۱ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۱ شوال ۱۴۴۵ | Apr 20, 2024
جی بی

حوزہ/ جامعتہ المصطفی نے طلاب غیر ایرانی کےلئے جو خدمت انجام دی ہے  وہ یہی ہے کہ جامعتہ المصطفی نے ہر طالب علم کو علم کے ساتھ اہل قلم بنایا ہے یہ بہت مستحن خدمت ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،متحدہ علماء فورم جی بی کی جانب سے " معارف اسلامی کی ترویج و تحفظ میں اہل قلم کا کردار " کے عنوان پر منعقدہ علمی اور تجلیلی نشست سے خطاب کرتے ہوئے آیت اللہ شیخ محمد باقر مقدسی نے کہا کہ یہ ایام صدیقہ کبری فاطمہ زہرا سے منسوب ہیں اس مناسبت سے تسلیت اور حوزے میں یہ ہفتہ، ہفتہ پژوھش کے نام پر معروف ہے اس مناسبت سے تبریک پیش کرتا ہوں۔ اللہ تبارک و تعالی نے فرمایا: اقراء و ربک الاکرم الذی علم بالقلم علم الانسان مالم یعلم۔ اے میرے حبیب پڑھو اور تیرا پروردگار کریم ترین ذات ہے جس نے قلم کے ذریعے تعلیم دی انسان کو وہ چیزیں یاد دی جو انسان نہیں جانتے تھے۔ یہ آیہ کریمہ قلم کی اہمیت اور عظمت کو بیان کرتی ہے جو اللہ کی صفات میں سے قرار دی گئی ہیں۔

انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اللہ نے تعلیم اور ترویج اسلام کا ذریعہ قلم قرار دیا جس کو اللہ نے سب سے پہلے نازل کردہ سورہ کی دوسری آیت میں پیش کیا۔ یہ قلم اور کتاب نویسی، مقالہ نویسی، کتابت کی اہمیت اور عظمت پیش کرتی ہے۔ اس طرح اللہ کے نبی نے فرمایا جو سند کے حوالہ سے معتبر ہے: مداد العلماء افضل من دماءالشہداء ۔علما کے قلم کی سیاہی شہدا کے خون سے افضل ہے یا دوسری حدیث میں فرمایا: جب قیامت کے دن علماء کے قلم کی سیاہی اور شہداء کے خون کا موازنہ کیا جائے گا تو اللہ کی دادگاہ سے یہ فیصلہ آئے گا کہ علماء کی سیاہی شہدا کے خون سے بالاتر اور سنگین تر ہے۔

مزید کہا کہ اس سے قلم کی اہمیت واضح ہوجاتی ہے جو اللہ نے اپنے کلام میں قلم کو اپنی صفات میں سے قرار دیا یعنی کن فیکون کے مالک ہونے کے باوجود تعلیم کا راستہ اور ذریعہ قلم قرار دیا۔ یہ اہل قلم کی عظمت کے لئے کافی ہے اور اہل قلم یہ تصور اور خیال نہ کریں کہ مختصر زحمت کرکے شہید باقر صدر یا دیگر محقیقن کی مانند بن جائیں بلکہ قلم کے میدان میں کافی زحمت کرنے کے بعد شہید باقر صدر کے مرحلے پر پہنچ جاتے ہیں۔لہذا قلم بھی چلنا ایک امر تدریجی ہے۔

انہوں نے اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ حضرت آیت اللہ العظمی سبحانی نے آج سے 25 سال پہلے دار الشفاء میں مہدویت کے موضوع پر ایک کانفرنس میں فرمایا: عزیزان گرامی تحریر، مقالہ نویسی، کتاب نویسی میں یہ توقع اور تصور نہ رکھیں کہ میں پہلے مرحلے میں ہی بہترین مقالہ یا کتاب لکھوں گا یہ کسی سے نہیں ہوا ہے۔ لہذا میں نے آج سے 20 سال پہلے جو کتابچہ یا مقالات لکھے تھے جنہیں آج دیکھ کر میں یہ کہتا ہوں کہ یہ بھی کوئی مقالہ یا کوئی کتابچہ ہے۔ لیکن اگر یہ ناچیز اور نامنظم مقالہ نویسی یا کتاب نویسی نہ کرتا تو آج میں الہیات کو اس ترتیب اور نظم و ضبط پر پیش نہ کرسکتا۔ یہ ہمارے لئے بہت اہم نکتہ ہے لیکن زحمت کی ضرورت ہے

انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ اللہ سورہ بقرہ کی آیت 282 میں کتابت کی اہمیت کو ایک ہی آیت میں جو سب سے لمبی آیت ہے پانچ مرتبہ تکرار کیا ہے امر کی شکل میں فلیکتبوا، ولیکتب کاتب، والیکتبوہ یہ کتابت اور تحریر کی اہمت بیان کرنے کیلئے کافی ہے کہ ایک آیت میں اللہ نے متعدد مرتبہ کتابت اور تحریر کو بیان کیا ہے۔ لہذا عزیزان قلم کے بغیر علم اس غذا کی مانند ہے جس میں نمک نہیں ہے، اس بدن کی مانند ہے جس میں جان نہیں، اس درخت کی مانند ہے جو پھل نہیں دیتا۔ لہذا اللہ نے قلم کی اہمیت قلم سے قسم کھا کر پیش کی ہے۔ ن والقلم و یسطرون۔ ن کی قسم اور قلم کی قسم اور جو قلم سے لکھی جاتی ہے اس کی قسم یہ قلم کی اہمیت کے لئے کافی ہے کہ اللہ نے اس سے قسم کھائی ہے۔ ن کے بارے میں امام صادق سے پوچھا گیا یابن رسول اللہ ن سے کیا مراد ہے امام نے فرمایا: ن سے جنت کا وہ چشمہ مراد ہے جس سے سارے جنتی سیراب کئے جاتے ہیں۔ اسی کے ساتھ قلم کو لانے کا مقصد یہ ہے کہ ن جنت کا چشمہ ہے جس سے جنتی سیراب کئے جاتے ہیں لیکن اس دنیا میں سارے انسان کو سیراب کرنے والا چشمہ قلم ہے۔ لہذا اللہ نے قلم کو ن کے ساتھ ذکر کرکے یہ بتانا چاہا ہے کہ دنیا میں ہر انسان کی تشنگی کو قلم سیراب کرسکتا ہے۔

انہوں نے تاکید کرتے ہوئے کہا کہ یہ اھل قلم کےلئے لمحہ فکریہ ہے لہذا قدیم زمانے میں حوزہ نجف اور حوزہ قم میں بہت سارے عالم دین ہوتے تھے لیکن قلم کے حوالہ سے وہ بہت دور تھے یہ بڑا عیب ہے۔ الحمد للہ ابھی ہمارے زمانے میں جامعتہ المصطفی نے طلاب غیر ایرانی کےلئے جو خدمت انجام دی ہے وہ یہی ہے کہ جامعتہ المصطفی نے ہر طالب علم کو علم کے ساتھ اہل قلم بنایا ہے یہ بہت مستحن خدمت ہے۔ لیکن عزیزان اہل قلم کیلئے بہت ساری مشکلات بھی ہیں۔ ہمارے استاد ابوذر جو زبان کدے کے مسول ہیں، یہ شہید باقر صدر کے شاگرد تھے۔ انہوں نے نقل کیا کہ عالم استکبار اور صدام نے شہید باقر صدر کو ابلے ہوئے تیل میں زندہ جلایا پھر ہڈی کو پاوڈر بنا کے دریا میں پھینک دیا۔ اس کی وجہ یہ تھی شہید صدر نے مجتمع نا لکھ کر سماجیات میں، اقتصادنا لکھ کر اقتصاد کے مسائل میں، فلفستنا لکھ کر علوم عقلی کے مسائل میں سرمایہ دار نظام، سوشلیزم کمیونسٹ، مارکسیزم کی بنیاد کو متزلزل کیا تھا۔ اس کے نتیجے میں شہید باقر صدر کے ساتھ یہ ظلم کیا۔ یہ قلم کی عظمت ہے۔

معارف اسلامی کی ترویج اور تحفظ میں اہل قلم کا کردار بہت ہی اہم اور کلیدی ہے، آیت اللہ باقر مقدسی

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .