۲ آذر ۱۴۰۳ |۲۰ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 22, 2024
مولانا سید علی ہاشم عابدی

حوزہ/ واقعہ کربلا کے بعد سے آج تک یہ سوال زیر بحث رہا  کہ کربلا میں کون جیتا اور کون ہارا؟ آج نجف سے کربلا تک کے انسانی سیلاب نے بتا دیا کہ مظلوم جیت گیا ظالم ہار گیا، خون کو فتح ملی تلوار کو شکست ملی، دریا پر قبضہ کرنے والے غرق ہو گئے پیاسے سرفراز ہو گئے۔ مقصد کی کامیابی ہی اصل فتح ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،مولانا سید علی ہاشم عابدی صاحب امام جماعت مسجد کالا امام باڑہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مشہور حدیث "امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام امام ہیں چاہے جنگ کریں یا صلح کریں۔" کو سرنامہ کلام قرار دیتے ہوئے بیان کیا کہ خلافت اور امامت دونوں ہی الہی منصب اور انتخاب ہیں۔ اللہ جسے چاہے گا وہی امام ہوگا وہی خلیفہ ہوگا۔ اللہ نے جناب آدم علیہ السلام کو منصب خلافت عطا فرمایا، انکو مسجود ملائکہ بنایا۔ اللہ ہی نے جناب ابراہیم علیہ السلام کو امام بنایا یعنی اللہ نے یہ بتا دیا کہ جو بھی خلیفہ ہو گا، جو بھی امام ہوگا وہ منتخب پروردگار ہو گا۔ بندوں کو اختیار نہیں کہ کسی کو امام یا خلیفہ مقرر کریں۔ خلافت و امامت کا تعلق غدیر سے ہے، غدیر کے مقابلے میں جو نظام آیا وہ نہ خلافت تھا اور نہ ہی امامت تھا بلکہ قہر و غلبہ تھا۔ 

مولانا سید علی ہاشم عابدی نے بیان کیا کہ واقعہ کربلا کے بعد سے آج تک یہ سوال زیر بحث رہا  کہ کربلا میں کون جیتا اور کون ہارا؟ آج نجف سے کربلا تک کے انسانی سیلاب نے بتا دیا کہ مظلوم جیت گیا ظالم ہار گیا، خون کو فتح ملی تلوار کو شکست ملی، دریا پر قبضہ کرنے والے غرق ہو گئے پیاسے سرفراز ہو گئے۔ مقصد کی کامیابی ہی اصل فتح ہے۔ جعل الہی، نص قرآنی، حکم نبوی، وصیت علوی و حسنی کے مطابق امام حسین علیہ السلام امت کے ولی اور حاکم تھے اور صلح حسن علیہ السلام کی شرط کے مطابق حاکم شام کے بعد آپ عالم اسلام کے حاکم تھے۔ لہذا اب یہ کہنا کسی بھی صورت مناسب نہیں کہ امام حسین علیہ السلام نے حکومت کے خلاف بغاوت کی یا معاذ اللہ آپ حکومت کے مجرم تھے بلکہ یزید باغی تھا جس نے امام، خلیفہ اور حاکم یعنی امام حسین علیہ السلام کی بیعت کرنے کے بجائے خود ان سے بیعت طلب گار ہوا اور اس نے حکومت کے خلاف  بغاوت کی، یزید حکومت کا مجرم تھا۔ اور حاکم کی نافرمانی اور بغاوت اسے میراث میں ملی تھی۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .