف اور شفاف بنانے کی زیادہ ضرورت ہے۔جسے ’’تزکیہ ٔ ٔ نفس‘‘ کہا جاتا ہے ۔اس کے بغیر صالح معاشرہ اور پر امن سماج کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔

اسلام تطہیر معاشرہ کا سب سے بڑا حامی ہے۔اس لئے اسلام میں ’’ تزکیہ ٔ نفس ‘‘ نہایت اہم ترین موضوع ہے۔انبیاء و مرسلین اور ائمہ و اولیاء نے ظاہری پاکیزگی کے ساتھ ساتھ لوگوں کے دلوں ، دماغوں ، اور فکروں کو پاکیزہ بنانے کا کام انجام دیا ہے۔اور انھوں نے اپنے مقصد میں کامیابی کا ایسا پرچم لہرایا کہ قیامت تک اس کی حیات بخش اور فرحت انگیز ہواؤں کے جھونکے عقل سلیم رکھنے والے انسانوں کو سکون و سرور عطا کرتے رہیں گے۔اسلام الٰہی تحریک ہے جو انسان نوازی اور کردار سازی کی دعوت دیتا ہے۔

مولانا ابن حسن املوی واعظ نے انسان نوازی اور کردار سازی کے ضمن مین ایک تاریخی واقعہ بیان کیا کہ بشر حافی جو ایک اشراف اور ثروت مند انسان کی اولاد میں سے تھا اور دن و رات عیاشی و فحاشی اور فسق و فجورمیں غرق رہتا تھا ۔اس کا گھر فساد رقص اور سرود عیش و نوش اور گانے بجانے کا مرکز تھا جس کی آواز اس کے گھر سے باہر بھی سنائی دیتی تھی ۔ایک دن بشر کی لونڈی کوڑا کرکٹ کا ٹوکرا لے کر دروازے کے باہر پھینکنے کے لئے آئی۔اسی وقت امام موسی کاظم علیہ السلام اس کے دروازہ کے سامنے سے گزر رہے تھے۔اور گھر سے ناچنے گانے کی آواز آپ کے کانوں سے ٹکرائی ۔اس لونڈی سے پوچھا ۔اس گھر کا مالک آزاد ہے یا غلام ؟ اس نے جواب دیا کہ آزاد اور آقا زادہ ہے ۔امام ؑ نے فرمایا تم نے سچ کہا ۔اگر یہ بندہ اور غلام ہو تا تو اپنے مالک اور مولیٰ سے ڈرتااور اللہ تعالیٰ کی معصیت میں غرق اور گستاخ نہ ہوتا۔امام ؑ کا یہ نصیحت آمیز جملہ جب بشر نے اپنی کی زبانی سنا تو بے چین ہو کر ننگے پاؤں دوڑا ہوا امام ؑ کی خدمت میں حاضر ہوا ۔اور اپنی گناہوں سے توبہ کر لیا۔اور ایسا عابد و زاہد انسان بن گیا کہ اولیاء میں داخل ہو گیا۔اور اس نعمت کے شکریہ کے طور پر اپنی ساری عمر ننگے پاؤں چلتا رہا ۔جس کی وجہ سے اس کا نام بشر حافی یعنی ننگے پاؤں والا ہو گیا ۔ اور اس کی تعظیم و تکریم کی خاطر کوئی جانور کھلے عام سڑکوں ، گلیوں ، اور کوچوں میں بال و براز پیشاب پائخانہ نہیں کرتا تھا ۔تاکہ بشر حافی کے پاؤں بھی کسی طرح کی کثافت سے آلودہ نہ ہوں۔ایک دن جب سڑکوں پر جانوروں کے گوبر وغیرہ دیکھے گئے تو تحقیق کے بعد پتہ چلا کہ بشر حافی دنیا سے رحلت کر گئے۔

یہ طے شدہ مسئلہ ہے کہ جس انسان کی جانور بھی تعظیم و تکریم بجا لائیں وہ بندۂ خدا ، ولی ِ خدا اور نمائندۂ خدا ہوتا ہے۔جس کے واقعات ائمہ ٔ طاہرین کے حالا ت میں بکثرت موجود ہیں۔

مگر ہزار افسوس کربلا میں امام حسین علیہ السلام کو جانوروں نے تو پہچانا مگر انسان نما شیطانی یزیدیوں نے نہیں پہچانا۔اور مثل جانور کے تشنہ و گرسنہ ذبح کردیا ۔
آخر میں مولانا نے اربعین حسینی کی مناسبت سے اسیران ِ کربلا کے مصائب بیان کئے جس کو سن کر مجمع میں کہرام گریہ بلند ہو گیا۔اس کے بعد جلوس علم و تابوت و ذوالجناح برآمد ہوا۔جس میں متعدد ماتمی انجمنوں نے نوحہ خوانی و سینہ زنی کی۔کثیر تعداد میں مرد و خواتین نے شرکت کی‘‘۔
( روزنامہ اودھ اردو لکھنؤ۔صفحہ ۴براز اتوار ۱۴؍دسمبر ۲۰۱۴ء؁)
...................

اسلام میں کسی قسم کا جبر جائز نہیں ہے : مولانا ابن حسن املوی
امامباڑہ دربار حسینی میں سالانہ مجلس و جلوس اربعین حسینی کا انعقاد ،کثیر یعداد میں عزاداروں کی شرکت
مبارکپور،اعظم گڑھ(نامہ نگار)اہل بیت ِ نبوی ؐ کی سب سے بڑی فضیلت یہ ہے کہ وہ راسخون فی العلم ہیں۔دنیا میں ہر انسان جاہل پیدا ہوتا ہے علم حاصل کرکے انسان خواہ کتنا ہی بڑا عالم و ماہر بن جائے مگر قرآن کی نظر میں وہ کم اور تھوڑا ہی کہا جائے گا۔مگر اہل بیتؑ علم ِ الٰہی لے کر پیدا ہی ہوتے ہیں۔جن کی شان میں قرآن کا اعلان ہے ۔اس آیت میں انسان سے مراد محمد و آل محمد علیہم السلام ہیں۔مذکورہ خیالات کا اظہار مولانا ابن حسن املوی نے انجمن عباسیہ نوادہ کے زیر اہتمام محلہ چاند پورہ نوادہ میں واقع امامباڑہ دربار حسینی میں منعقد سالانہ مجلس و جلوس اربعین ِ حسینی سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

انھوں نے کہا کہ وطن عزیز کے مختلف مذاہب کے مذہبی رہنما گنگا صفائی مہم کے تحت ایک مشترکہ کانفرنس میں یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ’’ گندگی اور بندگی ساتھ ساتھ نہیں چل سکتی‘‘اسلام نے چودہ سو سال قبل یہ تعلیم دی تھی کہ پاکیزگی و صفائی ایمان کی نشانیوں میں سے ہے۔دنیا میں انسانوں کے قلب و ذہن ،اطوار و افکار جتنے پاک و صاف ہوں گے اہل ِ بیت ؑ سے اسی قدر قریب تر ہوتے جائیں گے۔کیونکہ اسلام تطہیر معاشرہ کا سب سے بڑا حامی ہے۔

اسلام میں کسی قسم کا جبر واکراہ جائز نہیں ہے ۔اسلام دلوں ،دماغوں،اور فکروں کی پاکیزگی پر زور دیتا ہے۔جبراً تبدیلی ِ مذہب قانوناً جرم بھی ہے اور انسانیت و شرافت کے سراسر منافی بھی ہے۔جو کوئی بھی کسی دوسرے مذہب کے ماننے والے کو دھوکے سے،دھمکا کے ،یا پیسے وغیرہ کی
لالچ دے کے کسی کو جبراً مذہب تبدیل کروانے کا جرم کرتا ہے تو اسے زنا بالجبر اور دھشت گردی سے زیدہ سخت سزا ملنی چاہئیے۔تاکہ پھر کوئی ایسی گھناؤنی جاہلانہ حرکت نہ کر سکے۔کیونکہ ایسا کرنے والے ملک کی پر امن فضا کو گندہ کرتے ہیں۔ایسے لوگ ملک و ملت کے لئے بڑا خطرہ ہیںاور در حقیقت دھشت گردوں کے آلۂ کار ہیں۔

آخر میں مولانا نے اربعین حسینی کی مناسبت سے اسیران کربلا کے مصائب بیان کئے جس کو سن کر مجمع میں کہرام ِ گریہ بلند ہو گیا۔اس کے بعد جلوس ِ علم و تابوت و ذوالجناح برآمد ہوا جس میں متعدد ماتمی انجمنوں نے نوحہ خوانی و سینہ زنی کی۔اس موقع پر کثیر تعداد میں مرد و خواتین نے شرکت کی ۔اس کے علاوہ جونپور میں بھی جلوس نکال کر عزاداروں نے سینہ زنی کی‘‘۔
( روزنامہ انقلاب اردو وارانسی۔۱۴؍دسمبر ۲۰۱۴ء؁ مطابق ۲۰؍ صفر المظفر ۱۴۳۶ھ؁ صفحہ ۲ بروز اتوار)
.........................

دنیا میں ہر انسان جاہل پیدا ہوتا ہے : شیخ ابن املوی
امامباڑہ دربار حسینی میں سالانہ مجلس
مبارکپور ، اعظم گڑھ( ایس این بی)دنیا میں ہر انسان جاہل پیدا ہوتا ہے ،پل بڑھ کر علم حاصل کرکے انسان خواہ کتنا بڑا عالم و ماہر بن جائے مگر قرآن کی نظر میں وہ کم اور تھوڑا ہی کہا جائے گا۔مگر اہل بیت ؑ علم ِ الٰہی لے کر ہی پیدا ہوتے ہیںجن کی شان میں قرآن کا اعلان ہے ۔ان خیالات کا اظہار الحاج مولانا شیخ ابن حسن املوی واعظ نے انجمن عباسیہ نوادہ کے زیر اہتمام قصبہ مبارکپور سے متصل محلہ چاند پورہ نوادہ موضع املو میں واقع امامباڑہ دربار حسینی میں بعد نماز مغرب منعقد سالانہ مجلس و جلوس اربعین ِ حسینی کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے کیا۔

مولانا نے مزید کہا کہ دنیا میں ہر انسان چاہے گورا ہو یا کالا ، چھوٹا ہو یا بڑا ، موٹا ہو یا دبلا ، لمبا ہو یا ناٹا ، عربی ہو یا عجمی ، امیر ہو یا غریب ، شہری ہو یا دیہاتی ، سب جاہل اور نجس پیدا ہوتے ہیں،سب قطرۂ نجس کی پیداوار ہیں۔جہالت و نادانی بھی ایک طرح کی گندگی اور نجاست ہے۔مگر اہل ِ بیت ؑ ہر طرح کی نجاستوں اور کثافتوں سے پاک ہیں۔ جبراً تبدیلی ِ مذہب قانوناً جرم بھی اور انسانیت و شرافت کے سراسر منافی بھی ہے۔کوئی بھی کسی بھی دوسرے مذہب کے ماننے والے کو دھوکے سے ، دھمکا کے ، یا پیسے وغیرہ کی لالچ دے کے کسی کو جبراً مذہب تبدیل کرانے کا جرم کرتے ہیں انھیں زنا بالجبر اور دھشت گردی سے زیادہ سخت سزا ملنی چاہئیے۔

اس کے بعد جلوس علم و تابوت و ذوالجناح برآمد ہوا جس میں متعدد ماتمی انجمنوں نے نوحہ خوانی و سینہ زنی کی۔اس موقع پر سکریٹری جاوید رضا ، فیض احمد ، امیر اللہ ، حسن عباس ، محمد سجاد ، علی عباس ، غلام نبی ، حسن مجتبیٰ ، اور گاؤں پردھان شمس الدین کے علاوہ کثیر تعداد میں مرد و خواتین نے شرکت کی ۔‘‘
( روز نامہ راشٹریہ سہارا اردو لکھنؤ۔صفحہ ۳ 14/ 12/2014, )
................

مزاج ِ بشر میں چالیس دن کو تصرف کا حق ہے : مولانا ابن حسن املوی
مبارکپور،اعظم گڑھ(نامہ نگار) حضرت آدم ؑ کی تخلیق انسانیت کی خشت ِ اوّل تھی اگر چایس روز وہ ایک خاص کیفیت میں رہے تو ان کی نسل پر بھی اس مدت کا اثر انداز ہونا عقلی اور فطری ہے۔ ان خیالات کا اظہار مولانا ابن حسن املوی نے انجمن حسینیہ رجسٹرڈ املو کے زیر اہتمام عزاخانۂ ابو طالب محلہ محمود پورہ املو میں جلوس چہلم برآمد ہونے سے قبل منعقدہ ایک مجلس عزا کو خطاب کرتے ہوئے کیا۔
انھوں نے کہا کہ کیوں منایا جاتا ہے نہایت شان و شوکت اور عقیدت و احترام کے ساتھ شہدائے کربلا کا چہلم ؟ شیدائے اسلام تو اور بھی ہیں ان کا سوگ اس طرح کیوں نہیں منایا جاتا ؟ چہلم یعنی چالیسواں چالیس دن کی مذہبی اور تاریخی نوعیت و حیثیت کیا ہے ؟ اکثر اوقات نوجوانوں کے ذہنوں میں اس طرح کا سوال پیدا ہوتا ہے۔اس سلسلہ میں معلوم ہونا چاہئیے کہ اسلام کے مشہور مؤرخ ابو جریر طبری نے حضرت آدم ؑ کے حالات میں لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم ؑ کی مٹّی کو چالیس دن میں خمیر کیا ۔انھوں نے کہا کہ مکتلف مزاہب ِ فکر کی مذہبی کتابوں سے یہ بات پایۂ ثبوت کو پہونچی ہوئی ہے کہ مزاج بشر میں چالیس دن کو تسرف کا حق ہے،اور انسان کی نقل و حرکت میں بھی چالیس دن کار فرما ہیں۔ حضرت موسیٰ ؑ چالیس دن میں کوہ ِ طور سے توریت لے کر اپنی قوم میں واپس آئے۔جس کا ذکر قرآن مجید میں قدرے تفصیل سے دیکھا جا سکتا ہے۔حضرت داؤد ؑنبی چالیس شب و روز نوحہ و شیون کرتے رہے جس کا پھل انھیں یہ ملا کہ لوہے کو ان کے لئے موم کی طرح نرم بنا دیا گیا ۔حضرت یونس نبی ؑ چالیس دن تک مچھلی کے پیٹ میں زندہ رہ کر واپس آئے جس کا واقعہ کتاب عرائس التیجان ثعلبی میں بھی مذکور ہے۔اور مسلمانوں میں ابو بکر سیوطی محتاج تعارف نہیں ہیں ان کا بیان ہے کہ کوئی مومن نہیں مرتا مگر یہ کہ چالیس دن تک اس پر زمین روتی ہے۔
مولانا نے مزید کہا کہ اب رہا شہدائے کربلا کا دیگر شہدائے اسلام سے جداگانہ شان و شوکت اور عقیدت و محبت کے ساتھ غم اور چہلم منانے کا مسئلہ تو سنّی عالم علامہ سیوطی نے بھی مظلوم کربلا کی مصیبت میں چھہ مہینے تک آسمان کے رونے کو تسلیم کیا ہے۔اور بہت ساری کتابوں سے واضح ہے کہ کربلا میں نواسۂ رسول الثقلین کی شہادت کے بعد حسین مظلوم پر آسمان چالیس دن تک خون برسا کر رویا۔زمین چالیس دن تک تاریکی پھیلا کر روئی۔سورج چالیس دن تک گہن آلود ہو کر رویا۔ملائکہ بھی چالیس یوم روئے۔ حضرت امام حسین ؑ ذبح عظیم ،شہید اعظم ، سیدالشہداء ہیں ،آپ کی شہادت شہادت ِ عظمیٰ ہے۔شہدائے کربلا کی شہادت دیگر تمام شہدائے اسلام سے اعلیٰ و ارفع ہے ۔ اس لئے واقعۂ کربلا کے ماقبل و مابعدساری کائنات نے ان کا غم منایا اور قیامت تک مناتی رہے گی۔

آخر میں مولانا نے چہلم کے روز اہل حرم کا قید ِ یزید سے رہا ہوکر واپس کربلا میں آنا اور سرزمین کربلا پر پہلی مجلس عزا کا برپاہونا اور جس میں اہل حرم کے ساتھ رسول خدا کے نہایت بزرگ صحابی جناب جابر ابن عبداللہ انصاری اور ان کے غلام بھی شریک تھے نہایت رقت آمیز انداز میں بیان کیا جس کو سن کر سامعین کی آنکھیں اشکبار ہوگئیں۔

اس کے بعد جلوس اربعین حسینی برآمد ہوا جس میں انجمن حسینیہ رجسٹرڈ املو نے نوحہ خوانی و سینہ زنی کی۔جلوس اپنے مقررہ راستوں سے گزرتا ہوا دیر رات کو بخیر و خوبی اختتام پذیر ہوا۔اس موقع پر ہلکی بارش اور کڑی ٹھنڈ جاری رہنے کے باوجود عقیدتمندوں اور عزاداروں کے حوصلے بلند تھے۔اور یا حسین ؑ یا حسین ؑ کی فلک شگاف صداؤں سے فضا گونج رہی تھی‘‘۔
( روزنامہ انقلاب اردو وارانسی۔صفحہ ۲،۲۲؍ صفر المظفر ۱۴۳۶ھ؁۔DECEMBER 16, 20014)
۔۔۔۔۔۔

شہدائے کربلا کی عظمت و شہادت دیگر تمام شہدائے اسلام سے اعلیٰ و ارفع ہے : مولانا ابن حسن املوی
انجمن حسینہ کے زیر انتظام عزاخانۂ ابو طالب محلہ محمود پورہ املو میں مجلس و جلوس چہلم شہدائے کربلا کا اہتمام
املو ، مبارکپور(اعظم گڑھ)املو مبارکپور ، نوادہ اور آس پاس کے علاقوں میں نہایت عقیدت و احترام سے منایا گیا شہدائے کربلا کا چہلم۔اس موقع پر مجلسوں ، جلوسوں کا اہتمام کر کے نواسۂ رسول ؐ کو زبردست خراج عقیدت پیش کیا گیا۔یہ کیوں منایا جاتا ہے نہایت شان و شوکت اور عقیدت و محبت کے ساتھ شہدائے کربلا کا چہلم؟ شہدائے اسلام تو اور بھی ہیںان کا سوگ اس طرح کیوں نہیں منایا جاتا؟ چہلم یعنی چالیسواں،چالیس دن کی مذہبی اور تاریخی نوعیت و حیثیت کیا ہے؟ اکثراوقات نوجوانوں کے ذہنوں میں اس طرح کا سوال پیدا ہوتا ہے۔اس سلسلہ میں معلوم ہونا چاہئیے کہ اسلام کے مشہور مؤرّخ ابو جریر طبری نے حضرت آدم ؑ کے حالات میں لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم ؑ کی مٹّی کو چالیس دن میں خمیر کیا۔ملاحظہ ہو اردو ترجمہ تاریخ طبری جلد اوّل مترجمہ مولوی عبدالشکور (پاٹا نالوی)سابق ایڈیٹر النجم ؔ مطبوعہ عمدۃ المطابع لکھنؤ۔ظاہر ہے کہ حضرت آدم ؑ کی تخلیق انسانیت کی خشت ِ اوّل تھی اگر چایس روز وہ ایک خاص کیفیت میں رہے تو ان کی نسل پر بھی اس مدت کا اثر انداز ہونا عقلی اور فطری ہے۔ ان خیالات کا اظہار مولانا ابن حسن املوی نے انجمن حسینیہ رجسٹرڈ املو کے زیر اہتمام عزاخانۂ ابو طالب محلہ محمود پورہ املو میں جلوس چہلم برآمد ہونے سے قبل منعقدہ ایک مجلس عزا کو خطاب کرتے ہوئے کیا۔

انھوں نے کہا کہ شیعہ و سنّی اور سلفی و وہابی سب ہی فرقوں کی مذہبی کتابوں سے یہ بات پایۂ ثبوت کو پہونچی ہوئی ہے کہ مزاج ِبشر میں چالیس دن کو تصرف کا حق ہے،اور انسان کی نقل و حرکت میں بھی چالیس دن کار فرما ہیں۔حضرت موسیٰ ؑ چالیس دن میں کوہ ِ طور سے توریت لے کر اپنی قوم میں واپس آئے۔جس کا ذکر قرآن مجید میں قدرے تفصیل سے دیکھا جا سکتا ہے۔حضرت داؤد ؑنبی چالیس شب و روز نوحہ و شیون کرتے رہے جس کا پھل انھیں یہ ملا کہ لوہے کو ان کے لئے موم کی طرح نرم بنا دیا گیا ۔حضرت یونس نبی ؑ چالیس دن تک مچھلی کے پیٹ میں زندہ رہ کر واپس آئے جس کا واقعہ کتاب عرائس التیجان ثعلبی میں بھی پڑ ھ سکتے ہیں۔اور مسلمانوں میں ابو بکر سیوطی محتاج تعارف نہیں ہیں ان کا بیان ہے کہ کوئی مومن نہیں مرتا مگر یہ کہ چالیس دن تک اس پر زمین روتی ہے۔دیکھئے کتاب تکمیل الحبور شرح الصدور سیوطی۔

مولانا نے مزید کہا کہ اب رہا شہدائے کربلا کا دیگر شہدائے اسلام سے جداگانہ شان و شوکت اور عقیدت و محبت کے ساتھ غم اور چہلم منانے کا مسئلہ تو سنّی عالم علامہ سیوطی نے بھی مظلوم کربلا کی مصیبت میں چھہ مہینے تک آسمان کے رونے کو تسلیم کیا ہے۔اور بہت ساری کتابوں سے واضح ہے کہ کربلا میں نواسۂ رسول الثقلین کی شہادت کے بعد حسین مظلوم پر آسمان چالیس دن تک خون برسا کر رویا۔زمین چالیس دن تک تاریکی پھیلا کر روئی۔سورج چالیس دن تک گہن آلود ہو کر رویا۔ملائکہ بھی چالیس یوم روئے۔ حضرت امام حسین ؑ ذبح عظیم ،شہید اعظم ، سیدالشہداء ہیں ،آپ کی شہادت شہادت ِ عظمیٰ ہے۔شہدائے کربلا کی شہادت دیگر تمام شہدائے اسلام سے اعلیٰ و ارفع ہے ۔ اس لئے واقعۂ کربلا کے ماقبل و مابعدساری کائنات نے ان کا غم منایا اور قیامت تک مناتی رہے گی۔

آخر میں مولانا نے چہلم کے روز اہل حرم کا قید ِ یزید سے رہا ہوکر واپس کربلا میں آنا اور سرزمین کربلا پر پہلی مجلس عزا کا برپاہونا اور جس میں اہل حرم کے ساتھ رسول خدا کے نہایت بزرگ صحابی جناب جابر ابن عبداللہ انصاری اور ان کے غلام بھی شریک تھے نہایت رقت آمیز انداز میں بیان کیا جس کو سن کر سامعین کی آنکھیں اشکبار ہوگئیں۔

اس کے بعد جلوس اربعین حسینی برآمد ہوا جس میں انجمن حسینیہ رجسٹرڈ املو نے نوحہ خوانی و سینہ زنی کی۔جلوس اپنے مقررہ راستوں سے گزرتا ہوا دیر رات کو بخیر و خوبی اختتام پذیر ہوا۔اس موقع پر ہلکی بارش اور کڑی ٹھنڈ جاری رہنے کے باوجود عقیدتمندوں اور عزاداروں کے حوصلے بلند تھے۔اور یا حسین ؑ یا حسین ؑ کی فلک شگاف صداؤں سے فضا گونج رہی تھی‘‘۔

( روز نامہ اودھ اردو لکھنؤ۔ ۱۶؍ دسمبر ۲۰۱۴ء؁)
....................

مبارکپور و مضافات میں چہلم منایا گیا
مبارکپور،اعظم گڑھ(ایس این بی )مبارکپور و مضافات میں نواسۂ رسول حضرت امام حسین ؑ و دیگر شہدائے کربلا کا چہلم آج منایا گیا ۔جب کہ گذ شتہ شب موضع املو میں چہلم منایا گیا۔اس موقع پر (مولانا) شیخ ابن حسن واعظ املوی نے انجمن حسینیہ رجسٹرڈ املو کے زیر اہتمام عزا خانۂ ابو طالب محلہ محمود پورہ املو میں جلوس چہلم برآمد ہونے سے قبل منعقدہ ایک مجلس عزا کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ چہلم کے روز اہل حرم کا قید یزید سے رہا ہو کر واپس کربلا میں آنا اور سر زمین ِ کربلا پر پہلی مجلس ِ عزا کا برپا ہونا اور جس میں اہل ِ حرم کے ساتھ رسول ِ خدا کے بزرگ صحابی جابر ابن عبداللہ انصاری اور ان کے غلام بھی شریک تھے نہایت رقت آمیز انداز میں بیان کیا جس کو سن کر سامعین کی آنکھیں اشکبار ہو گئیں۔

اس کے بعد جلوس اربعین ِ حسینی برآمد ہوا جس میں انجمن حسینیہ رجسٹرڈ املو نے نوحہ خوانی و سینہ زنی کی۔جلوس مقررہ راستوں سے گزرتا ہوا دیر رات کو بخیر و خوبی اختتام پذیر ہوا‘‘۔ ( روزنامہ راشٹریہ سہارا اردو لکھنؤ۔ 16 / 12 / 2014 )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حضرت علی ؑ کسی ذات کا نام نہیں بلکہ ’’ تحریک ِولایت ‘‘ کا نام ہے
سالانہ جشن مولود ِ کعبہ ،پانچویں دور کے انعقاد کے موقع پر مولانا ابن حسن املوی واعظ کا خطاب
مبارکپور،اعظم گڑھ ( نامہ نگار) حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کسی ذات کا نام نہیں بلکہ ’’ تحریک ِ ولایت ‘‘ کا نام ہے۔حضرت علی کی ولایت و امامت و خلافت کا اعلان قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ۔اور میدانِ غدیر میں کم و بیش ایک لاکھ چالیس ھزار حاجیوں کے مجمع میں پیغمبر اسلام نے پالانِ شتر کے منبر سے اپنے ہاتھوں پر علی ؑ کو بلند کر کے فرمایا ’’ جس کا میں مولا ہوں اس کے یہ علی ؑ بھی مولا ہیں‘‘ان خیالات کا اظہار الحاج مولانا ابن حسن املوی واعظ نے محلہ پورہ باغ مبارکپور میں سابق سی آئی ڈی انسپکٹر فصیح الھسنین کی رہائش گاہ پر سالانہ جشن ِ مولود ِ کعبہ،پانچواں دور کے انعقاد کے موقع پر بحیثیت مقرر ِ خصوصی خطاب کرتے ہوئے کیا۔

مولانا نے مزید کہا کہ حضرت علی ؑ سے تمام نبیوں اور رسولوں نے مدد طلب کی اور حضرت علی ؑ نے سب کی مدد کی ۔خود مولا علی ؑ نے فرمایا ہے ’’ میں نے تمام انبیاء کی مدد کی ہے مخفی طور پر اور محمد مصطفیٰ ﷺ کی مدد کی ہے ظاہری طور پر‘‘۔اور شیخ بو علی سینا سے حضرت کی فضیلت کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کہ ’’ کائنات کی ہر چیز علی ؑ کی محتاج ہے ،علیؑ کسی چیز کے محتاج نہیں ہیں‘‘۔
بطور مہمان ِ خصوصی مولانا ناظم علی پرنسپل جامعہ حیدریہ خیرآباد نے اپنی تقریر حضرت علی ؑ کی سیرت اور کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ پڑھے لکھے سنجیدہ ذہن انصاف پسند غیر شیعہ اور غیر مسلم حضرات آج بھی سیرت ِ مرتضوی کا مطالعہ کر کے مذہب ِ حقہ قبول کر رہے ہیں۔جس سے اس بات کی کھل کر تصدیق ہوتی ہے کہ حقیقی اسلام ہمیشہ علم و حلم ،اخلاق و کردار سے پھیلا ہے کسی زور زبردستی،دھمکی یا مال و دولت کی لالچ،یا تلوار سے نہیں۔

پروگرام کی صدارت مولانا احمد مجلسی قمی نے کی اور انھوں نے اپنی صدارتی تقریر میں کہا کہ عجیب بات ہے کہ جب کوئی صاحب ِ علم و فضل و کمال شخص حضرت کے
فضائل و محامد بیان کرتا ہے تو کچھ متعصب تنگ نظر لوگ یہ کہہ بات کو ٹال دیتے ہیں کہ وہ تو شیعہ ہوگئے تھے،حالانکہ خلفائے راشدین کے بیانات بکثرت کتابوں میں درج ہیں جو فضائل و مناقب حیدری پر مبنی ہیں۔اسی طر ح علامہ اقبال ؒ کے مذہب کے بارے میں بھی لوگ طرح طرح کی باتیں بناتے ہیں مگر جب خود علامہ اقبال ؒ سے پوچھا گیا کہ آپ کا مسلک و مذہب کیا ہے تو انھوں نے چند اشعار میں جواب دیا کہ ’’ میں بو ترابی ہوں‘‘۔

پروگرام کا آغاز الحاج احمد حسن نے تلاوت قرآن مجید سے کیا۔اور فضل ِ علی جاوید ؔمبارکپوری۔ندیم ؔمجیدی۔حسن مثنیٰ۔قیصر رضا۔محمد ہادی۔میثم علی۔رونق علی۔بلال وغیرہ نے مدح حضرت علی ؑ میں منظوم کلام پیش کئے۔اس موقع پر نسیم بینک والے۔خیرات الحسن مرثیہ خوان۔محمد نقی۔حاجی احمد رضا عرف حاجی للن کربلائی۔ عباس احمد غدیری املوی۔ماجد حسین۔جرار حسین۔محرم علی۔خورشید رضا۔نیّر علی اور کثیر تعداد میں مرد و خواتین جشن مولود ِ کعبہ میں شریک ہوئے۔
( روزنامہ انقلاب اردو وارانسی۔منگل ۵؍ مئی ۲۰۱۵ء؁ صفحہ ۲)
.......

تمام انبیاء کے صحائف میں حضرت علی ؑ کی ولایت کا تاکیدی حکم اور ذکر خاص ہے : مولانا ابن حسن املوی
گوپالپور میں سفر امام حسین ؑ از مدینہ تا کربلا کی یاد میں سالانہ قدیمی جلوس عماری اور مجلس عزا کا ہتمام
گوپالپورضلع سیوان،بہار(نامہ نگار)تمام انبیاء کے صحائف میں حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی ولایت کا نہایت تاکید ی حکم اور ذکر خاص ہے۔ اگر جملہ بنی نوع انسان حضرت علی ؑ کی ولایت و محبت اور امامت و خلافت پر متفق ہوتے تو خداوند عالم آتشِ جہنم کو پیدا ہی نہ کرتا۔شریفوں سے محبت کرو اور کمینوں سے اپنی عزت بچاؤاور یقین کرو کہ شرافت کامل نہیں ہو سکتی جب تک کہ حضرت علی ؑ کی ولایت حاصل نہ ہو۔ کائنات میں ہر چیزمولائے کائنات حضرت علی کی محتاج ہے ،علی ؑ کسی کے محتاج نہیں ہیں۔ ان خیالات کا اظہار الحاج مولانا ابن حسن املوی صدرالافاضل ،واعظ نے ۲۸؍رجب کو بوقت ۸؍بجے صبح جلوس عزا بیاد سفر غربت حضرت امام حسین ؑ از مدینہ تا کربلا کے موقع پر سید جون علی منیجر پنجاب نیشنل بینک کی جانب سے ہاشمی امامبارگاہ گوپالپور میں منعقدہ سالانہ مجلس عزا سے خطاب کے دوران کیا۔

مولانا نے مزید کہا کہ پیغمبر ِاسلام ؐ نے مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی تھی اور اسی کی یاد میں تاریخی ہجری کلنڈرصدر اسلام سے آج تک پورے عالم ِ اسلام میں رائج ہے۔ حضرت امام حسین ؑ نے بھی مدینہ سے کربلا کی طرف ہجرت فرمائی تھی ۔ جب ہجرتِ نبوی کی یاد منانا شرک و بدعت اور ناجائز نہیں ہے تو ہجرتِ حسینی کی یاد منانا بھی بلا شبہ جائز اور ضروری ہے۔جبکہ تاجدار مدینہ رسولؐ کی ہجرت میں اور تاجدار ِ کربلا امام حسین ؑ کی ہجرت میں بہت نمایاں فرق ہے۔رسولؐ نے مکہ سے ہجرت کی مگر پھر اپنی زندگی میں فاتحانہ طور پر مکہ میں واپس آئے۔مگر حسین ؑ نے جو مدینہ سے ہجرت کی تو دوبارہ زندہ واپس نہ آئے بلکہ کربلا میں شہید اعظم ہو کرہمیشہ ہمیشہ کے لئے انسانی ریاست کے بے مثل و بے نظیر حکمراں اور انسانی قلوب کے فاتح اعظم بن گئے۔

مجلس کا آغاز شبیر امام اور مولانا مصحف گوپالپوری و ہمنوا کی سوز خوانی سے ہوا۔اور پیش خوانی مولانا شفیع حیدر قمی بھیک پوری نے کی۔نوحہ خوانی میثم گوپالپوری نے کی۔مدینہ سے کربلا کے لئے امام حسین ؑ اور ان کے اہل حرم کی ہجرت کی یاد میں نکلنے والا سالانہ قدیمی جلوس عماری صبح سویرے مغربی امام بارگاہ یعنی صدر امامباڑہ سے برآمد ہوا ۔اور جنوبی امام بارگاہ،مشرقی امام بارگاہ سے ہوتا ہوا اپنے مقررہ راستوں سے گزر کر قریب مغرب کربلا پہونچ کر بخیر خوبی اختتام پذیر ہوا۔درمیان ِراہ جگہ جگہ چوراہوں پر متعدد علماء و خطباء نے تقریریں کیں اور امام حسین ؑ کے سفر کربلا کے احوال مقاصد پر روشنی ڈالی۔اور انجمن حیدری گوپالپور،انجمن فردوسیہ گوپالپور،انجمن انصار حسینی مبارکپورنیز دیگر مقامی و بیرونی ماتمی انجمنوں نے نوحہ خوانی و سینہ زنی کی ۔ پروگرام میں شرکت کے لئے اطراف و جوانب سے آئے ہوئے کثیر تعداد میں مومنین و مومنات شریک ہوئے ۔ مجلس و جلوس میں شامل عزادارنِ امام حسین اور زائرین ؑ کی ضیافت مسلسل چائے اور شربت وغیرہ سے کی گئی۔
( روز نامہ اودھ نامہ لکھنؤ۔ بدھ ۲۰؍ مئی ۲۰۱۵؁ء۔ صفحہ ۱۵)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

علم و حکمت حاصل کرنا واجب و لازم ہے مال و دولت نہیں : مولانا ابن حسن املوی
شبلی نیشنل جونیر ہائی اسکول املو میں یوم آزادی ھند کے موقع پر جلسۂ عام کا انعقاد
املو،مبارکپور(اعظم گڑھ)
علم و حکمت حاصل کرنا واجب و لازم ہے مال و دولت نہیں۔مال سے لڑکا خریدا جا سکتا ہے بیٹا نہیں۔مال سے زیور خریدا جا سکتا ہے حسن نہیں۔مال سے خوشامد خریدی جا سکتی ہے محبت نہیں۔ مال سے نرم بستر مل سکتا ہے مگر نیند نہیں۔ مال سے کتابیں خریدی جا سکتی ہیں مگر علم نہیں۔مال زندگی لے سکتا ہے دے نہیں سکتا۔ ان خیالات کا اظہار مولانا ابن حسن املوی واعظ نے شبلی نیشنل جونییر ہائی اسکول املو میں یوم آزادی ھند کے پر مسرت موقع پر طلبہ و اساتذہ کی جانب سے منعقد سالانہ عظیم الشان جلسۂ عام سے بحیثیت مقرر خصوصی خطاب کرتے ہوئے کیا۔

مولانا نے مزید فرمایا کہ شہنشاہ محمود غزنوی کے متعلق مشہور ہے کہ وہ اکثر تین باتوں میں شک کیا کرتا تھا۔ایک اپنے نسب کے متعلق کہ وہ اپنے باپ سبکتگین کا بیٹا ہے یا کسی دوسرے کا۔دوسرے قیامت میں لوگوں کے محشور ہونے کا جبکہ وہ مٹّی ہو گئے ہوں گے ۔تیسرے حدیث نبوی اکی صحت میں کہ یہ علماء کس طرح انبیاء کے وارث ہو سکتے ہیں۔ ایک روز شام کو شکار سے پلٹا۔اور شہر میں داخل ہوا تو اندھیرا چھا چکا تھا۔اس نے ایک دوکان پر ایک شخص کو دیکھا کہ کبھی تو دوکان کے قریب جاتا ہے اور کبھی اس سے دور جاتا ہے۔وہ قریب گیا تو اس نے دیکھا کہ ایک غریب طالب ِ علم ہے جس کے ہاتھ میں کتاب ہے جب کوئی خریدار آتا ہے اور دوکاندار دروازہ کھولتا ہے تو یہ قریب آکر پڑ ھنا شروع کر دیتا ہے ،اور جب یہ خریدار چلا جاتا ہے تو یہ کتاب کو بند کرکے علٰحدہ ہو جاتا ہے ۔یہ دیکھ کر محمود متاثر ہوا ۔اور اس کے دل میں رحم آیا۔گھر جا کر طالب ِ علم کے لئے ایک چراغ اور کچھ دینار بھیج دئیے تو اس نے شب میں جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خواب میں دیکھا ۔آپ ؐ نے فرمایا:اے سبکتگین کے بیٹے ! اللہ تیری عزت دونوں جہان میں قائم رکھے جیسے تونے میرے وارث کی عزت کی ‘‘۔ایک مختصر فقرہ سے محمود کے تینوں شکوک کا دفیعہ ہو گیا۔اس کی ساری الجھنیں پریشانیاں دور ہو گئیں۔سونچئے جب ایک طالب ِ علم کی فیض رسانی کا یہ عالم ہے تو صاحب ِ علم ِالکتاب کا مرتبہ کیا ہوگا۔

پروگرام کا آغاز اسکول کے منیجر حاجی عبدالعزیز کے ہاتھوں قومی پرچم کشائی سے ہوا۔اس کے بعد اسکول کے طلبہ و طالبات نے نہایت خوش الحانی کے ساتھ قومی ترانہ پیش کیا۔اسکول کے پرنسپل محمد فاروق نے اسکول کی تعلیمی سر گرمیوں پر اختصار کے ساتھ مگر جامع روشنی ڈالی۔محمداسلم نے تعلیم اور ترقی کے موضوع پر تقریر کرتے ہوئے اپنے چند زریں مشورے پیش کئے۔ انگریزی،ھندی اور اردو زبانوں میں طلبہ و طالبات نے تقریرات۔ مکالمے ڈرامے اورمتعدد خوبصورت تعلیمی و ثقافتی پروگرام پیش کئے جنھیں حاضرین نے خوب داد و تحسین سے نوازا۔اس موقع پر شبلی نیشنل جونیر ہائی اسکول املو کے طلبہ و طالبات اور اساتذہ و منتظمین کے علاوہ ماسٹر بدیع الزماں۔مہمان خصوصی دانش سابق مہا پردھان املو۔عین الدین سابق پردھان چکیاں۔نیاز احمد وکیل۔شہاب احمد۔عبد المغنی۔محمود ممبر شاہ محمد پور مبارکپور۔حاجی عاشق حسین۔اور کثیر تعداد میں مرد و خواتین نے شرکت کی‘‘۔
( روز نامہ اودھ نامہ لکھنؤ۔منگل ۱۸؍ اگست ۲۰۱۵ء؁ صفحہ ۱۵)
......................

عید قربان فقط عید نہیں بلکہ تربیت و اصلاح نفس کا بہترین دن ہے : مولانا ابن حسن املوی
انجمن حسینیہ املو کی بنا و تعمیر کردہ شیعہ عید گاہ میں نماز عید الاضحی کا اہتمام
ملو،مبارکپور۔(اعظم گڑھ)عید قربان فقط عید نہیں بلکہ تربیت و اصلاحِ نفس کا بہترین دن ہے۔عید اضحیٰ تمام امتِ مسلمہ کے لئے عبرت انگیز و نصیحت آمیز بے مثل و بے نظیر یادگاری تاریخی دن ہے۔جو چیز قربانی دے کے حاصل ہوتی ہے وہ مسحکم و پائیدار ہوا کرتی ہے اور قدر و منزلت کی حامل ہوتی ہے۔اللہ سبحانہ تعالیٰ نے ہر شئی میں قربانی کا جذبہ ودیعت فرمایا ہے۔یہ اور بات ہے کہ اکثر انسان اس کے بر عکس عمل کرتے ہیں۔مگر حقیقت میں انسان کی واقعی بقا اور سعادت اسی میں ہے کہ اعلیٰ ترین قربانی یعنی راہِ خدا میں شہادت کا جذ بہ و حوصلہ اس کے اندر کار فرما ہو۔ کسی کی بلا وجہ شرعی جان لینا درندگی و بزدلی ہے ،فی سبیل اللہ اپنی جان کا نذرانہ پیش کر دینا ایمانی طاقت اور روحانی شجاعت ہے۔دہشت گردی کے ذریعہ بے قصور انسانوں کی جان لینا انتہائی خباثت اور کھلی ہوئی شیطنت ہے۔اسلام امن و سلامتی کا مذہب ہے قتال و جدال کا نہیں۔ اسلام قربانی کا پیغام دیتا ہے۔ہمارے ملک ہندوستان کے امن پسند عوام نے قربانی دی تب غاصب انگریزوں سے ملک کو آزادی ملی اور آج پوری دنیا میں ہندوستان کی جمہوریت و آزادی امتیازی شان کی حامل سمجھی جاتی ہے۔ سلمان فارسی ؒ کے ملک ایران میں خداپرست مسلمانوں نے عدیم المثا ل قر بانی دے کر ڈھائی ہزار سال پرانی بادشاہت کے چنگل سے آزادی حاصل کی اس لئے ایران آج سارے عالم میں خوددار،باوقار،غیرت دار ،پرامن اور طاقت ور آزاد ملک کی حیثیت سے بڑی بڑی طاقتوں کے سامنے اسقلال و پا مردی اور مکمل اعتماد کے ساتھ فاتحانہ و شجاعانہ ناز و انداز میں ڈت کر کھڑا ہے ۔دنیا کے اکثر ممالک نے متحد ہوکر ایران کو ڈرانے دھمکانے، دبانے اور مٹانے کی بھر پور کوششیں کیں کبھی طولانی جنگ چھیڑی ، امریکہ اورس اسکے اتحادی ملکوں نے ایران کامکمل معاشی بائیکاٹ کیا کبھی صلح سمجھوتے کے بہانے رسوا کرنے کی سازشیں کیں مگر ایران کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکے بلکہ اس کی عزت و شہرت اور صداقت و مقبولیت میں مزید چار چاند لگ گئے یہ سب صحابی رسول سلمان فارسی کی مسلمان قوم کی مسلسل قربانیوں کی بدولت ممکن ہوا۔ ان خیالا ت کا اظہار مولانا ابن حسن املوی واعظ نے انجمن حسینیہ رجسٹرڈ املو کی بناء و تعمیر کردہ شیعہ عیدگاہ املو میں مثل سالہائے گزشتہ نماز عید الاضحیٰ کے خطبہ کے دوران کیا۔

مولانا نے مزید کہا کہ اسلام نے زمانہ کے باب ِ ماضی پر نظر کی اور جن چیزوں کی امت ِ مسلمہ کو ضرورت تھی انھیں اخذ کرکے دنیائے اسلام کے سامنے پیش کیا تاکہ اگلے افراد کے کارنامے صفحۂ ہستی سے محو نہ ہوں۔حضرت ابراہیم ؑ کو یہ شرف حاصل ہے کہ ان کے سلسلۂ نسل میں ہمارے آخری نبی ؐ پیدا ہوئے اس لئے ان کی سیرت کو یادگار بنانے کا ہمیں زیادہ حق ہے۔

ایک مرتبہ حضرت ابراہیم ؑ نے خواب دیکھا کہ رکن و مقام کے درمیان اپنے مطیع و محبوب فرزند حضرت اسما عیل ؑ کو ذبح کر رہے ہیں۔بیٹے سے خواب بیان کیا تو جناب اسماعیل ؑنے کہا اے بابا ! اللہ نے آپ کو جو حکم دیا ہے اسے کر گزرئیے انشاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔قرآن مجید نے بیٹے کے مختصر جواب پر اکتفا کی ہے مگر تاریخ و سیر میں حضر ت ابراہیم ؑ و حضرت اسماعیل ؑ کی پوری گفتگو درج ہے ۔ امام ابو اسحاق احمد بن محمد بن ابراہیم ثعلبی نے لکھا ہے کہ جب خلیل ِ خدا کا فرمانبردار فرزند اپنے ذبح کی خبر سن چکا تو عرض کیا کہ مجھے ایک رسی میں باندھ دیجیئے تاکہ میں آپ کے سامنے تڑپ نہ سکوں اور آپ اپنے دامن کو سمیٹ لیں ایسا نہ ہو کہ میرا خون آپ کے دامن پر دھبّہ بن کر پہونچے ،اور میری ماں خون کی چھیٹیں دیکھ کر رنجیدہ ہوں ،جب آپ گھر جائیں تو میرا کرتا ان کی تسلی کے لئے ضرور لیتے جائیں اور ان کی خدمت میں میرا سلام پہونچا دیں۔

یہ امتحان ِ صبر و تحمل کا وہ عظیم الشان مظاہرہ تھا جس نے دنیا میں قیامت تک خلیل اللہ اور ذبیح اللہ کے صبر و استقلال ،پا مردی و اطاعت شعاری کا چرچہ باقی رکھا اور اہل اسلام صدیاں گزر جانے کے بعد ہر سال دسویں ذی الحجہ کو اس کی یادگار قائم کرتے ہیں۔آخر میں مولانا نے ملک میں امن و سلامتی اور مسلمانان ِ عالم کے لئے اتحاد و یکجہتی کی دعائیں کیں۔ اور حضرت امام حسین ؑ و دیگر شہدائے کربلا کی زیارتیں پڑھیں۔‘‘
( روز نامہ اودھ نامہ لکھنؤ۔مورخہ۲۷؍ستمبر ۲۰۱۵ء؁ بروز اتوار)
.......

عزا خانۂ ابو طالب میں سالانہ شب بیداری
علم کے بغیر کسی بھی شعبہ میں ترقی کا تصور نہیں کیا جا سکتا: مولانا ابن حسن
املو ،مبارکپور(اعظم گڑھ) علم کے بغیر کسی بھی شعبہ ٔ حیات میں ترقی و کامیابی کا تصور نہیں کیا جا سکتا، علم کے ذریعہ سماج و معاشرہ میں اخوت و محبت و مروت کا اجالا پھیلتا ہے ا ور نفرت و عداوت و کینہ و کدورت کا اندھیرا دور ہوتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے خلافت ِ الٰہیہ کے امیدواروں کا چناؤ علم کی بنیاد پر کیا ہے۔حضرت ِآدم ؑ سے لے کر حضرت ِ خاتم ؐ تک جتنے بھی نبی و رسول آئے ان میں سے کوئی بھی مال و دولت یا زر و جواہرات لے کے نہیں آیا بلکہ سب کے سب علم کی سوغات لے کر آئے۔اور سب نے علم کی تبلیغ و ترویج کی ۔کیونکہ علم سے بڑی نہ کوئی دولت ہے ،نہ کوئی طاقت ہے، نہ کوئی نعمت ہے۔ان خیالا ت کا اظہار مولانا ابن حسن املوی واعظ نے عزا خانۂ ابو طالب محلہ محمود پورہ املو میں انجمن حسینیہ رجسٹرڈ املو کے زیر اہتمام اور مہمان خصوصی معروف شاعر و نوحہ خوان سید کاشف رضا زیدی کی زیر صدرارت منعقدہ سالانہ مجلس شب بیداری میں ’’ رسول ؐ اور علم ِ غیب‘‘ موضوع پر خطاب کرتے ہوئے کیا۔

مولانا نے مزید کہا کہ انسانوں کے لئے واقعی علم یہی ہے کہ پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور آپ کی آل پاک کی معرفت حاصل کرے۔جیسا کہ حدیث صحیح میں پیغمبر نے خود اعلان فرمایا ہے کہ میں علم کا شہر ہوں اور علی ؑ اس کا دروازہ ہیں۔رسول اسلام دو چیزیں لے کر اس دنیا میں تبلیغ ِ دین کے لئے آئے اور وہی دو چیزیں لوگوں کی ہدایت کے لئے چھوڑ کر گئے ایک قرآن اور دوسرے ان کے اہل بیت۔قرآن علم و عرفان کی تھیوری کا نام ہے اور اہل بیت ؑ عملی صورت، پریکٹیکل کا نام ہے۔انسان کے لئے دنیا و آخرت میں کامیابی و کامرانی کا یہی راز ہیں کہ ان دونوں سے محبت کی جائے۔اور محبت کی یہ علامت ہوتی ہے کہ قرآن مجید کی زیادہ سے تلاوت کی جائے اور اہل بیت کا زیادہ سے زیادہ ذکر کیا جائے۔قران کے فرمان کے مطابق اللہ تعالیٰ بھی ایسے ہی بندوں سے محبت کرتا ہے۔

آخر میں مولانا نے حضرت سکینہ بنت الحسین ؐ کی دردناک شہادت کا ذکر کیا جو یزید کی قید میں اپنے بابا کو یاد کرکے روتی روتی اس دنیا سے رحلت کر گئیںاور قید خانہ ٔ شام میں ہی دفن کی گئیں۔ شب بیداری کا یہ چودہواں دور تھا جس کا آغاز حسب معمول نورالحسن اور ہمنواؤں کی سوز خوانی سے ہوا ۔اور اختتام مہمان خصوصی معروف نوحہ خوان سید کاشف رضا زیدی ککرولوی،ضلع مظفر نگر کی لحن آمیز و پر درد نوحہ خوانی پر ہوا۔اس درمیان انجمن حسینیہ املو۔انجمن انجمن فیض پنجتن کٹرہ ، انجمن قمر بنی ہاشم مبارکپور ، انجمن قمر الایمان پورہ معروف مؤ،انجمن محبان ِ حسین سمند پور ، انجمن عباسیہ نوادہ ، وغیرہ نے بھی نوحہ خوانی اور سینہ زنی کی۔ مقامی انجمنوں کے علاوہ کاشف رضا زیدی کی نوحہ خوانی کو سننے کے لئے آس پاس کے علاقوں سے بھی کافی تعداد میں مردو خواتین پروگرام میں شرکت کے لئے آئے ۔ نظامت کے فرائض ماسٹر مختار معصوم ؔ املوی استاد مدرسہ ٔ باب العلم مبارکپور اور ماسٹر قیصر جاویدؔ املوی استاد مدرسہ ٔ اشرفیہ مبارکپورنے انجام دئے۔ رات کو دو بجے انتہائی کامیابی کے ساتھ پرو گرام اختتام پذیر ہوا۔اس موقع پر ماسٹر ساغر حسینی،ماسٹر قیصر رضا، ماسٹر شجاعت ،ناصر رضا منیب جی ، حاجی عاشق حسین ،عباس احمد غدیری وغیرہ خاص طور سے موجود تھے‘‘۔
( روز نامہ اودھ نامہ لکھنؤ۔۲۳؍نومبر ۲۰۱۵ء؁ صفحہ ۴)یہ خبر روز نامہ راشٹریہ سہارا اردو لکھنؤ اعظم گڑھ ایڈیشن میں اور روزنامہ انقلاب وارانسی اور روزنامہ وارث اودھ ورانسی میں بھی نمایا ں جگہ تصاویر کے ساتھ پر شائع ہوئی تھی۔
.......................................

قران مجید دستو ر زندگی بھی ہے اور آئینِ بندگی بھی : مولانا ابن حسن املوی
چاند پورہ نوادہ مو ضع املو میںشہدائے کربلا کا چہلم منایا گیا ،لبیک یا حسینؑ کی صداؤں سے فضا گونج اٹھی
املو،مبارکپور(اعظم گڑھ)نامہ نگار۔
قرآن مجیددستور زندگی بھی ہے اور آئینِ بندگی بھی،قرآن راہ بھی ہے راہنما بھی،قرآن صا مت بھی ہے ناطق بھی، قرآن ہدایت بھی ہے ہادی بھی، قرآن رحمت بھی ہے برکت بھی،قرآن معجزہ بھی ہے زندہ بھی ،قرآن شفا بھی ہے شفاعت بھی۔اللہ تعالیٰ کا امت مسلمہ پر بے پایاں لطف وکرم ہے کہ اس نے اپنی پیاری کتاب قرآن مجیدنازل کرکے اس کی منزل بھی واضح کردی اور صحیح نظام زندگی کے ساتھ ساتھ صحیح نظام حکومت بھی اس پرروشن کردیا۔ان خیالات کا اظہار مولانا ابن حسن املوی واعظ نے محلہ چاند پورہ نوادہ موضع املو میں شہدائے کربلا کے چہلم کے موقع پر امامباڑہ دربار حسینی میں سالانہ مجلس و جلوس عزا کے انعقاد پر ’’ عصمت ِ انبیاء و ائمہ‘‘ موضوع پر خطاب کے دوران کیا۔

مولانا نے مزید کہا کہ اللہ تعالیٰ کا مسلمانوں پر مزید فضل عظیم یہ ہے کہ اس نے نہ صرف قرآن کی شکل میں اصول و نظریا ت دینے پر اکتفا کیا بلکہ رحمۃ للعالمین اور آپ کے اہل بیتِ طاھرین جیسے معصوم و مطہر پیشوا اور قائد بھی عطا کیا جنھوں نے عملی دنیا میں اسلامی اصول و نظریات کو برت کر بتا دیا اور اس کے بہترین نتائج اور بہترین ثمرات کو بھی دکھا دیا۔

آخر میں مولانا نے شہدائے کربلا کے چہلم کے موقع پر کربلا میں کروڑوں زائرین کی حاضری اور نجف تا کربلا اسّی کلو میٹر دستر خوان کا ذکر کرتے ہوئے بزرگ صحابی رسول حضرت جابر ابن عبداللہ انصاریؒ اور حضر ت امام زین العابدین ؑ کی بروز چہلم سرزمین کربلا پر اولین زائرین قبر حسینی کے طور پر آمد اور ملاقات کے احوال بیان کئے جسے سن کر مجمع میںکہرام گریہ بلند ہو گیا۔اس کے بعد جلوس برآمد ہوا جس میں شبیہ تابوت حضرت سکینہ،شبیہ ذوالجناح،علم مبارک وغیرہ شامل تھے۔جلوس کے درمیان انجمن عباسیہ نوادہ۔ انجمن حسینہ املو،انجمن جوانان حسینی املو،انجمن امامیہ املو، انجمن فیضان ابو طالب پورہ خواجہ، انجمن سجادیہ پورہ دیوان،انجمن محبان حسینی پورہ خضر،انجمن انصار حسینی رجسٹرڈ شاہ محمد پور وغیرہ نے نوحہ خوانی و سینہ زنی کی۔دیر رات تک عزاداروں کی صدائے’’ لبیک یا حسین ؑ ‘‘سے فضا گونجتی رہی۔قریب ۱؍بجے شب میںجلوس نوادہ بازار میں واقع امام چوک پر پہونچ کر بحسن و خوبی اختتام پذیر ہوا۔ اس موقع پر جاوید رضا۔فیض احمد،عابد حسین،غلام نبی،علی سجاد،علی عباس،اظہارلحسن املوی نوحہ خوان، محمد حسن ، عباس احمد غدیری،حاجی عاشق حسین، شہنشاہ حیدر،عبد
الحمید،ارشد ،ریاض الحسن ،ناصر رضا منیب جی،وغیر کثیر تعداد میں لوگ شریک ہوئے۔‘‘
( روز نامہ انقلاب اردو وارانسی ۔مورخہ ۳؍دسمبر ۲۰۱۵ء؁ بروز پنجشنبہ،صفحہ ۲)یہ خبر روزنامہ راشٹریہ اردو سہارا لکھنؤ اعظم گڑھ ایڈیشن ،صفحہ ۳ ،اور روزنامہ اودھ نامہ لکھنؤ میں بھی نمایاں طو پر ر تصو یر کے ساتھ شائع ہوئی۔
۔۔۔۔۔۔

رسول خدا کی شان میں گستاخی کرنے والے کی سزا قتل ہے:مولانا ابن حسن املوی
انجمن اتحاد المسلمین املو کے زیر اہتمام گستاخ رسول کملیش تیواری کے خلاف زبر دست احتجاجی جلسہ کا انعقاد
عاشقان ِ رسول ؑ کا ٹھاتھیں مارتا ہوا انسانی سمندر سے موضع املو چھلک پڑا
املو،مبارکپور(ضلع اعظم گڑھ)نامہ نگار
تاریخ گواہ ہے کہ ہمیشہ سے یہودی پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دشمن نمبر ایک ہیں۔ان کی اسلام دشمنی کا حال قرآن مجید میں بھی وضاحت کے ساتھ بیان ہوا ہے۔جیسا کہ سورۂ بقرہ آیت نمبر ۷۹ میں ہے :
فویل للذین یکتبون الکتاب بایدیھم ثمّ یقولون ھٰذا من عنداللہ لیشتروا بہ ثمناً قلیلاً۔یعنی وائے ہو ان لوگوں پر جو اپنے ہاتھ سے کتاب لکھتے ہیں ۔پھر لوگوں سے کہتے پھرتے ہیں کہ یہ خدا کے یہاں سے آئی ہے۔تاکہ اس کے ذریعہ سے تھوڑی سی قیمت حاصل کریں۔پس افسوس ہے ان پر کہ ان کے ہاتھوں نے لکھا اور پھر افسوس ہے ان پر کہ ایسی کمائی کرتے ہیں‘‘اس آیۂ کریمہ کی تفسیر میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ علمائے یہود اپنے دنیاوی فائدہ و نفع کے خیال سے ایسا نہ ہو کہ یہ لوگ حضرت رسول خدا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے طرفدار اور حامی ہو جائیں اور ہمارا نذرانہ غائب ہو جائے ا س لئے توریت میں تحریف کرتے تھے۔کیونکہ توریت میں حضرت رسول خدا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صفات میں لکھا تھا خوب صورت،گھونگھر والے بال،سیاہ چشم،میانہ قد،اور ان لوگوں نے اس کو مٹا کر اس کی جگہ یہ لکھ دیا دراز قد،کبود چشم،سفید رنگ،سیدھے بال،کانا،جو صفتیں دجال کی ہیں۔‘‘

صدر اسلام سے آج تک شعائر اسلامی کی اہانت و گستاخی کرنے والے یا تو بذات ِخود یہودی ہیں یا یہودیوں کے ایجنٹ کسی دوسری قوم و مذہب کے زر خرید پست ذہنیت اور خراب طینت افراد ہیں جیسے سلمان رشدی ملعو ن۔تسلیمہ نسرین ملعونہ، اور کملیش تیواری ملعون وغیرہ۔

ان خیالات کا اظہار مولانا ابن حسن املوی واعظ نے املو مہاجن کی باغ میں انجمن اتحاد المسلمین کے زیر اہتمام بلا تفریق مذہب و مسلک جملہ مسلمانان ِ املو کی جانب سے منعقد گستاخ رسول کملیش تیواری ملعون کے خلاف بتاریخ ۲۶؍ دسمبر بروز سنیچر احتجاجی جلسہ ٔ عام کو خطاب کرتے ہوئے کیا۔

مولانا نے مزید کہا کہ اس وقت صبر آزما ماحول میں ہم سب مسلمانوں کو صبر و ٹحمل سے کام لینا ہوگا ،محض جوش سے نہیں بلکہ ہوش سے کام لینا پڑے گا ۔کوئی ایسا قدم ہرگز نہ اٹھائیں جس سے ملک کے امن و امان میں خلل واقع ہو۔البتہ ان عناصر کو ضرور ڈھونڈھ نکالنا چاہئیے جو بار بار اسلا م کے خلاف زہر افشانی کا موقع فراہم کرتے ہیں۔اور اس طرح کی نازیبا حرکتوں کے ماسٹر مائنڈ کون ہیں؟ان لوگوں کی بھی شناحت کرنا لازمی ہے جو مسلمانوں کی صفوں میں داخل ہو کر اپنے آپ کو سچا مسلمان ،ہمدرد قوم بن کر درد پردہ اپنی اشتعال انگیز بیان بازیوں کے ذریعہ اسلام دشمنوں کو اسلام ،پیغمبر اسلام اور قرآن و مسلمان قوم کے خلاف زبان درازی و انگشت نمائی کی ترغیب و دعوت دیتے ہیں۔ایسے لوگوں سے زیادہ ہوشیار رہنا چاہئیے۔کیونکہ یہودی کوئی بھی چولہ اختیار کر سکتے ہیں۔یہ ان کی بہت پرانی تاریخی عادت و روایت و شرارت ہے۔

اس وقت ہمارایوپی حکومت سے اور مرکزی حکومت سے بس اتنا سا مطالبہ ہے کہ گستاخ رسول کملیش تیواری کو پھانسی کی سزا دی جائے ۔اگر حکومت یہ عذر کرتی ہے کہ ایسا قانون نہیں ہے تو میں کہتا ہوں کہ نربھیا کانڈ سے قبل بھی آپ کے پاس قانون نہیں تھامگر سخت قانون بنایا گیا اسی طرح گستاخ رسول کے متعلق بھی قانون بنانا حکومتوں کی ذمہ داری ہے۔ ہم تو صرف اپنا درد دل ارباب حکومت کو گوش گذار کرنے کے لئے یہاں جمع ہوئے ہیں۔یاد رہے کہ اسلام میں اس کے بارے میں واضح قانون موجود ہے۔پیغمبر اسلام کا فرمان ہے :من ثبّ نبیاً من الانبیاء فاقتلوہ۔یعنی جو نبیوں میں سے کسی بھی نبی کی شان میں گستاخی کرے،گالی دے تو اسے قتل کردو‘‘(بحار الانوار جلد ۷۹ صفحہ ۲۲۱)رسول مقبول نے یہ بھی ارشاد فرمایا ہے کہ تمام لوگ میرے لئے یکساں ہیں ۔جس نے یہ سنا کہ کوئی آدمی میری بے احترامی کرتا ہے تو اس پر واجب ہے کہ گالی دینے والے کو قتل کر دے۔یہ مسئلہ عدالت میں پیش کیا جانے والا نہیں ہے۔اور اگر عدالت میں پیش کیا جائے تو حکومت کو چاہئیے کہ کہ میری توہین کرنے والے کو پھانسی پر لٹکا دے‘‘(وسائل جلد ۱۸ صفحہ ۴۵۹۔فروع کافی جلد ۷ صفحہ ۲۶۶۔مناقب جلد ۴ صفحہ ۲۶۱) (نوٹ :یاد رہے کہ یہ حکم وہاں کے لئے ہے جہاں مکمل طور سے اسلامی نظام حکومت قائم ہو اور شریعت کے مطابق شرعی قانون نافذ ہوں:ابن حسن املوی)

اس موقع پرمتعدد و مختلف مکاتب فکر کے علماء و مقررین نے جلسہ خطاب کیا اور سب نے اپنی اپنی تقریروں میں گستاخ رسول کملیش تیواری کی پھانسی کا سرکار سے مطالبہ کیا۔جلسہ کی صدرارت مولانا مظہرالحق مدنی اور نظامت مولانا فاروق عبداللہ نے انجام دی ۔اس موقع پر ہزاروں کی تعداد میں ہر مکتب فکر کے مسلمانوں نے شرکت کرکے کملیش تیواری کے خلاف شدیدغم و غصہ کا مظاہرہ کیا۔ہزاروں افراد نے ہاتھوں میں تختیا ں اٹھائے ہوئے تھے جن پر گستاخ رسول کے خلاف نعرے لکھے ہوئے تھے۔ اور بہت سے لوگ اپنے سروں پر کالی پٹیاں باندھ کر احتجاجی مظاہر ہ کر رہے تھے۔ مجمع اس قدر زیادہ تھا جیسے عاشقانِ رسول ؑ کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا انسانی سمند ر سے موضع املو چھلک رہا تھا۔یہ جلسہ دوپہر ایک بجے شروع ہوا اور تین بجے انتہائی کامیابی کے ساتھ مکمل پرامن طور پر اختتام پذیر ہوا۔
[ماخوذ از روزنامہ اودھ نامہ لکھنؤ۔مورخہ۲۸/دسمبر ۲۰۱۵ء]
.......................

مبارک پور میں الحاج محمد یاسین کی پہلی برسی کی مجلس
مبارکپور(اعظم گڑھ) 19 فروری(پریس ریلیز)محلّہ پورہ خواجہ مبارکپور الحاج ماسٹر امیر حیدر (لکچرر)آزاد انٹر کالج انجان شہید کے قیام گاہ پر ان کے والد الحاج محمد یاسین کی پہلی برسی کی مجلس ایصال ثواب ہوئی۔جس میں مولانا الحاج ابن حسن املوی واعظ نے خطاب کیا۔’’ حسنِ عمل‘‘ کے موضوع پر تقریر کرتے ہوئے مولانا نے کہا ان دنوں مسلمانان ِ عالم ڈنمارک کے اخبار میں پیغمبر اسلام کے اہانت آمیز کارٹون کی اشاعت سے بیحد رنجیدہ ہیں۔لیکن قومی ایکتا اور ’’حسنِ عمل ‘‘ سے ہر طوفان ِ بلا کو ٹالا جا سکتا ہے۔ اللہ نے بھی قرآن میں مسلمانوں سے کثرتِ عمل کا مطالبہ نہیں کیا ہے بلکہ ’’ حسن ِ عمل ‘‘ کا مطالبہ کیا ہے۔آخر میں مولانا نے دسویں کی مناسبت سے کوفہ و شام میں اہلِ حرم پر گزرے ہوئے مصائب کا ذکر کیا۔مرحوم الحاج محمد یاسین قصبہ مبارک پور کے بہت مشہور و معروف سماجی کارکن اور تاریخی معاملات پر گہری نظر رکھنے والے بزرگ معتبر شخصیت کے حامل تھے۔۔اسی لئے ان کی پہلی برسی کی مجلس میں آئے ہوئے سیکڑوں افراد نے مرحوم کو خراجِ عقیدت پیش کیا‘‘۔
(ماخوذ از روزنامہ راشٹریہ سہارا اردو لکھنؤ۔20-02-2006)

(خبر غم:انتہائی رنج و افسوس کے ساتھ یہ خبرِ غم دی جاتی ہے کہ مرحوم الحاج محمد یاسین کی اہلیہ ،الحاج ماسٹر امیر حیدر کربلائی کی والدۂ محترمہ ام کلثوم بنت غلام مرتضیٰ کا نہایت بزرگی،ضعیفی و کبیرۃ السن میں طویل علالت کے بعد مورخہ ۴؍مئی ۲۰۱۹ء؁ مطابق ۲۸؍ شعبان ۱۴۴۰ھ؁ بروز شنبہ دنیا سے رحلت فر ما گئیں۔انّا للہ و انّا الیہ راجعون۔اللہ رب العزت محمد و آل محمد علیہم السلام کے وسیلہ سے مرحومہ کو جنت میں بلند درجہ عنائت فرمائے اور جملہ پسماندگان کو صبر جمیل مرحمت کرے۔واضح رہے کہ مرحومہ کے بطن سے الحاج محمد یاسین صاحب مرحوم کے ایک فرزند الحاج ماسٹر امیر حیدر کربلائ صاحب اور پانچ بیٹیاں (نور جہاں۔شاہ جہاں۔یار جہاں۔نسیم جہاں۔شمیم جہاں با حیات اور زندہ یادگار ہیں۔اللہ سب کو صحیح و سلامت رکھے۔ آمیں ثم آمین (سوگوار ابن حسن املوی)
.......................

ظلم کے ساتھ ملک باقی نہیں رہ سکتا : مولانا ابن حسن املوی
مبارکپور،اعظم گڑھ۔(نامہ نگار)
کفر کے ساتھ ملک باقی رہ سکتا ہے مگر ظلم کے ساتھ ملک باقی نہیں رہ سکتا۔ آل سعود نے دور یزید کے مظالم کی یاد تازہ کردی ہے۔سعودی عرب کی نام نہاد اسلامی شاہی حکومت نے امریکہ اور اسرائیل کے اشارے پر اپنے ہی ہم وطن شیعہ مذہبی رہنما آیۃ اللہ شیخ باقر النمر اور ان کے ساتھ ۴۷ افراد کواجتماعی پھانسی دے کر اسلام اور انسانیت کو شرمسار کردیا اور عدل و انصاف کی دھجیاں اڑا دیں۔ سعود ی حکومت نے اپنی طویل فہرست مظالم میں ایک اورتاریخی ظلم عظیم کا اضافہ کر لیا ہے اس لئے اب اس کی ظالم حکومت کے خاتمہ کا آغاز عنقریب ہونے والا ہے اور بے شمار بے قصور مسلمانوں کا خون ناحق بہت جلد آزادی کا گل لالہ بن کر کھلنے والا ہے۔ ان خیالا ت کا اظہا ر مولانا شیخ ابن حسن املوی بانی اسلامک ریسرچ سینٹر املو نے اخبارات کے لئے جاری ایک پریس ریلیز میں میں کیا۔

مولانا نے مزید کہا کہ شہید آیۃ اللہ شیخ باقر النمر ایک بلند پایہ بزرگ شیعہ عالم دین تھے جو پر امن طور پر انسانی آزادی اور حقوق کی باز یابی کے لئے آواز بلند کرتے تھے۔ دنیا بھر میں ان کے عقیدتمندوں کواس دردناک المیہ سے بہت سخت رنج اور گہرا صدمہ پہونچا ہے۔ہم اپنی حکومت ھند اور حقوق انسانی کے تمام عالمی اداروں سے دردمند انہ اپیل کرتے ہیں کہ وہ انصاف پسند نظریہ سے سعودی حکومت کے قیام سے آج تک شیعہ اقلیت اور خوش عقیدہ سنی فرقہ پر ہونے والی سفاکیت و بربریت کا تحقیقی جائزہ لیں اور ہمارے دکھ درد کو محسوس کریں اور سعودی عرب کی حکومت پر اپنے اثر و رسوخ کا استعمال کر کے وہاں شیعوں اور خوش عقیدہ سنی مسلمانوں پر آئے دن ہونے والے انسانیت سوز مظالم کی روک تھام کریں۔کیونکہ جب کہیں کسی خاص قوم و مذہب پر ظلم و زیادتی ہوتی ہے تو پھر وہ علاقائی و انفرادی مسئلہ نہیں رہ جاتا بلکہ عالمی مسئلہ بن جاتا ہے۔ آخر میں مولانا نے کہا کہ اس مصیبت کی گھڑی میں آیۃ اللہ شہید باقر النمر طاب ثراہ کے تمام عقیدتمندوں کو چاہئیے کہ صبر و تحمل سے کام لیں کیونکہ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ ہم ہر دور میں مظلوم رہے ہیں اور آج بھی مظلوم ہیں ،مظلومیت ہماری علامت ہے۔ شہیدوں کا خون ہرگز رائیگاں نہیں جاتا بلکہ ضرور رنگ لاتا ہے۔ اور شہید اعظم حضرت امام حسین علیہ السلام کا بھی یہی پیغام ہے۔ مظلوم کربلاامام حسین ؑ اور ظالم یزید کی داستان قیامت تک کے لئے نمونۂ عبرت ہے۔اور ظلم کرنے والے تشدد پسند افراد ہر دور میں ذلیل و رسوا ہوئے ہیں اور آج بھی ظالم عنقریب ذلیل و رسوا ہوں گے یہ قرآن میں خدا کا فرمان ہے۔ ‘‘
( روز نامہ آواز ملک وارانسی۔مورخہ ۵؍ جنوری ۲۰۱۶ء؁ بروز منگل صفحہ ۷ ۔روز نامہ انقلاب وارانسی۔صفحہ ۲۔ روز نامہ اودھ نامہ لکھنؤ،صفحہ ۴)
...........................

زبردست احتجاج
بتاریخ۹؍ربیع الاول ۱۴۳۹ھ؁ مطابق ۲۸؍نومبر ۲۰۱۷ء؁ بروز منگل بوقت ۱۰؍بجے دن املو بازر میں واقع شبیہ روضہ امام حسین علیہ السلام کے وسیع صحن میں جوانان املو کی جانب سے روہت سردانا اینکر آجتک نیوز چینل نے حضرت مریم علیہا السلام،حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا،حضر ت عائشہ رضی اللہ عنہا کی شان میں جو گستاخانہ کلمات استعمال کئے تھے اس کے خلاف زبردست احتجاجی جلسہ ہوا جس میں بلاتفریق مسلک تمام مسلمانوں نے شرکت کی،اور اتحاد اسلامی کلا بھر پور مظاہرہ کیا ۔اس موقع پر مولانا ابن حسن املوی واعظ نے شاندار تقریر کی،اس موقع کی یادگار تصویریںروزنامہ سہارا میں نمایاں طور پر شائع ہوئی تھیں جس کی ہیڈنگ تھی ’’ مسلمان اپنے مذہبی رہنما کی شان میں گستاخی کبھی برداشت نہیں کر سکتا :حسن واعظ‘‘۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تمام شد


لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .