۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
خطبه زینب

حوزہ/ اگر اسلامی تاریخ میں سن 61 ہجری کا مطالعہ کیا جائے تو حضرت زینبؑ، بضعت مصطفیٰ لخت جگر فاطمتہ الزہراؑ، دختر شیر خدا اور نواسیٔ رحمتہ للعالمین کا بڑا سخت ترین وقت رہا ہے۔

تحریر: ڈاکٹر شجاعت حسین

حوزہ نیوز ایجنسی | اگر اسلامی تاریخ میں سن 61 ہجری کا مطالعہ کیا جائے تو حضرت زینبؑ، بضعت مصطفیٰ لخت جگر فاطمتہ الزہراؑ، دختر شیر خدا اور نواسیٔ رحمتہ للعالمین کا بڑا سخت ترین وقت رہا ہے، وہاں ایک محقق، مصنف، صحافی یا مورخ کے لیے بھی سیرت زینب پر قلم کاری آسان نہیں کیونکہ ان کے مصائب ہی فضائل و کمال ہیں۔ اتنی فصیح و بلیغ شخصیت جن کا احاطہ ایک مقالہ میں پیش کرنا اسی مثال کے مترادف ہے کہ سمندر کو کوزہ میں ڈالنا۔ کسی ایک پہلو پر بھی روشنی ڈالنا ممکن نہیں۔ یہ مشکل صورت حال خطبا ٕ و ذاکرین کو بھی سدا درپیش رہتی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ دختر شیر خدا توحید کی بقا کے لیے قربان ہو گئیں لیکن آج 1445 ہجری تک کوئی عالم، فاضل، ذاکر، محقق، مورخ، دانشور یا ادیب انہیں ادراک انسانی کی حد تک بھی جامع خراج تحسین پیش کرنے سے قاصر رہا ہے اور ابھی کتنا وقت درکار ہے یہ معین کرنا مشکل ہے۔

حضرت علیؑ ابن ابوطالبؑ کی بیٹی، زینبؑ نے بعد شہادت سیدالشہدا جو کمال و فضائل کربلا سے کوفہ اور کوفہ سے بازار شام اور دربار یزید(ملعون) میں مظاہرے کئے ان کارناموں سے عرب کے کتب خانے بھرے پڑے ہیں۔ یہ معلومات ایک معروف علامہ نے دی۔ وہ تحقیق و تدریس کے لیے مصر کی ایک مشہور یونیورسٹی میں ممتاز مفکر و فلسفی، تنتاوی، طریقت سے ملاقاتیں کیں، جنھوں نے صحیفۂ کاملہ کا پیش لفظ لکھا، اور اس کو زبورٍ آلٍ محمدؐ قرار دیا ہے، مزید کہتے ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام کی بیٹی نے یزید ابن معاویہ (لعنت اللہ) کی 38 لاکھ مربع کلومیٹر میں پھیلی حکومت کو محض دو سال نو مہینوں میں ختم کر دی۔ شہزادی نے صرف دو محاذ قائم کئے: داخلی اور معاشی۔ معاشی بحران پیدا کیا۔ وہ یوں ہوا کہ ملکتہ العرب، خدیجتہ الکبراؑ کی زندگی کے دوران روم سے تجارتی معاہدہ عمل میں آیا تھا جسے ذہانت سے منسوخ کرایا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ درآمدات و برآمدات مفلوج ہو گۓ، یزید کی حکومت کا دیوالیہ ہو گیا اور داخلی محاذ پر زینبؑ کی عزاداری، خطبے، کربلا کے مقصد و پیغام کی تشہیر نے مضبوط، منظم، ظالم و فاسق حکومت کو نیست و نابود کر دیا۔

سید الشہداء کی بہن، شیر خدا کی بیٹی، حضرت زینب نے توحید کی چھاؤں میں، رسالت کی آغوش میں، عصمت و طہارت کی گود میں اور پانچ امامتوں کے ماحول میں زندگی گزاری۔ قارئین اور عزاداران سید الشہدا آپ ؑ دونوں کو توحید میں تلاش کریں، رسالت میں ڈھونڈیں، سیدہ عالمیانؑ کی حیات مقدسہ میں تلاش کریں، مدینتہ العلم و سلونی سلونی کے لہجے میں مشاہدہ کریں، مظہر شجاعت حیدرٍ کرار ہیں، حکمت صلحٍ حسنؑ میں دیکھیں، آپؑ کے صبر، شکر و قربانیٔ حسین علیہ السلام میں موجزن پائیں گے۔ تفسیر، تقریر، تحریر و تدریس کے میدان میں لاثانی تھیں۔ تدریس، درس گاہٍ زینب ہے۔ اس درس کا سلسلہ آپ نے اپنی والدۂ ماجدہ کے دوران ہی آغاز کر دیا تھا۔ (مراقد اہل بیت درشام از سید احمد فہری، صفحہ 68)

زینب کا لغوی معنی ہے "زین اَب" یعنی باپ کی زینت ہیں۔ قبولیت دعا کے لیے نامٍ زینب کافی ہے۔ مرحوم میرزا ابوالقاسم قمی رحمہ علیہ، صاحب الکتاب قوانین الاوصول، جو عظیم علماء و مراجع میں سے تھے، حضرت زینبؑ کے اسم مقدس سے توسل کیا کرتے تھے اور استجابتٍ دعا کا سبب سمجھتے تھے۔

حضرت زینبؑ و کی عظمت، فضائل اور خصوصیت کی وجہ سے ان کے مشہور القاب ہیں جو آپؑ کی فضیلت و کمال کی طرف اشارہ کرتے ہیں: عارفہ، عالیہ، معظمہ، ولیہ، عالمہ غیر معلمہ، فاضلہ، امینہ، نائبتہ الزہرا، نائبتہ الحسین، عابدہ، عقیلتہ النساء، عقیلہ بنی ہاشم، شریکتہ الشہداء، بلیغہ، فصیحہ و شریکتہ الحسین۔ امام زین العابدین علیہ السلام نے فرمایا: اے پھوپھی جان! "آپ (اللہ کے فضل سے) بغیر کسی تعلیم دینے والے کے عالمہ ہیں اور بغیر کسی سکھانے والے کے فہمیدہ ہیں۔ (بحار الانوار، جلد 45، صفحہ 164) ایثار و قربانی، فراست اور دانشمندی، استقامت، استقلال، صداقت، جرآت، تواضع، مہمان نوازی، زہد، تقویٰ، عبادت، ریاضت، خلق و کرم، سادگی و پاکیزگی کی مجسمہ تھیں۔

آپؑ شرم و حیا ٕ کا سرچشمہ تھیں اور سختی کے ساتھ پردہ کی پابند تھیں۔ مدینے اور کوفے میں مولا علیؑ کی ظاہری خلافت کے دوران کسی نامحرم کی نگاہ ان پر نہیں پڑی تھی۔ (تنقیح المقال، جلد 3، صفحہ 79) بشیر ابن حزیم اسدی کہتا ہے کہ خدا کی قسم، میں نے ایسی باعفت اور با حیا ٕ عورت کو نہیں دیکھاجو اتنے مستحکم انداز سے عوام سے خطاب کرے۔ (احتجاج طبرسی، جلد 2، صفحہ 109)

حدیث عشق دو باب است کربلا و دمشق

یکے حسینٔ رقم کرد و دیگرے زینبؑ

یزید اور یزیدیوں کو یہ خبر ہی نہ تھی اور نہ شعور تھا کہ حسین علیہ السلام کی بہن، زینبؑ، حسینؑ کے ہمراہ آرہی ہیں جیسا کہ فرعون اور فرعون والوں کو یہ معلوم ہی نہ تھا اور نہ شعور تھا کہ موسیٰ کے ساتھ موسیٰ کی بہن بھی آرہی ہے (سورۃ قصص 28:11)

شہزادی مدینہ منورہ، مکہ معظمہ، کربلا، شب عاشور، روز عاشور، عصر کا ہنگام، بعد قتل شہدائے کربلا، شام غریباں، یتیم بچوں کی پاسبانی، پامال و بے سر لاشوں کے درمیان، کوفہ، دربار ابن زیاد، قادسیہ، تکریت، وادئ نخلہ، موصل، نصیبین، عین الورد و دعوات، معرۃ النعمان، شیراز، سیبور، حماۃ، حمص، بعلبک، بازار شام، دربار یزید اور زندان میں شانہ بہ شانہ رہیں۔ صبر، شکر، لب و لہجہ، علم و عمل گویا ہر مقام پر یکسانیت، خیر النساء کی دو آنکھیں ہوں۔ دختر فاتح خیبر و خندق نے دربار یزید نیست و نابود کیا۔ یزید کے تخت کو ایسا غرق کیا کہ یزید کی نشانی ہی ختم کر دی اور جو یزیدی اس کی نشانی تلاش کرتا رہا وہ بھی گمراہی کی تاریکی میں غرق ہوتا رہا:

چراغ را کہ ایزد بر فروزد

کسے گرپف کند، ریشش بسوزد

زینبؑ کی کل طاقت زبان میں سمٹ آئ تھی، وہ نہ نبی ہیں نہ امام لیکن ولی ہیں، اسیری و بیکسی میں بھی نہایت عزم و ہمت کے ساتھ دربار یزید میں داخل ہوئیں، جہاد باللسان کر کے محاذ فتح کیا۔ کون ا نکار کر سکتا ہے کہ جو ان کے مصائب ہیں وہی تو فضائل و کمال ہیں۔ ان دونوں بہنوں کے خطبوں کے ان جملات سے ایک درس یہ بھی ملتا ہے کہ کسی بھی گفتگو کا موقع و محل کے مطابق ہونا ضروری امر ہے کیونکہ کوئی بھی گفتگو اس وقت مو ئثر ہوتی ہے جب وہ اپنے موقع و محل کے مطابق ہو، لہذا ہر خطیب کا موقع شناس ہونا ضروری ہے۔

قارئین و عزادار ذہن نشین کریں کہ حضرت علی علیہ السلام کے لب و لہجہ میں خطبے دیئے باوجود اس کے زینبؑ میں اعتماد، لیاقت، ذہانت، صلاحیت، شعور، متنوع ترسیل، سامعین، درباری اور عدو و اغیار کا علم، صداقت، پر جوش ترسیل، خود آگاہی، خود کی بہتری، کلیدی پیغام کی سمجھ، آواز سے آگاہی، ممکنہ شعبوں کی سمجھ، موضوع پر گرفت، زبردست اور اثر انگیز الفاظ، قرآن اور اس کی تفسیر سے آشنائی وغیرہ اہم ہیں جو ان میں پنہاں تھیں جو ہر خطبہ سے عیاں ہے، واقعی میں خصوصیات سے مزین تھیں۔


تبصرہ ارسال

You are replying to: .