۲۰ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱ ذیقعدهٔ ۱۴۴۵ | May 9, 2024
مولانا قنبر نقوی

حوزہ/آج دنیا کے تمام زرائع ابلاغ آہ و فغاں، آگ و دھواں اور بم و تباہی کی خبریں سُنا رہے ہیں - یہ سب خبریں فلسطین کے مظلوم شہریوں کی ہیں جو اپنے ہی وطن میں غاصب و قابض اسرائیل کے ظلم و تشدد اور بربریت کے شکار ہو رہے ہیں۔

تحریر: سید قمر عباس قنبر نقوی

حوزه نیوز ایجنسی| آج دنیا کے تمام زرائع ابلاغ آہ و فغاں، آگ و دھواں اور بم و تباہی کی خبریں سُنا رہے ہیں - یہ سب خبریں فلسطین کے مظلوم شہریوں کی ہیں جو اپنے ہی وطن میں غاصب و قابض اسرائیل کے ظلم و تشدد اور بربریت کے شکار ہو رہے ہیں۔ اسرائیلی دہشت گردی نے اتنی غلیظ اور گھناونی شکل اختیار کرلی ہے کہ اسپتال، پناہ گزیں کیمپ، اسکول اور عبادت خانے بھی محفوظ نہیں رہے۔ لاکھوں فلسطینی بے گھر ہوچکے ہیں پورے خطے میں خوف و ہراس کا ماحول ہے۔ اسرائیلی حکومت کی اس درندگی کو جس میں چرچ کی حُرمت بھی پائمال کر دی گئی امریکہ بڑی بے حیائی سے حمایت کر رہا ہے۔ امریکہ کی اعلانیہ شیطانی حمایت سے اسرائیل کی مجرمانہ جسارتیں اس قدر بڑھ گئیں کہ بین الاقوامی قوانین اور انسانی اقدار کی دھجییاں اُڑاتے ہوئے فلسطینیوں کی نسل کُشی کے منصوبے کے تحت المعمدانی اسپتال پر جنگی طیاروں بھاری بمباری کردی جس کے نتیجے میں سینکڑوں مریض بچے، مرد، عورت اور ڈاکر و طبی عملہ شہید اور زخمی ہو گئے۔ جس کی دنیا کے ہر گوشے سے غیرت مند اور انسان دوست افراد نے پُر زور مزمت کی ہے۔

آئیے ہم اِس وحشیانہ دہشت گردی کے خاتمے اور مسلسل بڑھتے ہوئے ظلم خصوصاً معصوم بچوں، مریضوں، بھوکے پیاسے کمزور بوڑھوں اور عورتوں کے قتلِ عام کے خلاف اپنی انسانی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کی کوشش کریں۔ ہم اسرائیل کے بے قصور شہریوں پر حماس کے میزائلی حملوں کی مذمت کرتے ہیں چونکہ ظلم کہیں بھی ہو قابلِ مذمت ہے اور مظلوم کی حمایت ہر مُلک و ملّت اور سماج و معاشرے میں شرف و عزت ہے۔

آئیے دیکھیں ہم مظلومین کی مدد کس طریقے سے کر سکتے ہیں ۔ سب سے پہلے اپنی فکر کو پاک و صالح یعنی نسلی تعصب اور لالچ سے دور رکھتے ہوئے خطباء اپنے خطابت سے ، شعراء اپنے اشعار کے زریعے ، ادیب و صحافی اپنے قلم کے زریعے اور عوامی نما ئندے اپنے اثرات کے ذریعے عوام کے ذہن کو صاف و روشن کریں ۔ اُنھیں یہ بتائیں کہ سچ کیا ہے جھوٹ کیا ہے ۔ ظالم کون ہے مظلوم کون ہے ۔ ابھی عوام کو یہ پتہ ہی نہیں ہے غاصب کون ہے حقدار کون ہے۔ جھوٹی کہانیاں بنائی اور نشر کی جارہی ہیں ۔ سٙر فلسطینی بچوں کے کٹے خبر پھیلی غزا والوں نے بچوں کو مار ڈالا۔ المعمدانی اسپتال پر بمباری اور بارود اسرائیل کی وحیشی حکومت کے ذریعہ ہوئی شیطانی طاقتیں کہہ رہیں تھیں فلسطینیوں نے اسپتال خود تباہ کر لیا ۔ مظلوم کی حمایت کا ایک اہم طریقہ عوام تک صحیح خبر پہونچانا ہے ۔ (بشرطیکہ آپ سچ سے با خبر ہو ) چونکہ رائے عامہ ایک اہم ہتھیار ہے ۔ سماج و معاشرے حتیٰ حکومتیں رائے عامہ سے متاثر ہوتیں ہیں۔

مظلوم کی حمایت کے لیے بارگاہ رب العالمین میں دعا بھی کرنی ہو گی چونکہ دعا بہت اہم ہے لیکن دعا عمل کاجانشین و قائم مقام نہیں بن سکتی ہے ۔ صرف صدقِ دل اور نم آنکھوں سے بارگاہ رب العالمیںن میں مظلمومین کے حق میں دُعا اور ظالمین کے لیے لعنت و بد دعا کرنے سے ہمارا شُمار حامیانِ مظلومین میں کیسے ہو سکتا ہے۔ امیرالمومنین حضرت علیؑ فرماتے ہیں: کہ بغیر عمل کے دعا بالکل ایسی ہے جیسے تیر کے بغیر کمان کا چلانا۔ دعا روحِ عمل ہے ۔ لیکن عمل کے بغیر بے معنیٰ ۔ لہذا ضرورت اور وقت کے اعتبار سے عمل کرنا ہوگا۔ کسی بھی کامیابی کے لیے دونوں ضروری ہیں۔

قاریانِ محترم! غاصب اسرائیل اور اُس کے شیطان صفت حمامیوں کا ظلم تو ایک دن بند ہو ہی جائے گا مگر ہزاروں قیمتی جانیں جنمیں شیر خوار اور کمسن بچے ، نوجوان، خواتین اور بوڑھے شامل ہیں اس کا ذمہ دار کون ہو گا ۔ پورے فلسطین کا انفراسٹرکچر ، سڑکیں ، عمارتیں ، ہسپتال ، تعلیمی ادارے تباہ ہوئے ہیں اس کی سزا کسے اور کیا ملے گی۔

اقوام متحدہ سلامتی کونسل اور اسلامی ممالک کی تعاون تنظیم ( او۔ آئی۔ سی یعنی آرگنائزیشن آف اسلامک کوآپریشن) کتنی با اختیار ؟ کیا ہزاروں بیگناہ بچوں ، جوانوں ، عورتوں اور بوڑھوں کے خون کی قیمت صرف یہ ہے کہ انکے متعلقین کی کچھ مالی مدد کر دی جائے۔

آیئے غور کریں! امت مسلمہ کے مسائل کون حل کرے گا۔ سوچیئے بلکہ فخر کیجئے کہ ہمارے پاس تو وہ قرآنِ مجید ہے جس کا دعوا ہے کہ میرے اندر ہرخشک و تر موجود ہے یعنی ہر مسئلے اور دشواری کا حل میرے پاس ہے، قرآن مجید ہر مسلمان کے گھر میں موجود بھی ہے تو پھر طاقت و قوت کا مرکز و محور امریکہ اور اسکے اتحادی کیسے بن گئے اصل وجہ یہ ہے کہ ہم نے قرآن رٹا تو لیا لیکن اسکی تعلیمات اور پیغامات سے بہت دور رہے جبکہ اغیار نے قرآن مجید سے مسائل کا حل تلاش کیا ہے نتیجے میں انکی طاقت و قوت ، اقتدار و اختیار اور دولت و ثروت میں بھر پور اضافہ ہوا ۔ قرآن مجید کا پہلا پیغام علم سے آگہی اور قربت کا ہے ۔ قرآن مجید پر ایمان رکھنے کا تقاضہ تو یہ تھا کہ مسلم ممالک کو علم اور جدید علوم۔کا مرکز ہونا چاہیے تھا دنیا کا ہر طالب علم ہمارے علمی مراکز ، ہماری کتب اور ہمارے محققین و مصنفین کا محتاج ہوتا ۔ حصولِ علم کے لیے ہماری زبانیں سیکھنا ان کی مجبوری ہوتی لیکن ہماری غفلتوں اور عیش و عشرت بھری زندگی نے ہمیں اس منزل پر لا کر کھڑا کردیا کہ ہمارے وجود کی بقا بھی تقریبا دوسروں کے رحم و کرم پر ہے۔ البتہ جن مسلم ممالک کی قیادت اور عوام نے قرآنی تعلیمات سے شناسائی اختیار کی وہ مستقل ترقی کی منازل طے کر رہے ہیں اور دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتے ہیں۔ قرآن کے ماننے والوں بیدار اور متحد ہو جائو آج صرف ایک فلسطین نہیں ہے ہر ہر قدم پر ایک فلسطین ہے ، علم کے قریب آجائو علم ہی کے سبب ہی بین الاقوامی سطح پر اقتصادی اور سیاسی عزت و وقار حاصل ہو سکتا ہے۔ سوچیں! کیا علم کے بغیر ملک وقوم کی تعمیر و ترقی اور زندگی کے کسی بھی شعبے میں نمایاں خدمات انجام دینا ممکن ہے ۔ ملک و قوم کا درد رکھنے والے افراد اور طلباء میدان علم میں اپنا کردار نبھائیں سائنس و ٹیکنالوجی ، میڈیکل اور تیز رفتار سافٹویئر کے مختلف شعبوں میں پیش رفت کر تے ہوئے دنیا سے مقابلہ کریں۔ *امیر المومنین حضرت علیؑ* ارشاد فرماتے ہیں کہ یتیم وہ نہیں ہے جسکا باپ مر جائے بلکہ یتیم وہ ہے جو جاہل مرجائے۔

نوجوان مایوس نہ ہو بیدار ہو اور آپسی اتحاد و یکجہتی کے ساتھ

وقت برباد کیے بغیر نئے عزم ۔ ہمت اور جذ بہ ذمہ داری کے ساتھ اٹھو اور تعلیمی پسماندگی کو دور کرتے ہوئے آگے بڑھو کل دنیا آپ کے در پر آئے گی۔ان شاء اللہ تعالیٰ

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .