۸ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۸ شوال ۱۴۴۵ | Apr 27, 2024
مولانا علی ہاشم عابدی

حوزہ/ جوانوں کی تربیت پر خاص توجہ دیں اور دینی امور میں انہیں موقع فراہم کریں کیوں کہ یہی مستقبل ہیں۔ 

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،لکھنو: روضہ فاطمین شبیہ روضہ جنت البقیع میں منعقد عشرہ مجالس کی چھٹی مجلس کو خطاب کرتے ہوئے مولانا سید علی ہاشم عابدی نے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کی مشہور حدیث "بے شک حسین (علیہ السلام) چراغ ہدایت اور کشتی نجات ہیں" کو سرنامہ کلام قرار دیتے ہوئے بیان کیا کہ غدیر خم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ نے نہ فقط امیرالمومنین امام علی علیہ السلام بلکہ بارہ اماموں کی ولایت و حکومت کا اعلان کیا لہذا کوی مانے یا نہ مانے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کے بعد امام علی علیہ السلام اہل ایمان کے ولی و حاکم اور انکے بعد امام حسن مجتبی علیہ السلام اور انکے بعد امام حسین علیہ السلام مومین کے ولی و حاکم ہیں۔ اسی طرح شرائط صلح کے مطابق حاکم شام کے بعد امام حسن مجتبی علیہ السلام اہل ایمان کے ولی و حاکم ہوں گے اور اگر وہ شہید ہو گئے تو حضرت امام حسین علیہ السلام ولی و حاکم ہوں گے۔ لہذا حاکم شام کے بعد یزید کی حکومت کسی بھی لحاظ سے صحیح نہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ کے نواسے سے حاکم بیعت کا طلبگار نہیں تھا بلکہ اسلام کے رہبر و حاکم امام حسین علیہ السلام سے ایک غاصب مطالبہ بیعت کر رہا تھا۔ 

مولانا نے بیان کیا کہ قرآن کریم نے علم و شجاعت کے سبب جناب طالوت جیسے جوان کو سرداری دی اور ہمارے حضور نے اسامہ بن زید کو لشکر کا کمانڈر مقرر کیا اور جس نے نہیں مانا اس پر لعنت فرمائی۔ اسی طرح کربلا میں امام حسین علیہ السلام نے جناب علی اکبر علیہ السلام کو انکی علم و شجاعت کی بنیاد پر بعض ذمہ داریاں عطا فرمائیں۔ اگر ہم تاریخ اہلبیت میں غور کریں تو بہت سے واقعات ملتے ہیں جہاں جوانوں کو اہم دینی امور میں مقدم کیا گیا جیسے امام جعفر صادق علیہ السلام نے جناب زرارہ کو بصرہ بھیجتے وقت تاکید فرمائی کہ تبلیغ دین میں جوان ہی محور ہوں۔ اور جب کچھ بزرگوں نے جناب زرارہ کی شکایت امام جعفر صادق علیہ السلام سے کی تو جناب زرارہ نے بزرگوں اور جوانوں کا امتحان لیا اور جب جوانوں نے دینی امور میں پیش قدمی کا مظاہرہ کیا تو آپ نے فرمایا یہی وجہ ہے کہ میں جوانوں سے زیادہ نزدیک ہوں۔ 

مزید اپنے خطاب میں کہا کہ دعوت ذوالعشیرہ میں جب حضور نے مدد کا مطالبہ کیا تو سب خاموش تھے تو ایک جوان نے مدد کا وعدہ کیا اور تاریخ اور تجربہ سے ثابت ہے کہ چاہے حق کی تحریک ہو یا باطل کی اسے جوانوں نے ہی پروان چڑھایا اور آج اہل باطل اپنے باطل نظریات کی ترویج اور لوگوں کو گمراہ کرنے کے لئے جوانوں کا سہارا لیتے ہیں تو ہمیں بھی چاہئیے جوانوں کی تربیت پر خاص توجہ دیں اور دینی امور میں انہیں موقع فراہم کریں کیوں کہ یہی مستقبل ہیں۔ 

آخر میں کہا کہ حضرت علی اکبر علیہ السلام کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ امام حسین علیہ السلام نے آپ کے سلسلہ میں فرمایا کہ آپ خلقت، اخلاق اور نطق کے لحاظ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ سے مشابہ ہیں اب اگر شہزادے کی عظمت کو سمجھنا یے تو قرآن کریم کی ان آیات کو پڑھنا اور سمجھنا ہو گا جس میں پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ کے جمال، اخلاق اور نطق کا قصیدہ خود خدا نے پڑھا ہے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .