۸ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۸ شوال ۱۴۴۵ | Apr 27, 2024
عسکری امام خان

حوزہ/ کسی ایک بھی معتبر منابع میں کوئی ایک ایسی عبارت موجود نہیں ہے کہ جس کا مفہوم یہ ہو کہ امام علیہ السلام کی طرف سے دشمن سے پانی کی درخواست کی گئی ہو۔

تحریر: حجۃ الاسلام مولانا عسکری امام خان
حوزہ نیوز ایجنسی| روز عاشورہ باوجود اس کے کہ امام پر اور امام کے اصحاب اور اہل حرم پر پیاس کی شدت تھی، لیکن کسی ایک بھی معتبر منابع میں کوئی ایک ایسی عبارت موجود نہیں ہے کہ جس کا مفہوم یہ ہو کہ امام علیہ السلام کی طرف سے دشمن سے پانی کی درخواست کی گئی ہو، جز اپنے ششماہے علی اصغر کے لئے( نہ اپنے لئے) وہ بھی عصر کے ہنگام اور آخری اتمام حجت کی خاطر، و گرنہ کہیں نہیں ملتا کہ امام نے شدت عطش کی وجہ سے معاذ اللہ دشمن سے پانی طلب کیا ہو حتی کہ امام (ع) اور آپ کے اصحاب و انصار کی جانب سے میدان جنگ میں پڑھے گئے رجز اور اشعار وغیرہ کے دقیق مطالعہ کے بعد بھی اس طرح کی درخواست کے سلسلے میں ایک ہلکا سا اشارہ بھی نہیں ملتا۔
بلکہ اس کے برعکس ان اشعار اور کلمات و عبارات میں سراسر عزت و غرور، غیرت و سربلندی کا تذکرہ ملتا ہے، بعنوان مثال امام حسین علیہ السلام کے ان کلمات کو جو آپ نے روز عاشورا جنگ کے دوران دشمنوں کو مخاطب کر کے فرمائے ہیں، ملاحظہ کر سکتے ہیں، جیسا کہ آپ نے فرمایا: «اَلَا َو اِنَّ الدَّعِیَ بنَ الدَّعِیِ قَد رَکَزَنِی بَینَ اثنَتَینِ بَینَ السِّلَّهِ وَ الذِّلَّهِ وَ هَیهَاتَ مِنَّا الذِّلَّه یَأبَی اللّهُ ذَلِکَ لَنَا وَ رَسُولُهُ وَ المُؤمِنُونَ وَ حُجُورٌ طَابَت وَ طَهُرَت وَ اُنُوفٌ حَمِیَّهٌ وَ نُفُوسٌ اَبِیَّهٌ مِن أَن نُؤثِرَ طَاعَهَ اللِئامِ عَلَی مَصَارِعَ الکِرَامِ"(۱)
" آگاہ رہو کہ مجھے زنازادے کے زنازادہ بیٹے (ابن زیاد) نے دو چیزوں کے درمیان کھڑا کر دیا ہے کہ یا میں شمشیر سوت کر جنگ کے لئے آمادہ ہو جاؤں یا ذلت کا لباس پہن کر یزید کی بیعت کرلوں ،لیکن ذلت ہم سے دور ہے اور خدا اور اس کے رسول، مومنین ، نیز پاک و پاکیزہ دامن میں تربیت یافتہ لوگ، اور حمیت و غیرت کے حامل افراد ہم پر روا نہیں جانتے کہ ہم پست و ذلیل کی اطاعت کی ذلت کو عزت کی موت پر ترجیح دیں،"
یا جیسا کہ جناب علی اکبر علیہ السلام نے میدان جنگ میں اپنے ایک رجز میں فرمایا: "وَ الله‏ِ، لا یحْکمُ فینَا ابْنُ الدعِی"(۲)، "خدا کی قسم ہمارے درمیان زنازادہ حکم نہیں کر سکتا".
لیکن افسوس کہ آج بعض مقامات پر مجلسوں اور تقریروں میں کربلا کی اس عزت و سربلندی کی تحریک کو کم رنگ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، اور امام علیہ السلام کی تحریک اور آپ کی مظلومیت کو کربلا میں زیادہ رقت بار اور ترحم آمیز بنانے کے لئے کچھ لوگ اپنی طرف سے من گھڑت واقعات ملا دیتے ہیں، چاہتے ہیں کہ کربلا کے واقعہ کو ایسا بنا کر پیش کروں کہ زیادہ سے زیادہ رقت ہو سکے، مگر دوسری طرف اس بات سے غافل ہوتے ہیں کہ ہم اس طرح کربلا کے نورانی چہرے پر ذلت و حقارت کا دھبہ لگا رہے ہوتے ہیں، بعنوان مثال بعض دفعہ اس طرح کی جھوٹی روایتیں سننے میں آتی ہیں کہ: امام علیہ السلام (معاذاللہ) عمر بن سعد کے پاس گئے اور اس سے تین درخواست کی، کہ جس میں دوسری درخواست آپ نے ابن سعد سے اپنے لئے پانی کی تھی جو اس طرح تھی: اُسقُونِی شَربَهً مِنَ المَاءِ فَقَد نَشَفَت کَبِدِی مِنَ الظَّمَاءِ(۳): مجھے تھوڑا سا پانی پلا دے کہ پیاس کی شدت سے میرا جگر جل رہا ہے۔ جب امام (ع) نے یہ درخواست کی تو جواب میں ابن سعد نے بڑے وقیحانہ انداز میں امام (ع)کی اس درخواست کو مسترد کر دی۔
اس طرح کی اور بھی روایتیں لکھی اور پڑھی جاتی ہیں، کہ جس سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے ۔
یاد رہے کہ اس طرح کی روایتیں لوگوں کو وقتی طور پر رلانے کے لئے چاہے کارساز ہو جائیں، لیکن حقیقت میں امام علیہ السلام اور عاشورہ کا آبرومند چہرہ داغدار بنا دیتی ہیں،
اور یہی نہیں بلکہ اس طرح سے دشمن کو کربلا کے دیگر حقائق سے انکار کا بہانہ مل جاتا ہے۔
لہذا ہماری ذمہ داری ہے کہ عاشور کو تحریف سے محفوظ رکھیں تاکہ اس کی افادیت سے ہمیشہ کی طرح آج بھی لوگ بہرہ مند ہوتے رہیں، اور اسلام کا پرچم سربلند رہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(۱) الہوف، صفحہ ۱۲۳و۱۲۴.
(۲) بحار الانوار جلد ۴۵ صفحہ ۴۳.
(۳)طریحی، المنتخب ، صفحہ ۴۲۹.

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .